Back to Novel
Aik Raat Ki Dulhan Meri
Episodes

ایک رات کی دولہن میری 8

Episode 8

خوشی پریشانی اور غم سے نڈھال منیر صاحب کے پورشن کی طرف گئی تو سامنے سے اس کے سسر آ رہے تھے۔۔

اسے دیکھ کر چونکے۔۔

خوشی کو اپنی ہوش نہ تھی وہ انہیں اگنور کرتی سامنے سے آتی ملازمہ سے بھرائی آواز میں پوچھا،

منیر صاحب وغیرہ سب کدھر ہیں میرا بچہ نہیں مل رہا۔۔

وہ بتانے لگی کہ جب آپ گہری نیند سو رہی تھیں تو آپ کے والد صاحب نے بچے کو جو کروٹیں بدل رہا تھا اسے بمشکل اٹھا کر اپنے پاس لٹا رہے تھے کہ میں انہیں بڑے صاحب کے حکم پر انہیں ناشتے پر بلانے آئی تھی۔۔ ساتھ ان کے بچے بھی منے سے ملنے کی ضد کر رہے تھے۔۔ میں منے کو ادھر لے آی اور اس کی نیپی بدل دی ہے اور فیڈر پلا دی ہے۔۔

وہ تیزی سے منے کی طرف بھاگی اور بغیر کسی سے ملے بچے کو پاگلوں کی طرح پیار کرنے لگی۔۔

منیر صاحب کے والد اور ان کی بیوی اسے دیکھ کر خوش ہو کر بولے، واقعی ماں تو ماں ہوتی ہے۔۔

بچہ بھی اسے دیکھ کر خوش ہو کر توتلی زبان میں بولنے لگا۔۔

خوشی کو ہوش آیا تو اس نے سب کو سلام کیا۔۔

اس کے سسر نے منیر صاحب کے والد کو خدا-حافظ کہہ کر ایک نظر منے کو پیار سے دیکھ کر چل پڑے۔۔

اتنے میں اس کے والد صاحب بھی جاگ کر آ گئے۔۔

انہوں نے خوشی کے سسر کو دیکھا مگر اگنور کر کے آگے بڑھ گئے۔۔

خوشی کے باپ نے بتایا کہ منیر کے والد صاحب نے مجھے ناشتے کے لیے بلا لیا تھا اور تم سو رہی تھی۔۔

ملازمہ نے خوشی کو ناشتے کا پوچھا تو وہ بولی، چاے کے ساتھ بریڈ کھا لوں گی۔۔

منیر صاحب کی بیگم نے کہا، خوشی آج کک اپنے رشتے دار کی فوتگی پر چلا گیا ہے تم ملازمہ کی مدد سے آج کھانا تیار کر لو۔۔

خوشی کے سسر جو جا رہے تھے انہیں بہت افسوس ہوا کہ ان کی بہو ایک ملازمہ کی طرح سرونٹ کوارٹر میں رہ رہی ہے۔۔

وہ اب جلد اسے جاہز مقام دلا کر رہیں گے۔۔

شام کو منیر صاحب کی بہو بیٹا شاپنگ سے واپس آئے اور خوشی کے بچے کے لئے بھی کھلونے لے کر آئے۔۔

خوشی نے شام کو بچوں کو پڑھایا کہ ٹاہم ویسٹ نہیں کرنا۔۔

بچوں کے والدین بہت خوش ہوئے۔۔

بچے بہت شوق سے پڑھنے لگے۔۔

رات کے کھانے پر سب نے بہت تعریف کی۔۔

منیر صاحب کی بہو کو بڑی شرم آی۔۔

اس نے خوشی سے کہا، کہ وہ اسے بھی ٹرینڈ کر دے۔۔

ان کی بہو کو احساس ہوا کہ اس کے اپنے بچے اس سے نہ پڑھتے ہیں نہ اس کے ساتھ خوش ہوتے ہیں۔۔

سسرال والے بھی کل کی اس آی ٹیچر کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے۔۔

حتکہ انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ ایسی بہو سب کو دے۔۔

منیر صاحب کی بہو خوشی کے سمجھانے پر نیٹ سے کوکنگ دیکھ کر کرنے لگی۔۔

اسے اس کام میں لطف ملنے لگا۔۔

گھر کی زمہ داری بھی سیکھ لی۔۔ اب اسے خود بھی اس کام کو کرنے کا شوق بیدار ہو گیا۔۔

خوشی نے بتایا کہ کیا پتا وہ کب یہاں سے چلی جائے۔۔

اس نے ہمیشہ تو ادھر نہیں رہنا۔۔

یہ اسکا اپنا گھر ہے۔۔ اگر وہ اس گھر پر دھیان نہیں دے گی تو کون دے گا۔۔

ملازموں کے سر پر گھر کی زمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔۔

وہ بھی کھبی بھی چھوڑ سکتے ہیں، چوری کر سکتے ہیں۔۔

اپنے آپ کو انکا محتاج نہیں کرنا چاہیے۔۔ ہر کام بچوں کو بھی سکھانا چاہیے۔۔

اگر کھبی نہیں کسی وجہ سے ملازم میسر نہ ہوں تو انکا پیٹ بھوکا نہ رہے۔۔

کپڑے دھونے، پریس کرنے تک ضروری کام سب آنے چاہئیں۔۔

ایک تو اپنے کام کرنے سے تسلی ملتی ہے۔۔

دوسرا ورزش ہوتی ہے۔۔

صحت ٹھیک رہتی ہے۔۔

بھوک کھلتی ہے۔۔

جم جواہن کرنے یا ورزش کرنے سے بہتر ہے کام کیا جائے۔۔

اگر ہم کسی اور کا کام کر دیتے ہیں کسی کی کام میں مدد کر دیتے ہیں تو یہ اپنے جسم کا صدقہ ہوتا ہے۔۔

کسی ملازم کی کام میں مدد کرنا ہتک عزت کا مقام نہیں ہوتا۔۔

سب انسان برابر ہوتے ہیں۔۔ صرف اپنے اچھے عمل کی وجہ سے وہ بلند مقام پا لیتے ہیں۔۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس ملازم یا کسی غریب کو حقیر جانے تو وہی انسان ابدی زندگی میں یعنی قیامت کے بعد جو اصل زندگی شروع ہونی ہے اور ہمیشہ رہنی ہے۔۔ یہ زندگی تو عارضی ہے اس زندگی میں وہی انسان جنت میں اعلی مقام رکھتا ہو۔۔

دنیا میں کوئی بھی چیز حقیر نہیں ہے۔۔ چاہے وہ ایک مچھر ہی کیوں نا ہو۔۔

کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بنا۔۔ اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔۔ بلکہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیے وہ جس حال میں بھی رکھے۔۔

جو صبر کرتا ہے اسے بہت اجر و ثواب ملے گا۔۔ اگر انسان کو علم ہو جائے کہ کتنا صلہ ملے گا تو انسان سوچتا کاش میں ساری زندگی صبر وشکر میں گزار دیتا۔۔

خوشی کے سسر گھر جا کر بہت خوش لگ رہے تھے۔۔

انہوں نے بیوی سے پوچھا، کہ کیا ہوا تم کچھ اداس لگ رہی ہو۔۔

وہ غصے سے بولی، یہ سب آپ کی مہربانی اور ضد کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔۔

بہو آج پھر بیٹے سے بہت لڑی ہے۔۔

کس بات پر؟

انہوں نے پوچھا۔۔

بیوی نے دکھی لہجے میں کہا، کیا بتاوں اس بار تو اس نے حد ہی پار کر دی ہے۔۔

میں آج اپنے چیک اپ کیلئے ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔۔

اس نے کہا، آپ کی بہو کب تک بچے ضائع کرواتی رہے گی۔۔

سسر نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟

بیوی نے جواب دیا کہ بہو دو بار ہاسپٹل کی نرس سے بچے ضائع کروا چکی ہے کہ اس کا فیگر خراب ہو جائے گا۔۔

پھر وہ بچے کی زمہ داری نہیں نبھا سکتی۔۔ کون اتنی محنت کرے۔۔

سسر نے غصے سے کہا، حد ہے۔۔

بیوی روتے ہوئے بولی، مجھے کتنا شوق تھا پوتا پوتی کھلانے کا۔۔ مگر افسوس، یہ ارمان بھی پورا نہیں ہوا۔۔

اگر یہ کوئی بچہ ہی دے دیتی تو ہم سمجھتے کہ چلو کچھ تو خوبی ہے اس میں۔۔

ہر وقت کی لڑائی جھگڑے سے میں تو عاجز آ چکی ہوں۔۔

شوہر نے پھر غصے سے کہا، اسے چھوڑتا بھی نہیں ہے نا۔۔ کتنی بار کہا ہے کہ اسے چھوڑ دو۔۔

اب تو یہ واقعی برداشت سے باہر ہے۔۔

میں کل بیٹے سے دوٹوک بات کرتا ہوں۔۔

اگلی صبح ملازمہ نے بتایا کہ بہو اپنے بھائی کے ساتھ گاڑی میں جارہی تھی۔۔

کافی سامان بھی ساتھ تھا۔۔

گھر میں بتاے بغیر وہ ناراض ہو کر بھائی کو بلا کر چپکے سے چل پڑی۔۔ جب مرد گھر موجود نہیں تھے اور ساس پڑوس میں میلاد پر گئی ہوئی تھی۔۔

وہ ملازموں کے حوالے گھر چھوڑ کر چلی گئی۔۔

سب کو غصہ آیا۔۔

فون پر اس نے صاف آنے سے انکار کر دیا۔۔

اور طلاق کا مطالبہ کر دیا۔۔

خوشی کے سسر نے شکر کیا، بلکہ سب نے شکر کیا کہ اب اس سے جان چھوٹ جائے گی۔۔

موویز کے باپ نے گھر والوں کو خوشی کے بارے میں سب بتا دیا۔۔ اور بیٹے سے معافی بھی مانگی مگر بیٹے نے ان کے ہاتھ چوم کر کہا، پلیز مجھے گناہگار نہ کریں۔۔

انہوں نے اسے بڑھکر گلے لگا لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولے، اب میں خوشی اور اس کے بچے کو جلد گھر لانا چاہتا ہوں۔۔

موویز خوشی اور بچے کا سنکر بہت خوش ہوا۔۔

ماں شدت جزبات سے روتے ہوئے بولی، مجھے جلدی سے اپنی بہو اور پوتے سے ملوا دو۔۔

اسی وقت موویز کے بڑے بھائی اور بھابھی کو فون کر کے خوشخبری سنائی گئی۔۔

وہ بھی بہت خوش ہوئے۔۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ منیر صاحب کے گھر والوں کو کیسے بتایا جائے کہ جو ان کے گھر میں ملازمہ کی حیثیت سے رہتی ہے اور سرونٹ کوارٹر میں رہتی ہے وہ ان کی بہو ہے۔۔

منیر صاحب کو فون کیا گیا اور بتایا گیا کہ موویز اپنی منکوحہ اور بیٹے سے ملنا چاہتا ہے اور اسے گھر لانا چاہتا ہے۔۔

دادی پوتے سے ملنے کے لیے تڑپ رہی ہے۔۔

منیر صاحب نے کہا، فکر نہ کریں میں سب حقیقت گھر والوں کو بتا دوں گا۔۔ ویسے تو وہ ماں بیٹی تمام گھر والوں کے لیے بہت پسندیدہ شخصیت بن گئے ہیں اور میرا گھر تو سونا ہو جائے گا۔۔

میرے والد صاحب اب ہر وقت خوشی کے باپ کے ساتھ چیس کھیلتے رہتے ہیں۔۔ واک پر جاتے ہیں۔۔ اکھٹے کھاتے ہیں۔۔

ان کا دل ان کے ساتھ بہت لگ گیا ہے۔۔

میری بیوی بھی صحت یاب ہوتی جا رہی ہے۔۔

میری بہو خوشی کی سنگت میں گھر داری سیکھ چکی ہے۔۔

بچے منے کے بغیر نہیں رہتے۔۔

ان سب باتوں کے باوجود بھی میں خود غرض نہیں بنوں گا اور خوشی کو اس کے گھر بھیج کر مجھے خوشی ملے گی۔۔

میں خود گھر والوں کو سمجھا بجھا کر راضی کر لوں گا۔۔

خوشی اور اسکا باپ اب ہمارے پورشن کے ایک کمرے میں شفٹ کروا دیے گئے ہیں۔۔ اب وہ ہمارے فیملی ممبرز ہیں۔۔

موویز تو سخت بےچین ہو گیا۔۔

اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کو وہ عرصے سے ڈھونڈ رہا تھا وہ ملنے والی ہے۔۔

سب گھر والے سخت شدت سے منیر صاحب کے فون کا انتظار کر رہے تھے۔۔

انہوں نے کہا تھا کہ پہلے وہ بات کر کے انہیں ملنے پر راضی کر لیں پھر آپ لوگ ملنے آنا۔۔

پھر وہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور منیر صاحب کا فون آ گیا۔۔

ان لوگوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔

موویز نے اپنا بیڈ روم خوشی اور بچے کے لئے سجا دیا۔۔

بچے کے کھلونے اور کپڑے خرید کر لایا۔۔

سب جانے کے لیے تیار ہو کر جانے لگے کہ موویز کی بیوی گیٹ کے اندر داخل ہوئی۔۔

سب اسے اچانک دیکھ کر چونک گئے۔۔

جاری ہے۔۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.