Back to Novel
Dharkanain Raks Karain
Episodes

دھڑکنیں رقص کریں 2

Episode 2

بازل نے حیرت سے پیار بھرے لہجے میں پوچھا، کیوں کیا بات ہے، مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔؟


مومنہ نے گھونٹ سے ہاتھ سیدھا کر کے آگے کیا۔


بازل نے کہا، او اچھا منہ دکھائی۔


پھر جیب سے ایک ڈبیا نکال کر اسے کے ہاتھ میں ایک خوبصورت رنگ پہنا دی۔ اور جھٹ سے مومنہ نے گھونگھٹ اٹھا کر اس کی نقل اتاری۔


وہ مسکرا کر پیار سے دیکھتے ہوئے بولا، بای بڑی بےشرم لڑکی ہو سچی۔


مومنہ بولی، بس بس اب فلمی سین بند کریں اور میری بات دھیان سے سنیں۔


آپ کو سب سے پہلے یہ خوفناک سانپوں جیسی مونچھیں صاف کرنی پڑیں گی۔


پھر یہ لمبی لمبی زلفوں کو کٹوا کر اچھا سا ہیر اسٹائل بنوانا پڑے گا۔


وہ دھیمی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہوئے بولا، اور،


مومنہ بولی، یہ زیورات میرا مطلب ہے کہ یہ موٹی موٹی انگوٹھیاں، یہ بازو پے بندھی فضول چیزیں سب اتار کر ہمیشہ کے لئے پھینکنی پڑیں گی۔


اور وہ پھولے سانس کے ساتھ بولی، اور یہ پسٹل کو بھی فارغ کرنا پڑے گا۔ کیوں اسے اٹھاے اٹھائے پھرتے ہیں۔ کیا ڈر لگتا ہے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں ہے کیا۔


وہ سنجیدہ سی شکل بنا کر بولا، یہ آرڈر ہے یا التجا۔


مومنہ تھوڑی دیر کے لیے اس کی سنجیدگی سے قدرے ڈر سی گئی۔


پھر منہ ادھر کر کے دیکھتے ہوئے جلدی سے بولی، آرڈر۔


بازل نے سنجیدہ مگر قدرے رعب سے کہا، ادھر میری طرف دیکھو۔


مومنہ نے ڈرتے ڈرتے دیکھا تو وہ ہاتھ جوڑے مسکرا کر بولا جو حکم ملکہ عالیہ۔ بندہ تو بس آج سے آپ کی غلامی میں آ گیا ہے جو بھی سلوک کریں گی اف تک نہیں کرے گا بس شرط یہ ہے کہ آپ اسی طرح مجھ پر حکم چلاتی رہیں۔


مومنہ نے تکیہ اٹھا کر اسے دے مارا۔


پھر بیڈ سے تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہو کر بولی، چلیں ایک سیلفی لیتے ہیں۔ میں نے پوسٹ کرنی ہے۔


بازل نے حیرت سے پوچھا، کیا ابھی۔


وہ وثوق سے بولی، جی ابھی۔


وہ بےبسی سے بولا، یار اس قیمتی رات کو ان فضولیات میں کیوں ضائع کر رہی ہو۔


اس نے گھور کر دیکھا اور ضد سے بولی، بس ابھی۔


وہ بولا، ٹھیک ہے غلام کی کیا جرات۔


دونوں سیلفیز لینے لگے۔


مومنہ نے ایکدم ناراض ہوتے ہوئے کہا، کہ پورا دن پارلر میں تیار ہونے میں گزرا ہے اور جناب صاحب کے منہ سے ایک لفظ بھی تعریف کا ابھی تک نہیں نکلا۔


وہ رونی صورت بنا کر بولا، یار مجھے تعریف کرنی نہیں آتی ہے ناں کیا کرو۔


ویسے ساری دولہن ہی اتنی خوبصورت لگتی ہیں یا میری دولہن ہی اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ میں اپنی قسمت پر رشک کر رہا ہوں۔


قسم سے ابا جی کی بہت مار کھائی ہے مگر میں نے بھی ہار نہیں مانی۔


مومنہ بولی، اچھا تو لائیں میں کندھے دبا دیتی ہوں۔


وہ بولا، چلو شاباش شوہر کی خدمت کر کے جنت کماو۔


وہ پیچھے سے کندھے دباتی گلے تک ہاتھ لا کر گلہ دباتے ہوئے بولی، میں تو ایسی ہی خدمت کروں گی۔


وہ مسکرانے لگا۔


بازل نے اس کی گود میں سر رکھے اپنے بچپن کی محرومیوں کے تمام قصے روتے ہوئے اسے سناے۔


اس نے بتایا کہ وہ سات سال کا تھا جب باپ دوسری ماں کو لے آئے، انکا بیٹا باسط بھی ساتھ تھا جو پانچ سال کا تھا۔


ابا جی بولے، بیٹا یہ آج سے تمہارا بھائی ہے۔ تم اس کے ساتھ اسکول جانا، اکھٹے سونا، اکھٹے کھیلنا، اب تم اکیلے بور نہیں ہو گے۔


میں بہت خوش ہوا۔ اس کو اپنے کمرے میں لے آیا، اسے اپنے سارے کھلونے نکال کر دیے۔


وہ بہت خوش ہوا۔


ہم اکھٹے اسکول جاتے، میں باسط کا بہت خیال رکھتا، سب کو بتاتا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ کچھ عرصہ ماں نے اچھا سلوک کیا۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا سلوک میرے ساتھ بدتر ہوتا گیا کیونکہ ابا جی دوسال کے لیے سعودیہ چلے گئے۔


ان دو سالوں میں ماں نے مجھ پر اپنا دبدبہ اور رعب اتنا ڈال دیا کہ میں ان کے ساے سے بھی ڈرنے لگا۔


ابا جی کو ڈر کر کچھ نہ بتاتا کہ بعد میں ماں مارے گی۔


ابا جی دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹی آتے تو ماں کا رویہ مجھ سے یکسر بدل جاتا۔


اباجی اکیلے میں بھی کھبی مجھ سے پوچھتے تو میں ماں کی دھمکیوں سے ڈر کر کھبی کچھ نہ بتاتا۔


بارہ سال بعد جب اباجی مستقل پاکستان آ گئے تو میں وجہ نہ جان سکا کہ وہ مجھ سے کھنچے سے کیوں رہتے ہیں اور مجھ سے سیدھے منہ بات کیوں نہیں کرتے۔


میں نے انہیں بلانے کی کوشش کی مگر انہوں نے ہمیشہ مجھے ڈانٹ کر زلیل کیا۔


انہوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں بھی سلام کی حد تک رہنا شروع ہو گیا۔


مومنہ نے کہا، غنڈے ساجن جی مجھے بھوک لگ رہی ہے۔


وہ تیزی سے اٹھا اور باہر دیکھا رات کے ڈھائی بج رہے تھے وہ چپکے سے کچن میں گیا اور فرج سے شادی کا بچا کھانا پڑا تھا جلدی سے نکال کر گرم کیا اور ٹرے اٹھا کر جا رہا تھا کہ مومنہ کی ماں کی آنکھ کھل گئی تھی اور وہ واش روم سے نکلی تو کسی کے چلنے کی آواز آئی، وہ ساتھ والے روم میں تھی۔


مومنہ کمرے سے باہر کھڑی تھی۔


بازل کو دیکھ کر پیار سے بولی، او ہو جی کیا ساری زندگی ایسے ہی خدمت کریں گے کیا جناب۔


وہ مسکرا کر بولا، شوہر کی definition ہی نوکر ہے سمجھی میری پیاری ملکہ۔


دونوں ہلکی ہنسی ہنسنے لگے۔


مومنہ بولی، ویسے میں دنیا کی سب سے خوش نصیب بیوی ہوں جس کو آپ جیسا شوہر ملا،


بازل بولا، غلط، تم سے زیادہ میں خوش قسمت ہوں جسے تم ملی۔


دونوں نے ہنستے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔


ماں اپنے کمرے کے دروازے کی اوٹ میں کھڑی حیرت سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔


وہ سوچنے لگی کیا واقعی میری بیٹی اس غنڈے کے ساتھ شادی کر کے اتنی خوش ہے کہ اپنے آپ کو خوش قسمت کہہ رہی ہے۔


وہ اتنی خوش ہے اور میں ادھر اپنی جان ہلکان کر رہی ہوں۔


وہ سوچتے سوچتے سو گئی۔


اگلی صبح سب گھر والوں کی آنکھ دیر سے کھلی۔


بازل کے والد نے سب کا ناشتہ باہر سے منگوایا تھا۔


مومنہ کی آنکھ بھی دیر سے کھلی، اس نے بیڈ پر دیکھا بازل نہیں تھا۔


اس نے واش روم میں دیکھا، وہ وہاں بھی نہیں تھا۔


وہ واش روم میں فریش ہونے چل پڑی۔


واپس آئی تو اس کی فرینڈ اس کے روم میں آئی اور سلام کے بعد مومنہ نے پوچھا کیا تم نے بازل کو کہیں دیکھا ہے۔


اتنے میں ماں بھی کمرے میں داخل ہوئی اور مومنہ اٹھ کر ماں سے ملی،


پیچھے ہی ساس مسکراتی ہوئی داخل ہوئی اور بڑے جوش و خروش سے اسے ملی۔


اس سے پوچھنے لگی تم فکر نہ کرنا وہ بےشک بری عادتوں کا مالک ہے مگر تمہاری خالہ تمہارے ساتھ ہے۔


میرے بس میں ہوتا تو میں تمہاری شادی اس غنڈے سے کھبی نہ ہونے دیتی مگر میں مجبور تھی میں ساتھ نہ دیتی تو میرا گھر اجڑ جاتا۔


مگر اب تمہیں قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنا پڑے گا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ تمہاری ماں نے رو رو کر اپنی جان ہلکان کر لی ہے۔


مومنہ نے کہا، خالہ جان میں نے قبول کیا ہے تو آج ان کی دولہن ہوں۔


پھر وہ ماں سے معافی مانگتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بولی، اماں مجھے معاف کر دینا، دراصل بات یہ ہے کہ میں بازل کو بچپن سے جانتی ہوں۔ وہ اتنا برا شخص نہیں ہے جتنا وہ بدنام ہے۔ بد سے بدنام برا۔


میں نے دیکھا میرے جو بھی رشتے آئے کسی نے بھی میری ماں کے بارے میں نہیں سوچا کہ میں ان کی اکیلی اولاد ہوں۔


صرف بازل نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ تمہاری شادی کے بعد تمہاری امی کا کیا بنے گا۔ اگر تم بھروسہ کرو تو میں ان کو اپنے پاس رکھ لوں گا۔ میں بہت متاثر ہوئی۔


وہ غریبوں کا بھی ہمدرد ہے۔ ملازموں کو کھبی نہیں ڈانٹتا۔


اکثر ان کی امداد کرتا رہتا ہے۔


ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتا ہے۔ ان کو تعلیم دلوا رہا ہے۔


مجھے اپنے اور اپنی ماں کے لئے ایسے ہی مہربان سائبان کی ضرورت تھی۔


جاری ہے۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.