Back to Novel
Meri Sar Phiri
Episodes

میری سرپھری 1

Episode 1

ہمشا اکیلی مارکیٹ آی ہوی تھی۔ اس نے ایک پرفیوم خریدنا تھا۔

جب وہ مارکیٹ سے باہر آئی تو اسے سمجھ ہی نہیں آئی، کب کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھا اور وہ بےہوش ہو گئی۔

جب ہوش آیا تو چند لوگ اسے ایک پرانے سے گودام نما کمرے میں بند کر کے لکڑی کے دروازے کو باہر سے بند کر کے اسے دھمکیاں دیتے ہوئے چلے گئے۔

اس سے انہوں نے پرس بھی چھین لیا تھا جس میں اس کا موبائل اور پیسے موجود تھے۔

وہ حیرت سے ادھر ادھر کمرے کا جاہزہ لینے لگی۔

وہ کون لوگ تھے اور اسے یہاں کیوں لائے تھے۔

وہ فرار کا راستہ تلاش کرنے لگی۔

آخر اسے ایک روشن دان نظر آ گیا۔

وہ ابھی فرار کا سوچ ہی رہی تھی کہ دو آدمی اندر آئے اور اسے روٹی اور دال دے کر بولے۔

یہ لے کھا اسے۔

دوسرے نے دھمکی دی، شور مت مچانا۔

پہلے آدمی نے لاپرواہی والے انداز میں اسکا مزاق اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ شور کیا مچاے گی ادھر جتنا مرضی شور کر لے، اس کی آواز دور دور تک سننے والا کوئی نہیں ہے۔

ہاں کوئی جنگلی جانور آ سکتا ہے۔

پہلے آدمی نے روشن دان کی طرف اشارہ کیا کہ یہ یہاں سے بھاگ سکتی ہے۔

دوسرے نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا، یہ نازک سی لڑکی بھلا کیسے وہاں سے جا سکتی ہے۔

اس کمرے میں تو پھر بھی بلب ہے مگر باہر گھپ اندھیرا ہے۔

فرار ہو گی تو خوف سے مر جائے گی۔ یا کوئی جنگلی جانور کھا جائے گا۔

وہ اندر سے ڈرے مگر بظاہر رعب والے انداز میں بولی، تم لوگ مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔

تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں۔

وہ بولے، ہمیں نہیں پتا۔

ہمیں چھوٹے ساہیں نے حکم دیا تھا کہ فلاں رنگ کی چادر والی لڑکی کو اٹھا کر لانا ہے۔

وہ نشانی بتا کر چلے گئے تھے۔

جب ہم نے آپ کو دیکھا تو بس انکا حکم پورا کیا۔

وہ حیرت سے بولی، یہ چھوٹے ساہیں کون ہیں۔

ہمارے بڑے سائیں کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔

بازل سائیں۔

سنو کھانا کھا لینا اور یہ پانی کی بوتل پڑی ہے۔ صبح تک تم ادھر ہی ہو۔

اور اس چٹائی پر سو جانا۔

وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ شاپنگ مال میں شاپنگ کر رہی تھی کہ ایک لڑکی اس کے پاس رکی اور مسکرا کر بولی،

آپ کا دوپٹہ مجھے بہت پسند آیا ہے کیا آپ میری چادر سے اسے چینج کر سکتی ہیں۔

ہمشا نے مسکرا کر خوش دلی سے کہا، جی ضرور۔

وہ اسے دوپٹہ لے کر تھینکس کہہ کر تیزی سے نکل گئی۔

ہمشا اسے حیرت سے تیزی سے جاتا دیکھتی رہ گئی۔

اسی وقت وہ باہر آئ تو وہ لڑکی دوپٹے سے منہ لپیٹے جلدی سے رکشے میں سوار ہو گئی۔ اور رکشہ چلا گیا۔

ہمشا بھی باہر آ کر آٹو تلاش کر رہی تھی کہ تین آدمی گاڑی روک کر اس کی چادر کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور دوسرے کو اشارے کرتے تیزی سے اس کی طرف آے۔

وہ ابھی حیرت سے انہیں اپنی جانب آتا دیکھ رہی تھی۔ سنبھل بھی نہ پائی اور ان کے رومال منہ پر رکھتے ہی بےہوش ہو گی۔

ہمشا کو اس لڑکی کا دوپٹہ بدلنا سمجھ آ گیا۔ کہ وہ اسے اغوا کرنا چاہتے تھے وہ چالاکی سے بچ کر نکل گئی اور وہ پھنس گئی۔

ہمشا نے احتیاطی طور پر انہیں سچ نہ بتایا کہ جسے وہ اغواء کرنا چاہتے تھے وہ نہیں ہے مگر پردہ ڈال گئ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اسے مار ہی دیں کہ اسکا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اب وہ ان کے سائیں بازل سے ڈرنے لگی کہ نہ جانے اس کے پاس جا کر اس کی عزت محفوظ بھی رہے گی یا نہیں۔

اس نے رعب سے کہا، میرا پرس اور موبائل واپس کرو۔

تم لوگ میرے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔ تم لوگ جانتے نہیں کہ میں کون ہوں۔

وہ ڈھٹائی سے بولے، او بیبی، سن لے، تمہارا سامان ہم سائیں بازل کو دیں گے۔

ان کا سختی سے حکم تھا کہ تمہارے پاس کوئی چیز رہنے نہ دی جائے۔

چلو ایک نے دوسرے آدمی سے کہا۔

سن وہ کونے میں واش روم ہے۔

یہ کہہ کر وہ باہر نکلے اور باہر سے کنڈی لگا دی۔

رات گزرنے لگی۔

اس کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔

وہ اداسی سے چٹائی پر بیٹھ گئی۔

سامنے دیوار پر اسے ایک چھپکلی نظر آئی۔

وہ ڈر سی گئی۔

چھپکلی فوراً غائب ہو گئی۔

اسے گھر والوں کی فکر لگی کہ وہ پریشان ہو رہے ہوں گے۔

وہ خاموشی سے آنسو بہاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعائیں کرنے لگی۔

اس نے سوچا اس روشن دان سے باہر فرار ہونے کی کوشش کرتی ہوں۔

لگتا تھا باہر سے وہ لوگ جا چکے ہیں۔

اس نے ادھر ادھر سے ٹوٹا پھوٹا سامان جمع کیا اور روشن دان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔

مگر جب روشن دان سے باہر جھانکا تو وہاں گھپ اندھیرا تھا۔

ساتھ ہی کسی جانور کے بولنے کی آوازیں سنائی دی۔

ہمشا بہت ڈر گئی، اس نے سوچا کہ باہر وہ کہاں جائے گی کس سے مدد مانگے گی۔

باہر گھپ اندھیرا ہے۔ اندر کم سے کم ایک پیلا سا کم روشنی والا بلب تو جل رہا ہے۔

اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ باہر کوئی ہے بھی یا اسے چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

اس نے آہستہ آہستہ بغیر آواز کے روشن دان کے لیے چڑھنے والا سارا سامان واپس اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیا کہ انہیں شک نہ گزرے۔

اس نے سوچا، اس مشکل وقت میں اپنے اوپر والے سے ہی مدد مانگ کر اس پر بھروسہ رکھ کر کہ وہی اسے اس مشکل سے نکالنے میں مدد کرے گا اسے ہمت سے کام لینا ہوگا۔ بجائے رونے دھونے سے اپنی انرجی ضائع کرنے کے۔

نہ جانے اس بازل سائیں سے وہ نمٹے گی۔

گھر والوں کی یاد بھی ستا رہی تھی۔ نہ جانے ان لوگوں کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔

اسے واش روم جانا تھا۔ وہ اس آدمی کے کونے میں بتاے ہوئے واش روم کی طرف چل پڑی۔

جب واش روم دیکھا تو وہاں ایک دو مینڈک نظر آے۔

وہ بہت پریشان ہوئی۔

واش روم اتنا گندہ نہ تھا بس مٹی گرد تھی۔ ایک لوٹا، ایک بالٹی جو پینٹ کی خالی بالٹی سے بنائی گئی تھی اور ایک خستہ حال پلاسٹک کا مگ تھا اس کے اندر۔

ہمشا کو لگا وہ ابھی الٹی کر دے گی مگر ہمت کر کے اس نے مینڈکوں سے بچتے بچاتے واش روم اٹینڈ کیا تو اسے ایک چھوٹا سا سرف کا پیکٹ نظر آیا۔

اس نے اسے ہی غنیمت جان کر اسے استعمال کر لیا۔

تیزی سے باہر آئ،

بھوک بھی زوروں سے لگی ہوئی تھی۔

وقت کا کوئی اندازہ نہ تھا۔

اسے بہت ڈر بھی لگ رہا تھا۔

باہر سے کسی جانور کی خوفناک آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔

کھانا ادھر ہی پڑا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔

اس نے سوچا جیسا بھی ہے یہی کھانا کھا لیتی ہوں تاکہ ہمت اور طاقت رہے اور وہ وقت کا مقابلہ کر سکے۔

تنور کی روٹی تھی جو کافی اکڑ چکی تھی اور چنے کی دال تھی۔

اس نے آنسوؤں کی جھری کے ساتھ غمزدہ دل کے ساتھ تھوڑے بہت چند نوالے روتے ہوئے کھاے۔

پھر پانی پیا، وہ بھی آدھا تاکہ رات بھر چل سکے۔ کیونکہ ایک چھوٹی بوتل تھی۔

اس نے آنسو صاف کیے کہ رو رو کر اپنی طبیعت خراب نہیں کرنی نہ ہی اپنے آپ کو نڈھال کرنا ہے۔

اس نے خود اپنے آپ کو حوصلہ دیا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا ابھی مشکل مرحلہ آگے ہے اس سے کیسے بچ کر نکلنا ہے۔

یہ سوچ کر ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے کہ وہ بازل سائیں کا مقابلہ کیسے کرے گی۔

وہ جانتی تھی کہ اس طرح کے لوگ عورتوں سے کیا سلوک کرتے ہیں۔

وہ دل میں آیات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرنے لگی۔

ایک طرف سمٹ کر چٹائی پر بیٹھ گئی۔ دیوار سے ٹیک لگا لی۔

سونے کے لیے لیٹی آنکھوں میں ہلکی سی نیند اتر آئی تھی۔ وہ پچھلی ساری رات جاگ کر سیریز دیکھتی رہی تھی۔

یونیورسٹی سے چھٹیاں تھیں ویسے بھی اسکا آخری سمسٹر چل رہا تھا۔

اس نے دن کو بھی جاگ کر سیریز پوری دیکھ کر سوچا پہلے مارکیٹ سے پرفیوم لے آئے۔

اس کی کلاس فیلو کی برتھ ڈے تھی۔ اس نے اسے گفٹ دینی تھی۔

سوچا واپس آ کر رات کا کھانا جلدی کھا کر سو جائے گی۔ مگر اسے کیا خبر تھی کہ رات اسے اس حالت میں سونا پڑے گا۔

ایک مینڈک بھی سامنے چل رہا تھا۔

دیوار پر چھپکلی بھی بار بار آ جا رہی تھی۔

وہ خوفزدہ سی چٹائی پر بیٹھی ہوئی تھی۔

بازو کا تکیہ بنا کر وہ لیٹی تو مچھروں نے کان میں پوں پوں کی۔

اسے تو صبح ہونے سے بھی ڈر لگ رہا تھا کہ وہ بازل سائیں کے حضور پیش کر دی جائے گی۔

پھر دل کو تسلی دے کر سوچا، جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

وہ نیند سے بھری آنکھوں کے باوجود سو نہ سکی۔

روشن دان سے روشنی اندر آنا شروع ہوئی تو

ساتھ ہی زور سے دروازہ کھلا۔

چند آدمی اندر آئے۔

اس نے چادر کا گھونگٹ نکال لیا۔

ایک آدمی کی آواز سنائی دی۔

سائیں مولوی صاحب کہہ رہے ہیں نکاح شروع کریں کیا،

سائیں کی گرجدار آواز سنائی دی،جلدی کرو وقت نہیں ہے۔

مولوی صاحب نے پوچھا، اے لڑکی کیا تمہیں بازل سائیں والد شجاعت علی سے رشتہ ازواج قبول ہے۔

وہ خاموش رہی۔

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

تین بار مولوی نے دھرایا۔

آخر سائیں نے گرج کر کہا، ہاں بول لڑکی۔

ہمشا نے سوچا، اب ہاں کیے بغیر چارہ بھی تو نہیں ہے۔

اس نے مری ہوئی آواز میں ہاں کہہ دی۔

سائیں نے کہا اٹھو میرے ساتھ چلو۔

وہ چادر کا گھونگھٹ نکالے ان کے ساتھ مرے مرے قدموں سے چل پڑی۔

باہر جیپ کھڑی تھی۔ بازل سائیں خود جیپ چلا رہا تھا وہ آگے بیٹھی ہوئی تھی۔

اس کے دل کو یہ تسلی سی ہو گئی تھی کہ اس کی عزت تو بچ گئی۔

نکاح کرنے کی بات اسے سمجھ نہیں آئی۔

بازل نے اسے کہا، سنو لڑکی،

میں تمہیں چھپا کر حویلی لے کر جاوں گا۔ اس وقت سب سو رہے ہیں۔

میرے بیڈ روم کے ساتھ ایک سٹور روم ہے۔ تم وہاں چھپ کر رہو گی سنا تم نے۔

اس نے گرج کر کہا،

ہمشا نے بھی اسی گرج دار آواز میں جواب دیا۔

اچھا سن لیا ہے۔

بازل اس کے انداز سے حیران ہوا۔

اس نے بازل سے رعب سے کہا، مجھے پیاس لگی ہے پانی دو۔

بازل نے جھٹکے سے پیچھے پڑی بوتل اسے پکڑا دی۔

ہمشا کے دل سے قدرے خوف کم ہو چکا تھا۔

ہمشا نے چادر ہٹا کر پانی پیا تو بازل اس کا معصوم سا چہرہ دیکھ کر قدرے حیران ہوا۔

پھر اس پر طنز کرتے ہوئے بولا، ویسے شکل سے تو تم بہت معصوم لگتی ہو۔

وہ جمائی لیتے ہوئے بولی، مجھے سخت نیند آ رہی ہے اور بھوک بھی سخت لگی ہے۔

بازل نے پیچھے سے ایک شاپر اسے پکڑایا جس میں چپس بسکٹ وغیرہ موجود تھے۔

وہ تیزی سے کھانے لگی۔

بازل کن انکھیوں سے اسے دیکھتا رہا۔

وہ کھاتے کھاتے بولی، دو دن سے اپنی پسندیدہ سیریز دیکھ رہی تھی ساری رات جاگ کر، اب نیند سخت آ رہی ہے۔

پلیز مجھے گھر جانے دو۔

میرے گھر والے بہت پریشان ہو رہے ہوں گے۔

تم فکر نہ کرو میں ان سے تمہیں معافی دلوا دوں گی۔

بس تم مجھے جلدی سے گھر چھوڑ دو تاکہ میں اپنے بیڈ پر سکون سے سو سکوں۔

جاری ہے۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.