Back to Novel
Uff Woh Laraztay Lamhaat
Episodes

اف وہ لرزتے لمحات 9

Episode 9

شازمہ نے ہمت کر کے سلام کیا، وہ پریشان ہو کر بولی، بچے کیوں چیخ رہے ہیں۔


شازمہ نے تھوک نگلتے ہوے خوفزدہ لہجے میں پوچھا، آپ لوگ تو باہر ملک چلے گئے تھے۔


پڑوسن نے کہا، ہاں جانا تھا مگر کرونا کی وجہ سے سیٹ کینسل ہو گئ۔ اب تو بچے بھی پاکستان شفٹ ہو رہے ہیں۔


شازمہ کی جان میں جان آئی۔


بچے بھی چپ چاپ اس کی باتیں سننے لگے۔


وہ  بچوں کے قریب آئ، انہیں پیار کیا اور بولی، بچوں شکر ہے تم لوگ واپس آ گئے ہو۔ میں نے آپ لوگوں کو بہت مس کیا۔


بچے بھی اس کی باتوں سے بہل گئے اور بہت خوش ہوئے۔


چوکیدار بابا کا شازمہ نے پڑوسن سے پوچھا کہ وہ کب یہاں سے گئے تھے۔


پڑوسن نے بتایا کہ آپ لوگوں کے جاتے ہی ہم واپس آ گئے تھے تو جس دن آپ گئے تھے اسی دن بابا جی چلے گئے تھے اور اب واپس آئے ہیں۔


شازمہ کو دل میں بہت غصہ آیا۔


اس نے پڑوسن سے کافی باتیں وغیرہ کیں۔


شازمہ کو جب دانیال کا جب فون آیا تو دانیال نے حیرت سے پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیوں واپس آ گئ۔ ابھی تو تمہاری بھتیجی پوری طرح ٹھیک بھی نہیں ہوئی۔ اس کے پاس رہتی۔


شازمہ نے دانیال کو روتے ہوئے بتایا کہ اس نے بھابھی کی ہر کڑوی بات سہی۔ اس کے ناروا سلوک کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا مگر جب وہ اپنی بیٹی کو یہ بتاتے ہوئے پچھتا رہی تھی کہ وہ مجھ سے اور میرے بچوں سے بہت شدید نفرت کرتی تھی تو اس وقت سے اسکا دل بھابھی اور اس کے بچوں سے اچاٹ ہو گیا۔ میری حد تک نفرت تو ٹھیک تھی ہم نند بھابھی کا رشتہ تھا مگر میرے بچوں نے اسکا کیا بگاڑا تھا۔ میں اس کے بچوں سے شدید پیار کروں اور وہ میرے بچوں سے شدید نفرت۔


دانیال نے اسے کول کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا،دیکھو میری بھولی بیوی، تمہاری بھابھی کی جس اطوار پر پرورش ہوئی ہے وہاں یہ دستور رہا ہے کہ جتنا ہو سکے دوسروں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔


کوئی پیدائشی برا نہیں ہوتا۔


اب اسے اچھے لوگوں میں رہ کر احساس ہو گیا ہے جب اپنی اولاد پر بنی۔ تو کوئی بات نہیں، ہمارا اس گھر کے علاوہ اور ہے ہی کون ہے۔ بس اب اسے معاف کر دو اور اپنا دل اس کی طرف سے صاف کر لو، آخر وہ تمہاری بھابھی ہے کوئی غیر تو نہیں۔ دیکھو تمہارے اچھے سلوک نے اسے راہ راست پر لا دیا۔


شازمہ سانس بھر کر بولی، ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی مگر ابھی اتنی جلدی ممکن نہیں ہے۔


شازمہ لیٹنے لگی بچے سو چکے تھے۔ شازمہ نے سوچا، کھڑکی کے پردے برابر کر دے۔ گھر کے باہر کی لائٹ وہ جلا کر رکھتی تھی۔ اس نے پردے سیدھے کیے اور آنکھیں موند کر لیٹ گئی۔


ابھی لیٹی ہی تھی کہ اسے ہلکی ہلکی چھن چھن کی آوازیں آنے لگیں اس نے ڈر کر کمبل کے اندر منہ کر کے ورد شروع کر دیا اور نیند کی آغوش میں چلی گئی۔


شازمہ کو اب گھر تعمیر کرنے والا ٹھیکیدار فون پر اس کی مرضی کا کام کرواتا۔ وہ وڈیو کال پر اس کو ٹاہلز اور ہر چیز دیکھاتا اور اس کی پسند سے کام ہوتا۔


ٹھیکیدار نے بتایا کہ اس کے بھائی بھی اب کافی چکر لگاتے رہتے ہیں اور کافی کام میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کے لئے کھانا پانی بھی مہیا کرتے رہتے ہیں اور بہت اچھا رویہ رکھتے ہیں۔


شازمہ کو سنکر خوشی ہوئی۔


شازمہ ناشتے کے بعد اکثر بچوں کو مال روڈ پر لے جاتی۔ شاپنگ کرواتی اور شام سے پہلے واپس آ جاتی۔ کھبی پڑوسن بھی ساتھ چلی جاتی۔


اس کے بچے پاکستان سے آ گئے تھے مگر انہوں نے شہر میں رہائش اختیار کی۔


پڑوسن ان سے ملنے چلی جاتی مگر وہاں مستقل نہ رہتی۔


شازمہ نے بچوں کو پڑھاتے ہوئے پوچھا کہ اس نے واش روم میں داخل ہونے کی جو دعا یاد کروائی تھی اسے پڑھ کر اندر جاتے ہو ناں۔


اسامہ نے کہا، سوری ماما میں بھول گیا تھا۔


یامین جوش سے بولی، ماما میں کھبی کھبی پڑھتی ہوں۔


شازمہ نے کہا شاباش، مگر بچو یاد رکھو، واش روم ایسی جگہ ہے جہاں شیاطین کا بسیرا ہوتا ہے۔ جب ہم دعا پڑھ لیتے ہیں تو ان سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔


دعا یاد سے پڑھ کر جایا کرو۔


اسامہ نے کہا، ماما کیا اسے ہم واش روم کے قریب دیوار پر لکھ کر لگا دیں تاکہ یاد رہے۔


شازمہ نے کہا، ہاں یہ ٹھیک ہے۔


دعا کیا ہے زرا سناو۔


نیٹ پر دیکھ لینا، بہت چھوٹی سی دعا ہے۔


بچے باہر کھیل رہے تھے۔ باباجی سامنے کرسی ڈال کر بیٹھے ہوئے تھے۔


شازمہ انہیں چاے دے کر آئی اور ساتھ تاکید کی کہ اگر آپ نے ادھر سے جانا ہو تو بچوں کو اندر بھیج دینا۔


بھائی اور بھابھی بچوں سمیت صبح صبح اچانک پہنچ گئے۔


شازمہ کے لیے بھابھی سوٹ، اور بچوں کے لیے کھلونے لائ۔


شازمہ بچوں سے نارمل رہی، پہلے کی طرح گرمجوشی والا پیار نہ جتایا۔


بھائی، بھابھی سے بھی وہی رویہ رکھا۔ گفٹ کا بھی کہہ دیا کہ کیا ضرورت تھی۔ ہلکہ سا شکریہ ادا کیا۔


بھابھی نے جوش میں کہا، ہم تم لوگوں کو ادھر سے لینے آئے ہیں تم لوگ اس جنگل میں ویرانے میں کیا کر رہے ہو۔


آجکل عورت کا اس ویرانے میں اکیلا رہنا محفوظ نہیں ہے۔


شازمہ نے جانے سے صاف انکار کر دیا۔


اسامہ نے اکیلے میں ماں کو سمجھانے کی کوشش کی، اور اپنے باپ کو بھی چپکے سے میسج کر دیا۔


دانیال کا فون آ گیا وہ بھی سمجھانے لگا مگر اس نے جانے سے انکار کر دیا۔


بھائی دو تین دن کی چھٹیوں پر تھا۔


وہ لوگ مال روڈ پر گھومنے پھرنے بھی گئے۔ لفٹ پر بھی بیٹھے۔ بچے بہت خوش ہو رہے تھے۔


رات کو وہ لوگ لیٹ واپس لوٹے تو بھابھی نے شازمہ سے پوچھا، اتنے ویرانے میں رات کو اکیلے آنا ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے تو بہت خوف آ رہا ہے۔ توبہ توبہ۔


درختوں کی خاموشی میں بھی ایک ہیبت ہے۔


شازمہ بولی، اب عادت سی ہو گئی ہے۔


رات لیٹ نائٹ وہ لوگ فارغ ہوئے اور سونے لیٹ گئے۔


سارا دن کے تھکے ہوئے تھے سب سو گئے۔


آدھی رات کو بھابھی کو کسی کی سرگوشیوں کی آوازیں آئیں۔ وہ سخت نیند میں تھی پھر اسے ہلکی ہلکی گھونگھرو کی آوازیں آنے لگیں۔


بھابھی ڈرنے لگی مگر سخت تھکی ہوئی تھی نیند میں بھی تھی ڈرتے ڈرتے سو گئی۔


صبح ناشتے کی میز پر اس نے کہا کہ مجھے تو رات کو بہت ڈر لگنے لگا جب ڈراونی خواب آنے لگے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب حقیقت میں ہو رہا ہے۔ کھبی گھونگھرو کی آوازیں، کھبی سرگوشیوں کی آوازیں۔ میں تو بہت ڈر گئی ہوں۔


اس کی بیٹی بولی، مام مجھے بھی ایسا ہی کچھ لگ رہا تھا میں بھی بہت ڈر گئی تھی۔


بھابھی نے شوہر سے کہا، بس آج ہم واپس جا رہے ہیں۔ اس کی بیٹی نے بھی ہاں میں ہاں ملائ۔


شازمہ نے کہا، کچھ نہیں ہوتا وہم ہے آپ کا۔


مگر وہ شوہر کے سمجھانے پر بھی نہ مانی۔


وہ لوگ شازمہ اور اس کے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر شازمہ نے کہا، میں نے ویسے بھی ادھر ہی آنا ہے مجھے اس جگہ سے بہت لگاؤ ہے اس لیے میں زیادہ وقت ادھر گزارنا چاہتی ہوں۔


بھابھی نے کہا، پھر ہمارے ساتھ گھومنے چلو، شام کو ہم ادھر سے ہی واپس چلے جائیں گے اور تم ادھر واپس آ جانا۔


وہ سب گھومتے پھرتے اور انجوائے کرتے رہے۔


چئر لفٹ پر بیٹھے، ڈرتے بھی رہے مگر انہیں مزہ بھی آیا۔


شازمہ نے جلدی ڈالی کہ وہ مغرب سے پہلے واپس جانا چاہتی ہے کیونکہ چوکیدار بابا کو مغرب کے بعد فوراً کھانا دینا ہوتا ہے۔ اس نے انہیں کچھ نہیں بتایا کہ اس کے ساتھ کیا واقعات پیش آئے ہیں۔


جاتے جاتے اسے مغرب ہو گئی۔ وہ گھر کی طرف تیزی مگر احتیاط سے گاڑی چلا رہی تھی۔


بچے کافی تھک چکے تھے اور نیند میں جاتے جا رہے تھے۔


سڑک ویران تھی۔


اچانک اسامہ نے گاڑی سے باہر دیکھا تو ماں سے بولا، ماما وہ کالے برقعے والی عورت بیچ سڑک میں کیوں چل رہی ہے۔


شازمہ جو دل میں تیز تیز آیات پڑھ رہی تھی۔ اونچی آواز میں پڑھنے لگی۔


اسامہ خوف سے ماں کو دیکھنے لگا۔


ماں نے اشارے سے آیات پڑھنے کا کہا، اسامہ زور زور سے کلمہ طیبہ پڑھنے لگا۔


یامین جاگ چکی تھی۔ زور زور سے روتے ہوئے کلمہ پڑھنے لگی۔


شازمہ نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔


آہستہ آہستہ وہ عورت لمبی ہونے لگی۔


بچے خوف سے چلانے لگے۔


شازمہ نے گاڑی نہ روکی، تو زن کر کے اس کے پاس سے تیزی سے گزار دی۔


ان سب نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔


سامنے بابا جی ٹہل رہے تھے۔


شازمہ نے سوچا انہیں بھوک لگی ہو گی۔ وہ کھبی کبھار ان کے لیے برگر  بھی لے آتی تھی۔ وہ شوق سے کھا لیتے تھے۔


اسامہ اور یامین تیزی سے سلام کر کے گھر کے اندر چلے گئے۔


شازمہ نے پرس اور سامان گاڑی سے نکالا اور بابا جی کو مخاطب کر کے معزرت کرتے ہوئے بولی، سوری بابا جی زرا لیٹ ہو گئی، میں ابھی برگر گرم کر کے آپ کو بھیجتی ہوں۔ سامان اٹھائے اس نے گاڑی کو لاک کیا تو اسے باباجی کی آنکھیں عجیب سی لگیں۔


وہ اس کی طرف بڑی غور سے دیکھ رہے تھے۔


شازمہ کی چھٹی حس نے الارم بجایا۔ اس نے دیکھا، بابا جی کا سر کافی بڑا لگ رہا تھا۔


شازمہ تیزی سے اندر بھاگی۔


اتنے میں پڑوسن کا فون آ گیا۔ جسے سنکر وہ حیرت زدہ رہ گئ۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لائک ،کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔


شعر۔


ہمارا تم پر فدا ہونا ایسے تو  نہیں  جاناں 


 تم میں جو بات ہے کسی اور میں کہاں۔


#شاعرہ_عابدہ_زی_شیریں #abidazshireen


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.