Back to Novel
Uff Woh Laraztay Lamhaat
Episodes

اف وہ لرزتے لمحات 5

Episode 5

شازمہ اور بچے ڈرتے ڈرتے سو گئے۔ صبح جب آنکھ کھلی تو سورج چڑھ آیا تھا۔ بچے بھی کروٹیں لے کر اٹھ بیٹھے۔


شازمہ کو بابا جی کی فکر لگی کہ انکا ناشتہ لیٹ ہو گیا ہے۔


اس نے جلدی سے ناشتہ بنایا اور سوچا پہلے باہر جا کر دیکھ آئے۔


وہ باہر نکلی تو باہر اسے بابا جی نظر نہ آئے۔ وہ ادھر ادھر ڈھونڈنے لگی مگر وہ نظر نہ آئے۔ وہ پریشان ہو گئ کہ بابا جی کدھر چلے گئے اسے ان کا بہت آسرا لگتا تھا۔


اسامہ اور یامین بھی باہر آ گئے اور بولے کہ بھوک لگی ہے۔


ہر جگہ ڈھونڈنے کے باوجود بابا جی نہ ملے۔


شازمہ بچوں کو لیکر اندر آ گئ اور دروازہ لاک کیا تو گزرے کل کا منظر یاد آ گیا۔ اس نے بچوں کو جلدی سے ناشتہ دیا۔


شام پڑ چکی تھی مگر بار بار باہر دیکھنے پر بھی باباجی نظر نہ آئے۔


شازمہ نے دانیال کو فون پر بابا جی کی گمشدگی کا بھی بتایا اور اب تک جو واقعات پیش آئے وہ بھی تفصیل سے بتاے۔


جواب میں وہ خوب ہنسا، خوب مزاق اڑایا۔


شازمہ نے مائنڈ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جان پر بنی ہوئی ہے بابا جی مل نہیں رہے اور تم مزاق اڑانے پر تلے ہوئے ہو۔


دانیال نے سوری بولتے ہوئے کہا کہ اسے بتانا یاد نہیں رہا، باباجی کی بیٹی کا گھر قریب ہی ہے اس نے کہا تھا کہ وہ کھبی کھبی بیٹی سے ملنے جایا کریں گے تو میں نے کہا تھا کہ بےشک جائیں مگر رات تک واپس آ جائیں۔


میں ابھی بابا جی کو فون کر کے پتا کرتا ہوں اور تمہیں بتاتا ہوں۔ ان کی بیٹی کا نمبر ہے۔ بابا جی بہرے ہیں اس لیے انہوں نے فون نہیں رکھا ہے۔ میں تمہیں نمبر میسج کر دیتا ہوں۔


شازمہ بھڑک اٹھی کہ اتنی اہم باتیں کیسے آپ بھول گئے ہیں۔ ہم اس ویرانے میں اکیلے پڑے ہیں۔ گھر مکمل نہیں ہو رہا۔


اس سے اچھا تھا بنا بنایا لے لیتے۔


دانیال نے کہا، یار بڑی مشکل سے تمہارے میکے کے قریب ترین گھر ملا ہے۔


شازمہ نے کہا، ایک تو ہم ادھر پھنس گئے ہیں۔ اسے سیل کریں اور شہر میں ہمیں کوئی بنا بنایا جلدی سے گھر لے کر دیں۔ اب ہم مزید ادھر اور نہیں رک سکتے ہیں۔


دانیال نے کہا، کمال کرتی ہو شازمہ ڈیر تم بھی۔ پہلے مجھے یہ گھر سیل نہیں کرنے دیتی تھی اب جلدی کر رہی ہو۔


میں تین ماہ سے پہلے نہیں آ سکتا ہوں۔ اور میرے آنے پر ہی گھر بھی سیل ہو سکتا ہے۔ تم ایسا کرو اپنے بھائی کے گھر شفٹ ہو جاو۔ ساتھ ساتھ گھر بھی جلدی مکمل کرواتی رہنا۔ پھر بچوں کے ایڈمشن بھی بھائی کے بچوں کے اسکول میں کروا دینا۔


میں تمہارے بھائی عدیل کو فون کرکے ساری تفصیل بتا دیتا ہوں۔ تم فکر نہ کرو اور بچوں کو ان جن بھوت وغیرہ کی باتوں سے مت ڈراو۔ کس زمانے کی بات کرتی ہو۔ یہ سب تمہارا وہم ہے۔ کسی کو کھبی کوئی جن، بھوت نظر آیا ہے کیا۔ مجھے تو کھبی نظر نہیں آیا۔


شازمہ زچ ہو کر بولی، ہمارے قرآن پاک میں اس کا زکر موجود ہے۔


دانیال بولا،میں مانتا ہوں مگر وہ کوہ قاف میں ہوتے ہیں۔ اور۔۔۔۔


شازمہ اکتا کر بولی، اچھا چھوڑیں، مجھے باباجی کا پتا کر کے دیں۔


شازمہ نے فون بند کر کے بچوں کو پڑھانے بیٹھ گئی۔


دانیال کا فون آیا کہ بابا جی کی بیٹی کا نمبر بند مل رہا ہے۔ ایسا کرو، تم کل ہی مارکیٹ جا کر بابا جی کے لیے نیا موبائل خرید لانا۔ فکر نہ کرو لاک لگا کر سو جانا۔ بابا جی آ جائیں گے۔ موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی ہو گی۔ سم بھی لے لینا۔ میں اب اگلے دو دن بہت بزی ہوں فون نہیں کر سکوں گا۔ بابا جی آ گئے تو مختصر میسج کر دینا۔


شازمہ مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی۔ بابا جی کا کچھ پتا نہیں تھا۔


دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔


شازمہ نماز مکمل کر کے دروازے کے قریب آ کر چلا کر بولی، کون ہے۔


باہر سے بابا جی کی آواز آئی۔


شازمہ نے جھٹ دروازہ کھولا تو بابا جی شاپرز اٹھائے کھڑے ہوئے تھے۔


شازمہ نے ان کی تھکن اور نڈھال حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں کرسی پر بٹھایا، سامان رکھا اور اسامہ سے پانی لانے کا بولا۔


شازمہ نے پوچھا، آپ بغیر بتائے کدھر چلے گئے تھے میں کتنی پریشان تھی۔ اب بتاے بغیر مت جانا۔


بابا جی سکون سے بولے، تم لوگ سو رہے تھے ناشتہ بھی نہیں دیا تو میں بیٹی کے گھر ملنے چلا گیا تو وہ ساگ پکا رہی تھی کہنے لگی، آپ لوگوں کے لیے ساگ لے کر جاوں۔


پیدل آنے جانے میں دیر ہو گئی۔


انہوں نے ساگ کا ڈبہ شازمہ کو دیا، پھر شاپر سے چھلیاں نکال کر دیں۔ سیب کا شاپر دیا اور ڈراے فروٹ کا شاپر پکڑایا۔


شازمہ اتنی چیزیں دیکھ کر ان کے خلوص سے متاثر ہو گئی۔


شازمہ نے موبائل کا پوچھا کہ بند کیوں تھا تو وہ بولے، اس کی بیٹی کا موبائل خراب ہو گیا ہے۔


اگلے دن شازمہ بچوں کو دوپہر کو لیکر مارکیٹ چل پڑی۔


سب سے پہلے اس نے دو نیو موبائل خریدے اور بابا جی کے لیے لے کر چل پڑی۔


بچوں کو برگر، آئسکریم وغیرہ کھلائی اور بابا جی کی بیٹی کے لئے شال اور گرم سوٹ خریدا۔ باباجی کے لیے دو سوٹ خریدے۔


بچوں نے بھی اپنی شاپنگ کر لی۔


شازمہ نے بچوں کو جلدی ڈالی کہ اندھیرا ہونے سے پہلے پہلے گھر جانا ہے مگر پھر بھی مغرب ہو گئی اور اندھیرا چھانے لگا۔


شازمہ نے بچوں کو سختی سے دروازے لاک رکھنے کا کہا۔


درختوں پر اکا دکا بندر اچھلتے نظر آتے تو بچے بہت خوش ہوتے۔


گاڑی اب ان کے ویران علاقے میں داخل ہو چکی تھی جہاں ٹریفک نام کو نہ تھی۔


شازمہ پر خوف طاری ہونے لگا۔ اس نے بچوں سے کہا کہ وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہیں۔ وہ خود بھی آیات پڑھ رہی تھی۔ اچانک دور سڑک پر اندھیرے میں سفید دیوار سامنے آ گئ۔ بچوں نے ڈر کر چیخیں ماریں کہ ماما اب ہم کیا کریں گے کدھر سے جائیں گے۔


شازمہ نے انہیں تسلی دی مگر خود بھی اندر سے انتہائی خوفزدہ تھی۔ دیوار رفتہ رفتہ قریب آ رہی تھی۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لائک ،کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔


شعر


سلسلہ عشق دل سے جڑتے ہی


غموں نے دل کو اپنا مسکن بنا لیا۔


#شاعرہ_عابدہ_زی_شیریں #abidazshireen


#اف_وہ_لرزتے_لمحات


#رائٹر_عابدہ_زی_شیریں


#abidazshireen


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.