میری سرپھری 2
Episode 2
ہمشا کو اس نے کہا، خاموشی سے بیٹھی رہو۔ حویلی جا کر آواز نہ نکالنا۔
اگر بڑے سائیں نے دیکھ لیا تمہیں میرے ساتھ تو تمہیں گولی مار دیں گے کیونکہ میری منگنی خاندان میں ہو چکی ہے۔
وہ دل میں ڈر گئی مگر اوپر سے بہادر بن کر بولی، مجھے اکیلی کو کیوں، تمہیں بھی ماریں گے۔
وہ طنزیہ مسکرا کر بولا، اپنے بیٹے کو کوئی نہیں مارتا۔
اتنے میں حویلی آ گئی۔
َسرخ رنگ کی پرانے طرز کی بنی ہوئی بڑی سی حویلی کو دیکھ کر ہمشا متاثر ہو گئی۔
بازل سائیں نے اسے خاموشی سے اترنے کو کہا،
ملازم بھاگتا آیا، اس نے اسے جیپ کی چابی پکڑا کر اسے ساتھ چلنے کا کہا،
ہمشا نے اس کے ساتھ چلنا شروع کیا۔
ملازم نے نکاح نامہ ہمشا کو پکڑا دیا۔
بازل کا منہ آگے تھا۔
ہمشا نے اسے جلدی سے چادر کے نیچے چھپا لیا۔
جب وہ چھپتے چھپاتے بازل سائیں کے کمرے میں پہنچے تو وہاں فرنیچر پرانے زمانے کا پڑا ہوا تھا۔
قالین بھی پرانا تھا۔
اس کمرے سے آگے ایک سٹور نما کمرہ تھا۔ جہاں ٹرنک اور ایک سنگل لوہے کی چارپائی اور کچھ پرانا سامان پڑا ہوا تھا۔
بازل نے اسے کہا، چلو اس چارپائی پر سو جاو۔
اس پر میں نے گدا وغیرہ بچھوا دیا ہے۔
ہمشا نے نظر بچا کر نکاح نامہ گدے کے نیچے چھپا دیا۔
نیند سے آنکھیں بوجھل سی ہو رہی تھیں۔
تھوڑی دیر کے لیے بازل اس کی مخمور آنکھیں اور معصوم چہرے پر کچھ دیر کے لیے حیران ہوا مگر جلد ہی اس نے سر جھٹک دیا۔
ہمشا نے کہا، میرا فون دو میں گھر والوں کو فون کروں۔
اس نے غصے سے کہا، ٹہرو لاتا ہوں اور اس کا پرس اس کی پھینکتے ہوئے کہا لو اور اب بےشک گھر والوں کو فون کرو۔
چلو ملاو گھر والوں کو فون۔
ہمشا نے سوچا تایا جان دنیا میں اسے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں وہ تو فکر سے نڈھال ہو رہے ہوں گے انہیں سچ بتا کر ساری غلط فہمی دور کر دے گی پھر بازل کو بھی سچائی بتا دے گی اور اس طرح سب کلیر ہو جائے گا۔
جو رات اس نے ادھر خوف اور ازیت میں گزاری تھی بےقصور وہ بھی سب کو اور اس بازل سائیں کو بھی بتاے گی تو اسے احساس ہو گا اور سب سے معافی مانگے گا پھر تایا مجھے خود خلع دلوا دیں گے۔
اس نے فون ملایا تو تائ اماں نے اٹھایا اور گرج کر بولیں، کدھر ہو،
اس نے تایا کا پوچھا تو اس نے غصے سے جواب دیا کہ سپیکر آن ہے سب سن رہے ہیں۔
سپیکر کے نام سے ہمشا نے بھی سپیکر آن کر دیا تاکہ بازل بھی سن لے۔
ہمشا نے گھبرائی ہوئی آواز میں بتایا، میرا نکاح ہو چکا ہے۔
تائ نان سٹاپ شروع ہو گئی چڑھا دیا نا چاند، بھاگ گئ نا یار کے ساتھ مجھے پہلے ہی شبہ تھا پر میری ماننی کس نے تھی۔
اتنے میں بازل نے جھٹ اس کے ہاتھ سے موبائل چھینا اور غصے سے گرج کر بولا، لالچی لوگوں، تمہاری بیٹی مجھے لوٹتی رہی ہے۔ فیس بک پر مجھ سے دوستی کی۔
شکر کرو میں نکاح کر کے اسے لایا ہوں ورنہ اس جیسی بدکردار لڑکی کا برا حشر ہونا چاہیے۔ اب یہ ساری زندگی میری غلامی میں رہے گی۔
اس گند سے ملنا ہو تو مجھ سے اجازت لینی پڑے گی۔
ادھر آنے کی جرات نہ کرنا۔
تایا نے روندھی ہوئی آواز میں غمزدہ لہجے میں کہا،
ہم اس گند کو گھر لا کر گھر گندہ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ گند تم ہی رکھو۔ آج سے ہمارے لیے یہ مر گئی ہے۔
اور فون بند کر دیا۔
ہمشا بت بنی بیٹھی رہ گئی۔
بازل تیزی سے باہر نکل گیا۔
ہمشا کی نیند اڑ چکی تھی۔
اس نے گھر میں سب کا فون ٹرائی کیا مگر سب نے اسے بلاک کر دیا تھا سوائے اس ان کی پرانی ملازمہ یاسمن کے سوا۔
اس نے ڈرتے ڈرتے فون اٹھا کر منت کرنے لگی کہ پلیز آپ ادھر فون نہ کرنا، گھر میں سے کسی کو علم ہو گیا تو میں بےسہارا عورت ایک معصوم بچے کے ساتھ کہاں جاوں گی۔
ہمشا نے چلا کر اسے ڈانٹ کر کہا، بےفیض عورت میں تمہارا اور تمہارے بچے کا کتنا بھلا سوچتی ہوں اور ایک تم ہو اس مشکل وقت میں میرا ساتھ دینے سے بھی انکاری ہو۔
وہ عاجزی سے بولی، ہمشا جی صرف آپ کا ہی ادھر دم تھا آسرا تھا میں بھلا کیسے بھول سکتی ہوں۔
ایسا ہے کہ میں سب سے چھپ کر جب سب سو جائیں یا میں بچے کو سکول لینے جاوں تو اس وقت کیا کروں گی۔
آپ خود مجھے فون نہ کرنا۔
وہ بولی ٹھیک ہے۔ میں انتظار کروں گی۔
اس نے فون بند کر دیا۔
تھوڑی دیر بعد ملازمہ کھانے کی ٹرے لیکر آئ۔
ہمشا کی بھوک اڑ چکی تھی۔
بازل سائیں کمرے میں داخل ہوا اور اسے بولا، سنو بس آج کی رات تم ادھر ہو۔
میں گھر والوں سے بات کر آیا ہوں اور تم بھی اب وہی کہنا۔
میں نے اپنے پرانے ملازم کی بھتیجی تمہیں بتایا ہے کہ وہ ادھر بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرے گی۔
اس کا شوہر اسے چھوڑ گیا ہے اور دوسری شادی کر لی ہے۔
اب وہ بے آسرا ہے اس لیے وہ ادھر ہی رہے گی۔
اور میری دولہن کو بھی تیار کر دے گی۔ کیونکہ وہ پارلر کا کام بھی جانتی ہے۔
اب کچھ نیٹ وغیرہ سے دیکھ کر میک اپ کا گزارا چلا لینا۔
گاوں میں کونسا کسی کو میک اپ کی اتنی سمجھ ہے۔ شہری لڑکی ہو اتنا تو جانتی ہو گی۔
چلو اب آو کھانا کھا لو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
سواے چند خاص ملازموں کے، کسی کو علم نہیں ہے کہ تم ادھر ہو۔
وہ تالی بجا کر شاباش دیتے ہوئے بولی، کیا خوب کہانی بنائی ہے بازل سائیں تم نے۔
واہ واہ داد دیتی ہوں تمہیں۔
وہ بولا ،پہلے کھانا کھا لو پھر ساری رات پڑی ہے باتیں کر لینا۔
اس کی بھی زبردست دیسی گرم گرم کھانا دیکھ کر بھوک چمک اٹھی۔
وہ جلدی جلدی کھانے لگی۔
بازل اسے کھاتے ہوئے غور سے دیکھنے لگا۔
وہ سوچنے لگا کہ یہ شکل سے کتنی معصوم لگتی ہے مگر اندر سے اتنی ہی چالاک لڑکی ہے۔ کیسے اسے بےوقوف بنا بنا کر لوٹتی رہی۔
جب شادی کا پوچھا تو مکر گئی اور بہانے بنانے لگی۔
وہ وڈیو کال پر آتی تو چہرہ ہمیشہ ڈھانپ کر رکھتی۔ بہانہ کرتی کہ میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں اور چہرہ شادی کے بعد دیکھاوں گی۔
اتنی آہستہ آواز میں بولتی تھی اب کیسے پٹر پٹر بول رہی ہے۔
اسے تو فیس بک کی دوستی اور محبت پر یقین ہی نہ تھا مگر یہ ایسے میٹھے بول بولتی رہتی تھی کہ وہ اس کے جال میں پھنستا چلا گیا۔
اسے اس پر شبہ تب ہونے لگا جب اس کی فرمائشیں بڑھنے لگیں۔
اپنے گھر کا ایڈریس بھی نہیں بتاتی تھی۔
ایک دن شاپنگ مال میں وہ شاپنگ کر رہی تھی۔
اس نے بتایا کہ وہ شاپنگ کرنے آئی ہوئی ہے۔
بازل نے پوچھا، کیا تم باہر جاتے ہوئے بھی وہی چادر کرتی ہو۔
کس شاپنگ مال میں ہو۔
اس نے جب بتایا تو بازل نے کہا، فکر نہ کرو میں بھی اسی مال میں موجود ہوں۔
آج تم سے مل کر رہوں گا۔
تمہاری چادر آج تم تک پہنچا دے گی۔
بازل نے اسے اپنی کئی تصاویر بھیج رکھی تھیں۔
مگر اس نے کھبی کوئی فوٹو نہیں بھیجی تھی۔
فرینڈ ریکویسٹ بھی اسی نے ہی بازل کو بھیجی تھی۔
بازل نے بھی ایکسپٹ کر لی۔
ساتھ ہی اس کے دل نشیں میسج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بازل بھی اس کے ساتھ سیریس ہونے لگا۔
کیونکہ بازل ایک شریف النفس لڑکا تھا۔
دولت کی ریل پیل کے باوجود وہ عورتوں کے پیچھے بھاگنے والا نہ تھا۔
اس نے پہلے کوئی اور نام بتایا پھر بہانہ بنا کر کچھ اور نام بتایا۔
بازل کے ساتھ کافی جھوٹ بولنے لگی۔
شروع شروع میں اس نے بتایا کہ اسکا باپ مر چکا ہے اور اس کی ماں نے بہت محنت سے اسے پالا ہے۔
کھبی ماں کی بیماری کے بہانے پیسے لیتی، کھبی دواہیوں کے بہانے، کھبی بلز اس سے پے کرواتی۔
کھبی آن لاہن گر اسیری منگواتی۔
بازل تنگ ہونے لگا۔
اس نے جب شادی کی آفر کی تو اس کے بہانے بازیاں شروع ہو گئیں۔
کھبی کہتی میں نے شادی کھبی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، میں ماں کا سہارا بنوں گی۔
وہ کہتا، شادی کے بعد میں ان کی کفالت کا زمہ لوں گا۔
مگر وہ ٹال مٹول کرنے لگی۔
آج بازل کو اسے پکڑنے کا سنہری موقع ہاتھ لگا تھا۔
بازل نے اپنے وفادار ملازموں کو رازداں بنا دیا۔
ایک دوست کی مدد سے جس کے پاس ایسے زریعے تھے کہ وہ لڑکی کو اغواء کر سکیں۔
بازل نے ہمشا کو چادر اوڑھے دیکھا تو تھوڑی دیر کے لیے اسے ہمشا بھا گئی جیسے دل کو چھو گئی۔
اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، وہ جو لڑکی ہے اسے اغوا کرنا ہے۔
خود دور گاڑی کھڑی کر کے دیکھنے لگا۔
اتفاق سے پارکنگ میں کوئی نہیں تھا۔ جب وہ اسے بےہوش کر کے جلدی سے گاڑی میں لے گئے تو دوست نے فون کر کے کہا، یار تمہارا کام ہو گیا ہے۔
بازل نے کہا یار اس کی بہت حفاظت کرنا، میری امانت ہے وہ۔
وہ دوست تسلی دیتے ہوئے بولا، یار تو فکر نہ کر، کمرے سے باہر دو پہرے دار پہرہ دیں گے۔
بازل نے کھانے کا بولا، تو وہ جلدی سے بولا، ہاں ہاں کھانا بھی دے دیں گے۔
بازل نے کہا، صبح سورج نکلنے سے پہلے میں وہاں پہنچ جاوں گا۔
دوست نے یاددہانی کرائی یار وہ رقم تو دے اغوا کاروں کو دینی ہے۔
بازل نے کہا، یار وہ تسلی والے تو ہیں ناں۔
وہ گلے والے انداز میں بولا، یار کیسی باتیں کرتے ہو۔
تم میرے دوست ہو میں نے اپنے خاص آدمی اس مشکل اور جان جوکھوں والے کام پر لگاے تھے۔
تو جانتا تو ہے کہ کتنا مشکل کام تھا۔ ان کو پکڑے جانے پر جیل بھی ہو سکتی تھی اور تیرے دوست کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑتی۔
اپنے یار کے لیے جان بھی حاضر ہے جیل کیا چیز ہے۔
اس کام کے لیے تو وہ مان ہی نہیں رہے تھے بڑی مشکل سے ڈبل رقم پر منایا ہے تب جا کے وہ مانے۔
تو جانتا ہے یہ بہت مشکل کام ہے وہ لوگ بہت پیسے لیتے ہیں۔
جتنی تو نے رقم ڈن کی تھی اتنی تو میں جیب سے ان کو ایڈوانس میں دے چکا ہوں۔
خیر تو اس رقم کو چھوڑ، تو میرا بچپن کا یار ہے۔ ہم ایک ہی گاوں کے ہیں پھر میرا تیرا حساب کتاب کیسا۔ بس تیرا کام ہو گیا ہے بغیر کسی رکاوٹ کے خیر خیریت سے۔
اب تو جلدی سے ساری رقم دے دے تاکہ میں ان کو دے سکوں۔
تو فکر نہ کرنا،
میں ان کے ساتھ ہی رہوں گا۔
بازل نے کہا، یار اب صبح بینک سے نکلوا کر ہی دے سکتا ہوں۔ تجھے مجھ پر بھروسہ نہیں ہے کیا۔
بازل نے اپنے وفادار ملازموں کے زریعے نکاح کا بھی بندوبست کر لیا تھا۔
سب کچھ اتنی آسانی اور جلدی سے ہوا تھا کہ اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔
اس نے بینک سے رقم نکلوا کر بھروسے کے
ملازم کے ہاتھ اسے بھجوا دی تھی۔
بازل جان چکا تھا کہ وہ اسے لوٹ رہا ہے مگر مجبور تھا۔
اس نے جب اغوا والی جگہ دیکھی تو بہت حیران ہوا تھا۔
اس نے تو اس طرف دھیان بھی نہیں دیا تھا کہ وہ اسے اتنی بُری جگہ پر اتنے برے حالات میں رکھے گا۔
وہ اسے گلہ بھی نہ کر سکا۔
اس نے کھانے کے برتن دیکھے۔ تنور کی سوکھی روٹی اور سستے ہوٹل کی دال۔
اندر کا منظر بری حالت میں۔
ایک چٹائی پر اس نے رات گزاری تھی۔
مگر وہ اس پر اتنا غصے میں تھا کہ خاص دھیان نہیں دیا۔
بازل اس کو اغوا کا زمہ دے کر سوچنے لگا کہ وہ کپڑے کیا پہنے گی اتنے دن۔
اور واش روم کی چیزیں، ٹوتھ پیسٹ برش، جوتے، میک اپ اور ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں اسے چاہیے ہوں گی۔
وہ ایک شاپنگ پلازہ سے چند سادے جوڑے، لے کر چلا کہ چلو باقی سامان وہ بعد میں لے لے گا۔
گزرتے ہوئے میک اپ شاپ پر لڑکیاں سیل کرتی کھڑی نظر آئیں اس نے سوچا لیڈیز چیزوں کے لیے ان سے مدد لے لیتا ہوں۔
اس نے کہا، مجھے اپنی واہف کے لیے کچھ ڈیلی ضرورت کی چیزوں کے علاوہ کچھ پارٹی میک اپ وغیرہ چاہیے تو پلیز آپ لوگ مجھے گاہیڈ کر سکتی ہیں۔ میری ہیلپ کر دیں۔
ایک سیل گرل مسکراتی ہوئی آئی اور پوچھنے لگی سر، آپ اپنا بجٹ بتائیں، ہر کوالٹی ہمارے پاس موجود ہے۔
بازل نے جھٹ کہا، بجٹ کی فکر نہ کریں، چیز بیسٹ ہونی چاہیے تاکہ گلہ نہ ملے۔
وہ بولی، ٹھیک ہے سر آپ تسلی رکھیں میں ضرورت کی ہر چیز ڈال دوں گی۔
وہ بولا، شیمپو وغیرہ واش روم کا سامان بھی۔
وہ بولی، اوکے سر۔
اس نے دوسری لڑکیوں کی مدد سے جلدی جلدی سامان ڈالا اور آخر میں بولی، سر واپس نہیں ہو گا چینج ہو جائے گا۔
آپ دیکھیے گا انشاءاللہ میم کو بہت پسند آئے گا۔
انہوں نے کافی بل بنا دیا۔ تب بازل نے سوچا، اف میک اپ پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔
اس نے بل ادا کیا۔
ملازم کو سامان گاڑی میں رکھنے کا کہا۔
پھر اسے اچانک یاد آیا کہ جوتے بھی لینے ہیں پھر وہ ملازم کو گاڑی میں سامان رکھنے کا کہہ کر جوتوں کی شاپ پر گیا اور چند جوڑے جن میں سمپل اور دوسرے لیکر بل ادا کر کے تیزی سے آیا۔
گھر آ کر ملازم کو چھپا کر کمرے میں لے جانے کا کہہ کر روم میں آ گیا۔
دو تین بار دوست کو فون کرکے اس کی خیریت پوچھی تو وہ ہر وہ غصے سے بولا، اگر اب تم نے مجھے فون کیا تو میں ناراض ہو جاوں گا اور سمجھوں گا کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں۔
بازل نے دو اپنے آدمی بھی چھوڑے ہوئے تھے وہ بھی یہی بتا رہے تھے کہ سب ٹھیک ہے۔ لڑکی کو آپ کا بتا دیا ہے کہ آپ صبح آئیں گے۔ وہ کوئی شور شرابہ نہیں کر رہی۔
بازل کا دوست ادھر چارپائی ڈال کر ساتھ والے کمرے میں سو رہا تھا۔
بازل کے بندوں کو اس نے دھمکی دے کر کچھ بھی بتانے سے سختی سے منع کیا تھا۔ کہ کچھ بتایا تو ہم تمہارے ساتھ لڑکی کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
وہ ڈر گئے تھے۔
بعد میں انہوں نے بازل کو سب کچھ بتا دیا تھا۔
بازل رات کو ہی ادھر جانا چاہتا تھا مگر وہ کہہ رہا تھا کہ وہ سکون سے سو رہی ہے۔ تم بھی آرام کرو۔
صبح میں خود تمہیں بلوا لوں گا۔
وہ جانتا تھا کہ بازل ساری رات فکر میں جاگتا رہے گا اور اسے بھی ساتھ جاگنا پڑے گا۔
اس لیے اسے لوکیشن بھی نہیں بھیج رہا تھا۔ اس نے اپنے بندے اس کے بندوں پر پہرے پر لگا دیے تھے کہ نازل جب بھی فون کرے وہ کہیں سب ٹھیک ہے۔
ہمشا کو جب اس نے چیزیں دی اور کہا، کل سے تم سرونٹ کوارٹر میں رہو گی۔ اور کل سے ہی تم بچوں کو پڑھانے کا کام شروع کر دینا تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو۔
وہ رعونت سے بولی، مسٹر بازل تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے گاوں کی ایک لڑکی یا شہر کی غریب لڑکی، جو تمہاری اس پرانی خستہ حال حویلی اور تمہاری دولت سے امپریس ہو جائے گی تو یہ تمہاری بھول ہے۔
میں اسی کمرے میں رہوں گی۔
تم ویسے بھی اپنی اس گنوار بیوی کے ساتھ حویلی کے کسی کمرے میں رہ لینا۔
ویسے بھی نئی شادی نیا کمرہ نیا فرنیچر۔
وہ خفگی سے بولا، مجھے اسی کمرے کی عادت ہے۔
وہ بولی، مجھے بھی اپنے روم کی عادت تھی مگر قسمت نے تمہارے پلے باندھ دیا۔ کوئی بات نہیں۔ جلد ہی میں اس رشتے سے خلاصی پا لوں گی۔
ابھی میرے تایا بہت غصے میں ہیں۔ تائئ نے انہیں خوب بھر دیا ہو گا۔ زرا تھوڑا وقت گزرے تو تایا کا غصہ کم ہو جائے گا پھر میں تم سے طلاق لے کر جب جاوں گی تو وہ لوگ مجھے قبول کر لیں گے۔کہ اب اسکا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔
ابھی اگر میں گئی تو وہ کہیں گے کہ شوہر کے گھر میں رہو۔
اگر تم نارمل حالات میں میرا رشتہ لینے آتے تو تم جیسے انپڑھ گنوار دیہاتی شخص کو کھبی رشتہ نہ دیتے۔ بلکہ صاف انکار کر دیتے۔
تم اس گنوار دولہن کے ہی قابل ہو۔
ساری رات میں نے مچھروں، مینڈک، چوہوں اور چھپکلیوں میں گزاری۔
ادھر کا واش روم توبہ توبہ۔
میں کس بیڈ روم کی عادی تھی۔ میں اپنے واش روم میں کسی کو بھی جانے نہیں دیتی تھی۔
چودہ سال کی عمر میں والدین کی روڈ حادثے میں، میں سب کی لاڈلی بن گئی۔ دادا ابو، دادو اور تایا کی اپنی دونوں بیٹیوں سے زیادہ لاڈلی تھی۔
بازل نے دل میں بدگمان ہو کر سوچا، کتنی مکار اور جھوٹی ہے۔
جب ماں کے علاج کے لیے رقم بٹورتی تھی تب۔
یہ سمجھتی ہے جیسے میں اس کی باتوں کا یقین کر لوں گا۔
وہ پھر بولی، جب میرا قصور کوئی نہیں۔ پھر میں اس گاوں میں شہر کی ایم بی اے پڑھی لکھی لڑکی ادھر کیوں اپنی زندگی برباد کروں۔
تم دیہاتی لوگوں کی سوچ کھبی نہیں بدل سکتی جو عورت کو چوردیواری میں قید کر کے رکھنا چاہتے ہیں۔
بازل نے سوچا، جھوٹی، کہتی تھی میں بارہ کلاسیں پڑھی ہوں۔ باپ کی وفات کے بعد حالات کی وجہ سے پڑھ نہ سکی۔
میں نیچے ایک دری پر سوتی ہوں۔
بازل نے اکتاتے ہوے بیزاری سے کہا، بس کرو اپنی رام کہانی۔
چیزیں دیکھو ٹھیک ہیں۔
وہ خوشی سے بولی، زبردست ہیں اور کپڑوں جوتوں کی چوائس بھی اچھی ہے تمہاری۔
ویسے میں اسی برینڈ کا شمپو وغیرہ استعمال کرتی ہوں۔
وہ دل میں طنزیہ مسکرایا۔
وہ حیران ہو کر بولی، ویسے تمہیں لیڈیز چیزوں کا کافی تجربہ لگتا ہے۔
لگتا ہے کافی گرل فرینڈز تھیں۔
وہ جواب میں خاموش رہا۔
وہ اس کے بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولی، تم سٹور میں سوو گے۔
وہ حیران ہوا مگر وہ اسے سٹور میں دھکہ دے کر اس کے بیڈ پر سو گئ
جاری ہے
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.