Back to Novel
Meri Masom Kali
Episodes

میری معصوم کلی 19

Episode 19

ہما نے نتاشا کو سعد کے فون کا بتایا اور ریکارڈنگ سنا دی اس نے ایک سرد آہ بھری اور ماں سے کہا ماما میں نے کھبی سعد کے خواب نہ دیکھے تھے میں جانتی تھی خالہ ہر وقت عروبہ کو بہو بنانے کا بولتی ہیں اور سعد بھی عروبہ کو دلچسپی سے دیکھتا ہے اور میری طرف احترام سے دیکھتا ہے بس وہ مجھے عزت دیتا تھا اور میں اس کی کمپنی کو غنیمت سمجھتی تھی کہ کوئی تو ہے جو میری فیور لیتا ہے۔ پھر جب سنا کہ خالہ اور سعد سمیت سب نے میرے ساتھ رشتہ جوڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے تو میں دنگ رہ گئی اور خواب آنکھوں میں سجا لیے اور جب خواب ٹوٹے تو دکھی ہو گئی۔ سعد سے ویسے ہی بچپن کی نسبت سے لگاو ہے۔ میں جانتی ہوں اس کا کوئی قصور نہیں۔ نہ ہی اس نے مجھے کوئی خواب دیکھاے۔ اب تو اس نے کلیر بھی کر دیا۔ میں جانتی ہوں جو بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے سعد اور خالہ اگر میرا رشتہ نہ مانگتے تو عروبہ کھبی سدھرنے کا نام نہ لیتی اور آگے اس کے لیے مسائل برپا ہو جاتے۔ اب کمازکم یہ مسئلہ حل ہو رہا ہے وہ اب جزبے َاور میری ضد میں سب سیکھے گی۔ میں اس کے لیے بہت خوش ہوں۔


ہما نے اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ اور بولی صبر والی ماں کی صبر والی بیٹی۔


نتاشا بولی ماما کھبی کھبی میرے دل میں خواہش جاگتی کہ کاش آپ میری ماں ہوتی اور پاپا بھی میرے پاپا ہوتے۔ یہ گھر میرا اصل میکہ ہوتا اور میں بڑے مان سے ایسے آتی جیسے بیٹیاں اپنے والدین کے گھر آتی ہیں۔ اور واقعی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے میں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ بقول آپ کی نصیحت اوپر والا جس حال میں بھی رکھے اس کی رضا پر راضی رہو تو وہ بہت نوازتا ہے۔ انسان تکلیف پر شکوے شکایت کرنے کی بجائے اس کا شکر بجا لاے تو اس کی سوچ سے بھی بڑھکر اسے ملتا ہے۔ جیسے مجھے ملا مجھے لگتا ہے کہ ہفت اقلیم کی دولت مجھے مل گئ ہو۔ میں نے نماز کے بعد اپنے رب العزت کے حضور شکرانے کے نفل ادا کیے ہیں۔


آج میں سکون کی نیند سو سکوں گی اور اپنے سکون کے لئے عروبہ کا سکون برباد نہیں کروں گی کھبی اسے اپنے والدین کا طعنہ نہیں دوں گی نہ ہی اس پر احسان جتاوں گی کہ میں نہیں تم میرے والدین کے ٹکڑوں پر پلی ہو۔ میں یہ ناشکری کھبی نہیں کروں گی۔ کھبی لب نہ کھولوں گی کبھی اس گھر پر والدین پر حق نہیں جتاوں گی۔ میری خوشی کے لئے یہی احساس ہی کافی ہے کہ میں لاوارث نہیں ہوں بلکہ میرے والدین حیات ہیں۔ مجھے اب پاپا کو دیکھ کر خوشی ہوگی کہ وہ میرے پاپا ہیں بےشک وہ مجھ سے پیار نہ کریں۔ یہ احساس ہی کافی ہے کہ وہ عروبہ کے نہیں میرے پاپا ہیں سگے بلکل سگے۔


اتنے میں عروبہ اندر آئی اور نتاشا کو ماں کے ساتھ چائے پیتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی میں تو سمجھی تم ابھی تک روتی سوگ منا رہی ہو گی اپنے ٹھکرائے جانے کا مگر تم تو خلاف توقع مسکرا رہی ہو۔ اتنے میں ساجد گاڑی کی چابی اٹھاے ہاتھ میں کچھ شاپرز لیے اندر آیا تو نتاشا نے اپنے باپ کو فدا نظروں سے دیکھا وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر تھوڑا حیران ہوا ورنہ وہ تو اس کی طرف دیکھتی نہ تھی۔


ساجد نے ہما کو شاپر پکڑاے اور بولا یہ تم دونوں کے کچھ سوٹ ہیں عروبہ کے رشتے کے لیے شاید گاوں جانا پڑے۔ وہ خوش ہو کر نتاشا سے بولی نتاشا یہ دیکھو تمھارے پاپا تمھارے لئے کپڑے لاے ہیں وہ خوشی سے آ کر کپڑے دیکھنے لگی تو عروبہ اکر بولی اس کے نہیں میرے پاپا۔ پھر وہ نتاشا سے بولی چاے پلاو توبہ تھک گئی ہوں۔


ہما نے کہا تم خود بناو نا نتاشا بولی ماما میں بنا دیتی ہوں۔ ہما نے کہا کہ تم نے ٹاسک لیا ہے کام کی پریکٹس کیسے ہو گی۔


عروبہ کانوں میں ہیڈ-فون لگا کر صوفے پر آرام سے بیٹھ کر ٹانگیں میز پر رکھ کر فون پر لگ گئی اور ہما سے بولی موم میں نے صرف کام سیکھنا ہے نہ کہ منٹ منٹ بعد چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے اٹھتی رہوں۔ دیکھا نہیں آپ نے میں نے پہلی بار میں ہی بغیر کسی مدد کے چاے اور پکوڑے بنا ہی لیے تھے نا۔


ساجد بھی آ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور نتاشا دو کپ چائے کے لے آئی ایک کپ عروبہ کے پاس رکھا اور ایک کپ ساجد کو پکڑاتے بولی پاپا آپ کی چاے۔ عروبہ بولی کم از کم میرے سامنے تو یہ فیک لفظ نہ بولا کرو میرے پاپا۔ یہ تمھارے نہیں میرے پاپا ہیں تمھارے تو بدقسمتی سے ماموں ہیں وہ سوتیلے جو تمھاری ماں سے نفرت کرتے تھے۔ وہ جواب میں ہلکی سی مسکرائی اور چل دی۔ عروبہ نے دیکھا پہلے کی طرح اس کی باتوں سے نہ اس کے چہرے پر دکھ کے ساے لہراے اور نہ اس نے بےبسی سے اس کی طرف دیکھا بلکہ مسکراہٹ دباتی چل دی آج اس کی چال میں بھی ایک اعتماد تھا عروبہ آہستہ سے بولی ڈیڈ یہ بھی ڈھیٹ ہو گی ہے۔


ساجد نے کہا کہ عروبہ جان اب آپ نے نتاشا کو جلی کٹی نہیں سنانی ہیں اب یہ عادت چھوڑنی پڑے گی مبادا اب آپ کے سسرال والے آیا کریں گے تو بےاختیار کچھ منہ سے نکل گیا تو امپریشن اچھا نہیں پڑے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ لوگ میری شہزادی کا رتی بھر بھی مقابلہ کر کے اس کی تعریف کریں اور میری شہزادی کے لیے دل میں بدگمان ہوں۔ آپ کو کم از کم اب نتاشا کی طرح بننا ہے اس کو کاپی کرنا ہے آخر پہلے ان لوگوں نے اس کے رویے سے ہی اسے بہو کا مقام دینے کا ارادہ کیا تھا اب آپ اسے یہ جلی کٹی نہیں بولو گی۔ عروبہ لاڈ سے بولی ڈیڈ فیکٹ از فیکٹ آپ لوگ میرے پیرنٹس ہیں۔ ساجد اسے سمجھاتے ہوئے بولا مائی پرنسس وہ لوگ اسے تمھاری بہن اور ہما کی بیٹی مانتے ہیں کیونکہ ہما نے ایک دن کا اسے ماں بن کر پالا ہے تو ظاہر ہے سب ہمیں ہی اس کے پیرنٹس سمجھیں گے نا۔ آپ چاہتی ہو کہ آپ کی چھوٹی سی غلطی سے فیڈ ہو کر وہ لوگ واپس نتاشا کا سوچیں ابھی اس کا رشتہ بھی تو نہیں ہوا نا


عروبہ بولی ڈیڈ اب میں اس کی طرف سے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی اب آپ اس کے لیے جلدی سے کوئی رشتہ ڈھونڈیں اس کے لیول کا جو آپ کو آسانی سے مل جائے گا۔ اور ہاں کوئی غریب لاوارث گھر داماد ڈھونڈ لیں تاکہ موم کو پرمننٹ ہیلپ ملتی رہے ورنہ موم اکیلی سارے کام کیسے کریں گی۔ اور اس کا شوہر گھر کے باہر کے کام بھی کر دیا کرے گا۔


وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا میرے آفس کے کلرک اپنے بھتیجے کے رشتے کا زکر کر رہے تھے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور انہوں نے اسے پالا تھا۔ میں کل ہی آفس جا کر بات کرتا ہوں۔


ہما اور نتاشا بےبسی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھیں۔


ہما نے کہا کہ مجھے اپنا لالچ نہیں ہے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اچھے رشتے اتنی جلدی نہیں ملتے مگر وہ قاہل نہ ہوا اور بولا میں جلد از جلد اس کا رشتہ طے کرنا چاہتا ہوں تاکہ میری بیٹی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔


عروبہ کے بار بار یاد کروانے پر اس نے اپنے کلرک سے پوچھا اسے اپنی بھانجی کے لیے گھر داماد کا رشتہ چاہیے بھانجی کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور اسے بھی ایسا رشتہ چاہیے جس کے والدین حیات نہ ہوں اور وہ اسے گھر داماد بنا کر رکھ سکے۔ کلرک نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اس کا رشتہ ہو چکا ہے دوسرے وہ گھر داماد بننے کو تیار نہیں تھا اسے پہلے بھی افر ملی تھی مگر وہ نہ مانا وہ ہمیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اتنے میں عروبہ کا پھر فون آ گیا جو اسی مقصد کے لیے بار بار فون کر رہی تھی کہ آفس کا ایک اور بزرگ ورکر اندر داخل ہوا جو ہاتھ میں فائلیں اٹھاے اندر آ رہا تھا اس نے ان کی گفتگو سن لی اور بولا سر میرا بھتیجا ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ گھر داماد بن کر رہ لے گا۔


ساجد نے خوش ہوکر پوچھا پڑھا کتنا ہے۔ دراصل مجھے کمازکم بی اے پاس چاہیے تو وہ جھٹ خوشی سے بولا سر وہ بی اے پاس ہے میں نے تو اس کی نوکری کی درخواست بھی ادھر دی ہے اس کی۔


ساجد نے کہا کہ ٹھیک ہے کل اسے مجھ سے ملواو۔


وہ خوشی سے بولا جی ضرور۔


ساجد گھر آیا تو عروبہ نے پھر جلدی ڈالی کہ جلدی سے اس کا رشتہ پکا کر دیں۔


ہما نے احتجاج کیا تو نتاشا نے کہا کہ ماما پلیز پاپا کو کرنے دیں جو بھی کرتے ہیں جس سے بھی کرتے ہیں مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ میرا باپ میرا رشتہ طے کر رہا ہے۔


ہما نے کہا کہ میری جان وہ باپ بن کر نہیں کر رہا بلکہ عروبہ کے جلدی ڈالنے پر بس فارمیلٹی کر رہے ہیں۔ مگر نتاشا نے کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے سے ماں کو سختی سے روک دیا۔


اب کل ساجد نے اس لڑکے سے ملنا تھا اور عروبہ بےچین ہو رہی تھی کہ بس جلدی سے رشتہ ہو جائے۔


جاری ہے دعاگو راہٹر عابدہ زی شیریں۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ جزاک اللہ۔



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.