Back to Novel
Gar Na Main Tera Deewana Hota
Episodes

گر نہ میں تیرا دیوانہ ہوتا 3

Episode 3

سب پریشان ابا جان کے کمرے میں کھڑے تھے اور شاہ رخ انہیں پانی پلا کر تسلی دے رہا تھا۔

اتنے میں زویا کی ماں کا فون بجا تو وہ ہیلو کرتی کمرے سے باہر آ کر شوہر کو بتانے لگی کہ زویا کے چچا کا فون آیا تھا ان کی بیوی کو کینسر ہو گیا ہے اور لاسٹ اسٹیج ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اسے پاکستان لے چلو، وہ یہاں نہیں مرنا چاہتی۔ کل وہ لوگ آ رہے ہیں۔

زویا ماں کے پاس اس کے روم میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔

اس نے ماں سے سوال کیا موم آپ نے بتایا نہیں کہ چچا نے چچی سے کیسے شادی کی اور سانولی سی معمولی سی شکل وصورت والی بھتیجی کو کیوں اڈاپٹ کیا؟ حالانکہ اس کی اور بہنیں تو پیاری ہیں۔

ماں نے کہا بس یہ سب سے بڑی تھی اور ان کا بھائی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اس لیے اس نے بیوی کو منا کر پہلی اولاد دینے کا وعدہ کر لیا۔ بیوی بھی تمھاری چچی کی کزن اور دوست تھی۔

زویا نے بےچینی سے پوچھا، اور شادی کیسے ہوئی موم، یہ تو بتائیں۔

ماں نے کہا، یہ تمہارے چچا کی کلاس فیلو تھی اور گرین کارڈ ہولڈر تھی۔ بس دونوں میں دوستی ہوئی اور تمہارے چچا شادی کر کے اس کے ساتھ امریکہ چلے گئے۔

ابا جان نے پھر اس کاروبار کو سنبھال لیا اور اسے وسیع کیا۔

زویا اٹھتے ہوئے بولی، اوکے موم میں جارہی ہوں مووی دیکھنے۔

ابا جان نے شاہ رُخ کی ڈیوٹی لگا دی کہ ان کی بیمار بہو کو ہاسپٹل لے کر جانا مکمل علاج کروانا سب تمہارے زمے ہے۔

زویا کے چچا کی فیملی پہنچ چکی تھی۔

شاہ رخ نے اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے بنھائ تو زویا کی چچی اس سے بہت خوش اور متاثر ہوئی۔ان کی بیٹی جویریہ بہت سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔

ابا جان بیٹے کو جویریہ کی تعریف کرتے ہوئے بولے، تم جیسے لاابالی شخص نے بیٹی کی تربیت خوب کی ہے۔

زویا کے چچا نے سر جھکا کر شرمندگی سے کہا، اباجان میں بے شک لاابالی تھا مگر یہ سب میری بیوی کا کمال ہے جس نے مجھے بھی راہ راست پر لگا دیا اور بیٹی کو بھی امریکہ جیسے شہر میں بھی اسلامی اطوار سے تربیت کی۔ جیری میری بیٹی بہت نیک شریف اور صوم وصلات کی پابند ہے۔ مجھے تو اس سے بہت لگاو ہے میرے جینے کا سہارا ہے میری بیٹی۔ وہ پیار بھرے انداز میں بولے۔

ابا جان بولے، شکر الحمد للہ کہ تمہارے منہ سے ایسی باتیں سنی ہیں ورنہ مجھے تو ڈر تھا کہ تم بیٹے کی خواہش کے لیے کہیں دوسری شادی نہ کرتے رہو۔ححالانکہ تم رہتے بھی امریکہ میں تھے۔

زویا کے چچا نے کہا، میں مانتا ہوں پاکستان میں بیٹے کی خواہش کے پیش نظر اکثر مرد دوسری شادی کرنے لگتے ہیں۔ مگر میری شریک حیات نے مجھے اکثر سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے جو دے چاہے کسی کو نہ دے، اس میں عورت کو سزا دینا گناہ ہے۔ اس کا کیا قصور۔

اور ویسے بھی بیٹے اور بیٹی کو برابر ہی سمجھنا چاہیے، فرق نہیں رکھنا چاہیے۔ بیٹی تو بہت پیاری ہوتی ہے جو والدین کی ہمدرد ہوتی ہے۔

شاہ رُخ کی ماں زویا کی چچی کی بہت تیمارداری کرتی۔ وہ اس سے بہت خوش تھی۔ شاہ رُخ کی ماں زویا کے چچا کے سامنے آنے سے کتراتی۔

چچا بھی کھنکھار کر آتے۔

جویریہ شاہ رُخ کی ماں کے ساتھ عزت سے پیش آتی۔ اسے آنٹی پکارتی۔

زویا کی چچی چاہتی کہ وہ جویریہ کے فرائض سے جلد فارغ ہو جائے اور اس کی شادی کر دی جائے۔

جویریہ ان کے بھائی کی بیٹی تھی اس کی دو بہنیں اور تھیں بھائی کوئی نہ تھا۔ دونوں چھوٹی بہنوں کو جب علم ہوا تھا کہ جویریہ ان کی بہن ہےتو وہ بہت خوش ہوئی تھیں۔

جویریہ کو جب علم ہوا کہ وہ ان کی سگی اولاد نہیں ہے اس وقت وہ میٹرک کی سٹوڈنٹ تھی۔

زویا کے چچا چچی نے روتے ہوئے کہا کہ تم چاہو تو ہم تمہیں والدین کے پاس بھیج دیتے ہیں ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتے۔ ادھر جویریہ کے والدین نے اسے کہا، کہ ہمارے پاس تو دو بیٹیاں موجود ہیں ان کا تو تم ہی دہارا ہو۔ وہ تمہیں پیدا ہوتے ہی ہماری اجازت سے لے گئے تھے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب جویریہ سن شعور کو پہنچے گی تو ہم خود اسے حقیقت بتا دیں گے نہ کہ اسے کسی اور سے علم ہو اور اسکا زہن بھٹک جائے۔ اور پھر اگر وہ واپس والدین کے پاس رہنا چاہے تو ہم زبردستی نہیں کریں گے۔

جویریہ نے روتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے میری تربیت اس طرح سے کی ہے کہ آپ لوگ بھی مجھے والدین کی طرح عزیز ہیں اور میں اپنے والدین اور بہنوں کو بھی ان کو بیٹی اور بہن کا حق دینا چاہتی ہوں۔ میں ہمیشہ آپ لوگوں کے پاس ہی رہوں گی۔

انہوں نے خوشی سے روتے ہوئے اسے گلے لگا لیا۔

اس کے والدین اور بہنیں زویا کی چچی کو دیکھنے آتی رہتی۔

جویریہ بھی بہنوں سے پیار کرتی اور وہ بھی اسے آپی کہتیں۔ رابطے میں رہتیں۔

ماں باپ بھی نارمل رہتے اسے باور کراتے کہ تم پہلے ان کی بیٹی ہو بعد میں ہماری۔

زویا کی چچی نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ شاہ رُخ اور اس کی ماں کو بہت پسند کرتی ہے اور جویریہ کا رشتہ شاہ رُخ سے کرنا چاہتی ہے۔

زویا کے چچا نے چیخ کر کہا تم جانتی ہو کیا کہہ رہی ہو۔ ہم اپنی شہزادی کی شادی ایک ملازمہ کے بیٹے سے کریں ایسا کھبی سوچنا بھی مت۔ وہ یہ کہہ کر غصے سے باہر نکل گئے۔

جویریہ کی ماں دکھ سے سوچنے لگی کہ کاش وہ ان کے خیالات بدل سکتی۔

باہر کھڑے شاہ رُخ کو دیکھ کر چچا ایک حقارت کی نظر ڈال کر چل پڑے۔

شاہ رُخ کو بہت دکھ پہنچا۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے اپنے کوارٹر کی طرف چل پڑا۔

جب کوارٹر پہنچا تو آگے جویریہ ان کے کوارٹر میں اس کی ماں کے ساتھ بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی۔

جویریہ نے اسے پریشان دیکھا اور اٹھ کر کمرے سے باہر آ گئی۔

اندر شاہ رُخ روتے ہوئے ماں سے گلہ کرنے لگا کہ ماں کیا غریب ہونا جرم ہے کیا۔ پھر اس نے ساری بات ماں کو بتائ۔

جویریہ جو باہر کھڑی سن رہی تھی اندر آ گئی۔

جاری ہے۔

پلیز اسے لائک ،کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔

شعر۔

جیسے دیکھ کر دھڑکنیں رقص کریں

وہ خوشی و دل کا ساز ہو تم

دل دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھے

اسی دل کا اعلیٰ انتخاب ہو تم۔

#شاعرہ_عابدہ_زی_شیریں #abidazshireen


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.