گر نہ میں تیرا دیوانہ ہوتا 9
Episode 9
ابا جان نے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں ہی جاہیداد وارثوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
شاہ رُخ کا باپ ایک دم حیران ہو کر اونچی آواز میں بولا، کیا مطلب تقسیم کرنا چاہتے ہیں آپ شہر میں شفٹ ہونے سے پہلے ہی یہ کام کر چکے ہیں۔
اباجان پہلو بدل کر بولے، وہ سب تو ٹھیک ہے مگر زویا کا باپ تمہارا بڑا بھائی ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ کتنی سادہ طبیعت کا مالک ہے۔ تم اپنا حصہ ایک دن لے کر الگ ہو جاو گے پھر اس کی اور اس کی فیملی کی گزر اوقات کیسے ہو گی اس کا بھی تو کچھ سوچنا ہے ناں۔
میں جانتا ہوں تمہاری خواہش اور ضد پر میں نے گاوں کی تمام جاہیداد بیچ کر خاندان کے طعنوں کا بھی شکار ہوا۔
اس زمین کے آدھے آدھے پیسے میں نے تم دونوں بھائیوں کو دے دیے۔
شاہ رُخ کا باپ قدرے غصے سے بولا، ابا جان بھابھی نے وہ تمام رقم لے لی مگر یہ گھر اور فیکٹری سب میں نے بیوی کو کچھ وراثت میں ملی جاہیداد اور کچھ لون لے کر کھڑی کی۔ بھائی نے ایک روپیہ بھی نہ لگایا۔ بلکہ مجھے ضرورت تھی تو بھائی نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ رقم تمہاری بھابھی فکس کروا چکی ہیں۔ اب انکا حصہ کہاں سے بنتا ہے۔ میں جانتا ہوں آپ باپ کی حیثیت سے بیٹے کے لیے فکرمند ہیں تو اسکا حل بھی میں نے سوچا ہوا ہے۔ بھابھی کب سے پارلر کھولنے کی خواہش کر رہی ہیں۔ بھائی سے تو کچھ ہونا نہیں اس لئے بھابھی کو اس ایریے میں اچھا سا پارلر کھول کر دوں گا۔ ویسے بھی ادھر کوئی پارلر نہیں ہے۔ خوب چلے گا انشاءاللہ۔
اور زویا کی شادی دھوم دھام سے کروں گا چاہے میرے بیٹے کے ساتھ ہو یا کہیں اور۔
ابا جان ایک سرد آہ بھر کر بولے ٹھیک ہے بیٹا۔
شاہ رُخ کے والد نے گھر کے قریب مارکیٹ میں بہت اچھا پارلر کھولنے کا کام شروع کر دیا۔ وہ زویا کے ساتھ ملکر اس کام کو انجام دے رہا تھا۔ زویا اپنی پسند سے کام کروا رہی تھی وہ بہت خوش تھی اس کی ماں بھی بہت خوش تھی کیونکہ اسکا درینا خواب پورا ہو رہا تھا۔ کیونکہ اس نے پارلر کا کورس کیا ہوا تھا مگر پارلر کھولنے کی اس میں جرات نہیں تھی۔ اس نے اسی شوق کے پیش نظر بیٹی کو بھی سیکھنے پر مجبور کیا تھا۔ وہ اکثر نیٹ سے بھی سیکھتی رہتی تھی اور ماں کے شوق ابھارنے پر دونوں ماں بیٹی ہر وقت میک اپ میں رہتیں۔ انکا تو مشہور تھا کہ یہ تو کسی فوتگی پر بھی جائیں تو میک اپ کر کے جاتیں ہیں۔
ابا جان نے کھبی انکو کسی فیشن سے منع نہیں کیا تھا۔ زویا پینٹ شرٹ میں ملبوس رہتی۔ گھر میں دوپٹہ بلکل نہ کرتی۔
ابا جان نے فقط اتنا کہا تھاکہ باہر نکلو تو چادر کر کے نکلو۔ جبکہ وہ جویریہ کو دیکھتی کہ وہ سادہ اور پروقار لباس میں ہوتی۔
زویا ہر وقت شاہ رُخ کے آگے پیچھے پھرتی۔ اس کے لیے نئی نئ نیٹ سے دیکھ کر ڈشیں تیار کرتی۔ اس نے سنا تھا کہ دل جیتنے کے لیے اچھے لزیز کھانے کھانے پڑتے ہیں۔ وہ دھتکار دیتا۔ وہ اس کے روم میں صبح تیاری میں مدد کرنے کی کوشش کرتی۔ اس کے کپڑے نکالتی اس کا والٹ، موبائل، اور گاڑی کی چابی دیتی تو وہ آہینے کے سامنے ٹائ باندھتے ہوئے کہتا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ صبح صبح اپنی شکل مت دیکھایا کرو۔
وہ ماہئڈ نہ کرتی اور شوخی سے کہتی، ارے ایسی خوبصورت شکل والی منگیتر نصیب والوں کی ہوتی ہے۔
وہ ڈھٹائی سے کہتا، میں شکل سے زیادہ سیرت کو اہمیت دیتا ہوں، جو تم میں سرے سے ہی نہیں ہے۔
وہ روہانسی ہو کر کہتی۔ کوشش تو کرتی ہوں ناں۔ دیکھو میں نے شلوار قمیض بھی پہننا شروع کر دیا ہے تمہیں میرا وہ ڈریس پسند نہ تھا ناں۔ میں نے بال بھی بڑھانے شروع کر دیے ہیں تمہیں لمبے بال پسند تھے ناں۔
وہ رعونت سے کہتا، جو مرضی کر لو جویریہ جیسی نہیں بن سکتی تم۔
وہ ہر بات میں جویریہ کی مثال دے کر اسے جلاتا۔
وہ دکھی آہ بھر کر رہ جاتی۔
زویا کی کلوز فرینڈز جو اس کی ہر بات سے واقف تھی اکثر کہتی، زویا تم لاکھ کوشش کرو جب تک جویریہ کی شادی نہیں ہو جاتی تمہیں اس طرح ہی ستاتا رہے گا۔ میرا ماننا ہے کہ شادی اس سے کرنی چاہیے جو آپ کو دل سے چاہتا ہو قدر کرتا ہو۔
زویا بولی، تم اسی لیے اس سے شادی کر رہی ہو جو تم پر مرتا ہے مگر تم نہیں۔
زویا کی فرینڈ بولی، میں شادی کے بعد اس کی محبت میں ہار کر اس سے پیار کرنے لگوں گی۔ ابھی اس طرح کے روگ تم ہی پالو اور دکھی رہو۔
زویا بےبسی سے بولی، کیا کروں یار اس کی دونوں چھوٹی بہنوں کی ایک ہی گھر میں جلدی سے شادی ہو گئی مگر یہ کہتی ہے کہ وہ شادی نہیں کرے گی ماں باپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔
ادھر بھی فکر میں شاہ رُخ کے باپ کی خدمت کرنے لگ جاتی ہے۔ انکا کمرہ باریکی سے صاف کرواتی ہے ان کے کپڑے الماریوں میں دھلوا کر رکھتی ہے۔
اس کی فرینڈ بولی یار شاہ رُخ کی ماں اب یہ کام نہیں کرتی کیا؟
زویا اکتائے ہوئے لہجے میں بولی کہاں یار اب تو وہ اس گھر کی ملکہ ہے۔ گرینڈ پا، چچا جان اور شاہ رخ یہ سب اس کو کوئی کام نہیں کرنے دیتے۔ اس نے اس گھر کو پوتا جو نوازا ہے۔ میری اور میری موم کی بھی اب جرات نہیں ہے کہ اس کو کوئی کام کروا سکیں۔ بلکہ موم تو اب اس کی خوشامد میں لگی رہتی ہیں کہ ہم اس گھر میں رہ سکیں۔ کیونکہ یہ سب عیش و عشرت چاچو کے دم سے ہے۔ سب کچھ انکا ہے۔ شروع میں موم نے لالچ کیا اور چاچو کو رقم نہ دی بہانہ کر دیا کہ وہ فکس کروا دی ہے۔ اور فکس نہیں کروائی تھی سب عیاشی میں لگا دی۔ میں بھی اس وقت موم کی باتوں پر چلتی تھی۔
شاہ رُخ کے باپ نے دیکھا، شاہ رُخ ٹی وی الاونج میں بیٹھا موبائل دیکھ رہا تھا جبکہ زویا اس کی دور بیٹھی خوش ہو کر فوٹو لے رہی تھی۔
بند کرو میری فوٹو لینی۔ وہ چلا کر بولا، اتنے میں جویریہ کمرے میں داخل ہوئی اس نے بھی سن لیا اور زویا کو شرمندگی محسوس ہوئی اور غصہ بھی آیا وہ جویریہ کو نظرانداز کرتی غصے سے چل پڑی۔
شاہ رُخ نے نفرت سے کہا، اس لڑکی کو ماحول خراب کرنا خوب آتا ہے۔
زویا نے سن لیا، اسے رہ رہ کر جویریہ پر غصہ آ رہا تھا کہ اس کے آنے سے سب خوش ہو جاتے ہیں اور وہ لاکھ شاہ رُخ کے والدین کی خدمت کرے مگر کچھ اثر نہیں پڑتا۔
شاہ رُخ کے باپ نے دل میں کچھ سوچا اور جلد اس پر عمل کرنے کا سوچا۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لائک ،کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔
جدائی کی گھڑیاں ہوں اور برسات کا موسم ہو
اس آس پے کھڑے ہیں شاید وہ لوٹ آئیں۔
#شاعرہ_عابدہ_زی_شیریں #abidazshireen
#گر_نہ_میں_تیرا_دیوانہ_ہوتا
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.