Back to Novel
Niyat Be-Naqaab
Episodes

نیت بےنقاب 22

Episode 22

سجل کی ماں بولی ہم شوہر پر جان چھڑکنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ سچ میں بھی اس سے بہت محبت کرتی ہیں مگر اس کے ساتھ کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتی ہیں۔ جب شادی ہو کر آتی ہیں تو لگتا ہے کہ یہ صرف ہمارا ہی ہے اس پر کسی اور کا حق ہی نہیں۔ نہ پیدا کرنے والی ماں کا۔نہ باپ، بہن، بھائی یا کسی اور رشتے کا۔ شوہر بےچارہ اس بٹوارے میں پس کر رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی میں نے تمھارے باپ کے ساتھ کیا۔ کاش جس طرح وہ مجھے پیارا تھا اس کی محبت کے ناطے اس کے پیارے بھی مجھے اتنے ہی پیارے ہوتے اگر ہر لڑکی دل بڑا کر کے ان کی خامیوں سمیت پیار کرے تو وہ خود سب سے زیادہ سکھی رہے۔ اور سسرال والے بھی خوش اور اپنے بچے بھی خوش۔ اپنے گھر والوں کی خامیوں پر اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ نہ نفرت ہوتی ہے۔ بس وقتی غصہ آتا ہے بعد میں دل صاف ہو جاتا ہے مگر سسرال والوں کی خامیاں دشمنی لگتی ہیں۔ سب غلط فہمی اور سمجھ بوجھ کا ہے۔ مرد بھی اگر بیوی کے والدین کو اپنے والدین کی طرح سمجھے۔ ان کا بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ان کی زمہ داری اٹھاے ان کو تنہا نہ چھوڑے تو ہمارے معاشرے میں بیٹے، بیٹی کا فرق ختم ہو جائے معاشرہ سکھی ہو جاے۔ بیٹے کی تمنا میں لوگ کتنے بےسکون رہتے ہیں۔ جن کے بیٹے نہیں ہوتے۔ وہ کتی زہنی ازیت کا شکار رہتے ہیں۔ میرے والدین بھی اکیلے تھے میں اپنی شادی کے بعد ان کے لیے فکرمند رہتی تھی مگر تمھارے باپ نے کھبی ان کی زمہ داری اٹھانے کی تسلی نہیں دی۔ بس امریکہ کی خوشی میں مگن رہتے۔ میں دل میں خواہش رکھتی کہ کاش وہ اس بات کو سمجھیں کہ ان کا بیٹا نہیں ہے۔ میں نے خود سے کہا بھی کہ شادی کے بعد آپ لوگ میرے ساتھ رہیں گے۔ وہ بولے دیکھتے ہیں۔ یہ لڑکا زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جہاں جواہنٹ فیملی سسٹم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمیں اس سے بہت امید ہے کہ وہ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی ہمیں اپنی روایات کے مطابق ساتھ رکھے گا۔ مگر شادی ہوتے ہی وہ مجھے الگ لے گئے۔ میں نے دبے لفظوں میں کہا بھی کہ وہ ہمارے ساتھ رہیں مگر وہ غصے سے بولے پاگل ہو ہم اپنی لاہف خراب کریں۔ میں نے کہا کہ پاکستان میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تو وہ بولے۔ پہلی بات کہ یہ پاکستان نہیں امریکہ ہے۔ جہاں ایسا کوئی سسٹم نہیں۔ یہاں کنوارے جوان بچے الگ ہو جاتے ہیں مگر ہم تو شادی شدہ ہیں۔ اور اب تو پاکستان میں بھی یہ سسٹم ختم ہو رہا ہے۔ سجل کی ماں نے والدین کو بتایا تو وہ بولے اسے کھبی مجبور نہ کرنا۔ بس تم دونوں آپس میں خوش رہو۔ مگر ان کی وجہ سے میں کھبی پریشان ہو جاتی۔ جب بیٹی کی پیدائش کے بعد اس کے مستقبل کی فکر لگی کہ میری بیٹی کے لیے ادھر کا ماحول درست نہیں ہے اور اب میرا دل پردیس سے بھر گیا ہے اپنے وطن اپنے والدین کی یاد ستانے لگی ہے وہ پوتی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ کیونکہ میرے والد کو بیٹیاں بہت پسند تھیں۔ جب علی ہونے سے پہلے پوتی کی دعائیں کر رہے تھے جبکہ گاوں والے ان کو ٹوکتے تھے۔ اتنی جاہیداد کا وارث کون ہو گا۔ مگر وہ جواب دیتے۔ جاہیداد کوئی ساتھ نہیں لے کر جاے گا سب ادھر ہی چھوڑ کر جاہیں گے۔ جو اس کا نصیب میں لکھا ہے وہ مل کر رہے گا۔ اس لیے اس فضول بات کے پیچھے بیٹی جیسی رحمت سے ناخوش نہیں ہونا چاہئے۔ کھبی تو بیٹے رلاتے ہیں اور بیٹیاں سکھ دیتی ہیں۔

سجل بولی موم سچ ہے تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ آپ کے دل میں لاشعوری طور پر شاید یہی غصہ بھرا ہوا تھا جو آپ نے بدلے میں ان کو بھی قبول نہ کیا۔ ویسے موم آج آپ دادا جان کی طرح باتیں کر رہی ہیں سجل نے مسکراتے ہوئے کہا۔

سجل کی ماں آہ بھر کر بولی۔ سچ بات ہے وہ مجھے بھی بہت نصیحت کرتے رہتے تھے۔ مگر سچ ہے جو اچھا نہ لگے اس کی نصیحت بھی بری لگتی ہے۔ اس وقت مجھے ان پر غصہ رہتا تھا کہ وہ ہر وقت میرے شوہر کو اپنے ساتھ لیے لیے پھرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ کھبی ماں کے پاس بیٹھا گپ شپ لگا رہا ہوتا کھبی ٹانگیں دبا رہا ہوتا۔ کھبی باہر دوستوں میں نکل جاتا۔ میری طرف توجہ دینی ہی چھوڑ دی تھی مجھے سختی سے کہا کہ گاوں میں رواج نہیں ہے کہ میاں بیوی اکھٹے بیٹھیں۔ تم مجھ سے دور بیٹھنا۔ اور میرے ساتھ کھانا مت کھانا۔ میں مردوں کے ساتھ کھاوں گا۔ مجھ سے کوئی شوخی یا ہنسی مزاق نہ کرنا۔ اس طرح کی اور بہت سی باتیں تھیں جو میرے ماحول اور نیچر کے خلاف تھیں پھر میرا بےزار ہونا بنتا تھا۔ میں ولایتی کھانے کھانے والی۔ مجھے دیسی کھانے کھانے پڑتے۔ شروع شروع میں میرا پیٹ خراب ہوا مگر ڈاکٹر کی جگہ ساس دیسی ٹوٹکے کرتیں۔ کھبی کامیاب ہوتے کھبی ناکام۔ آخر خدا کو رحم آگیا اور مجھے راس آ گیں۔

سجل نے کہا کہ موم ڈیڈ کو آپ کے parents کو ساتھ رکھنا چاہیے تھا۔ سجل کی ماں بولی۔ نہیں بیٹا ان کا قصور اتنا نہیں ہے ہمارے معاشرے کا سسٹم ہی خراب ہے۔ رواج بھی ہے اور بچپن سے زہن نشین ہوتا ہے کہ بیٹا ہی والدین کا سہارا ہوتا ہے بیٹی یا داماد نہیں۔ پھر وقت اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہیے۔ وقت ہمارے لیے نہیں بدلتا ہمیں وقت کے مطابق بدلنا چاہیے۔ بدگمانی دل میں ڈال لو تو ہر چیز اس کی بری لگتی ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ ان لوگوں نے میرا شوہر چھین لیا ہے۔ ان کے خلوص پر بھی شبہ ہوتا۔ سب غلط فہمی ہوتی ہے۔ کاش میں سب کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتی۔ حق داروں کو ان کا حق دینا چاہیے۔ چاہے وہ مان ہو، پیار ہو دولت و جاہیداد۔ جو کوئی حق داروں کو حق نہیں دیتا وہ تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ ہم ہوے ہیں۔ ہم عرش سے فرش پر آ گے ہیں۔ خدا رسی ڈھیلی چھوڑ تا ہے۔ محلت بھی دیتا ہے کہ توبہ کر لو یا سنبھل جاو۔ وہ روتے ہوئے بولی آج میری بیٹی اپنے حق سے محروم ہے۔ شوہر کے ہوتے ہوئے اس پر حق نہیں جتا سکتی۔ امیر باپ کی بیٹی، امیر شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے غربت اور زلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ میرے گناہوں کی سزا میری بیٹی کو مل رہی ہے۔ اللہ پاک مجھے معاف کر دے اور میری بیٹی کو اس کا حق مل جائے۔ سجل بھی ماں کے گلے لگ کر روتے ہوئے بولی پلیز موم مت روہیں۔ میں آپ کو روتا نہیں دیکھ سکتی۔ میں اپنی قسمت پر شاکر ہوں۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے بس مجھے آپ کا ساتھ ملا ہے۔ بچہ میرے ہاتھ میں پل رہا ہے۔ شوہر کے گھر میں ہوں۔ اور کیا چاہیے۔ ماں نے اسے چومتے ہوئے کہا کہ تو صبر کر رہی ے تجھے اس کا بہت اجر وثواب ملے گا۔ سجل نے ان کو پیار کیا اور کہا بس اب رونا نہیں۔ موم گاوں چلیں۔ ہو سکتا ہے بھائی ہمیں ڈھونڈ رہا ہو۔

ماں نے جواب دیا کہ میں کس منہ سے جاؤں۔ خود ہی ان سے ناطہ توڑا۔ پھر تیرا کیا بتاوں گی کہ تیری شادی کیسے ہوئی اور تم اب کس حیثیت سے رہ رہی ہو۔ کاش تمھارا حق تمہیں مل جائے تو میں خود گاوں جا کر ان سے معافی مانگنے کو تیار ہوں۔ واقعی خاندان سے تعلق ضروی ہے۔ جو رشتے داروں سے قطع تعلق کرے گا وہ جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔ آج خاندان والوں سے ناطہ رکھا ہوتا تو امجد بٹ جیسے لوگوں کی جرات نہ ہو سکتی۔

موم مجھے احد اور بچے کی فکر ہے ہاں اس وقت احد آفس میں ہوں گے میں فون کر کے انہیں خطرے سے آگاہ کر دیتی ہوں۔ گھر پر تو بیوی فون پر نظر رکھتی ہے۔ اس نے فون ملایا اور ایک نسوانی آواز آئی سجل نے فوراً پہچان لی۔ یہ کیا اس نے ہیلو کہا تو سجل نے بات بنای ہیلو سر میں آفس سے بول رہی ہوں۔ کلاہنٹ آ چکے ہیں۔ احد کی بیوی نے کہا اچھا مگر وہ فون گھر بھول گئے ہیں۔ اس نے اوکے کہا اور مایوس ہو کر بیٹھ گئی۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.