دھڑکنیں رقص کریں 7
Episode 7
مومنہ بھاگی ہوئی اور دیکھا ماں فرش پر گری ہوئی گراہ رہی تھی۔
وہ بیڈ سے اٹھنے لگی ہاتھ لگا تو پاس پڑا گلاس شیشے کا گر کر ٹوٹ گیا وہ اٹھی اور غلطی سے پاوں کانچ پر رکھ دیا اور کانچ کھب گیا۔ اور وہ درد سے کراہنے لگی۔
مومنہ نے دیکھا تو پریشانی میں اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور اس نے خالہ کو فون کیا کہ یہ مسئلہ ہے باسط کو بھیج دیں امی کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے۔
باسط کی ماں نے سکون سے سنا اور کوئی پریشانی ظاہر نہ کی اور بولی، ارے وہ تو آج دوست کی باپ کی فوتگی پر دور گیا ہے۔
مومنہ جلدی سے بولی، خالہ، بازل کو ہی بھیج دیں۔حالانکہ وہ پاس بیٹھا موبائل دیکھ رہا تھا۔ اور مسکرا رہا تھا۔
وہ غصے سے بولی، ارے اس غنڈے کا کوئی ایک ٹھکانہ ہوتا ہے کیا۔ مجھے بتا کر تھوڑی جاتا ہے۔
تم محلے میں سے کسی کو بلا لو جا کر۔
مومنہ نے فون بند کر دیا۔
مومنہ ماں کو پانی پلا کر تسلیاں دینے لگی۔
ماں کا خون مسلسل نکل رہا تھا۔
مومنہ نے خود ہی کپڑا باندھ کر روکنے کی کوشش کی تھی۔
ماں بےہوش ہوتی جا رہی تھی۔
مومنہ نے بازل کو فون کیا۔
وہ بہت پریشان ہوا۔ اور بولا، میں تو زرا دور آیا ہوں بحرحال تم فکر نہ کرو۔
میں کچھ بندوبست کرتا ہوں۔
اتنے میں رکشے والا کسی کو ساتھ لیے لے آیا اور مومنہ کی ماں کو اٹھا کر مومنہ کی گود میں بٹھایا۔
مومنہ نے بڑی مشکل سے ماں کو سنبھالا۔ ساتھ رو بھی رہی تھی۔
ماں کے پاس ہاسپٹل میں بیٹھی مومنہ سوچ رہی تھی کہ خالہ سے ماں کتنا پیار کرتی ہے۔ مگر خالہ کام نہ آئی۔ باسط یقیناً گھر میں ہی ہو گا۔
بازل نے آ کر سب سنبھال لیا تھا اور خرچہ بھی خود اٹھایا تھا۔ اور اسے تسلی بھی دی اور کچھ روپے لفافے میں ڈال کر اسے پکڑا کر بولا، میں نے ابھی بہت ضروری کام سے جانا ہے۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں ہے شام تک گھر بھیج دیں گے۔
بازل چلا گیا۔ اور اسے جوس کچھ کھانے کا سامان اور دوائیاں پکڑا گیا۔
باسط کی ماں کی آنکھوں میں چمک ابھری، بیٹے سے بولی، چل اب ہاسپٹل چلتے ہیں اب تک بازل سب بندوبست کر چکا ہو گا۔
باسط بےزاری سے بولا، امی چھوڑیں ناں۔ میں آپ کی امیر زادی بہو کے ساتھ چیٹنگ کر رہا ہوں۔ یہ زیادہ ضروری ہے۔ اس کے پیسے پر عیش نہیں کرنی کیا۔؟
ماں بولی، فلحال تیرے باپ سے ہاسپٹل کا خرچہ لینا ہے اور ہاسپٹل جانا ہے چل اٹھ جلدی تیار ہو۔
باسط کی ماں شکل سی بنا کر بولی، میاں جی، اور ساری بات بتائی۔
وہ بہت پریشان ہوے۔ اور جلدی سے رقم دے کر بولے۔ بہتر ہے انہیں اپنے گھر لے آنا،
وہ فرمانبرداری دیکھاتے ہوئے بولی، جی ہاں کیوں نہیں۔
جب ہاسپٹل پہنچی تو مومنہ ماں کو جوس پلا رہی تھی۔
جاتے ہی مومنہ کی ماں سے لپٹ گئی اور بولی، ہاے میری بہن کو کچھ نہ ہو، تیرے علاوہ میرا ہے ہی کون۔
مومنہ پہلی بار ان کے ساتھ سپاٹ لہجے میں ملی۔
خالہ بولی،میں نے جوں ہی سنا، یہ گھر پر نہیں تھا۔ اسے بلایا اور جلدی سے آ گئ۔
باسط کو اشارہ کیا،
باسط ماں کا اشارہ پا کر سمجھ گیا اور خالہ کے قریب آ کر بولا، خالہ آپ گھبرانا نہیں اب میں سب دیکھ لوں گا۔ میں زرا ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا جیتے رہو۔
وہ باہر نکل گیا اور جوس اور چپس لے کر آیا اور مومنہ سے بولا، یہ لو۔
مومنہ نے سپاٹ لہجے میں کہا، نہیں چاہیے۔
وہ تھوڑا حیران ہوا۔ ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے اشارہ کیا کہ رہنے دو۔
اتنے میں خالہ کو شوہر کا فون آ گیا۔
خالہ فون سنتے ہی باہر نکل آئی اور بتانے لگی کہ کانچ چپ گیا تھا جس سے بچی گھبرا گئی۔ ہم ٹائم پر پہنچ گئے تھے اور باسط نے سب سنبھال لیا۔
شام تک شاید چھٹی مل جائے۔
وہ بولے، چلو ٹھیک ہے۔
وہ کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔
اتنے میں بازل کو باسط کا فون آ گیا۔
اس نے فون اٹھایا اور ماں کو دیکھا،
ماں سمجھ گئی۔
وہ فون سننے کے لیے باہر آیا تو بازل نے اسے کہا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ تم اور اماں ہاسپٹل آئے ہو۔ اب ان کو اوبر، یا کریم گاڑی میں لے کر جانا اور گھر چھوڑ کر آنا۔
باسط نے مری ہوئی آواز میں اچھا کہا، اور ماں کو بتانے لگا کہ وہ غنڈہ کہہ رہا ہے گھر چھوڑ کر آنا۔ تو ایسا ہے کہ اگر ڈرپ ختم ہو گئی ہو تو انہیں چھوڑ کر ہم چلتے ہیں میں اب بور ہونے کے لیے مزید ادھر نہیں بیٹھ سکتا۔
ماں نے کہا بس ڈرپ ختم ہونے دے پھر ڈاکٹر سے اجازت لے کر چلتے ہیں۔
خالہ بڑبڑانے لگی کہ کہاں یہ میرے ساے سے بھی ڈرتا تھا، کہاں اب ہم اس سے ڈرتے ہیں۔ کمبخت مارا، منحوس انسان۔
مومنہ ان کے کوسنے سنکر دل ہی دل میں مسکرا رہی تھی۔
خالہ گھر پہنچی تو شوہر نے حیرت سے پوچھا کہ اپنے گھر نہیں لے کر آئی۔
خالہ آہستہ سے بولی، وہ میڈمیں بھی تو آنے پر راضی ہوتی تو تب ناں۔
شوہر بولا، بیگم آپ پھر بہن کے پاس رک جاتیں۔
وہ بولی، میں آپ کی فکر میں واپس آ گئ ہوں۔ ویسے بھی مومنہ بہت سمجھدار بچی ہے اور کوئی اتنی بڑی چوٹ بھی نہیں آئی ہے ایک کانچ ہی چبھا ہے۔ اور چھٹی بھی دے دی۔ باسط ان کو دوائیں، فروٹ اور چکن وغیرہ لے کر دے آیا تھا تاکہ وہ یخنی وغیرہ بنا کر دے سکے۔
وہ بولے اچھا کیا۔
انہوں نے سوچا کہ مومنہ کو بھی فون پر تسلی دے دیتے ہیں۔
انہوں نے مومنہ کو فون کیا اور گھر سے باہر نکل گئے اور اس کی ماں کی طبیعت کا پوچھا۔
مومنہ بولی،جی انکل وہ اب دوائی کے اثر سے غنودگی کی کیفیت میں ہیں۔
میں ادھر مارکیٹ آئی تھی ایک پڑوسن آنٹی کو ان کے پاس بٹھا کر کہ کوئی چکن اور گوشت لے جا کر یخنی بنا کر دوں۔
وہ سوچ میں پڑ گئے کہ ان کی بیگم تو کہہ رہی تھی کہ باسط نے سودا لا دیا ہے۔
وہ بولے، بیٹا ڈاکٹر کا خرچہ تو بہت آیا ہو گا تم کہو تو میں خرچے کے لیے ایزی پیسہ کر رہا ہوں۔ ان کی صحت کا خیال رکھو۔
مومنہ بولی،نہیں انکل جی بازل نے سب خرچہ کیا تھا اور پھر اسے کہیں ضروری جانا تھا اس نے ضرورت کے پیسے بھی دیے ہیں آپ نہ بھیجیں۔بہت شکریہ، وہ بھی تو آپ کی طرف سے ہی ہیں ناں، بازل آپ کا بیٹا ہے جس نے موقع بے موقع ہماری مدد کی۔ ہماری کیا، بہت سے لوگوں کی آے دن کرتا رہتا ہے۔
اس کا بزنس جو اچھا چل رہا ہے۔ دوست کے ساتھ ملکر پراپرٹی کا بزنس کرتا ہے۔
اس نے آفس کا نام پتہ بھی بتا دیا۔
وہ سنکر سوچوں میں کھو گئے۔ وہ سوچتے رہے کہ ان کی بیوی کیا ان سے جھوٹ بولتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ساری زندگی جو بھی وہ بازل کے بارے میں بتاتی رہی وہ جھوٹ ہو۔
انہوں نے کافی عرصے کے بعد بازل کو فون کیا اور کہا کہ مومنہ کی ماں کا سنا ہے وہ زخمی ہو گئی ہیں۔
وہ پہلے تو بہت حیران ہوا کہ آج باپ نے کیسے فون کر لیا ہے۔
اس نے قدرے کپکپاتی آواز میں کہا، جی ابو جی میں ہی تو انہیں ہاسپٹل لے کر گیا تھا۔ جو بات مومنہ نے بتائی وہی اس نے بتائی۔ سوائے مومنہ کو پیسے دینے کے۔
انہوں نے ہلکہ سا رعب سے کہا، اس کو خرچے کے کچھ پیسے دے آتے۔
بازل نے دھیمی آواز میں کہا، جی دیے تھے۔
وہ پھر پوچھنے لگے سنا ہے کوئی پراپرٹی کا کام کر رہے ہو۔
وہ قدرے حیران ہوا پھر اقرار کر لیا۔ اور اپنے آفس کا پتا بھی بتا دیا۔
وہ سنکر بولے ٹھیک ہے اور فون بند کر دیا۔
وہ اب بیوی کی حقیقت جان چکے تھے اس کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ شادی کے شروع میں اس کی میٹھی باتوں میں آ کر گھر اس کے نام کرنے کی بہت بڑی غلطی کر بیٹھے تھے۔
اگر اس کو کچھ بولیں گے تو وہ گھر سے ان دونوں باپ بیٹے کو نکال دے گی۔
ابھی تک بیوی نے کھبی گھر کی ملکیت کا نام نہیں لیا تھا انہوں نے سوچا کہ اب اس سے بگاڑ نہیں سکتے۔
کھبی کھبی وہ اپنے فیصلے پر پچھتاتے بھی تھے مگر اب کیا ہو سکتا تھا نہ وہ اس سے لڑ کر واپس لینے کی کوشش کر سکتے تھے۔ شریف انسان تھے۔
مومنہ کی ماں ٹھیک ہو چکی تھی اور باسط کی ماں نے مومنہ کی ماں کو بتا دیا تھا کہ باسط کسی اور لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
بازل کے باپ نے دونوں ماں بیٹی کے اس فیصلے میں دخل نہ دیا۔
سادگی سے منگنی ہوئی۔
انہوں نے باسط اور اس کی ماں کو قیمتی طائف دیے۔
باسط کی ماں اور باسط خوشی سے زمین پر پاوں نہیں رکھتے تھے۔
مومنہ کی ماں کو باسط کی ماں نے ایسا رو رو کر ڈرامہ کیا تھا کہ اسے مومنہ کے کھونے کا جیسے بہت غم ہے۔
وہ ایسے دھاڑیں مار کر روئی کہ مومنہ کی ماں اسے چپ کروا کر تسلی دینے لگی کہ یہ سب قسمت کی باتیں ہیں۔
اب باسط کی ماں نے پینترا بدلا اور بہن کو چومتے ہوئے بولی، تم رشتہ پسند کرو دیکھو سنو، میں خود اس کی شادی دھوم دھام سے کروں گی۔
بازل کا باپ بیٹے کی فکر میں سوتا نہ تھا جب تک وہ آ کر کھانا کچن سے گرم کر کے کھا نہ لے۔ ماں سو جاتی۔ اگر نہ بھی سوتی تو سوتی بن جاتی۔
بازل خود ہی کھانا گرم کر کے کچن میں پڑے کرسی اور میز پر بیٹھ کر کھا لیتا۔
باپ بہانے سے پانی پینے آتا۔
بازل سمجھتا تھا مگر ان دونوں میں اتنے فاصلے بڑھ چکے تھے کہ جھجک حائل تھی۔
مومنہ کی ماں کو اس کی شادی کی جلدی پڑ گئی۔ اس نے رشتے والی کو رشتے دکھانے کا بولا۔
وہ رشتے لانے لگی۔
مومنہ کو ان لوگوں کے انداز سے الجھن ہوتی۔
باسط اب اس کی ماں کی بیماری کے بعد اکثر گھر آنے لگا۔
مومنہ اب اسے زبردستی چاے پانی پلاتی، کھانا کھلاتی۔
مومنہ نے بہت سوچا کہ بازل نے ہر گھڑی میں انکا ساتھ دیا، کھبی ان کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ اس سے بڑھ کر اس کے لیے اور اس کی ماں کے لئے کوئی بہتر انسان نہیں ہو سکتا۔
جو بھی مومنہ کو پسند کرتا تو مومنہ ماں کو بھی ساتھ رکھنے کی شرط رکھ دیتی۔ تو وہ لوگ انکار کر دیتے۔
ایک دن بازل آیا ماں پڑوس میں گئی ہوئی تھی۔
مومنہ نے بازل سے کہاکہ میں ماں کو اکیلا چھوڑ کر شادی نہیں کر سکتی، جبکہ اماں کہتی ہیں کہ تو میری فکر نہ کر میری بہن ہے ناں، وہ بھی تو جانتی ہے کہ میں اکیلے کیسے رہوں گی اس کے پاس میں رہ لوں گی۔
اور میں اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ وہ بیماری میں چند دن نہیں رکھ سکیں تو ہمیشہ کیسے رکھیں گی۔
اب جو بھی رشتے والے آتے ہیں وہ مجھے تو قبول کرنے کو تیار ہیں پر میری ماں کو نہیں۔ اب تم بتاؤ میں کیا کروں۔
بازل نے ایک لمبی سانس بھری اور بولا، جو ماں سمیت قبول کرنا چاہتا ہے پر وہ تمہارے قابل نہیں ہے۔
مومنہ اس کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت و احترام دیکھ چکی تھی اس کی بات کا مطلب بھی جان گئ تھی۔
جلدی سے بولی، بازل دیکھو، میں جلدی سے بات بتانا چاہتی ہوں کہ کہیں اماں نہ آ جائیں۔ تم بتاو کیا اب تک تمہاری نظر میں میرے لائق کوئی لڑکا نظر آیا ہے جو مجھے خوش رکھ سکے میری ماں کا خیال رکھ سکے۔
بازل نے ٹھنڈی سانس بھر کر بولا، یہی تو مسئلہ ہے جتنے بھی تمہارے رشتے آئے، میں نے سب کی چھان بین کروائی مگر کوئی معیار پر پورا نہیں اترا۔
مومنہ بولی، ایک میری نظر میں ہے جو میری ماں کا بھی بہت خیال رکھتا ہے اور میرا بھی۔ اور وہ تم ہو۔
وہ اس کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ کر بھرائی ہوی آواز میں بولا۔ میں تمہارے قابل نہیں۔
مومنہ پرجوش لہجے میں بولی،
نہیں بازل تم دنیا کے سب سے عظیم انسان ہو۔ جو دکھاوے کے لیے کسی کی مدد نہیں کرتا۔ تم صرف میری مدد کرتے تو میں کہہ سکتی تھی کہ تم مجھے پسند کرتے ہو اس لیے۔ میں جانتی ہوں تم نہ بھی بتاو تو۔
وہ دکھ اور محبت سے دیکھ کر بولا، میں تمہیں بچپن سے پیار کرتا ہوں۔ مگر تم کیوں اپنی زندگی میرے جیسے غنڈے کے ساتھ بسر کرنا چاہتی ہو۔
دنیا بہت طعنے دے گی کہ تم میرے ساتھ چلنے سے گھبرا جاو گی۔
وہ پر یقین لہجے میں بولی،بس ڈن ہو گیا میں اب مزید ان رشتے والوں کے آگے تماشا نہیں بن سکتی۔ میں بھی تمہارے ساتھ ہی خوشی محسوس کرتی ہوں۔ مجھے دنیا کا کوئی ڈر نہیں۔ میں سب کو چیخ چیخ کر کہہ دوں گی کہ میں نے تم سے ہی شادی کرنی ہے ورنہ میں کچھ کھا کر مر جاوں گی۔
ساری زندگی نام نہاد خالہ اپنی سازشوں سے میری ماں سے فاہدے اٹھاتی رہی ہے۔ اب میں ان سے ڈر کر تم جیسے مخلص انسان کو کھونا نہیں چاہتی۔
تمہیں اس حال میں پہنچانے والی بھی وہی عورت ہے۔ مگر میری ماں کا پور پور اس کی محبت میں گرفتار ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ تمہیں بھی قبول کر لیں گی۔ اور بہن کو بھی سمجھ جائیں گی۔ ابھی وہ اس کے خلاف ایک لفظ نہیں سننا چاہتیں۔
میں نے بہت غوروفکر کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تمہیں برباد کرنا چاہتی تھیں اور تم سے نفرت کرتی تھیں۔ تمہیں برباد کر کے وہ اب سکون کی زندگی جی رہی ہیں کہ بیٹے کی امیر گھر میں منگنی کروا لی، باپ بیٹے کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔
وہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ مگر میں اب انہیں تم دونوں کو مزید برباد نہیں کرنے دوں گی۔
مجھے ان سے نفرت ہے وہ دن یاد کرتی ہوں تو دل دکھتا ہے جب وہ بچپن میں تم پر ظلم کیا کرتی تھیں۔
بازل اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا، میں اپنے باپ کا دل اب صاف نہیں کر سکتا۔
مومنہ بولی، مایوسی کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو، تمہاری نیت صاف ہے تو اجر بھی اچھا ملے گا۔
ظالموں کو ان کے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔ بس میں اب پیچھے ہٹنے والی نہیں۔
وہ بولا، اگر تم نے میرے ساتھ اپنی قسمت خراب کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو اب تم نے زبان بند رکھنی ہے اور اب یہ غنڈہ باپ کے آگے ساری دنیا کے آگے ڈٹ جائے گا کہ مجھے مومنہ چاہیے ورنہ میں اسے اٹھا کر لے جاوں گا۔
مومنہ بولی، گڈ، مگر میری امی اور خالہ کو میری پسند کی بھنک بھی نہ پڑے۔ ورنہ ماں مجھے اموشنل بلیک میل کر سکتی ہیں۔
وہ اٹھا اس سے ہاتھ ملایا اور بولا، بہت شکریہ مجھ جیسے زمانہ بدنام غنڈے کو قبول کرنے۔۔۔۔۔۔۔
مومنہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے پیار بھرے غصے سے گھورا۔
وہ تیزی سے جانے لگا تو مومنہ بولی، چاے تو پی جاو۔
وہ مسکراتے ہوئے خوشی سے بولا، اس وقت مجھے خوشی میں کوئی ہوش نہیں ہے۔ میری دھڑکنیں بھی خوشی میں رقص کر رہی ہیں۔ بس اب ایک منٹ بھی ضائع کیے بغیر میں اپنے مشن پر جا رہا ہوں تاکہ تمہیں جلدی سے پا سکوں۔
بازل چلا گیا تو مومنہ خوشی میں مسکرانے لگی اور اللہ تعالیٰ سے ملن کی دعائیں کرنے لگی۔
باسط کی ماں کو شوہر کے گرجنے برسنے کی آوازیں آنے لگیں تو وہ کمرے میں داخل ہوئی تو بازل کا باپ اپنی جوتی سے اسے مار مار کر برا بھلا کہہ رہا تھا۔
وہ تیزی سے اگے بڑھی اور مارنے کی وجہ پوچھی تو وہ غصے سے بولے، یہ کمبخت کہہ رہا ہے میری مومنہ سے شادی کروانی ہے۔
باسط کی ماں کے دل کا ارمان پورا ہوا کہ جس بہن سے وہ نفرت کرتی تھی اس کی سلھجی پڑھی لکھی بیٹی کو غنڈہ ملے گا۔ پھر ماں بیٹی اس گھر میں آ گئ تو مفت کی نوکرانی مل جائے گی۔
وہ چیخ کر بولی، تو کیا غلط کہہ رہا ہے۔ اچھا ہے میری بھانجی اس گھر میں آ جاے تو۔ یہ اب ماشاء اللہ سے اچھا کما لیتا ہے اس کا خرچہ آرام سے اٹھا سکتا ہے۔ قتل کے الزام سے بھی باعزت بری ہو گیا ہے۔ میں خود اس کی شادی دھوم دھام سے کراوں گی۔
اس نے زور زور سے باسط کو آوازیں دیں کہ پانی لے آو۔
وہ ایک گلاس پانی لایا، باہر سب سن رہا تھا۔ ماں نے اشارہ کیا کہ بھائی کو بھی لا کر دو۔
وہ تھوڑا حیران ہوا اور جلدی سے لے آیا۔
بازل مار کھا کر نڈھال ہو چکا تھا۔ پانی پی کر زور سے گلاس فرش پر دے مارا۔
اور وارننگ دی کہ کل اگر میرا رشتہ پکا نہ کیا تو نتائج کے زمہ دار آپ لوگ ہوں گے۔
اور کمرے سے نکل گیا۔ جانتا تھا ماں مومنہ کا رشتہ اس لیے اس کے ساتھ کروانا چاہتی ہے کہ مفت کی نوکرانی مل جائے گی اور اسے مجھ جیسا غنڈہ ملے گا تو اس کی نفرت کو تقویت
ملے گی۔ اب تو وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر یہ رشتہ پکا کروا کر دم لے گی۔
اسے باپ کی فکر بھی ستانے لگی مگر ایسا کرنے پر مجبور تھا۔
روتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا کہ اس کا مقصد باپ کو ستانا نہ تھا پھر اپنے پیار کی کامیابی کی دعائیں کرنے لگا۔
باپ سیدھا مومنہ کے گھر پہنچا، مومنہ کی ماں پڑوس میں گئی تھی۔
خالو بہت پریشان لگ رہے تھے وہ سمجھ گئی کہ بازل نے بم پھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے اسے کہا کہ بیٹی آپ لوگوں کو جلد از جلد گھر چینج کرنا پڑے گا۔
پھر انہوں نے مومنہ کے اصرار کرنے پر سب بتا دیا اور روتے ہوئے اس سے معافی مانگنے لگے۔
مومنہ نے کہا انکل آپ پلیز ایسا نہ بولیں۔
اس نے انہیں ساری سچائی بتا دی۔ وہ کافی حیران ہوئے۔ اور روتے ہوئے بولے، وہ اتنا ظلم سہتا رہا وہ میری ناک کے نیچے۔ واقعی سوتیلی ماں۔۔۔۔۔۔۔۔
مومنہ نے بات کاٹتے ہوے کہا، انکل اس میں سوتیلے رشتے کا کوئی قصور نہیں۔ بس کوئی بری عورت ہو تو وہ ہر رشتے کے ساتھ برا کرتی ہے۔
میرے نانا بھی خالہ کے سوتیلے باپ تھے مگر سگی بیٹی میں اور اس میں فرق نہیں رکھتے تھے۔
وہ خوش ہو گئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دینے لگے۔
اتنے میں مومنہ کی امی آ گئی۔
گھر میں انہیں دیکھ کر کافی حیران ہوئی کیونکہ وہ بہت کم ادھر آتے تھے۔
مومنہ کی ماں نے مومنہ سے چائے بنانے کا بولا، وہ کچن میں چلی گئی۔
بازل کے باپ نے نظریں جھکا کر بات شروع کی کہ بازل مومنہ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اگر رشتہ نہ دیا تو وہ انتہائی قدم اٹھا لے گا۔
وہ حیرے سے انہیں دیکھنے لگی۔
جاری ہے۔
ناول اختتام پذیر ہوا
You've reached the end of this journey. We hope you enjoyed it!
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.