Back to Novel
Dharkanain Raks Karain
Episodes

دھڑکنیں رقص کریں 6

Episode 6

بازل روتے روتے اکیلا تڑپتے تڑپتے بیڈ پر لیٹا تو دوست کا فون آ گیا جو ابھی کچھ عرصہ پہلے کالج میں بنا تھا۔ مگر بہت ہمدرد اور اچھا دوست تھا۔ اکثر جب بازل دکھی ہوتا تو وہ اس کے ساتھ اپنا دکھ شئیر کرتا۔


اس دوست کے فون سے اسے مورل سپورٹ مل گئی۔ اس کو آج کا سارا احوال کہہ سنایا۔ اور دل کو زرا سکون ملا اور سو گیا۔


اسی دوست نے اس کی باتوں سے اندازہ لگا کر اسے مومنہ سے محبت کا احساس دلایا تھا۔


بازل نے پہلے تو اس بات کو نہ مانا مگر جب دل کو ٹتولا تو اس کی بات سچ نکلی اور اس کو بتایا کہ تمہارا اندازہ ٹھیک تھا۔


بازل کالج میں پڑھتا مگر فیس وغیرہ کی مشکل پڑی رہتی۔


باسط نے ایم بی اے میں داخلہ لے لیا مگر چند ماہ گیا پھر آوارہ گردی میں مصروف ہو گیا۔


ماں کو سب علم تھا وہ کہتی، ارے بیٹا ان ڈگریوں وغیرہ میں کیا رکھا ہے بس کسی امیر لڑکی کو پھنسا کر شادی کر اور اس کے پیسے پر عیش کریں گے۔


باپ سے وہ مسلسل اپنی پڑھائی کے اخراجات لیتا رہتا اور عیش کرتا۔


جبکہ بازل نے جیل سے آنے کے بعد باپ سے خرچہ نہ مانگا۔ اس کی ہمت نہ ہوئی۔


اس کے دوست نے اس کو اپنے ساتھ پراپرٹی کا بزنس کرنے کی آفر کی۔


ان کے پاس پیسہ تھا انہیں نے شاندار آفس بنایا ہوا تھا۔


بازل نے آفر قبول کر لی۔ اور کچھ زمینوں پر لوگوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا تھا۔


ان سب سے بازل نے بغیر لڑے اپنی دہشت سے قبضہ چھڑوا لیا۔


اب اس کی پورے علاقے میں دھاک بیٹھ گئی اور اسے اس کام کے لیے استعمال کرنے لگے۔


اب وہ اپنا خرچہ خود اٹھانے لگا۔ اس میں سے اس نے ایک گاڑی خرید لی۔


سوتیلی ماں جل بھن گئی، شوہر کے خوب کان بھرے کہ اب حرام کی کمائی گھر میں آنے لگی ہیں۔ ایک میرا بیٹا جو حلال کمائی سے ایک بائک پر بے چارہ یونیورسٹی آتا جاتا ہے۔  


مومنہ کا بچپن بازل اور باسط کے ساتھ گزرا۔ وہ ماں کے ساتھ اکثر آتی جاتی۔


کیونکہ مومنہ کی ماں بہت سادہ طبیعت کی مالک تھی۔ اس میں اپنائیت اور خلوص تھا۔


جبکہ اس کے برعکس باسط کی ماں بہت چالاک اور مطلبی عورت تھی۔


اسے مومنہ اور اس کی ماں سے بہت فائدہ ملتا تھا اس لیے اس نے ان سے تعلق جوڑ رکھا تھا۔


شوہر اکثر اسے کہتا کہ ان ماں بیٹی کو پاس ہی رکھ لو۔


مگر وہ کہتی نہ جی میرا بیٹوں والا گھر ہے۔ اس کی بچی کل جوان ہو جائے گی۔ میں اپنے بیٹوں کو برباد نہیں کر سکتی۔


وہ کہتے اچھا ان کی کچھ ہیلپ کر دیا کرو۔


وہ کہتی جی میں تو کرتی ہوں تو اسکا نظام چل رہا ہے ناں۔


مومنہ کو میں ہی تو پڑھا رہی ہوں۔


وہ اس کی باتوں پر یقین کر لیتے۔


مومنہ کی ماں شوہر کی پنشن اور آرڈر پر گھر میں کھانا تیار کرتی تھی جس سے بمشکل اسکا گھر کا خرچہ نکلتا تھا۔


پھر باسط کی ماں کام کاج کے عوض کچھ رقم اسے دیکر احسان چڑھاتی کہ یہ تمہارے لیے ہیں۔


وہ بہن کی محبت اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر قبول کر لیتی۔


مومنہ کالج محلے کے ایک بزرگ انکل کے آٹو میں جاتی۔


بازل مومنہ کی پوری خبریں رکھتا۔


اس آٹو والے کو مل کر اسے کچھ رقم بھی دیتا اور اسے وارننگ بھی دیتا کہ خیال سے لانا۔


اپنا نمبر بھی اسے دیا کہ کوئی مسئلہ ہو تو بتانا۔


اس کا آٹو ٹھیک بھی کروا دیتا۔


مومنہ کو کچھ علم نہ تھا۔


اس کے گھر کھبی چکر لگا لیتا، پھل فروٹ ساتھ لے جاتا۔


پہلے تو مومنہ کی ماں کو اعتراض نہ ہوتا۔ خوش ہوتی کہ میری بہن کا سوتیلا بیٹا ہے۔


مومنہ کھبی چاے اور کھبی کھانا پوچھتی۔


وہ اکثر انکار کر دیتا کہ تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔


کھڑا کھڑا آتا اور جلدی چلا جاتا۔


ان کے گھر کا کرایہ بہت کم تھا وہ لوگ خوش تھیں کہ مالک بہت اچھا ہے۔ ہمارا خیال کرتا ہے۔ مگر بازل مالک کو فالتو کرایہ دیتا اور انہیں دھمکی بھی دیتا کہ ان کو تنگ نہ کرنا اور نہ ان کو کچھ بتانا۔


جب سے جیل سے آیا تھا تو مومنہ کی ماں کا منہ بن جاتا تھا کہ وہ ادھر کیوں آتا ہے۔ اس نے بہن کو بتا دیا تھا کہ وہ ادھر اکثر آتا ہے۔


باسط کی ماں بازل کی محبت کو بچپن سے ہی پہچان گئی تھی اور وہ خوش تھی کہ اچھا ہے اس غنڈے سے یہ شادی کر لے تو مفت کی نوکرانی گھر میں آ جائے گی


لیکن بظاہر وہ بہن کو یہ خوش فہمی ڈالی رکھتی کہ وہ اپنے باسط سے اس کی شادی کرے گی۔


اس وجہ سے جب وہ سنتی تو مومنہ کی ماں سے کہتی، چل اچھا ہے بہن وہ آتا جاتا رہے تو لوگوں کو بھی پتا ہو گا کہ ان کی خبرگیری کرنے والا کوئی ہے ورنہ مجھے تم لوگوں کی بہت فکر رہتی ہے۔


بھولی بہن اس بات سے خوش ہو جاتی کہ وہ اس سے بہت پیار کرتی ہے۔


مگر وہ تو اس سے نفرت کرتی تھی کہ جب اسکا شوہر اور سارا خاندان اس کی تعریف کرتا تو وہ جل بھن جاتی۔


مومنہ جب شعور کی عمر کو پہنچی تو اس نے بازل کی حرکات کو نوٹ کرنا شروع کیا کہ مالک مکان، آٹو والا محلے کی شاپ والا اکثر ان کے مہینے کا بل اتنا کم کیوں بناتا ہے۔ ہے بھی عمر میں وہ بزرگ،ایک دن مومنہ نے ہوا میں تیر چلا کر کہا کہ بازل سودے کے باقی پیسے دیتا ہے ناں مجھے پتا چل گیا ہے۔


وہ حیران ہو کر بولا، آپ کو کس نے بتایا، بازل صاحب نے تو منع کیا تھا۔


مومنہ نے کہا، انکل جی مجھے کسی نے نہیں بتایا مگر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کام بازل کا ہی ہے۔مگر اسے نہ بتانا۔


وہ ڈر کر بولا، بیٹا آپ بھی نہ بتانا ورنہ وہ چھوڑے گا نہیں۔ ویسے بہت اچھا انسان ہے۔ میری بیوی کی دوائی بھی اکثر لا دیتا ہے۔ وہ دعائیں دینے لگا۔


وہ انکل بولا،بیٹی سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ہے تو غنڈہ مشہور مگر وہ دوسرے لوگوں سے بہت اچھا اور رحم دل ہے۔ وہ کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ہے۔ اگر کوئی مشکل میں ہو تو فوراً اس کی مدد کرتا ہے۔


مومنہ کے دل میں اسکا جزبہ محبت جاگنے لگا کیونکہ وہ اسے بچپن سے جانتی تھی جب وہ ماں کے ساتھ ان کے گھر آتی تو کھیلتے وقت باسط اسے بہت تنگ کرتا۔


کھبی دھکہ دے دیتا، کھبی اس کے بالوں کی پونی کھینچ لیتا، کھبی اس کی کھانے کی چیز چھین لیتا۔


وہ روتی تو بازل فوراً اس کے پاس آتا اسے چپ کرواتا۔


باسط کو کھبی ڈانٹ دیتا تو وہ اسے ماں سے پٹواتا۔


ماں کھبی بھی بیٹے کو منع نہ کرتی نہ کچھ کہتی، اگر کھبی مومنہ کی ماں باسط کو منع کرتی کہ اسے مت رلایا کرو تو جھٹ اس کی ماں کہتی، ارے بچے ہیں کھیل میں ایسا ہو جاتا ہے۔ وہ بھی تو بچہ ہے کون سا دشمنی میں کرتا ہے۔


مومنہ اس سے دور دور رہتی۔ بازل اسے پیار سے بات کرتا تو وہ اس کے ساتھ کھیلنے میں خوش رہتی۔


باسط کی ماں جان بوجھ کر بہن سے کام لینے کے لیے اس کو کہتی کہ میں مومنہ کی شادی اپنے باسط سے کروں گی۔


مومنہ کی ماں خوش فہمی میں پڑ کر اس کے اور کام آتی۔


مومنہ کی ماں چاہتی کہ وہ اپنی زندگی میں اس کے فرض سے سبکدوش ہو جائے۔


مومنہ نے اب شعور میں آ کر انکوائری شروع کر دی کہ آخر مالک مکان کرایہ کیوں اتنا کم لیتا ہے بڑھاتا نہیں ہے۔


اس نے وہاں بھی جا کر اس کی بیوی سے وہی دوکاندار والی ترکیب آزمائی تو سب کلیر ہوتا گیا۔


ماں کو ایک بار بتانے کی کوشش کی تو ماں نے جھڑک دیا اور نہ مانی۔


ماں بولی، ارے آپا کہتی ہے گھر بےشک اسے آنے دیا کرو مگر اس پر کھبی بھروسہ نہ کرنا۔


مومنہ چڑ کر بولی، امی اس کے پھل فروٹ اور دوائیں تو ہمارے لیے حلال ہیں مگر وہ کھبی پانی تک نہیں پیتا۔


آپ بھی ناں غربت کے ہاتھوں اپنی غیرت کو مار چکی ہیں۔


خالہ نے آپ کو عادت ڈال دی کچھ پیسے پکڑانے کے بدلے خوب کام کروا لیتی ہے۔ وہ آپ کے کام کی اجرت ہوتی ہے ان کی مدد نہیں۔ صدقے خیرات وہ ہمیں دے رہی ہوتی ہیں۔


میں بازل کو کتنا منع کرتی ہوں مگر وہ باز نہیں آتا۔


اسے ہم سے کیا فائدہ ملتا ہے بھلا۔


ماں نے اسے بری طرح ڈانٹ کر کہا، خبردار جو اس غنڈے کی تعریف کی تو وہ قاتل ہے۔


مومنہ نے صفائی دیتے ہوئے کہا، قتل کے الزام سے بری ہو گیا ہے۔


ماں بولی، میں نہیں مانتی۔


پھر ماں اس پر چلاتے ہوئے بولی، خبردار جو اپنی خالہ کے بارے میں کچھ برا بولا تو،


کل کو تو اس کے گھر بیاہ کر جانے والی ہے۔ باسط کی بس زرا کوئی اچھی نوکری لگ جائے تو وہ شادی کر دے گی آپا نے مجھے ابھی کل ہی بات کی تھی۔


میں تو اسے کہتی ہوں کوئی بات نہیں گھر کا بچہ ہے اپنا ہے شادی کر دیتے ہیں نوکری بھی کرتا رہے گا بعد میں۔


مگر وہ کہتی ہے کہ وہ دھوم دھام سے کرے گی۔


شاندار سی بری بناۓ گی۔۔۔۔


مومنہ غصے سے بولی، آپ بہت بھولی ہیں جدھر سے جہیز زیادہ ملنے کی امید ہو گی وہ ادھر اپنے بیٹے کی کریں گی سمجھی آپ۔


ماں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا، خبردار جو میری آپا کے بارے میں کچھ بھی الٹا سیدھا بولا تو۔


مومنہ اٹھ کر غصے سے چل پڑی۔


اتنے میں اسے ماں کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔


جاری ہے۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.