دھڑکنیں رقص کریں 3
Episode 3
مومنہ کی ماں اور ساس حیرت سے اس کی باتیں سن رہی تھیں۔
مومنہ نے کہاکہ جب خالہ نے باسط سے میرا رشتہ توڑا تو امی نے بہت ٹینشن لی،
خالہ نے سنکر شرمندگی سے سر جھکا لیا اور صفائی دیتے ہوئے بولی، بیٹا بھلا مجھے تجھ سے آگے کون تھا مگر باسط کی پسند کے آگے مجبور ہو گئی تھی۔
مومنہ بولی، کوئی بات نہیں خالہ، یہ سب نصیب کے کھیل ہیں۔
اس کی دوست غصے سے چڑ کر بولی، بازل نے اپنی غنڈہ گردی دکھا کر زبردستی تمہیں حاصل کیا ہے۔
مومنہ بولی، نہیں میری جان، ایسا نہیں ہے۔ امی نے رشتے والی کو میرا رشتہ لانے کا کہا کہ وہ جلد میرے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھیں۔
وہ ایسے لوگوں کو لا رہی تھی جن کی باتوں سے مجھے الجھن ہونے لگتی۔ میرا پہلا سوال یہی ہوتا کہ کیا وہ میری ماں کو بھی ساتھ رکھیں گی۔ مگر کوئی نہ مانا۔ آپ نے بھی خالہ جی یہ کہہ دیا تھا کہ تمہارے خالو کے ہوتے ہوئے ان کا ادھر رہنا مناسب نہیں۔
خالہ تڑک کر بولی، ہاں تو ایک نامحرم کے ساتھ کیسے اس کو میں رکھتی۔
مومنہ بولی، خالہ جب آپ کو ان کی ضرورت ہوتی تھی تب مہینے کے لیے بھی رکھ لیتی تھیں۔
وہ غصے سے بولی، لڑکی بڑی زبان چلنے لگی ہے تیری۔ یاد رکھ اس گھر میں صرف میری چلتی ہے سمجھی تم۔
ماں نے مومنہ کو ڈانٹا کہ تم خالہ سے کیسے بات کر رہی ہو۔
مومنہ منہ بنا کر بولی، امی میں نے کچھ غلط نہیں کہا، اور بازل نے جو باپ سے مار کھا کر مجھ سے شادی کرنے کے لیے ڈٹا رہا تو وہ بھی اس نے میری خاطر کیا۔
میں نے بہت سوچا، دیکھا بازل امی کی خیریت دریافت کرنے آتا، ان کی دوائیاں لا کر دیتا۔ بہت فکر کرتا۔
میں نے بازل کو کہاکہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ مسکرا کر بولا، پاگل نہ بنو۔ ہاں جہاں بھی خالہ کا رشتہ کرنے کا موڈ ہوا مجھے بتانا میں اس کے بارے میں پوری چھان بین کر دوں گا۔
امی اب بازل کو لفٹ دینے لگی تھیں جب سے اس نے انکا خیال رکھنا شروع کیا تھا۔
بازل کو میں نے وارننگ دی کہ میں کچھ کھا کر مر جاوں گی اگر امی نے کسی اور سے میری شادی کی تو۔
بازل نے مجھے ہر ممکن سمجھانے کی کوشش کی تو جب میں کسی صورت نہ مانی تو اس نے پوچھا آخر مجھے بھی پتا چلے کہ تم میری کس بات سے متاثر ہو کر اپنی زندگی میرے جیسے غنڈے سے برباد کرنا چاہتی ہو۔
میں نے کہا، مجھ پر ادراک ہوا ہے کہ شاید میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ امی سے مزاق میں تمہارے ساتھ شادی کرنے کا پوچھا تو وہ بھڑک اٹھی تھیں۔ کہ ویسے وہ اچھا رحم دل ہے۔
اس بات سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ میں نے اپنی پسند ظاہر کی تو امی کھبی نہیں مانیں گی۔
بازل نے کہا، ٹھیک ہے پھر میں ویسے بھی بدنام ہوں تو یہ بیڑہ بھی میں اٹھاتا ہوں اور اس نے اپنے ابا جان سے بات کی تو انہوں نے اسے خوب لتاڑا، بہت مارا اور مجھے بلا کر کہا، کہ اگر وہ تمہیں یا تمہاری امی کو تنگ کرنے یا زبردستی شادی کرنے کی کوشش کرے تو مجھے بتانا میں اسے پولیس کے حوالے کر کے جیل بھجوا دوں گا۔
میں نے خالو جان کو ساری سچائی بتا دی کہ وہ بےقصور ہے۔ تو وہ کافی حیران ہوئے اور مجھے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ شاید تم اس کے دباؤ میں آ کر یا بلیک میل ہو کر تو یہ فیصلہ نہیں کر رہی۔ مگر جب میں نے ان کو یقین دلایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دینے لگے۔ اور بولے کہ اب میں تمہاری شادی بہت دھوم دھام سے کروں گا۔
اتنے میں خالو ڈھونڈتے ہوئے ادھر آ گئے اور بولے، سب کدھر غائب ہو گئے تھے ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
خالہ غصے سے بولی، یہ کل کی چھوکری ہمیں بےوقوف بنا رہی تھی۔
مومنہ بولی، خالہ میں نے یہ سب باتیں اس لیے آج کلیر کی ہیں کہ میری ماں سکون میں آ جائیں، ورنہ وہ رو رو کر بیمار پڑ جائیں گی۔
خالو بولے، بیگم اس بچی نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ تم اس کی بےعزتی نہ کرو۔
خالہ ہاتھ لہرا کر بولی، تم سمجھ رہی ہو کہ تم ماں کو اس گھر میں اپنے ساتھ رکھو گی کیا؟
خالو بولے، ظاہر ہے وہ اکیلی کہاں رہیں گی۔
مومنہ نے زچ ہوتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں جزباتی انداز میں کہا، خالہ وہ آپ کی چھوٹی بہن ہیں۔
خالہ اپنے شوہر سے بولی، میں یہ کھبی برداشت نہیں کروں گی کہ وہ ہمارے ساتھ رہیں۔
خالو نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے بولے، یار ہم سب سے زیادہ تو وہ تمہاری سگی بہن ہیں۔
خالہ تڑخ کر بولی، وہ میری کچھ نہیں لگتی۔ میری ماں بیوہ تھی میرا باپ مر گیا تھا تو اس کے باپ سے میری ماں نے شادی کی تھی کہ اس کی ماں مر چکی تھی۔ نہ یہ میرے باپ کی طرف سے سگی ہے نہ ماں کی طرف سے۔ یہ میری کچھ نہیں لگتی۔
یہ غریب تھی تو میں اسے کام کاج کے لیے بلا لیتی تھی اور اب یہ دو ٹکے کی عورتیں میرے گھر پر قبضہ کرنے کے لیے آ گئ ہیں۔
خالو نے کہا، کیوں خوشی کے موقع کو خراب کر رہی ہو۔
میرے بیٹے کی شادی ہے آج ولیمہ ہے۔ تم کچھ تو خیال کرو، بعد میں اس مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔ ابھی خاموش رہو۔
وہ منہ بنا کر غصے سے پیر پٹختی چل پڑی،
خالو نے مومنہ سے کہا، بیٹی آپ ماں کو تسلی دو چپ کراو۔ اور ناشتہ ادھر ہی منگوا لو۔
اس کی دوست بولی، میں ادھر ہی لا دیتی ہوں۔
مومنہ نے ماں کے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا کہ امی بہادر بنیں، جب وہ آپ کو بہن کا درجہ نہیں دینا چاہتی تو آپ بھی پیچھے ہٹ جائیں۔
اتنے میں بازل اندر داخل ہوا۔
مومنہ نے اچٹتی نظر ڈالی اور جلدی سے دوپٹہ درست کرنے لگی۔
مومنہ کی فرینڈ نے حیرت سے دیکھتے ہوئے، مومنہ کو کونی مار کر سرگوشی میں کہا، دیکھو زرا دولہا بھائی کو۔
مومنہ نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو جھٹ سے جوش سے اٹھ کر تیری سے قریب گئی تو اس کو پکڑ کر بولی، یہ کیا ہوا، میں نے تو پہچانا ہی نہیں تھا۔
بازل ہنستے ہوئے بولا، ہاں میں نے دیکھا تھا تم دوپٹہ درست کرنے لگ گئ تھی۔
مومنہ کی ماں نے گیلی آنکھوں سے اسے غور سے دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا، یہ کیا کیا۔
بازل نے کہا، ویسے میں ابھی نیچے سے آیا ہوں سامنے ابا جی بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے انہوں نے بھی نہیں پہچانا۔ میں نے انہیں سلام کیا اور تیزی سے ادھر آ گیا کہ پہلے اپنی مومی یہ کو دیکھا دوں۔
مومنہ خوشی سے تقریباً چیختے ہوئے بولی، سچی سے بہت شریف انسان لگ رہے ہیں۔
بازل نے کہا، میری جان میں شریف انسان ہی ہوں۔
مومنہ کی فرینڈ تپ کر بولی، حلیہ بدلنے سے قتل اور جیل جانے جیسے جرم دھل نہیں جاتے۔
مومنہ نے اسے ڈانٹ کر چپ رہنے کا کہا۔
وہ غصے سے اٹھ کر جانے لگی تو بازل نے اسکا راستہ روکتے ہوئے کہا، بہنیں بھائی کی شادی والے دن ایسے روٹھ کر نہیں جاتیں،
تمہارے مجھے غصے میں آنے سے مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ تم میری مومی کی سچی اور مخلص دوست ہو۔ تمہارا غصہ بجا ہے۔ لیکن میں تمہیں کلیر کر دوں کہ قتل کے الزام میں جیل جانے والا ضروری نہیں کہ قاتل بھی ہو۔
مومنہ نے دوست سے کہا، سوری یار۔
وہ منہ بنا کر کھڑی رہی۔
بازل اور مومنہ نے اسے پیار سے زبردستی پاس بٹھا کر ناشتہ کروایا۔
مومنہ کی ماں کو جب بازل نے کہا کہ یہ گھر میرا بھی ہے۔ آپ آج سے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی اب آپ مومنہ کے ساتھ آپ کی زمہ داری بھی میری ہے۔
مومنہ غصے سے بولی، آپ کی سوتیلی ماں رہنے دے گی تو رہیں گی ناں۔
پھر مومنہ نے ساری بات اسے بتائ تو وہ غصے سے بولا، کس کی جرات ہے۔ بس زرا ولیمہ وغیرہ ہو جائے تو میں اس ظالم عورت سے پرانے حساب چکاتا ہوں جس نے مجھے غنڈہ بننے پر مجبور کیا تھا۔
پھر وہ مومنہ کی ماں کے قدموں کو چھو کر آنکھوں میں آنسو بھر کر بھرائی آواز میں بولا، خالہ جان بس مجھے دعاؤں کی ضرورت ہے جو مجھے سوتیلی ماں اور اس کی وجہ سے باپ سے بھی کھبی نہیں ملیں۔ آپ میری ماں جیسی ہستی ہیں۔ میں نے مومنہ کو بہت سمجھایا کہ وہ مجھ جیسے بدنام شخص سے شادی کر کے اپنی زندگی برباد نہ کرے، جب اس نے مرنے کی دھمکی دی تو میں مجبور ہو گیا اور اس سے کہا کہ میں اب اپنے زمے لے کر تم سے شادی کرواتا ہوں۔
مجھے اپنے اس سوتیلے بھائی پر بھی بھروسہ نہیں تھا کہ وہ مومنہ کے قابل ہے۔ کیونکہ وہ بھی ماں کی طرح میٹھی چھری ہے۔
پہلی بار مومنہ کی ماں کے دل کو ایک ڈھارس سی ملی کہ دنیا میں اسکا کوئی آسرا بھی ہے اس نے اسے منہ پر پیار کر کے دعائیں دی، اور گلے لگا کر کہاکہ آج سے میرے تمہارے بارے میں سارے خدشات دور ہو گئے ہیں۔ تم آج سے مجھے مومنہ کی طرح عزیز ہو۔
اس نے صوفے پر جا کر سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر روتے ہوئے کہا، کہ عرصہ ہو گیا ہے کسی سے ایسا ماں جیسا پیار پاتے ہوئے۔ وہ لگاتار آنسو گرانے لگا،
مومنہ اٹھ کر پاس بیٹھ کر بولی، آج رو لیں جی بھر کر جتنا رونا ہے اس کے بعد اس کی اجازت نہ ہو گی۔
وہ مسکرا کر آنسو پونچھ کر بولا، کوئی بےوقوف ہی ہو گا جو اتنی پیاری بیوی پا کر روے گا۔
اس کی فرینڈ بولی، بازل بھائی سچ میں آپ بہت نیک انسان ہیں مجھے اب تسلی ہو گئی ہے کہ مومنہ کا انتخاب درست تھا۔ آج سے آپ میرے دوسرے بھائی ہیں۔
دوسرے کیا مطلب؟
وہ بولی، ایک میرا اپنا بھائی اور ایک آپ۔ اب میں نند بن کر زرا اس مومنہ کی بچی کو سیدھا کروں گی۔
سب ہنسنے لگے اور خوشگوار باتوں میں ناشتہ کرنے لگے۔
اتنے میں مومنہ کی دوست نے زور سے چییخ ماری۔
جاری ہے۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.