Back to Novel
Aagy Barhnay Ki Lagan
Episodes

آگے بڑھنے کی لگن 3

Episode 3

شینا جو خود بھی مومی کو مس کر رہی تھی جو اس کے لیے وقت بے وقت کافی کی فرمائشیں پوری کرتی رہتی تھی۔ اسے مومی پے غصہ بھی آ رہا تھا کہ وہ کیوں چلی گئی ہے۔ شینا نے دل میں سوچا ادھر تو سرفراز بھاہی نے اسے خوب سر پر چڑھا رکھا ہے کوئی بات نہیں جب میں جاوں گی تو سیدھا کر لوں گی۔

اسے تو ولیمے اور ولیمے کے جوڑے کی طرف سے بھی فکر لاحق ہو رہی تھی کہ نہ جانے کیسا گھر بھی لیا ہو گا۔ فرینڈز کو تو اس کے گھر شادی اور ولیمے کی بہت اکسایٹمنٹ تھی۔ اکرم نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ قیمتی جوڑا نہیں لے سکتا اور نہ ہی ولیمہ ہوٹل میں دے سکتا ہے۔ بھلا سرفراز بھائی کو ہی کرنے دیتا۔ ماں تو سرفراز کو ڈانٹ رہی تھی کہ تم بہن بھائی دنیا کے دکھاوے کے پیچھے پاگل ہو رہے ہو۔ کیا ضرورت ہے اسے اتنا قیمتی جہیز دینے کی۔ وہ زچ ہو تے ہوئے بولا اماں ایک کمرے کا ہی تو دیا ہے۔ ماں کوستے ہو ے بولی بچے جوان ہیں اور وہ ایسے چونچلے کر رہی ہے جیسے جوان ہو۔ کچھ لوگ باتیں بنا رہے ہیں۔ سرفراز بولا بنانے دیں مجھے بہن کی خوشی کے آگے کچھ نہیں ہے۔ اس کے دل میں سو ارمان تھے ہر لڑکی کو ہو تے ہیں۔ ہم نے بھی امریکہ کی خوشی میں ایک پندرہ سال کی بچی کو سولہ کا بتا کر رخصت کر دیا تھا ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے۔ ابھی تو وہ پینتیس کی بھی نہیں ہوئی۔ اکرم بھی اس سے دو سال بڑا ہے۔ اتنے میں سرفراز کیانی کا فون آ گیا اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔

مقدس اپنے کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کہاں وہ پہلے ایک معمولی سی ملازمہ تھی۔ پھر قسمت اسے سرفراز کیانی کے گھر لے گئی وہاں سے اس کا اچھا وقت شروع ہوا۔ اس کی تعلیم کا شوق پورا ہوا۔ اچھے اسکول میں داخلہ ملا اماں تو اسے گلی محلے کے اسکول بھی نہ جانے دیتی تھی اتنے اچھے علاقے میں رہنا اور اتنے سٹیٹس سے رہنا واہ اللہ تعالیٰ جی کتنا کرم ہے آپ کا۔ اتنی اچھی فیملی میں پاپا کا رشتہ ہو نا۔ کاش یہ سب کچھ ہمیشہ کا ہی ہو جائے۔ اسے باپ سے کچھ پوچھنے اور خو شی خراب کرنے کی ہمت نہ ہو ئ۔ ویسے بھی آجکل وہ بہت مصروف تھے۔ صبح جاتے اور رات کو واپس آتے۔ اس نے سوچا شادی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے وہ ادھر سے ہی پایا کے ساتھ ان کی چھوٹی گاڑی میں کالج جاتی۔ اکرم نے گاڑی سیکنڈ ہینڈ لی تھی۔ اس نے پاپا سے ڈرتے ڈرتے پو چھا کہ بارات کس میں جائے گی تو وہ بولا ایک دوست کی گاڑی میں جو لیٹیسٹ ہے۔ وہ گھر کا رینٹ پوچھتے پوچھتے رہ گئ۔ پاپا کے ساتھ کالج جانا اس کا خواب تھا۔ اس کے بہت سے خواب پورے ہو رہے تھے۔ وہ رب العزت کا شکر ادا کر تے کرتے آبدیدہ ہو جاتی تھی۔ اس کے پاپا جب تیار ہو کر پینٹ، شرٹ، ٹائی وغیرہ پہن کر جاتے تو پرسنیلٹی والے لگتے۔ اب تو وہ بال بھی اچھی طرح سیٹ کر تے تھے۔

مقدس نے اکرم سے کہا۔ پاپا اب آفس سے چھٹیاں لے لیں نہ اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں اس نے پیار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی نئی نوکری ہے۔ اس لئے زیادہ چھٹیاں نہیں لے سکتا۔ دعا کرو پروموشن متوقع ہے اگر ہو گیء تو زیرو میٹر گاڑی،لیب ٹاپ وغیرہ بھی ملے گا۔ وہ دعائیں کرنے لگی۔ اس کے پاپا نے کہا کہ اب ایک اور سرپراہیز ہے کہ مقدس شوق وتوجہ سے سننے لگی۔ اکرم نے بتایا کہ تمھاری ماں پڑھنے کے سخت خلاف تھی وہ کہتی تھی جتنا وقت پڑھنے میں برباد کرو گے وہی وقت کچھ کام کر کے پیسے کما لو۔ غریب کو پڑھ لکھ کر بھی بغیر رشوت و سفارش کے نوکری نہیں ملتی۔ پھر وہ نوکری کے پیچھے دھکے ہی کھاتا رہتا ہے۔ اس کا دماغ اتنا خراب ہو جاتا ہے کہ پھر وہ چھوٹی موٹی نوکری کرنا شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ جب نوکری نہیں ملتی تو نشے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اکرم بولا ایک لحاظ سے یہ درست بھی ہے۔ مگر میں نے اس سے چھپ چھپا کر پڑھنا شروع کیا اور تمھیں بھی نہ بتایا کہ سرپراہیز دوں گا

۔ میں نے پرائیوٹ طور پر ایم بی اے کر لیا ہے۔ کیا کیا پایا سچ کیا میں ایک تعلیم یافتہ باپ کی بیٹی ہوں۔ مجھے کتنا شوق تھا کہ کاش میرے والدین پڑھے لکھے ہوتے۔ وہ شدت جزبات سے روتے ہوئے بولی۔ جب میری کلاس فیلوز بڑے فخر سے اپنے فادر کی تعلیم کے بارے میں بتاتیں تو میں حسرت سے دیکھتی رہ جاتی۔ وہ اتنی خوش ہوئی اتنی چیخیں ماریں کہ ملازم نواز اور اس کی بیوی ثریا گھبراتے ہوئے بھاگتے آ ے۔ مقدس نے انہیں کہا کہ آج کچھ میٹھا پکاو۔ آج میں بہت خوش ہوں میرے پاپا بہت پڑھے لکھے ہیں۔ وہ حیران کن نظروں سے دیکھتے اچھا اچھا کہتے چل دیئے۔ مقدس نے باپ کے گلے میں باہیں ڈال کر لاڈ سے کہا تھینکس پاپا۔

مقدس نے فوراً وٹس ایپ پر تانی کو بتایا کہ شینا ماما کو بتا دینا کہ ان کے شوہر پڑھے لکھے ہیں۔ ساتھ میں مارک شیٹ کی فوٹو بھی سینڈ کر دی۔ وہ اج اپنے باپ پر فخر محسوس کر رہی تھی وہ بےچین تھی کہ کب صبح ہو اور وہ دوستوں کو بتاے۔ اس نے جوش میں فیس بک پر بھی لگا دی۔ اور اتنے اچھے ماکس پر خوب لاہک اور کمنٹس اے تھے اور خوب واہ واہ ہوئی تھی۔ مقدس خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔

شینا کو بھاگ کر تانی نے جوش سے بتایا تو وہ تھوڑی دیر کے لیے دم بخود رہ گئی۔ تانی نے اسی وقت مبارک باد کا فون کیا۔ کیانی صاحب نے بھی بھرپور اپنائیت سے مبارک باد دی۔ وہ شینا کے پاس آے اور بو لے میں بہت خوش ہوں۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا بس ایک نظر دیکھ کر نظریں جھکا لیں۔

سرفراز کیانی نے جب مہنگا فرنیچر اور الیکٹرانک سامان وغیرہ جہیز کا بھیجا تو ماں تپ کر اسے ڈانٹنے لگی۔ اس نے ماں کو پانی پلانے کے بعد دروازہ بند کر کے ماں کو سمجھانے بیٹھ گیا۔

شینا امجد کے بارے میں سوچنے لگی کہ وہ تو میٹرک بھی پاس نہ تھا۔ بس امریکہ کی وجہ سے عزت بنی ہوئی تھی۔ اگر وہ پاکستان میں ہوتا تو اس کے گھر والے اسے کھبی رشتہ نہ دیتے۔ ان لوگوں نے اسے بہت پڑھا لکھا بتایا کسی نے ثبوت نہ مانگا۔ شکر کیا کہ رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اس نے اپنے شوق سے گریجویشن کر لی تھی۔ سسرال والے خوش نہ ہو تے۔ اس نے سرفراز بھاہی سے شوق کا اظہار کیا تو انہوں نے مشن بنا لیا اور پورا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ امجد اتنا پڑھا لکھا ہے۔ تو تم بھی ضرور تعلیم حاصل کرو۔ اس نے بھی شرم سے نہ بتایا سسرال والوں نے بھی بتانے سے منع کیا۔ اب وہ شرمندہ اور حیران تھی کہ وہ اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔

ماں بولی اچھا بتاو۔ سرفراز کیانی نے ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد گویا ہوا۔ مقدس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے کہ وہ لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ ماں نے غصے سے کہا کہ وہ بکواس کرتی ہے جانتے نہیں اپنی بہن کو کتنی اکڑ خان ہے۔ سب جھوٹ بولتی ہے۔ ماں کوستے ہوئے بولی، کمبخت نے کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔ سرفراز کیانی نے کہا ماں کیا ہو گیا ہے طلاق ہی لی ہے کوئی قتل کر کے تو نہیں آئی۔

اس نے ماں کو کہا کہ اب آپ نے شینا کے سسرال والوں کا فون۔ نہیں اٹھانا۔ ان سے کہیں مجھ سے بات کریں۔ ماں غصے سے بولی پاگل ہو گئے ہو کیا۔ وہ کہ رہے ہیں کہ شادی جلدی فادغ کرنا عدت میں بھی وقت گزرے گا۔ انہیں جلدی ہے۔ سرفراز کیانی نے ماں سے کہا کہ پہلے آپ میری پوری بات توجہ سے سنیں پھر آپ کو سمجھ آے گی میں یہ سب کیوں کر رہا ہوں۔

سرفراز کیانی نے ماں کو بتایا کہ میں مانتا ہوں یہ اکڑو ہے۔

آپ کو حقیقت نہیں پتا۔ میں آپ کو آج ساری حقیقت بتاتا ہوں۔ جب شینا طلاق لیکر آئی تو انہوں نے سارا الزام اس پر لگایا کہ یہ لڑ کر خود طلاق لیکر آ گیی ہے۔ اس نے بھی سچ نہ بتایا بس اپنے مگن اور خوش رہی۔ ان لوگوں کا اصرار بڑھنے لگا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ ماں بولی میں نہیں مانتی۔ وہ لوگ ہمارے لیے بھی تحفے بھیجتے تھے سرفراز کیانی نے زچ ہو کر کہا ماں پہلے میں بھی یہی سمجھتا رہا، مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ آپ پہلے حوصلے سے میری بات سمجھیں۔ ان کے بے حد اصرار پر میں نے اسے ان کے ساتھ دوبارہ شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور حلالہ کا فیصلہ کیا۔ وہ لوگ بہت خوش ہو ے۔ میں نے سوچا اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے زرا ان کے بارے میں بھی انکوائری کروا لوں۔ تو پتا چلا کہ اس شادی سے پہلے وہ کسی انڈین مسلم لڑکی سے شادی کر کے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ لڑکی ا چھے کردار کی نہ تھی۔ امجد ان کے آفس میں معمولی نوکری کر تا تھا۔ اور ان کے حالات بھی اچھے نہ تھےاس نے بیٹی کے کردار پر پردہ ڈالنے کے لئے اور ایک نام نہاد شوہر پانے کے لئے امجد اور اس کے گھر والوں کو بڑی آفر پیش کی۔ جس میں بڑا گھر گاڑی تمام گھر والوں کا ہمیشہ کا خرچہ وغیرہ۔ شینا کی ماں سن کر رونے لگی تو سرفراز کیانی نے انہیں پانی پلایا اور کہا میں اسی لیے بتا کر آپ کو پریشان نہیں کر نا چاہتا تھا۔ ماں نے انسو پونچھتے ہوئے کہا کہ مجھ سے کچھ نہ چھپاو اج سب کچھ سچ بتا دو آخر انہوں نے میری لاڈلی کو کیوں پھنسایا۔ ہم سے تو انہوں نے جہیز تک نہیں مانگا۔

سرفراز کیانی نے کہا کہ امجد کی شادی سے وہ مطمئن اور خوش نہ تھے۔ انہیں ایک نیک بہو اور اکلوتے بیٹے کی نسل کو بڑھانا تھا۔

سرفراز کیانی کا فون آ گیا اور وہ معذرت کرتا باہر نکل گیا۔ ماں پریشان سوچوں میں گم ہو گئی۔ اسے دکھ ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ فراڈ ہو گیا اور وہ بے خبر رہی۔ اسے ہی برا بھلا کہتی رہی۔ اسے ان لوگوں پر بہت غصہ آنے لگا۔

شینا کی ماں نے کہا کہ وہ اکرم کے گھر جانا چاہتی ہے۔ ویسے بھی وہ شادی کے سلسلے میں سرفراز کیانی کے گھر پر ہی رہنے آئی ہوئی تھی۔ سرفراز کیانی نے سنا تو حیران ہوا۔ اس نے کہا کہ کل شام کو چلتے ہیں۔ میں تو دو بار ہو آیا ہوں۔ تانی نے سنا تو فوراً بولی دادو میں بھی جاوں گی۔

اب امجد کا فون آیا تو شینا کی ماں نے انہیں صاف کہہ دیا کہ وہ اب شادی کے کاموں میں مصروف ہیں تو آپ مہربانی کر کے ہمیں اب بار بار فون نہ کریں وہ کچھ بولنے لگی تو شینا کی ماں نے فون بند کر دیا اور ان کے بار بار کرنے پر بھی نہ اٹھا یا۔

اگر کسی تقریب میں غریب رشتے داروں کو نہ بلایا جائے تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ الگ ناراض ہو تے ہیں۔

مقدس اور اکرم بےچینی سے ان کا انتظار کرنے لگے اور ان کے لیے اچھا کھانا پینا تیار کروایا۔ گھر میں گاوں سے قریبی رشتے دار بھی ا چکے تھے ان سب کو بھی مقدس نے بہت ہدایتیں دی تھیں کہ ان کے سامنے تمیز دیکھانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ گاوں کے رشتے دار جب آنے تھے تو مقدس نے کا فی منہ بنایا تھا کہ ان کو بلانے کی کیا ضرورت ہے نہ اب میرا کوئی ننھیال ہے نہ ددھیال۔ یہ اتنے قریبی نہیں ہیں۔ شینا ماما، سرفراز انکل وغیرہ کیا سوچیں گے آپ ساری ٹور خراب کر رہے ہیں۔ آپ کسی شہری جاننے والے کو بھی بلا سکتے تھے بارات کے لیے۔ اکرم مسکرایا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ میں جانتا تھا کہ تم اہسا ہی سوچو گی۔ مگر یہ قریبی نہ سہی ہیں تو رشتے دار۔ ہہ ہماری جڑیں ہیں۔

سرفراز کیانی کے لیے پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ سرفراز کیانی اس کے دونوں بچے اور شینا کی ماں آے۔ ساف ستھرا خوبصورت بڑا گھر اعلیٰ سوسائٹی۔ یہ سب دیکھ کر سرفراز کیانی اور اس کی ماں بہت متاثر ہوئے۔ تانی تو خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔ مقدس اسے اور اس کے بھائی کو لیے لیے سارا گھر دیکھا رہی تھی۔ وہ بھی خوش ہو رہے تھے۔ شینا کی ماں کچھ خوش ہوہی مگر زیادہ ظاہر نہیں کر رہی تھی۔ کھانا بہت لزیز لگا۔ کیانی صاحب نے بہت تعریف کی۔ شینا کی ماں تھوڑا طنزیہ انداز میں بولی مقدس اچھا بنا لیتی ہے۔ اسے تو پتا بھی نہیں تھا کہ کیا بن رہا ہے یہ پڑھائی کر رہی تھی۔ ان مہمانوں نے ہی بنایا۔ شینا کی ماں کو گھر میں درمیانے درجے کا فرنیچر اور چھوٹی گاڑی دیکھ کر اتنی خوشی نہ ہوہی۔ اس وقت سب لاونج میں بیٹھے چاے پی رہے تھے جب مقدس نے شینا کی ماں سے پوچھا آنٹی آپ کو کیسا لگا ہمارا گھر اس نے ایک آہ بھر کر کہا کہ فرنیچر کی بھی خیر ہے اس ایریا اور گھر کے مقابلے میں سستا ہے۔ گاڑی بھی چھوٹی ہے۔ ان باتوں کی خیر تھی اگر گھر بھی اپنا ہوتا تو اس نے آ دھی بات کر کے چھوڑ دی۔ مقدس تڑپ گیئ اور شرم سے پہلو بدلا

اکرم نے مقدس کو سمجھایا کہ گاؤں کے لوگ چند دن کے مہمان ہیں ان کے ساتھ اچھا وقت گزارو تاکہ وہ اسے اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔ وہ تم سے دب کر رہ رہے ہیں بچوں کو شور نہیں کر نے دیتے۔ ہم سے پیار کرتے ہیں۔ بہت دعائیں دیتے ہیں کہ میں نے انہیں بلا کر عزت بخشی۔ مجھے تو ان کے آنے سے فائدہ مل رہا ہے۔ سارے کام انہوں نے سنبھال لیے ہیں۔ مجھے کچھ کر نے ہی نہیں دیتے۔ دل سے کر رہے ہیں۔ تم بھی انہیں دل سے ویلکم کرو۔ بہت اچھے لوگ ہیں تمھیں ان کی کمپنی میں مزہ آئے گا۔ یہ اپنے سو کام چھوڑ کر آئے ہیں۔ مقدس نے کہا کہ آپ نے میراضمیر جگا دیا ہے۔ میں اپنی اوقات بھول گئ تھی۔ اب آپ کو کھبی شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔

۔اسے دکھ ہوا کہ اس نے دل میں سوچا کہ ہم جیسے لوگوں سے ان امیروں کا رشتہ بوقت مجبوری جڑ بھی جائے تو پھر بھی ہم لوگ ان کے آگے دبے ہی رہتے ہیں اور یہ جب چاہیں ہمیں زلیل کر دیتے ہیں۔ اسے پاپا کے لیے ان کی باتیں انسلٹ لگیں۔ سرفراز کیانی کا فون آ گیا تھا تو ماں کو باتیں بنانے کا موقع مل گیا۔ اپنی بیٹی کا قیمتی جہیز بھی دیکھ کر اسے جلن ہوئی۔ اس کی مرضی اکرم کی طرف نہ تھی وہ اسے ملازم ہی سمجھتی تھی دل سے خوش نہ تھی۔ اس نے سرفراز کو بہت روکنے کی کوشش کی مگر وہ صرف اکرم کے ساتھ ہی شادی پر تلا رہا۔ اسے پہلے ہی اہمیت دیتا تھا نکاح کے بعد اسے سر آنکھوں پر بٹھانے لگا۔ اس کے خلاف کوئی بات نہ سنتا تھا۔ ماں کی توقع سے زیادہ ہی سب کچھ تھا وہ اندر سے حیران بھی تھی۔ اسی لئے اس نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہہ دیا کہ گھر بھی اپنا ہوتا تو ٹھیک ہو تا۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ لاجواب ہو گا۔ پھر طنزیہ انداز میں پوچھا ویسے کیا رینٹ ہے اس کا۔ اتنے میں سرفراز کیانی بھی فون سن کر اندر آ گیا۔ اکرم نے مقدس کو دیکھا اسے ان کی باتوں سے دکھ بھی پہنچا۔ مقدس نے بے بسی سے سے باپ کو دیکھا تو اکرم نے پھر سرد آہ بھر کر کہا کہ آنٹی جی آپ کی ساری باتیں درست ہیں سامان بھی اچھا آ جائے گا اور کمپنی کی طرف سے اچھی گاڑی بھی ملنے والی ہے۔ مگر شادی کے دو ہفتے بعد ملے گی۔ رہی گھر اور رینٹ کی بات تو، اس نے پھر مقدس کی طرف دیکھا اور کہا کہ ایک منٹ میں زرا ابھی آیا۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا سرفراز کیانی بے شک فون سن رہا تھا مگر ماں کی باتیں اس کے کانوں تک

آ رہی تھیں۔ اس نے ماں کو خفگی سے دیکھا۔ ماں نے پرواہ نہ کی۔ اتنے میں اکرم اندر آیا اور مقدس کو ثریا نے باہر بلایا۔ اسے تجسس تھا کہ اب پاپا بتائیں گے کہ رینٹ کتنا ہے اسے خود سے پوچھ کر پاپا کی خوشی خراب کرنے کی ہمت نہ تھی۔ مگر عین موقع پر اسے جانا پڑ ا۔ تانی کو دادی کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے اس نے مومی کو باہر بلا لیا۔

گھر جا کر تانی تھکی ہوئی تھی آ کر جلدی سے سونے چلی گئی۔ ماں بہت چپ چپ لگی۔ سرفراز کیانی اپنے کام سے باہر نکل گئے۔ شینا کو تجسس ہو رہا تھا کہ سب جس طرح ایکساہیٹمنٹ دیکھا رہے تھے واپس آ کر بہت کچھ بولیں گے اچھا یا برا۔ مگر کوئی بھی کچھ نہیں بول رہا تھا وہ کس سے پوچھتی۔ آخر رہا نہ گیا تو ماں جب عشاء کی نماز کے بعد بیٹھی تو شینا نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا۔ کیا ہوا ماما پسند آیا گھر۔ ماں نے تسبیح پڑھتے ہوئے مختصر جواب دیا ہاں۔ اور پھر تسبیح میں مگن ہو گیء۔ شینا سانس بھر کر مایوس سی ہو کر اٹھ گئی۔

سرفراز کیانی نے جانے کا آرڈر دے دیا۔ مقدس نے دیکھا کہ شینا کی ماں کچھ چپ سی لگیں۔ تانی اور مومی بار بار ایک دوسرے کو گلے لگ کر پیار کر ریی تھیں۔ ان کے کھانے کی سرفراز کیانی بہت تعریف کرتے رہے۔ تانی اور اس کے بھائی نے بھی بہت رغبت سے کھایا۔ سرفراز کیانی نے گھر والوں کو اتنا مزے دار کھانا کھلا نے پر ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور ان کے بچوں کو پیسے بھی دیے۔ وہ ان کے اخلاق سے خوش ہو گئے۔

مہندی ہوٹل میں تھی۔ مقدس اپنے گاؤں والوں کے ساتھ ہوٹل کے باہر سب کو جمع کر کے کھڑی ہو گئی کہ اکٹھے اندر جائیں گے اکرم نے کہا کہ اس کے چند ملنے والے آ جائیں تو پھر اندر جاہیں گے۔ سرفراز کیانی کے گھر والے سامنے کھڑے تھے اور یہ دوسری طرف سامنے۔ سرفراز کیانی نے انہیں ادھر ہی رکنے کا اشارہ کیا تھا کہ وہ پروٹوکول سے اندر جائیں گے۔ اکرم مہندی کلر کے کرتے اور کریم کلر کے پاجامے میں بہت ینگ اور سمارٹ لگ رہا تھا سب تعریف کر رہے تھے مقدس بار بار اپنے باپ کو پیار سے دیکھ رہی تھی سب کی تعریفوں سے خوش ہو رہی تھی اَس کی فرینڈز اس کے پاپا کی اور اس کی تعریف کر رہی تھیں۔ سرفراز کیانی کے امیر ترین اور بڑی گاڑیوں والے مہمان آتے جا رہے تھے۔ مقدس کو اپنی طرف کے مہمانوں سے شرمندگی سی محسوس ہو رہی تھی پھر پاپا کی نصیحت یاد آ گئی کہ سب سے برابر سلوک رکھو۔ اس نے دیکھا کہ سرفراز کیانی نے اس کے گاؤں والوں کو سب سے زیادہ اہمیت اور عزت دی۔

مقدس نے گاوں والوں سے دوستانہ رویہ اختیار کر لیا تو اسے سکون آ گیا اسے ان کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگا۔ ان کی بے لوث خدمت اور خلوص سے بہت متاثر ہوئی۔ اور دل میں مثمن ارادہ کر لیا کہ وہ اب ان سے ہمیشہ ناطہ رکھےگی۔

اکرم نے جب اپنے ملنے والوں سے ملوایا تو مقدس کافی حیران رہ گئی کہ وہ لوگ نہ صرف امیر کبیر تھے بلکہ اس سے اکرم کی وجہ سے خلوص واحترام سے بھی مل رہے تھے مقدس آج وی آئی پی تھی ملنے والے اسے سپیشل بلا کر مبارک باد اور گفٹ دے رہے تھے۔ کچھ تو شینا کی ماں سے پوچھ رہے تھے کہ دولہے کی بیٹی سے ملواو تو انہیں مجبوراً کیء لوگوں سے ملوانا پڑ تا۔ مقدس کو اپنی اتنی عزت پر سرشاری سی تھی اسے یہ بھی خوشی ہو رہی تھی کہ ان کی طرف سے گاوں کے چند لوگوں کے علاوہ باقی سب سٹیٹس والے تھے۔ شینا سبز اور پیلے رنگ کے کمبینیشن میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ساتھ بیٹھے دونوں بہت پیارے لگ رہے تھے۔ سب تعریفیں کر رہے تھے کہ جوڑی بہت اچھی ہے

تانی خوبصورت لڑکی تھی آج وہ پری لگ رہی تھی۔ ہر کوئی اس کی تعریف کر رہا تھا۔ مقدس کی بھی چند لوگوں نے تعریف کی۔ اسے تھوڑا احساس کمتری ہوا۔ پھر وہ پاپا کی خوشیوں میں مگن ہو گیء۔اس کی فرینڈز تو شینا کو دیکھ کر پاگل ہو رہی تھیں۔ مقدس سن سن کر بہت خوش ہو رہی تھی۔ سٹیٹس اس کا خواب تھا۔ آج وہ سب پورا ہو گیا تھا۔ شاندار ہوٹل میں فنکشن۔ بےشک یہ سب سرفراز کیانی نے کیا تھا مگر کسی کو کیا پتا۔ اس کی تو فرینڈز کے آگے عزت بن گئ۔ وہ اس کا گھر دیکھ کر بھی تعریف کرتی تھیں۔ بےشک رینٹ کا تھا۔ تانی کے کپڑے قیمتی تھے اس کی فرینڈز اس سے متاثر ہو رہی تھیں۔ مقدس کے سستے تھے۔ اکرم نے سختی سے منع کر دیا تھا۔ پھر بھی ان کے بہت اصرار پر صرف بارات کے دن کے جوڑے قبول کیے تھے جو قیمتی تھے۔ مقدس کو وہ سوٹ پہننے کا انتظار تھا۔ اکرم نے سواے مہندی کے فنکشن کے بارات اور ولیمے کا خود کرنے کا کہا تھا کہ ان پر کم سے کم بوجھ ڈالنا ہے۔ جو خود کر سکتا ہوں خود کروں گا۔ مقدس ڈھیر سارے گفٹ گاوں والوں کے سپرد کر کے مطمئن ہو گئ تھی۔ وہ تو پاپا کے ملنے جلنے والوں سے تانی کو فخر سے ملوا رہی تھی۔ فرینڈز کو بھی فخر سے بتا رہی تھی شینا کی ماں سے بھی فخر سے سب سے ملوایا۔ وہ خوشی سے ان سے ملی۔ انہیں عزت دی۔ گاوں والوں کو سواے سرفراز کیانی کے کوئی نہیں پوچھ رہا تھا۔ مقدس بھی صرف گفٹ سنبھالنے کے لیے ان سے بات کرتی تھی اس میں بھی وہ بھاگے آتے۔ اور خوش ہو جاتے۔ اکرم نے وقت نکال کر انہیں ضرور پوچھا۔

مہندی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ رشتے دار لڑکوں نے خوب ہلہ گلہ کیا۔ زبردستی سب کو ڈانس فلور پر لے آتے۔ شینا کے بچوں کے لیے پاکستان کا

میں پہلا فنکشن تھا وہ حیران بھی ہو رہے تھے اور بنے سنورے خوش خوش پھر رہے تھے کچھ عورتیں چھمگوہیاں کر کے سرگوشی میں ایک دوسرے کو ان کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ جوان لڑکے سرفراز کیانی کو زبردستی لے آ ے وہ نہ نہ کر تا تھوڑا سا کر کے چلا گیا سب نے تالیاں بجائیں۔ ایک اکرم کو کھنچنے لگا۔ وہ انکار کر نے لگا۔ تانی نے شینا کو اٹایا۔

: شینا اور تانی نے ڈانس شروع کیا ساتھ ساتھ شرما بھی رہی تھی جوانوں کی خوب ہوٹنگ ہو رہی تھی اکرم سرفراز کیانی کے ساتھ بیٹھ کر خاموشی سے مسکرا تے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ سرفراز کیانی بھی خوش ہو رہا تھا۔ اتنے میں شینا کا چھوٹا بیٹا بھی آ کر ماں کے ساتھ ڈانس کر نے لگا۔ بڑے بیٹے کو کہا تو اس نے مسکرا کر شرماتے ہوئے معزرت کر لی۔ خوب شور شرابہ ہو رہا تھا کہ اتنے میں شینا کی نظر ماں پر پڑی جو غصے سے گھور رہی تھی۔

شینا کی ماں کو کسی نے آواز دی اور وہ آہ بھر کر اٹھ گئی۔ کچھ عورتیں سرفراز کیانی کی تعریف کر رہی تھیں کہ وہ بہن سے بہت پیار کرتا ہے۔ کتنا خرچہ کیا ہے اس نے اس شادی پر۔ سب متاثر ہو رہے تھے۔ رخصتی کے وقت ماں اسے گلے لگا کر روتے ہوئے دعا دے کر پیچھے ہٹ گئی۔ سرفراز کیانی ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ گاڑی روانہ ہو گئ۔

شینا جلدی سے بیٹھ گئی۔ کچھ عورتیں باتیں بنانے لگیں اس کے ڈانس پر۔ ایک لڑکی بولی آنٹی جی اب رواج ہے دولہا اور دولہن دونوں سٹیج پر ڈانس کر تے ہیں۔ ایک عورت بولی۔ اس کے بچے جوان ہیں وہ بھی ماں کی شادی سے خوش ہو رہے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں تو ایک عورت نے دوسری شادی کی تو اس کے بیٹے نے اس کا گلا دبا کر مار دیا تھا حالانکہ وہ بیوہ تھی۔ وہ عورت بولی یہ تو گناہ کیا اس بدبخت نے وہ بھی ماں کا۔ توبہ ہے جاہلیت کی بھی۔ اسلام میں ہے کہ بیوہ ہوتے ہی اس کی عدت کے بعد شادی کر دی جائے۔ مگر کوئی بیوہ نام تو لے سو تہمتیں اس پر لگ جاتیں ہیں۔ ایک عورت نے دوسری کو سرگوشی میں بتایا کہ اس کے پہلے میاں نے عورت رکھی ہوئی تھی شینا کی ماں کے کانوں تک سرگوشیاں پہنچ رہی تھیں شاید سنایا ہی اسے جا رہا تھا۔ شینا کی ماں کو سن کر بہت دکھ ہوا کہ سب کو خبر تھی اور وہ انجان۔ ایک عورت بولی، اس عمر میں اس کی شادی پر اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی دوسری عورت نے جواب دیا کہ ابھی اس بے چاری کی عمر ہی کیا ہے۔ پندرہ سو لہ کی تھی تو خاموشی سے رخصت کر دی تھی میری بھتیجی اسی کی عمر کی ہے اس کی دو سال پہلے شادی ہوئی ہے۔ اللہ پاک اب نصیب اچھا کرے دوسری بولی آمین ثم آمین۔ ابھی تو جوان جہان ہے۔ شکر ہے ٹائم پر شادی کر دی۔ اب جوڑی فٹ ہے ماشاءاللہ پہلا تو اس سے کافی بڑا تھا۔

مقدس دولہن کے ساتھ بیٹھی تھی اور تانی دوسری طرف۔ مقدس کو اپنا آپ ہوا میں اڑتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

اکرم آگے بیٹھا ہوا تھا اور گاڑی اس کا دوست ڈرائیور کر رہا تھا جس کی گاڑی تھی۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہا تھا۔ شینا تھوڑا بہت شرما کر جواب بھی دے رہی تھی۔ وہ اکرم کی تعریفیں بھی کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ ازراہ مزاق براہیان بھی کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگا چلیں آہسکدیم کھانے چلتے ہیں۔ تانی خوشی سے ہرے بولی۔

گاوں کے لوگ پہلے جا کر استقبال کی تیاریاں کرنے لگے۔

سرفراز کیانی کے گھر والے بھی اکرم کے گھر پہنچ گئے۔ رات گئے تک رسمیں اور شغلِ وغیرہ جاری رہا۔ شینا کے بچے سرفراز کیانی کے ساتھ رات کو واپس چلے گئے۔ سرفراز کیانی نے کہا تھا کہ وہ کچھ عرصہ میرے پاس رہیں گے۔ تانی مقدس کے پاس رک گئی۔ سرفراز کیانی نے کہا کہ وہ صبح ناشتہ بھیجے گا مگر اکرم نے منع کر دیا۔

صبح سے ہی گھر کے لان میں ولیمے کی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں اسے بہت خوبصورت طریقے سے سجایا گیا۔ دولہا دلہن کے سٹیج کو خوبصورت گولڈن اور بلیک آ رٹیفیشل پھولوں سے آراستہ کیا گیا۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.