Back to Novel
Dharkanain Raks Karain
Episodes

دھڑکنیں رقص کریں 4

Episode 4

مومنہ نے حیرت سے پوچھا کیا ہوا کیوں چیخ رہی ہو۔


وہ فکرمندی سے بولی، ٹائم دیکھا ہے لیٹ ہو رہے ہیں پارلر جانا ہے جلدی کرو، ولیمے تک بمشکل تیار ہونا ہے۔


وہ گھبرا کر بولی، ہاں چلتے ہیں مگر کیسے جائیں گے ہم۔


بازل نے کہا، میں جو ہوں۔


بازل نے مومنہ سے پوچھا، یار میرے ولیمے کا سوٹ کدھر ہے۔


مومنہ نے کہا، الماری میں میں نے خود ساری چیزیں تیار کر کے ایک ساتھ رکھی تھیں۔


تمارے سوٹ کے ساتھ میچنگ ٹائ بھی تھی ناں۔


مومنہ جلدی سے بولی، سب کچھ ادھر ہی ہے۔


وہ انہیں پارلر چھوڑنے جا رہا تھا کہ سب رشتے دار اس کو دیکھ کر تعریف کرنے لگے کہ اچھا لگ رہا ہے۔


ایک رشتے دار لڑکی بولی، ہائے کتنا ہینڈسم لگ رہا ہے۔ آنکھیں دیکھو بڑی بڑی کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔ اس نے تو اپنی بڑی بڑی مونچھوں کے جنگل سے اپنا خوبصورت چہرہ ہی چھپایا ہوا تھا۔


دونوں ولیمے میں تیار ہوے بہت خوبصورت جوڑی لگ رہے تھے۔


باپ کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اسے اپنے محزز مہمانوں سے اسے بیٹا پکار کر سب سے تعارف کروا رہے تھے۔


بازل کا دل باپ کی شفقت سے غم وخوشی کا امتزاج پیدا کر رہا تھا۔ وہ ساری زندگی باپ کے پیار کو ترستا رہا تھا اور آج باپ اس پر واری صدقے جا رہا تھا۔


گرے کلر کے تھری پیس سوٹ میں وہ سلور گھڑی باندھے سب سے جوش دلی سے ہاتھ ملا رہا تھا۔


آج تو خاندان کی عورتیں اس پر پیار لٹا رہی تھیں اور اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں ساتھ میں اس کی تعریف بھی کر رہی تھیں۔


اس کے بھائی کو کوئی خاص لفٹ نہیں مل رہی تھی۔ وہ اپنی امیر منگیتر کا انتظار کر رہا تھا جو اس کے پیار کے چنگل میں آ کر والدین کو مجبور کر کے اس سے رشتہ جوڑے بیٹھی تھی۔


بازل کی سوتیلی ماں کا منہ خوب بنس ہوا تھا کیونکہ سب بازل کی تعریفیں کر رہے تھے۔


بازل نے اپنے پرانے محلے داروں کو جو غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے انہیں بھی بلایا تھا۔ امیر ہونے کے بعد وہ سوسائٹی میں گھر تعمیر کر کے رہنے لگے تھے مگر بازل نے ان سے ناطہ نہ توڑا تھا ادھر اسے ان لوگوں سے پیار ملتا تھا جو بچپن سے اس پر سوتیلی ماں کی زیادتیوں کو جانتے تھے۔


وہ لوگ گروپ کی صورت میں اکھٹے جھجکتے ہوے اس شاندار ہوٹل میں آئے تو بازل کے ساتھ اس کے باپ نے بھی انہیں گلے لگا کر بہت خوشی کا اظہار کیا، انہیں عزت دی۔ وہ ایک کونے میں ایک ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئے۔


جازب صبح اپنے ہی محلے کے نائ سے شیور وغیرہ کروا کر آیا تھا۔


اس نے سب چیزیں اتار دی تھیں اور اب اپنے آپ کو بڑا ہلکہ محسوس کر رہا تھا۔


اس کی ایک رشتے دار عورت آ کر ملی، جو اپنے شوہر کے پہلے بچوں کو بہت پیار سے پال رہی تھی اپنے بچے ہو جانے کے باوجود وہ ان میں فرق نہیں رکھتی تھی۔ بازل جب اس سے مل کر ہٹا تو عورتیں باتیں کرنے لگیں کہ، دیکھو یہ بھی تو سوتیلی ماں ہے جو بچوں کے لیے سگی ماں سے بڑھ کر ہے اور ایک بازل کی ماں ہے جو منہ پھلائے بیٹھی ہے۔ اس کی سگی ماں زندہ ہوتی تو تتلی کی طرح پھر رہی ہوتی۔ اس جیسی عورتوں نے اچھی سوتیلی ماوں کو بدنام کر دیتی ہیں۔ ورنہ تو ساری سوتیلی بری نہیں ہوتیں۔


بازل نے دل میں آہ بھر کر سوچا کاش یہ عورت ہماری زندگی میں نہ آتی۔


اتنے میں باپ نے آواز دی۔


آج اس کے باپ کی آواز اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ اور بار بار اسکا دل بھر آتا تھا۔ اسے آج اپنی ماں شدت سے یاد آ رہی تھی۔ مگر وہ دل مضبوط کیے خوش رہا تھا۔


آج وہ اپنی قسمت پر نازاں تھا ساری زندگی محرومیوں میں گزری تھی۔


سوتیلی ماں کو اپنے بیٹے سے پیار کرتے دیکھتا تو اس کے دل میں بھی خواہش جاگتی، مگر اس کی خواہش کے بدلے سوتیلی ماں کے کوسنے ہی ملتے۔


جب اس کی ماں فوت ہوئی تو وہ بہت روتا رہتا مگر کوئی تسلی دینے والا نہ تھا۔ جب عارضی دلاسے دے کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اس کا باپ بہت شریف انسان تھا۔ سارے خاندان والے اس کی تعریف کرتے۔


محلے کی رشتے کرانے والی نے لالچ میں ان کو منا کر ساتھ اہل محلہ کو ملا کر ان کی بغیر چھان بین کیے اس عورت کی تعریفوں کے پل باندھ کر ان کی شادی کروا دی۔


کچھ نے دبے لفظوں میں اعتراض بھی کیا کہ آپ کسی بغیر بچوں والی عورت سے کر لیتے تو وہ کہنے لگے کہ جب میرے بچے کو کوئی پال سکتی ہے تو میں اس یتیم بچے کے سر پر شفقت کا ہاتھ کیوں نہ رکھوں۔


تتھوڑا عرصہ دکھاوے کا پیار جتاتی رہی، جب وہ سعودیہ چلے گئے تو پھر اب عورت کی پانچویں انگلیاں گھی میں تھیں۔


اس نے بازل کو اتنا ڈرا دھمکا دیا کہ باپ کو کچھ بھی بتایا تو دونوں کو جان سے مار دوں گی۔


باپ کھبی اکیلے میں بھی پوچھتا تو اسے ماں کی دھمکیاں یاد آ جاتیں۔


جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا ماں کے ظلم بڑھتے گئے۔


وہ جوان ہوا تو اس کے کمرے سے شراب کی آدھی بوتل نکال کر بیوی نے شوہر کو دکھائی۔ اس نے اسے بہت برا بھلا کہا، مگر مارا نہیں کہ وہ اب جوان تھا۔


اس نے انکار کیا تو باپ نے یقین نہ کیا کیونکہ وہ تھوڑی تھوڑی اس کی برائیاں کر کر کے اس کا دل اس کی طرف سے میلا کر چکی تھی۔


اپنے بیٹے کو سکھایا ہوا تھا کہ سوتیلے باپ کے سامنے محدب بن کر رہنا۔


جب نماز کا وقت ہو تو نماز کی ٹوپی پہن کر اونچی آواز میں کہنا کہ میں مسجد جا رہا ہوں۔ اگر کوئی رشتے دار بھی آئے تو اس کے سامنے بھی ایسا ہی کرنا۔


وہ اکثر اسے مارکیٹ بھیجتی تو نماز کی ٹوپی پہنا کر بھیجتی۔


ہر آنے جانے والے کے سامنے اپنے بیٹے کی تعریفیں اور بازل کی جھوٹی باتیں پھیلاتی کہ کچھ لوگ یقین کر کے کانوں کو ہاتھ لگاتے۔ جیسے کسی کام والی کا بتاتی کہ اس نے اس کے ساتھ دست درازی کرنے کی کوشش کی، اس کے باپ کو یہی باتیں بتا کر اس کی طرف سے بدظن کیا کہ اس نے اسے بلانا ہی چھوڑ دیا۔


بیوی چالاکی سے کہتی، آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو میں ان عورتوں کو آپ کے سامنے بلا کر پوچھ دیتی ہوں۔


باپ شرم سے کہتا، مجھ میں حوصلہ نہیں ہے کہ میں ان سے نظریں بھی ملا سکوں۔


اسکا بیٹا ان کے ساتھ خوشامدی لہجہ رکھتا۔ جیسے وہ ان کا بہت فرمانبردار ہے۔


بازل نے باپ کے سپاٹ رویے کی وجہ سے ان سے سلام کے علاوہ بات کرنی چھوڑ دی، دونوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔


پھر شومئی قسمت بازل اپنے پرانے محلے میں ایک دوست سے ملنے گیا تو اس کا دوست کسی سے لڑائی کر رہا تھا کہ تم نے میری بھابھی کو کیوں چھیڑا۔ اس لڑکے کی بھابھی جو اسکول ٹیچر تھی اور اس کے بارے میں دیور کو شکایت لگا چکی تھی جو بیوہ تھی کہ وہ اسے چھیڑتا ہے۔ اس کو گلی سے گزرنے نہیں دیتا۔


دونوں میں لڑائی بڑھی تو وہ گھر قریب تھا بھاگ کر چھری اٹھا لایا اور اسے پے در پے


مارنے لگا۔


بازل نے بچانے کی کوشش کی اور کسی طرح اس کے ہاتھ سے چھری چھین لی۔ بازل کے کپڑے بھی خون آلود ہو چکے تھے۔


اتنے میں پولیس آ گئ اور دونوں کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے لے گئی۔ کیونکہ وہ لڑکا مر چکا تھا۔


باپ نے سنا تو کہاکہ آج سے وہ میرے لیے مر گیا۔ سارے خاندان بھر میں سوتیلی ماں نے خوب بدنام کیا۔


باپ کو بیٹے کا غم بھی تھا وہ ہر نماز اس کے سدھرنے کی دعائیں کرتا۔


بیوی اپنے بیٹے کی اچھائیاں بیان کر کر کے اسے باور کرانے کی کوشش کرتی کہ یہ سلجھا ہوا ہے اور تعلیم حاصل کر رہا ہے۔


وہ جعلی ڈگری ایم بی اے کی بنوا کر لے آیا۔ ماں نے پورے محلے میں مٹھائی بانٹی، باپ کو ڈگری بیوی نے ہلکی سی جھلک دکھا کر جلدی سے لے گئی کہ وہ کسی جگہ نوکری کے لئے اس کی کاپیاں کروانے جا رہا ہے۔


وہ خوش ہو گیا اس کو انعام بھی دیا کہ جا کر اپنے لیے نئی بائک خرید لو۔


بیوی تڑخ سے بولی، اتنی بڑی ڈگری کا اتنا چھوٹا انعام۔


میاں جی اب گاڑی کا زمانہ ہے۔


ہمارے بڑے بیٹے نے تو حرام کی کمائی سے گاڑی خرید کر اس کا دل جلاتا ہے۔ اس کو کم سے کم کوئی چھوٹی موٹی گاڑی لے دیں۔


بیٹا جھٹ بولا، ابا جی، میرے ایک دوست کے انکل ایک گاڑی سیل کر رہے ہیں۔


سیکنڈ ہینڈ ہے مگر اچھی حالت میں ہے۔ وہ سر کھجاتے ہوئے ماں کی طرف سفارشی انداز میں دیکھ کر بولا،


ماں نے بڑے خوشامدی لہجے میں کہا، دیکھ بیٹا یہ تجھے گاڑی لے کر تو دیں گے مگر نوکری لگتے ہی تو نے ان کو رقم واپس کر دینی ہے سمجھ لے ادھار لے رہا ہے۔


پھر شوہر کو دیکھ کر بولی، دیکھیں ناں، نوکری ڈھونڈنے میں بھی آسانی ہو جائے گی اسے۔


وہ ناچاد دینے پر مجبور ہو گئے۔


بازل نے دیکھا تو اسے بہت دکھ سا ہوا کہ باپ میرے کی کمائی جس پر میرا حق ہے دوسرے عیش کر رہے ہیں۔


اس  نے بچپن میں ماں کو اکثر بیٹے سے یہ کہتے سنا تھا کہ تو جوان ہو جا پھر ان باپ بیٹے کو گھر سے نکال کر گھر اپنے نام کروا دوں گی۔


باپ اسکا ویسے بھی بہت شریف انسان ہے۔ آسانی سے قابو میں آ جائے گا اور بیٹا ویسے ہی میں نے ڈرا کر رکھا ہوا ہے۔ اس کی جرات نہیں ہے۔


یہ سوچ کر جب وہ جیل میں تھا تو اس نے سوچا کہ اب اس کی زندگی پر داغ تو لگ چکا ہے۔ اس کی ماں نے تو اسے زمانے بھر میں بدنام کر ہی دیا ہے۔ باپ کا دل وہ صاف نہیں کر سکتا تو اب اسے غنڈہ بن کر ملنا پڑے گا۔


اس کے محلے داروں نے اس کی اس کے باپ سے ملکر رو رو کر سچائی بتانے کی کوشش کی کہ وہ بےگناہ ہے مگر اسی وقت اس کی سوتیلی ماں نے خوب مرچیں لگائیں کہ ان ہی لوگوں کی وجہ سے وہ بگڑ چکا ہے اب یہ اس کے سچے بن کر اس کی سفارش کرنے پہنچ گئے ہیں۔ ان کی باتوں پر یقین نہ کرنا، یہ سب اس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔


اسی نے ان کو اپنا سفارشی بنا کر بھیجا ہے تاکہ جو گھر کی عیش تھی وہ جیل میں نہیں ہے۔ تم لوگ جاو نکلو یہاں سے۔


پھر وہ روتے ہوئے بناوٹی انداز میں بولی، باسط ایسے کرتا تو میں کھبی اس کی ضمانت نہ کرنے دیتی۔ اس کے کیے کی سزا اسے دلواتی۔


اگر وہ بےقصور ہے تو ضرور جیل سے رہا کر دیا جائے گا آپ پریشان نہ ہوں۔


باسط پوری کوشش میں لگا ہوا ہے آخر بھائی ہے ناں۔ وہ تو اتنا پریشان ہے کھانا پینا چھٹا ہوا ہے۔


وکیل سے بات چیت کر رہا ہے۔ وہ کافی پیسے مانگ رہا تھا۔ فلحال میں نے اپنی بالیاں اسے بیچنے کے لیے دے دی ہیں کہتا ہے ابا جی پہلے ہی پریشان ہیں ان سے پیسے نہیں مانگ سکتا۔


روز ملنے بھی جاتا ہے مگر بازل اس سے ملنا نہیں چاہتا۔


وہی بچپن کی پرانی نفرت جو اس کے دل میں موجود ہے کہ میرا باپ اس کو پیار کیوں کرتا ہے۔ اب میں بچے کو کہاں چھوڑتی۔


کیسے اسے ماں بن کر پالا مگر اس نے کھبی مجھے اپنی ماں نہیں سمجھا،


صاف کہتا ہے کہ میں آپ سے اور باسط سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ بھی نہیں سوچتا کہ میں اس کی ماں کی جگہ پر ہوں۔ میری زرا عزت نہیں کرتا۔


اب تو مجھے اس سے خوف آنے لگا ہے کہ کہیں ہمیں ہی نہ مار دے۔


جاری ہے۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.