Back to Novel
Gar Na Main Tera Deewana Hota
Episodes

گر نہ میں تیرا دیوانہ ہوتا 15

Episode 15

زویا اس کی جی جان سے خدمت میں لگ گئ۔ وہ اب والدین کی باتیں سنتی تو خوف خدا سے لرز جاتی۔

شاہ رُخ اس سے پھر بھی فالتو بات نہ کرتا۔ وہ ترس جاتی کہ وہ اس سے پہلے جیسا پیار کرے۔

اس کے آگے پیچھے پھرے۔ اس کا دیوانہ بنے۔

شاہ رُخ دو ہفتے کے لیے دوبئی اپنے کام سے جانے لگا تو ابا جان نے کہا، بیٹا زویا کو بھی ساتھ لے جاو اسے تم کھبی باہر گھمانے نہیں لے کر جاتے۔

وہ غصے سے چڑ کر بولا، میں وہاں اپنی ٹیم کے ساتھ جا رہا ہوں کام کرنے۔ ادھر مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے ادھر میں تھکا ہارا گھر آتا ہوں تو سب زویا نامہ پر لیکچر دینا شروع کر دیتے ہیں۔

آخر زویا کو اس گھر میں کیا تنگی ہے۔ گاڑی لے اور گھومے پھرے شاپنگ کرے جیسے پہلے کرتی تھی میں نے کب کوئی پابندی لگائی ہے۔ آپ سب لوگ بھی ساتھ جائیں گھومے پھریں انجوائے کریں۔ مجھے کام سکون سے کرنے دیں۔

زویا کی یہی بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ اسے کوئی محاشی مسئلہ نہیں ہے۔ والدین ساتھ رہتے ہیں ان کی فکر نہیں۔ ساس سسر اپنے ہیں اور سب پیار کرنے والے ہیں۔

کرونا کی وجہ سے پوری دنیا کا بزنس متاثر ہوا ہے۔

پاکستان کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ دو ٹاہم کھانا میسر نہیں ہے۔

ادھر ہم سب ہر طرح کے پکوان کھا سکتے ہیں اس حالات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ عیاشی کی باتیں۔

آجکل لوگ گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں کرونا کی وبا سے بچنے کے لئے۔ آپ لوگ بتائیں کیا باہر بلاوجہ جانا محفوظ ہے کیا۔

لوگ بھوک سے مجبور ہو کر ڈکیتیاں کر رہے ہیں۔

دو ہزار کمانے کے لیے بچہ اغوا کر لیتے ہیں۔

سواے سرکاری ملازمین کے علاوہ جو پرائیویٹ ادارے تھے وہ بھی اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے پا رہے۔

شاہ رُخ کے باپ نے کہا، ٹھیک ہے بیٹا تم ٹینشن مت لو اور جاو اپنے کام پر۔

وہ چلا گیا تو شاہ رُخ کے باپ نے سب کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اب کسی نے بھی زویا کے حوالے سے تنگ کیا تو اچھا نہیں ہو گا۔ میں اپنے لخت جگر پر کوئی پریشر نہیں ڈالنا چاہتا۔ مجھے نہ جانے کس نیکی کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے اس اتنے بڑے انعام سے نوازا ہے کہ مجھے بیٹا مل گیا۔

مگر افسوس ہے کہ میں اسے گود میں نہیں کھلا سکا۔

شاید میرے دل میں پیسے اور امریکہ کا لالچ نہ ہوتا تو شاید پرائ اولاد کی جگہ میں اپنی اولاد کو گود میں کھلا رہا ہوتا۔

وہ روتے ہوئے بولے کہ کاش میں نے نکاح جیسے بندھن کو مزاق نہ بنایا ہوتا۔

بیوی نے تسلی دی اور کہا، کہ جوانی کے جوش میں اکثر لڑکوں کو ایسی چیزیں متاثر کرتی ہیں اور وہ یورپ کو جنت تصور کرتے ہیں۔

شاہ رُخ کے باپ نے کہا، تم سچ کہتی ہو۔ اتنے سال امریکہ میں ایک مشین کی طرح گزارے۔ اپنے ملک آ کر یوں لگ رہا ہے جیسے ایک محفوظ سائبان مل گیا ہے دل میں سکون اتر گیا ہے۔ جنت میں آ گیا ہوں۔ ماں کو بھی کھو دیا۔ ان کی قربت حاصل نہ کر سکا۔

بیوی نے کہا، مت روئیں۔ آپ بہت اچھے دل کے مالک ہیں۔ آپ نے بتایا تھا کہ آپ امریکہ میں پاکستانی قیدیوں سے ملنے جاتے تھے ان کی مدد کدتے تھے ان کے گھر والوں کو فون کر کے ان کی خیریت کی اطلاع دیتے تھے۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے ان کے ساتھ۔ وہ وہاں مظلوم تھے۔ کچھ ان نیکیوں کے صلے میں شاید آپ کو بیٹے کا سکھ ملا۔

وہ تشکر سے بیوی کو دیکھتے ہوئے بولے،تم جیسی ہیرا بیوی بھی ملی اور ہیرا بیٹا جس کی اچھی تربیت کر کے تم نے اسے ہیرا بنا دیا۔

ابا جان نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا، بلاشبہ شاہ رُخ کی تربیت بہت اچھی کی ہے۔ یہ جانتی بھی تھی کہ یہ اس گھر کا وارث ہے مگر کھبی حق نہ جتایا۔ اس کو غربت میں پروان چڑھایا۔ شاباش بہو شاباش، اللہ تعالیٰ تم جیسی بہو سب کو دے۔

شاہ رُخ کے باپ نے کہا، اور اس جیسی بیوی بھی۔

اباجان تعریف کرتے ہوئے بولے، اس نے ہر رشتے کو بخوبی نبھایا ہے۔ اچھی بیوی، اچھی ماں، اچھی بہو اور اب اچھی ساس بھی ہے جو ہر وقت بیٹے کو بہو کے حوالے سے ڈانٹتی رہتی ہے۔

زویا کی ماں شاہ رُخ کی ماں پر رشک کرنے لگی اور بیٹی کو سمجھانے لگی کہ بیٹا اپنی ساس جیسی بننا۔

زویا بھی دل میں قاہل ہو رہی تھی ماں کو گلے لگا کر بولی موم آپ پریشان نہ ہوں، شکرالحمدوللہ کہ وقت پر ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا جس کا ہم مداوا کر سکتے ہیں۔

میں شاہ رُخ کو کوئی شکوہ نہیں کروں گی بلکہ اسے مجھ سے ہزاروں شکوے ہوں گے میں اس کے آنے پر پاوں پکڑ کر اپنی زیادتیوں کی معافی مانگ لوں گی۔

ماں بولی، بیٹا معافی مانگنے سے انسان چھوٹا نہیں ہو جاتا بلکہ اسکا مقام بڑھ جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں۔ جس سے زیادتی کرو اس سے معافی مانگو تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں اور بہت اجر سے نوازتے ہیں۔ تم نے اچھا کیا جو مجھے یاد دلا دیا میں شاہ رخ کی ماں سے معافی مانگوں گی۔

ماں بیٹی کو جو بھی سمجھاتی ہے شادی کے بعد بیٹی اس کا بہت اثر لیتی ہے۔

زویا کی طبیعت خراب ہونے لگی ساس اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔

ڈاکٹر نے خوشی کی خبر سنائی کہ وہ امید سے ہے۔

یہ خبر سب کے لیے خوشی بن کر آئی۔

شاہ رُخ کے باپ نے کہا، یہ خبر ابھی بیٹے سے چھپا کر رکھنی ہے وہ آئے گا تو زویا اسے خود یہ خوشی کی خبر سناے گی۔

ابھی ہم خود خوشی منائیں گے، صدقے خیرات کریں گے۔

مٹھائی منگوا کر کھائ گئ۔

شاہ رُخ نے جس دن آنا تھا اس سے پہلے ہی اس کے استقبال کی تیاریاں ہونے لگیں۔

شاہ رُخ ایر پورٹ پہنچ چکا تو اسے فون آیا کہ زویا کی ماں سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے فوت ہو گئی۔

شاہ رُخ کو زویا کی فکر لگ گئ۔

زویا تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی۔

شاہ رُخ نے قریب آ کر زویا کو پکڑ کر گلے لگا لیا۔

زویا شاہ رُخ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور بے ہوش ہو گئی۔

شاہ رُخ اسے فوراً ہاسپٹل لے گیا۔ وہاں اسے بمشکل ہوش میں لایا گیا،

وہ بار بار گھر جانے کی ضد کرنے لگی۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ پریگننٹ ہے۔

شاہ رخ نے خوش ہو کر زویا کی طرف دیکھا اور کہا، مجھے کیوں نہیں بتایا تو بمشکل زویا نے ساری بات بتائی۔

شاہ رُخ نے خوش ہو کر اس کے سر کو پیار کیا۔

شاہ رُخ کا پیار اور توجہ پا کر زویا اپنے غم کو بھلانے میں کافی کامیاب ہو گئی۔

شاہ رخ سے اس نے اپنے سابقہ رویے کی معافی مانگی تو شاہ رُخ نے کہا، کہ معافی تو مجھے مانگنی چاہیے، مجھے افسوس ہے کہ میں نے دل میں غرور رکھا کہ تم نے مجھے بہت ستایا تھا اور معافی بھی نہ مانگی تو میں تمہیں ستانے لگا اور بدلے لینے لگا ہم اکثر مرد پہلے جس چیز پر فدا ہوتے ہیں جب وہ دسترس میں آ جاے تو پھر فضول میں پرانی باتیں دل میں رکھ کر عورت کے لیے کھڑوس بن جاتے ہیں۔ اور اپنا سنہری وقت فضول ضدوں میں ضائع کر دیتے ہیں اور اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔

زویا کو شاہ رُخ نے بہت پیار دیا اس کی پریگنیسی میں اسکا بہت خیال رکھا۔

زویا نے کہا، کہ شادی کے بعد اکیلے گھومنے اور شاپنگ کرنے کا اسکا دل ہی نہیں کرتا تھا۔

شاہ رُخ اسے اب شام کو روز باہر لے کر جاتا۔ بچے کی خوب شاپنگ کرواتا۔

زویا کو اس کی سنگت میں طبیعت خرابی کا احساس ہی نہ ہوتا۔

زویا کو شاہ رخ نے بتایا کہ ایک خوبصورت انگوٹھی اس نے منہ دکھائی کی خرید کر رکھی تھی اب اس نے کان پکڑ کر معافی مانگتے ہوئے کہا، کہ اب ہم ہر دن رات لیلہ مجنون بن کر گزاریں گے۔ وہ خوشی سے مسکرانے لگی۔

شاہ رُخ نے اس کے لئے ڈھیروں تحفے دوبئی سے لایا۔ سب کو تحفے دیے تو ابا جان بولے، میری لاڈلی پوتی کے لیے اگر کچھ نہ لاے تو میں یہ نہیں لوں گا۔

شاہ رُخ نے کہا، مقابلہ نہ کریں آپ ہار جائیں گے۔

زویا اندر سے سارے تحفے لا کر سب کو دیکھانے لگی۔

شاہ رُخ نے ابا جان سے کہا، اب جیلس ہوں ناں۔ سب خوش ہونے لگے۔

اچانک زویا کو درد ہونے لگا اسے ہاسپٹل لے گئے اور اس نے ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا۔

سب کے چہروں پر اداسی تھی۔

زویا کافی حیران تھی۔

جب زویا گھر ٹھیک ہو کر آئ تو اسے پتا چلا کہ جس رات اسکا بچہ ہوا اسی رات اس کے ابو ویل چیئر سے گرے اور بے ہوش ہو گئے اور چند گھنٹوں بعد فوت ہو گئے۔

زویا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

بڑی مشکل سے سب کی محبت اور توجہ اور بچے کی وجہ سے وہ نارمل ہو سکی۔

شاہ رُخ نے کہا، زویا ہمیں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے۔ہمیں اب ہنسی خوشی زندگی بسر کرنی ہے پچھلی سب باتوں کو بھلا کر۔

زویا نے اس کے کندھے پر سر رکھ کر اطمینان کا اظہار کیا۔

دونوں مسکرانے لگے۔

ختم شد

پلیز اسے لائک، کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔

شعر۔

عشق کے عنوان کو کتابوں میں پڑھنے والوں

اس کاغذی عشق سے نہ کچھ حاصل ہو گا

سچا عشق اگر انپڑھ بھی کر تو

وہ اعلیٰ ڈگریوں سے بھی افضل ہو گا۔

#شاعرہ_عابدہ_زی_شیریں #abidazshireen


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.