Back to Novel
Gar Na Main Tera Deewana Hota
Episodes

گر نہ میں تیرا دیوانہ ہوتا 13

Episode 13

شاہ رُخ کا باپ ملک جاوید گاوں میں پیدا ہوا وہیں پلا بڑھا۔ ایک بڑا بھائی تھا۔ وہ میٹرک تک پڑھ سکا۔ باپ نے دور کے رشتے داروں میں اس کی شادی بی اے پڑھی لڑکی سے کروا دی۔ لڑکی متوسط طبقے سے تھی اس لیے ان کی زمینوں، جاہیدادوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بخوشی رشتہ دے دیا۔ اس کی بیٹی زویا بھی لیٹ پیدا ہوئی۔

ملک جاوید کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا شوق تھا اس نے ایم اے شہر میں ہاسٹل میں رہ کر کیا۔

شہر میں رہنے سے گاوں میں اسکا دل نہ لگا اس نے باپ کو اکسانا شروع کیا کہ ساری جاہیداد بیچ کر شہر میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔

اسی دوران اس کی نظر شاہ رُخ کی ماں پر پڑی جو گاوں میں تاستے سے گزر رہی تھی۔ خوبصورت تھی۔ میٹرک تک پڑھی ہوئی تھی اور پرائیوٹ آگے پڑھ رہی تھی۔

شاہ رُخ کے باپ نے اس کے گھر تک رسائی حاصل کی۔ اور دھمکا کر زبردستی نکاح کر لیا۔ شاہ رُخ کی نانی اور ماں اکیلی رہتی تھیں۔ باپ شہر میں ملازمت کرتا تھا۔

ماں نے روتے ہوئے اسے بیٹی کے نکاح کا بتایا۔ وہ غریب آدمی تھا، کچھ نہ کر سکا، جلد ہی شاہ رُخ کے باپ نے اپنے باپ کو منا لیا اور شہر شفٹ ہونے لگا۔

اس نے شاہ رُخ کی ماں کو کافی رقم دیتے ہوئے کہا کہ تم کو میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔

شاہ رُخ کی ماں نے کہا، میں اب اور شادی نہیں کروں گی۔ آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی، کوئی خرچہ نہیں مانگوں گی۔ بس آپ مجھے طلاق کا داغ نہ دیں۔ وہ روتے ہوئے منتیں کرنے لگی۔ اسکا دل پگھل گیا۔ اور اس نے کہا کہ زندگی میں کھبی سامنا ہو بھی گیا تو اگر تم نے کسی کو میرا رشتہ بتایا تو اچھا نہ ہو گا۔

شاہ رُخ کی ماں نے وعدہ کیا کہ وہ کھبی ایسا نہیں کرے گی۔

شاہ رُخ کا باپ چلا گیا ویسے بھی وہ لاابالی، جزباتی طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے شاہ رُخ کی ماں کو پسند کیا اور دوستوں کی مدد سے نکاح کیا اور اب طلاق دے کر جان چھڑوانا چاہتا تھا۔ وہ جب نکاح کے لئے گیا تو پوچھا تم کتنے فرد ہو۔ شاہ رُخ کی ماں نے کہا ہم یہاں صرف ماں بیٹی ہیں۔ اس نے سمجھا شاید باپ مر گیا ہو گا۔ نہ ہی کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔

شاہ رُخ کی ماں امید سے تھی۔ اس نے شاہ رخ کے باپ کو نہیں بتایا۔ جب وہ لوگ گاوں سے شہرشفٹ ہو گئے تو شاہ رُخ پیدا ہوا۔

ماں کو شوق تھا کہ اسے پڑھاے۔

شاہ رُخ کا نانا جاوید کے باپ ابا جان کے پاس اکثر جاتا رہتا اور اپنی نوکری کا کہتا۔ اس نے جھوٹ بولا کہ میری بیٹی بیوہ ہے۔

کیونکہ چند قریبی غریب گاوں والوں کے علاوہ کوئی نہیں اس نکاح کے بارے میں جانتا تھا۔

شاہ رُخ پیدا ہوا اور وہ لوگ بھی شہر شفٹ ہو گئے۔ اور شاہ رُخ کو اسکول ڈال دیا گیا۔

شاہ رُخ کا نانا اب شہر میں بھی ملک جاوید کے باپ سے ملتا۔

انہوں نے اسے اپنے گھر چوکیدار رکھ لیا اور شاہ رُخ اور اس کی ماں بھی ساتھ شفٹ ہو گئے۔ شاہ رُخ کی نانی گاوں میں ہی جلد فوت ہو گئ تھی۔

ملک جاوید اس وقت تک شادی کر کے امریکہ جا چکا تھا۔

شاہ رُخ کی زہانت دیکھتے ہوئے اور اس کی ماں جسے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا شوق تھا ابا جان نے اس کی پڑھائی کا زمہ اپنے زمے لے لیا۔

شاہ رُخ کی ماں نے گھر کو اچھے طریقے سے سنبھال لیا۔

ملک جاوید کا باپ جنہیں سب ابا جان کہتے تھے انہیں گاوں کی بہت یاد ستاتی اس انسیت کے پیش نظر وہ شاہ رُخ کی ماں اور نانا کو بہت اہمیت دیتے۔

شاہ رُخ کی ماں اور نانا نے کھبی کسی کو نہیں بتایا کہ شاہ رُخ ملک جاوید کا بیٹا ہے۔ وہ اپنے ہی گھر میں نوکر کی حیثیت سے رہتا۔

جب جاوید کھبی پاکستان آتا تو شاہ رُخ کی ماں پردہ کرتی۔ بہت احتیاط کرتی۔

جب زویا پیدا ہوئی تو خوب خوشیاں منائی گئی۔ کیونکہ وہ اس خاندان کی اکلوتی اولاد تھی۔

شاہ رُخ کا باپ ملک جاوید جس کا ڈریم کنٹری امریکہ تھا اس کی شادی ایسی لڑکی سے ہو گئ جو ایک ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے محروم تھی۔

شاہ رُخ کے باپ کو جویریہ کے والد نے یہ سچائی بتادی تو پھر بھی وہ شادی پر رضامند ہو گیا۔مگر ساتھ ہی اس کے بھائی نے کڑی شرائط رکھیں کہ تم دوسری شادی نہیں کرو گے اور کوئی بچہ بھی گود نہیں لو گے۔ میں اپنی پہلی بیٹی تمہیں دے دوں گا میری بیوی کو دوسرا بچہ ہونے والا ہے اور وہ چار سال کی ہے۔ میری بہن سے بہت مانوس ہے۔ یہ سب کچھ اس نے اسٹامپ پیپر پر لکھوایا۔

ملک جاوید کو اکثر شاہ رُخ کی ماں کا خیال آتا۔ چند بار وہ چھپ کر گاوں بھی گیا مگر ان لوگوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کہ وہ لوگ یہاں سے شہر شفٹ ہو چکے ہیں۔

وہ کھوجتا رہا مگر اسے انکا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ پھر اپنے ہی گھر میں وہ اس کے اپنے ہی بیٹے کے ساتھ مل گئی۔

اسے جیسے دونوں جہانوں کی خوشیاں مل گئیں۔ ابا جان بھی خوشی سے نہال تھے کہ جس کو وہ ترس کھا کر اعلیٰ تعلیم دلواتے رہے وہی انکا پوتا تھا۔

اب شاہ رخ اور اس کی ماں عزت سے رہ رہے تھے۔ ملک جاوید اب اپنی پرانی پہلی بیوی کو پا کر بہت خوش تھے۔ بیوی بھی مطمئن تھی وہ اب سہاگن بنی تھی۔

زویا کی ماں کا خواب ٹوٹ چکا تھا کہ اس کی بیٹی اس پوری جاہیداد کی وارث ہے مگر شاہ رُخ کو ملک جاوید نے کرتا دھرتا بنا دیا تھا ابا جان کو بھی پوتے کی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا اس نے بھی بہت اچھی کارکردگی دکھائی تھی اور اسے ترقی دی تھی۔

اس نے اپنے تایا زویا کے باپ کو آفس واپس بلا لیا اور ان کو وہاں کا نگراں مقرر کر دیا۔

زویا اب پریشان سی تھی۔ پارلر کے مالک نے شاپ خالی کرنے کا آرڈر دے دیا تھا۔

ابا جان نے اب زرا سختی کر دی تھی کہ مغرب سے پہلے آپ لوگ گھر موجود ہوں۔ اور رات کا کھانا گھر پر سب اکٹھے کھائیں گے۔

سب کو انکا حکم ماننا پڑتا۔

زویا نے گھر کے اوپر والے پورشن کے ایک کمرے میں اپنا پارلر کھول لیا۔

ابا جان نے اب کہیں دور جانے کی اجازت نہ دی کہ اب باپ ساتھ نہیں ہے۔ اور ہمیں ایسا کوئی معاشی مسئلہ نہیں ہے کہ اتنی خواری اٹھائ جائے۔ صرف تم لوگوں کے شوق کے پیش نظر اس بات کی اجازت دے رہا ہوں۔

زویا جس نے چچا کو ویسے ہی کہہ دیا تھا گاڑی کا۔ اب آمدن بھی ختم ہو چکی تھی وہ گاڑی کہاں سے لیتی۔

اس نے ماں کو سمجھا بجھا کر ماں کے کچھ زیور سے ایک استعمال شدہ olx سے گاڑی خرید لی۔ ڈرائیونگ کرنا وہ شروع سے جانتی تھی۔

شاہ رُخ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اگنور کر دیتی۔

شاہ رُخ نے دوست سے فون پر کہا، یار تو صیح کہتا تھا میں واقعی زویا سے پیار کرتا ہوں۔

زویا اس کے روم کے باہر سے گزر رہی تھی اس نے سن لیا۔

جاری ہے۔

پلیز اسے لائک ،کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔

شعر۔

زندگی تیرے بنا بھی گزر ہی جائے گی لیکن

فقط سانسوں کی گنتی ہے جسے پورا ہونا ہے۔

#شاعرہ_عابدہ_زی_شیریں #abidazshireen



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.