اف وہ لرزتے لمحات 6
Episode 6
شازمہ نے گاڑی کو روکا نہیں اور مسلسل چلاتی رہی۔
دیوار آہستہ آہستہ خود ہی غائب ہوتی گئی۔
شازمہ کے ماتھے پر پسینہ چھوٹ گیا۔ ٹشو سے اس نے پسینہ صاف کیا۔
سامنے گھر نظر آیا۔ بابا جی نظر نہ آئے۔
شازمہ نے سوچا وہ سونے چلے گئے ہوں گے۔
بچوں کو تو خوف سے گاڑی سے سامان نکالنا بھی یاد نہ رہا۔
شازمہ بھی سوچنے لگی کہ صبح نکال لے گی۔
بچوں کو لیکر جلدی سے اندر آئی۔
پھولے سانس کے ساتھ پانی پیا تو قدرے اوسان بحال ہوئے۔
بچوں کو لیکر کمبل میں لیٹ گئی۔ بچے تھکے ہوئے تھے جلد سو گئے۔ وہ بھی سو گئی۔ آدھی رات کو آنکھ کھلی تو لائٹ چلی گئ تھی۔ اس نے یہاں ups بھی نہیں لگوایا تھا کہ عارضی طور پر ادھر رہنا ہے۔
موبائل کی بیٹری آن کر کے لیٹ گئی۔ شازمہ سوچنے لگی کہ شادی سے پہلے وہ اور اسکا بھائی کتنے خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے۔
شازمہ کے والد کی جاب کی وجہ سے مختلف شہروں میں پوسٹنگ ہو جاتی۔ وہ لوگ پرانے لوگوں سے جدا ہوتے وقت اداس ہوتے اور نئی جگہ نیے لوگ مل جاتے۔
باپ کے ریٹائرڈ ہونے پر ایک پرانا گھر جلدی میں اس کے باپ نے خرید لیا کہ بعد میں نیا بنا لیں گے۔ دادا دادی فوت ہو چکے تھے۔ آبائی گھر بند پڑا تھا۔
دانیال کے والدین دوبئی شفٹ تھے۔
شازمہ کے بھائی کی شادی کے بعد اس کی شادی دانیال سے کر دی گئی۔
دانیال کے والدین جلد فوت ہو گئے تھے۔ شازمہ اور دانیال پاکستان شفٹ ہو گئے۔
شازمہ کے بھائی عدیل نے گھر نیا تعمیر کر لیا تھا۔
شازمہ دیر تک جاگتی اور ڈرتی رہی کیونکہ موبائل بھی چارج نہ تھا اور اس کی بیٹری بھی ختم ہو چکی تھی۔
ڈرتے ڈرتے سو گئ تھی۔
شازمہ والدین کو یاد کر کے روتی رہی۔ دونوں اس کی شادی کے بعد ہی جلد ہی وفات پا چکے تھے۔
دانیال اکثر اسے کہتا، کہ شازمہ ایک تمہارے بھائی کا گھر اس کے علاوہ ہمارا کون ہے اس دنیا میں۔
تمہارے بھائی کا تو سسرال بھی بڑا ہے سالیاں ہیں، ساس سسر ہیں۔ میرے تو وہ بھی نہیں ہیں۔
شازمہ بھائی کو جانتی تھی کہ شادی کے بعد وہ بیوی کا دیوانہ بن کر رہ گیا ہے جو وہ کہتی ہے وہی کرتا ہے۔
ایک ہفتہ گزر چکا تھا وہ بھائی کے فون کا انتظار کر رہی تھی مگر اس کا فون نہ آیا اور وہ ڈھیٹ بن کر بچوں کی خوشی کے لیے خود ہی فون کر بیٹھی۔
بھائی نے جب بتایا کہ انہیں آئے چار دن گزر گئے ہیں اور ان کی سالیاں بھی ساتھ آئی ہوئی ہیں وہ مری گھومنے پھرنے آنا چاہتی ہیں۔ کل صبح ہم سب تمہارے گھر آئیں گے۔ اور شام تک واپسی ہے۔
شازمہ کو بھابھی کی بہنوں کی عادات بھی پسند نہ تھیں اور اسکا بھائی ان کو بہت اہمیت دیتا تھا۔
شازمہ نے بچوں کو بتایا، وہ بہت خوش ہوئے اور ماں کی ہیلپ کرنے لگے۔
شازمہ انہیں لیکر مارکیٹ چلی گئی۔ اور دعوت پکانے کا سامان جلدی سے لیکر بچوں کو چلنے کا کہا کہ وقت نہیں ہے۔
وہ کل کی تیاری میں لگ گئ۔ شام کو بچوں کو پڑھا بھی نہ سکی۔
بابا جی گفٹس دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ اور بہن کو دینے چل پڑے تھے۔
شازمہ نے ان کا موبائل آن کر کے سکھا دیا تھا اس کو حیرت ہوئی کہ وہ سب جانتے تھے۔
بھائی لوگ آے، کھایا پیا۔
شازمہ کافی تھک چکی تھی۔
ان لوگوں نے خوب شاپنگ کی۔ سب بل شازمہ کا بھائی دیتا رہا۔
اسامہ اور یامین کی کسی چیز کا بل بھائی نے دیا تو بھابھی نے قہر بھری نظروں سے ان کو دیکھا۔
شازمہ کو دلی دکھ محسوس ہوا کہ اس کی بہنیں کھلی شاپنگ کرتی رہیں اور بل بھائی دیتا رہا اور بھابھی خوش ہوتی رہی۔
اس نے تو ان لوگوں کے ساتھ ہی پنڈی جانا تھا مگر بھابھی نے باتوں باتوں میں جتلا دیا کہ جب تک اس کی بہنیں ہیں وہ ابھی نہ آئے کہ رومز کی کمی ہے۔
حالانکہ اتنا بڑا گھر تھا ایک کمرہ اس کو مل سکتا تھا۔ اور اس کی صرف دو بہنیں تھیں جو ایک روم میں سو سکتی تھیں۔
بھائی نے شازمہ سے پوچھا، تم نے کچھ اپنے لیے نہیں خریدا۔
اسے بھائی کے پوچھنے پر خوشی محسوس ہوئی۔ اس نے کہا،میں تو روز ادھر آتی جاتی ہوں جب جی چاہا خرید لوں گی۔
شازمہ بھابھی کی کوئی بات بھائی کو نہیں بتاتی تھی کہ وہ آپس میں خوش رہیں۔
بھائی نے چلتے وقت اس سے پوچھا، تم کیوں نہیں جا رہی تو وہ بہانہ کر گئی۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد اس کی پڑوسن گھر میں جاتی نظر آئی۔
شازمہ نے بچوں کو لیا اور اس کی ساس کا افسوس کرنے اس کے گھر گئ وہ بہت خلوص سے ملی۔ کافی آو بھگت کی۔ اس کے دونوں بچوں کی شادیاں ہو چکی تھیں وہ ملک سے باہر رہتے تھے وہ بھی جانے والی تھی کچھ دنوں تک۔ گھر اس نے سیل کر دیا تھا۔
شازمہ اس کے جانے کا سنکر افسردہ ہو گئی۔
بھائی کے گھر جانے کا بھی سکوپ نہ تھا وہ کدھر جاتی۔
اس نے بابا جی کی بہن سے ملنے کا ارادہ کر لیا۔
پڑوسن نے اسے بتایا کہ یہاں پہلے جو چوکیدار رہتا تھا اب فوت ہو چکا ہے وہ ادھر چلے کاٹتا تھا۔ سنا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی کمر پر پنجے کا نشان تھا۔
شازمہ گھر آ کر بھی ڈرتی رہی بھائی نے اس کے گھر کا بتایا تھا کہ ابھی دو ماہ سے زیادہ عرصہ لگے گا مکمل ہونے میں۔
شازمہ گھر آ کر روتی رہی۔ اسی نے ضد کی تھی ادھر رہنے کی۔ ورنہ دانیال تو اسے سیل کرنا چاہتا تھا کہ اب ہمارا ادھر کون ہے۔
شازمہ دن کو تھکی ہوئی تھی زرا دیر کو لیٹی۔
اسامہ نے کہا، ماما کیا ہم چھت پر چلے جائیں۔
وہ نیند کی آغوش میں تھی۔ حالانکہ پڑوسن نے بتایا تھا کہ بچوں کو چھت پر مت جانے دینا۔ مگر اس نے نیند میں ہاں کہہ دیا۔ اور خود گہری نیند سے سو گئی۔
اچانک اسے بچوں کے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔
وہ گھبرا کر اٹھی۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لائک ،کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔
شعر
حسین خواب آنکھوں میں سجاتے سجاتے
تعبیر کے شوق میں وقت گزرتا چلا گیا۔
#abidazshireen #شاعرہ_عابدہ_زی_شیریں
#اف_وہ_لرزتے_لمحات
#رائٹر_عابدہ_زی_شیریں
#abidazshireen
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.