Back to Novel
Dharkanain Raks Karain
Episodes

دھڑکنیں رقص کریں 5

Episode 5

بازل کی ماں نے ان پرانے غریب محلے داروں کو ڈانٹ کر بھیج دیا۔


بعد میں ان کو خوب کوسنے دینے لگی کہ بازل ہمارا بچہ ان لوگوں کی صحبت میں ہی آج غنڈہ بن گیا کہ قتل تک کر ڈالا، اب نہ جانے اور کیا کیا سہنا پڑے گا۔


اب مہربانی فرما کر اسے اب اس گھر میں نہیں آنے دینا۔


بازل کا باپ بیٹے کی جدائی سے پہلے ہی مغموم تھا۔ اس نے کہا اچھا چاے پلاو سر درد کر رہا ہے۔


وہ بولی، ظاہر ہے سر درد تو کرے گا ہی، بیٹا جو ایسے کارنامے کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسا بیٹا کسی کو نہ دے۔ جس نے ہماری زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، گھر کا سکون برباد کر دیا ہے۔


بازل اپنے پرانے محلے اس لیے بھی شوق سے جاتا تھا کہ وہاں اس کے بچپن کے ساتھی بھی موجود تھے۔


کوئی نائ تھا تو کوئی درزی، غریب بیوہ عورتوں کی مدد بھی کرتا تھا۔ سب اسے بہت اچھا سمجھتے تھے۔ وہ سب جانتے تھے کہ وہ دل کا کتنا نرم ہے۔


عورتوں کی عزت کرتا تھا۔ کھبی کسی پر بری نظر نہیں ڈالتا تھا۔


اس کے برعکس اسکا سوتیلا بھائی باسط ٹھرکی ٹائپ تھا۔ فیس بک پر اپنی فوٹوز پوز بنا بنا کر لگاتا۔


ادھر سےہی ایک امیر زادی کو اپنے لچھے دار باتوں میں پھنسا لیا۔


وہ لڑکی اپنے والدین کی لاڈلی تھی، دو ہی بہن بھائی تھے۔


اس نے باسط سے شادی کرنے کے لیے خودکشی تک کی کوشش کی۔ اس کے گھر والوں کو مجبوراً ماننا پڑا۔


وہ لوگ گھر آئے اور بازل کے والد سے ملکر مطمئن ہوے کہ باپ شریف اور اچھا ہے جبکہ ماں کافی لالچی ہے۔


بازل کو اب یہی راہ سوجھی کہ بد سے بدنام برا ہوتا ہے۔ اب غنڈہ ہی بنا جائے۔


اس نے جیل میں لمبے لمبے بال رکھ لیے۔


بڑی بڑی مونچھیں رکھ لیں۔ اور اپنے درزی دوست سے کہا، کہ پسٹل کا خالی کور اس کے اندر نقلی پسٹل ڈال کر تیار رکھو۔


جو بدمعاش لوگ زیورات پہنے پھرتے ہیں وہ لے کر رکھو، کیونکہ اس کی بےگناہی ثابت ہو چکی تھی۔


مارنے والے لڑکے نے کہا تھا کہ اس نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے اس کا ارادہ نہیں تھا۔ اور بازل بےقصور ہے۔ اس کی گواہی اور اہل محلہ کی گواہی سے وہ باعزت بری ہو گیا۔ مگر وہاں وہ غنڈہ مشہور ہو گیا۔


ہوا یوں کہ جیل میں ایک نامی گرامی غنڈہ دوسروں سے خدمت کرواتا، ان سے مالشیں کرواتا، ٹانگیں دبواتا۔


سب لوگ اس کے نام سے ہی کانپتے تھے اور اسکا ہر حکم بجا لاتے تھے۔


اس نے بازل پر بھی حسبِ عادت حکم چلانے کی کوشش کی تو بازل نے انکار کر دیا۔


وہ بازل کو برا بھلا کہنے لگ گیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ تو مجھے جانتا نہیں ہے۔


بازل جو گھر کے حالات کی وجہ سے پہلے ہی دکھی اور غصے سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے اس غنڈے کو بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔


لگتا تھا کہ بچپن کی تمام محرومیوں کا بدلہ اس سے لے رہا ہے۔


غنڈہ مار کھا رہا تھا تو سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے اور خوب واہ واہ ہوئی، کیونکہ غنڈہ مار کھا کر ڈر کر ایک طرف خاموشی سے بیٹھ گیا اور اس کے بعد اس نے وہاں دوبارہ کسی پر رعب نہ جمایا۔


سب پر بازل کی دہشت بیٹھ گئی کہ یہ تو اس سے بھی بڑا اور خوفناک غنڈہ ہے۔


بازل باہر آیا تو اس کے دوستوں نے اس کو کالے کپڑے، اور تمام چیزیں مہیا کیں جو اس نے بولی تھیں۔


وہ نقلی پسٹل کندھے پر لٹکائے جب گھر آیا تو کام والی نے دروازہ کھولا اور غور سے بازل کو دیکھا اور پہچان کر تیری سے اندر گئی اور خوفزدہ لہجے میں بولی، باجی جی وہ باہر بازل آیا ہے۔


سوتیلی ماں نے اندر سے ہی اسے زور زور سے چلا کر کہا، جاو اسے کہو ادھر اب اس گھر میں وہ نہیں آ سکتا۔


باپ بھی شور سنکر باہر آ گیا اور بیٹے کی آمد کا سنکر دل میں خوش ہوا۔


بیوی نے چلا کر شوہر اور باسط کو کہا، جاو اسے گھر میں گھسنے نہ دینا۔


باسط جانے لگا تو بازل زور زور سے دروازے بجاتا اپنے غنڈے والے حلیے میں داخل ہوا تو سب اسے دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔


اس نے سلام کیا اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔


چلتے چلتے رک کر زور سے بولا، جلدی سے چائے بنا کر میرے کمرے میں پہنچا دو۔


اور میں واش روم میں نہانے جارہا ہوں، میری پسٹل کو کوئی غلطی سے بھی ہاتھ نہ لگائے، لوڈ ہے گولی چل پڑی تو میں زمہ دار نہیں۔ اور ہاں رات کا کھانا جلدی بنا دینا، میں نے جلدی سونا ہے۔


کھانے میں چکن کڑاہی بنا لینا، میں نے جلدی سونا ہے۔


باپ نے بیوی سے کہا، جو کہتا ہے وہ کرو،


بیوی دل میں ڈر گئی۔ باسط سے بولی، جاو بازار سے چکن وغیرہ لے آو۔


اور ملازمہ سے بولی، جلدی چاے بناو۔


باسط خود بھی ڈر گیا تھا ماں سے پیسے لے کر جلدی سے چل پڑا۔


بازل نے اپنے کمرے کے دروازے زور دار طریقے سے بجائے، چیزوں کو پلٹا اور آوازیں نکالیں۔


اور مسکراتا ہوا دل میں خوش ہوتا واش روم میں گھس گیا۔


واش روم سے واپس آیا تو ملازمہ چاے رکھ کر تیزی سے بھاگ گئی۔


بازل چاے پیتے ہوئے سوچنے لگا کہ وہ ویسے ہی اتنا عرصہ اس ظالم عورت سے ڈرتا رہا۔


سچ ہے دنیا سے ڈرتے رہو تو ڈراتی رہتی ہے جب نہ ڈرو تو خود ڈر جاتی ہے۔


بازل اپنے باپ سے بہت پیار کرتا تھا۔ ان کے علاوہ اسکا اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ وہ باپ سے ملنے کو بےقرار تھا۔


جانتا تھا کہ باپ تو پہلے ہی ماں کے بہکاوے کی وجہ سے اس سے بدگمان تھا اب تو مزید اس سے نفرت کرے گا۔


جب گھر میں داخل ہوا تو سامنے باپ کو کھڑا دیکھ کر اسکا دل تڑپا کہ وہ دوڑ کر باپ کے گلے لگ کر خوب روے مگر انہوں نے اسے دیکھا اور خاموشی سے اندر چلے گئے۔


اندر سے وہ بھی اتنے دنوں کی جدائی سے دل میں اسے دیکھنے کو بےچین تھے۔ مگر اناء آڑے آ گئ تھی۔


باسط کی ماں نے جھٹ سے مومنہ کو اور اس کی ماں کو گھر بلا لیا۔


جب کوئی مشکل پیش آتی تو وہ ان دونوں کو بلا لیتی۔


مومنہ کی ماں بہن کے بلاوے پر فوراً آ جاتی۔ مومنہ کچن میں کھانا بنانے میں مصروف ہو گئی۔ کہ دیر نہ ہو جائے۔


جب کھانا بن گیا تو باسط کی ماں مومنہ سے بولی، جا اس منحوس مارے کو تو جا کر کھانا دے آ۔


مجھے تو اس سے ڈر لگنے لگا ہے۔ پسٹل بھی لوڈ کر کے لایا ہے کمبخت۔


مومنہ کی ماں نے کھانے کی ٹرے اٹھائ اس کے کمرے کے باہر پہنچی،


مومنہ ہاتھ میں جگ اور دوسرے ہاتھ میں سلاد کی پلیٹ پکڑے کھڑی تھی۔


دروازے کے باہر سے مومنہ کی ماں نے قدرے زور سے مگر کانپتی آواز میں کہا، کھانا پکڑ لو۔


اس نے آواز سنی اور تیزی سے دروازہ کھول کر سلام کیا اور جلدی سے ٹرے پکڑ لی، اور شکریہ کہا، پیچھے مومنہ کو دیکھ کر اس کی دھڑکنیں رقص کرنے لگیں۔ جسے وہ بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا اور شعور کی عمر تک پہنچتے ہی اس کا دل اسکا دیوانہ ہو گیا تھا۔


اس کو دیکھ کر ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی۔


اتنے دنوں کی جدائی کے بعد آج وہ سامنے تھی۔ اس کے دل کی خواہش تھی کہ کاش آج وہ مومنہ کو دیکھ سکتا۔


اس کی مراد بھر آئی تھی۔


بازل نے مومنہ کی ماں سے بڑے احترام سے سلام کے بعد پوچھا، آپ کیسی ہیں۔


وہ ٹرے پکڑا کر رکھائ سے بولی، ٹھیک ہوں۔ اور دونوں جلدی سے واپس چل پڑیں۔


بازل اپنے بیڈ پر خاموشی سے بیٹھ گیا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔


اس نے کھانے کی طرف دیکھا، اس نے سوچا، مومنہ نے کھانا بنایا ہو گا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب وہ آتی ہے تو کھانا پھر وہی بناتی ہے۔ اس نے بڑی رغبت سے کھانا کھایا اور عشاء کی نماز پڑھنے لگا۔


مومنہ خالو کو کھانا دینے گئ تو انہوں نے پوچھا کیا بازل نے کھانا کھایا۔


مومنہ نے بتایا کہ وہ ابھی دے کر آئی ہے اب کھیر دینے جا رہی ہے۔


بازل نے دروازہ بند نہیں کیا تھا۔


مومنہ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو جواب نہ ملا، اس نے گردن زرا سی اندر کر کے دیکھا تو وہ نماز پڑھ رہا تھا۔


مومنہ نے خاموشی سے کھیر رکھی اور باہر آ گئ۔


بازل سلام پھیر کر اسے جاتا دیکھنے لگا۔ اور اسے پانے کی خواہش میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگا کہ یا اللہ میں جانتا ہوں کہ میری خواہش بہت بڑی ہے۔ میں اس کے قابل نہیں ہوں۔


نہ ہی وہ مجھے پسند کرے گی۔ مگر تو بڑا کرم کرنے والا ہے تو چاہے تو مجھے اس کے قابل کر دے تاکہ میں تجھے اس کو مانگتے ہوئے شرمندہ نہ ہوں۔ اور اس کے دل میں بھی میرے لیے پاکیزہ محبت کا جزبہ پیدا کر کے اسے میری قسمت بنا دے۔


اے رب پاک تو جانتا ہے کہ میرا جزبہ سچا ہے اور محبت پاکیزہ، تو میرے اس نیک جزبے کو قبول و منظور فرما کر ہمیں زندگی کا جیون ساتھی بنا دے اور راہ کی تمام رکاوٹوں کو ختم کر دے۔


رو رو کر اس نے سجدے میں اپنے باپ کا دل اپنے لیے نرم کرنے کی بھی ڈھیروں دعائیں کیں۔


کافی دیر اکیلا اپنی قسمت پر روتا رہا۔ گھر میں اسے کوئی پیار کرنے والا، تسلی دینے والا نہ تھا۔


اپنی ماں کی تصویر پرس سے نکال کر چومتا رہا اور اس کی معفرت کی دعائیں کرتا رہا۔


جب کافی دیر روتے روتے تھک گیا تو اٹھ کر رغبت سے کھیر کھانے لگا۔


آج زندگی میں پہلی بار اس کے حکم کی تعمیل ہوئی تھی اور اسے عزت سے تازہ اور گرم کھانا اپنے کمرے میں نصیب ہوا تھا ورنہ وہ آتا تو تنور سے روٹیاں لے آتا اور فرج سے سالن خود ہی نکال کر گرم کر کے کھا لیتا۔ اکثر وہ لیٹ آتا۔


گھر کی چابی اس کے پاس رہتی۔


وہ زیادہ وقت باہر گزارتا۔ اسے گھر والوں کے نفرت بھرے چہروں سے دل پر آریاں چلتیں۔ اس لئے وہ چاہتا کہ سب سو جائیں تو وہ جائے۔ تاکہ ان کے سپاٹ چہرے دیکھ کر اسے دکھ نہ ہو۔


جاری ہے۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.