Back to Novel
Meri Sar Phiri
Episodes

میری سرپھری 4

Episode 4

بابا سائیں جب حویلی پہنچے تو بڑے کمرے میں ہمشا گھر کی عورتوں کے ساتھ بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔

وہ چائے کا کپ پکڑے بازل کے بھتیجے کو پڑھا رہی تھی۔

وہ بہت شوق سے اسے بار بار مخاطب کر رہا تھا اور کاپی پینسل پکڑے ساتھ ساتھ لکھ رہا تھا۔

گھر کی ساری عورتوں بابا سائیں کو دیکھ کر جلدی سے مودب ہو کر خاموش ہو گئیں اور دوپٹے درست کرنے لگیں۔

بابا سائیں کے پیچھے بازل اور اس کے بھائی بھی تھے۔ ساتھ چچا بھی کھڑے ہوئے تھے۔

ہمشا کو دیکھ کر بابا سائیں حیران ہوئے کہ ان کا سب سے اتھرا پوتا کیسے شوق سے ہمشا کے پاس بیٹھا پڑھ رہا تھا۔

ان کو بچپن سے یہ تربیت دی جاتی تھی کہ ملازموں سے فاصلے میں رہنا ہے اور انہیں اپنے برابر بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی ہے۔

مگر ادھر سارے گھر کی عورتیں اس کے اردگرد گھیرا ڈالے بیٹھی بہت خوش تھیں۔

ہمشا کو دیکھ کر زرا اونچی آواز سے بولے، (تاکہ وہ ان کی طرف دھیان دے) وہ انہیں مسلسل اگنور کر رہی تھی۔

وہ بولے، اچھا یہ چھوری ہے جو ہمارے بچوں کو پڑھاے گی۔ کیسی ہو چھوری،

ہمشا نے سلام کیا اور بولی، جی بابا سائیں میں ہی ہوں۔

ویسے ایک بات کہوں، آپ کو اس کمرے میں کھٹکھٹا کر آنا چاہیے تھا ادھر کوئی اور بھی بیٹھا ہو سکتا ہے۔

آپ سارے گھر کے میلز کے ساتھ بلا اجازت اندر آ گئے۔

پلیز میرے روم میں کوئی میل کیا فی میل حتکہ ملازمہ بھی کھٹکھٹاے بغیر مت آئے۔ عورتیں ایزی بیٹھی ہوتی ہیں۔ ہر کسی کی اپنی پراہیویسی ہوتی ہے۔

آپ سب اچانک آ گئے تو بےچاری ساری عورتیں ڈسٹرب ہو کر دوپٹے درست کرنے لگیں۔ امید ہے کہ آہندہ خیال رکھیں گے۔

بابا سائیں خجل ہو کر سر کھجانے لگے۔

سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

کسی نے کھبی ان سے اس لہجے میں بات نہ کی تھی۔

بازل غصے سے مٹھیاں بھینچنے لگا۔

خوفناک نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

ہمشا کو کچھ احساس ہوا۔ جلدی سے بولی، سوری سر میں نے شاید کچھ زیادہ کہہ دیا۔

وہ اسے دیکھ کر بولے، کوئی گل نہیں چھوری۔

یہ کہہ کر وہ شرمندہ سے باہر نکل گئے۔

چچا نے کہا، بیٹی تم نے بات بلکل صیح کی ہے۔

چھوٹی آپا جو کونے میں بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی۔ اور ماں اور بھابیوں کا اس کے ساتھ خوش ہونا اسے جلا رہا تھا۔ وہ سب سے لاڈلی تھی۔

ماں اس کی طرف دھیان ہی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے پاس بڑی آپا بیٹھی چاے پی رہی تھی۔

چھوٹی آپا نے غصے سے کہا، اوے لڑکی، تم ہمارے بابا سائیں کو جانتی نہیں ہو۔ وہ اس گھر کے بادشاہ ہیں۔ جیسے مرضی رہیں۔

تم کون ہوتی ہو ان کو سبق پڑھانے والی۔

وہ اکتاے ہوے لہجے میں بولی، یہ بازل سائیں بھی کس کو لے آیا۔

اسے تو فوراً نوکری سے نکال دینا چاہیے۔ یہ اپنی اوقات سے زیادہ بول رہی ہے۔ سنو لڑکی، تم اس گھر کی ملازمہ ہو۔

شکر کرو کہ ہمارے گھر والوں نے تمہیں عزت سے اپنے ساتھ بٹھایا ہوا ہے۔ یہ تمہارا گھر نہیں ہے کہ ادھر تمہارا قانون چلے گا سمجھی۔ آہندہ اپنی اوقات نہ بھولنا۔

ہم تو ملازموں کو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے۔ اس گھر کے کسی ملازم کی اتنی جرات نہیں ہے۔ کہ ہم سے فالتو بات بھی کر سکے۔

بڑی آپا ناگواری سے بولیں، چھوٹی چپ کر نہ بات بڑھا، اس نے کچھ ایسا غلط نہیں کہا۔

وہ بہن کو غصے سے دیکھ کر بولی، بڑی آپا اسے اگر آج اوقات یاد نہ دلائی تو یہ سر پر چڑھ جائے گی۔

پاوں کی جوتی پاوں میں ہی اچھی لگتی ہے۔ اسے سر پر نہیں رکھا جاتا۔

یہ کہہ کر وہ غصے سے باہر نکل گئی۔

سب مرد اور عورتیں ہمشا کو دیکھ رہے تھے جس کے چہرے پر دکھ کی پرچھائیاں تھیں۔ مگر وہ حوصلے سے بولی، اس نے اپنی سوچ کے مطابق بات کی۔

چچا نے کہا، تی رانی اس کی باتوں کا برا نہ منانا۔

تم ایک رحمت بن کر اس گھر میں آئی ہو۔

ہم لوگوں کو خیال ہی نہ رہا کہ بچوں کے فائنل پیپرز ہیں۔

اب تو ایک ہزار سے اوپر کارڈز بھی چھپ چکے ہیں۔

تم اس گھر میں اچھی طریقے سے رہو۔ یہ تمہارا بھی گھر ہے۔

یہ چھوٹی چھوری بھی بس زرا اتھری ہے۔ سب کی لاڈلی ہے۔ تُو اس کی باتوں کا برا نہ منانا۔

پھر وہ بازل کی ماں سے بولے، او پرجائ اس چھوری کا خیال رکھنا۔ یہ ہمارے بچوں کی اُستانی ہے۔ استاد عزت والا ہوتا ہے۔

چل چھوری شاباش تُو اج سے ہی بچوں کو پڑھانا شروع کر دے۔

بچوں کے پاس ٹیم کم ہے۔

وہ ایک لمبا سانس کھینچ کر بولی، جی مجھے احساس ہے۔ بس آپ لوگ سارے بچوں کو دس بجے تک میرے پاس بھیج دیا کرنا۔

دو تین بجے تک ان کو پڑھاوں گی۔

درمیان میں تھوڑی دیر کی بریک ہو گی۔ اس دوران کوئی ہمیں ڈسٹرب نہ کرے۔

پھر شام کو دوبارہ پڑھایا کروں گی۔

وہ بولے، شاباش پُتری تُو تو بہت محنتی کُڑی ہے۔

ہم تو سمجھے تھے گھنٹہ بھر پڑھاے گی۔

پہلی استانیاں تو گھنٹے بھر پڑھا کر چلی جاتی تھیں۔

چلو سب گھر کی عورتیں اپنے اپنے بچوں کو تیار کرو۔

یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئے

بابا سائیں برآمدے میں بیٹھے حقے کے لمبے لمبے کش لے رہے تھے ساتھ ساتھ گہری سوچ میں گم تھے۔

وہ سوچ رہے تھے کہ وہ تو اپنے آپ کو اس گھر کا بادشاہ سمجھتے تھے۔ اس گھر پر انکا حکم چلتا تھا۔

سارے خاندان میں ان کا رعب اور دبدبے کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔کوئ ان سے اونچی آواز میں بات کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔

ایک معمولی ملازمہ نے آج کیسے بڑے آرام سے اس کی سب کے سامنے بےعزتی کر دی تھی اور وہ کتنی بےبسی محسوس کر رہے تھے۔ کچھ بھی نہ بول سکے ایسے مجبور تھے۔

کسی انسان کی اگر سب کے سامنے بےعزتی ہو تو اسے کتنی شرمساری محسوس ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ انہیں آج ہوا تھا۔

وہ تو جب چاہے ملازموں کی بری طرح بےعزتی کر دیتے تھے۔

آج اُن کو اُن کے آنسو بھی نظر آ گئے اور دکھ بھرا چہرہ بھی۔

کاش انہیں اس بات کا پہلے احساس ہو جاتا تو وہ کھبی کسی کی دل آزاری نہ کرتے۔

انہوں نے دل میں عہد کر لیا کہ اب وہ کھبی کسی کو زلیل نہیں کریں گے۔

اتنے میں بازل کے چچا ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔

بابا سائیں نے حقے کا کش لگاتے ہوئے پوچھا، او ویر بچوں کو کہہ دیا ہے پڑھنے کا۔

وہ بولے، جی بڑے سائیں،

پھر کچھ سوچتے ہوئے چچا بولے، ویسے بڑے سائیں، لگتا ہے یہ نئ استانی ہمارے بچوں کو سنبھال لے گی۔

بازل غصے سے ادھر سے گزر رہا تھا۔

بابا سائیں نے آواز دے کر بلا لیا۔

وہ شرمندہ سا سر جھکا کر بولا، بابا سائیں معاف کرنا میں اس ٹیچر کو اس کی اوقات یاد دلا دوں گا۔

وہ جلدی سے حقہ پرے رکھتے ہوئے بولے، نہ پتر نہ نہ۔

ایسا نہ کرنا۔ مشکل سے ایک اچھی سمجھدار استانی ملی ہے بچوں کو۔

بازل نے کہا، اس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی۔۔۔۔۔

بابا سائیں جلدی سے بولے، او رہن دے پتر، اس نے کوئی بدتمیزی نہیں کی بلکہ ایک اچھی بات کا شعور اجاگر کیا ہے۔

ہم گھر کے بادشاہ بنے پھرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہماری بےچاری عورتیں کہاں جاتی ہیں۔ انہیں گھر میں تو کم سے کم آزادی سے رہنے کی اجازت ملنی چاہیے ناں۔

ہم جب چاہے سارے گھر میں مزے سے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اب ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ بھی سنبھل سکا کریں۔

ہم تو ان کو دیکھتے ہی ڈاٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ تم لوگوں کے سر سے دوپٹہ کیوں اترا۔

ہم ملازموں کو تو زنانے میں جانے نہیں دیتے جب تک کوئی کام نہ ہو، پھر عورتوں کو ہر وقت روک ٹوک نہیں کرنی چاہیے۔

چچا بولے،

بڑے سائیں، آپ درست کہہ رہے ہیں۔ اب میں بھی گھر میں یہی اصول رکھوں گا۔

بازل دل میں ان کی باتوں سے حیران ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ بابا سائیں تو اسے گھر سے نکالنے کا حکم دیں گے مگر یہ تو الٹا اس کی تعریفیں کر رہے ہیں۔

چچا نے چھوٹی کی ساری بات انہیں بتائ۔

وہ افسوس کرتے ہوئے بولے،یہ چھوٹی بھی لاڈ میں بہت بدتمیز ہو گئی ہے۔

اب اس کے لاڈ پر بند باندھنا چاہیے۔

بازل کو چھوٹی آپا کی باتوں سے دکھ پہنچا۔

مگر پھر بھی اسے ہمشا پر شدید غصہ تھا کہ اس نے بابا سائیں کی بےعزتی سب کے سامنے کی۔

وہ غصے سے بھرا کمرے میں پہنچا۔

ہمشا الماری میں چیزیں سیٹ کر کے رکھ رہی تھی۔

اس نے آتے ہی اسے بازو سے غصے سے پکڑ کر سیدھا کیا اور اس کے بالوں کو زور سے پکڑ کر انتہائی غصے سے بولا، تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے بابا سائیں کی انسلٹ کرنے کی۔

وہ درد سے چلا کر بولی، جنگلی انسان چھوڑو میرے بال۔

اس کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلکنے لگیں۔

بازل نے جب اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو ایکدم نرم پڑتے ہوئے اسے بیڈ پر پٹختے ہوئے بولا، اگر کوئی اور ایسی جرات کرتا تو اس وقت میرے ہاتھوں مر چکا ہوتا۔ تمہیں بابا سائیں نے کچھ نہ کہا اور نہ ہی ماہنڈ کیا، ورنہ۔

وہ دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی،

تم جنگلیوں کو مار دھاڑ اور قتل و غارت کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔

بکواس بند کرو اور چلو بابا سائیں سے معافی مانگنے۔

اور خبردار دوبارہ کھبی ایسی کسی بات کا سوچا بھی تو میں تمہاری زبان کاٹ دوں گا

سمجھی۔

وہ بھی ترکی با ترکی جواب دیتے ہوئے نفرت سے بولی، اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ میں جلد تم سے خلع لے لوں گی۔

میں تم سے نفرت کرتی ہوں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔

بس زرا میرے تایا جان کا غصہ کم ہو جائے۔

اتنے میں دروازہ کھٹکا اور وہ اسے بولا، تم چھپ جاو۔

ہمیں کوئی ایک ساتھ دیکھ نہ لے۔

وہ طنزیہ انداز میں بولی، اغوا کرتے خیال نہیں آیا۔

دروازہ پھر بجا،

بازل نے اسے گھور کر جانے کا کہا،

وہ بولی، یہ میرا کمرہ ہے تم چھپو۔

میں کھولنے لگی ہوں دروازہ۔

وہ دروازے کی طرف بڑھی۔

بازل جلدی سے سٹور روم میں چلا گیا

جاری ہے۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.