میری سرپھری 5
Episode 5
جب ہمشا نے دروازہ کھولا تو سامنے چھوٹی آپا کھڑی تھی۔
اس نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کیوں لگائی۔
اور لاک کیوں کیا ہوا تھا۔
ہمشا جو پہلے ہی غم و غصے سے بھری ہوئی تھی پھر چھوٹی آپا کی وہ زلت بھری باتیں بھی یاد آ گئیں۔
ہمشا نے کہا کہ یہ میرا کمرہ ہے اور آپ جیسے لوگوں کے لیے ہی کنڈی لگائی ہوئی تھی جو ہر کسی کے کمرے میں منہ اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔
بڑی آپا بھی اتنے میں آ گئ اور ہلکہ سا بجا کر کھلا دیکھ کر اندر آ گئی۔
چھوٹی آپا نے طنزیہ کہا، خوب تو یہ تمہارا کمرہ ہے۔ فکر نہ کرو میرے بھائی بازل سائیں کی جلد شادی ہونے والی ہے اور تم بھی شادی تک ہی ادھر ہو۔ پھر دیکھنا وہ کیسے تمہیں اس گھر سے نکالتی ہے۔
ویسے لگتا ہے کہ تمہیں عزت راس نہیں آتی،بےعزتی کروانے کی عادت ہے۔
ہمشا نے غصے سے جواب دیا، دیکھیں محترمہ، میرے پاس آپ کی باتوں کے ڈھیروں جواب ہیں مگر میں ان کو دے کر اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہتی۔
آپ تو ٹہری ہر وقت فارغ اور نکمی۔ کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی۔
مہربانی ہوگی کہ آپ میرا وقت برباد کرنے نہ آیا کریں۔ شادی ابھی دور ہے آپ پہلے ہی میکے آ کر نہ بیٹھ جائیں۔
اپنے گھر جا کر رہیں۔
وہ غصے سے بولی، یہ میرے بابا سائیں کا گھر ہے میں جب مرضی آوں جاوں تمہیں کیا تکلیف ہے۔
ہمشا نے کہا، یہ جو سایے کی طرح بھوت بن کر میرے پیچھے آ جاتی ہیں اس سے مجھے تکلیف ہے۔
وہ کچھ بولنے لگی تو بڑی آپا نے چھوٹی بہن سے کہا، چھوٹی کیوں ہر وقت لڑائی کے موڈ میں رہتی ہے۔ کیوں بات بڑھا رہی ہے۔چل میرے ساتھ۔
چھوٹی کا بازو پکڑ کر بڑی آپا اسے باہر لے گئی۔
باہر سے گزر رہی تھیں کہ بابا سائیں نے آواز دے کر بلایا۔
اور وجہ پوچھی کہ موڈ کیوں خراب ہے۔
بڑی آپا نے ساری تفصیل بتا دی۔
بابا سائیں نے ایک لمبا حقے کا کش لیا اور سمجھانے والے انداز میں بولے، دیکھ پتری تیرے چھوٹے لاڈلے ویر کی شادی ہے اور تو زرا صبر سے کام لے۔ خامخواہ اس سے نہ الجھ۔ اس نے کونسا ساری زندگی ادھر ہی رہنا ہے۔
ابھی وہ ہمارے بچوں کو پڑھانے آئی ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔
جب ضرورت نہ رہی تو اسے نکال دیں گے۔ اتنے میں بازل بھی آ گیا۔
بازل نے بھی بابا سائیں کی بات سنی۔
بابا سائیں نے بازل سے پوچھا، کیوں پتر ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں۔
بازل نے جواب نہ دیا اور گردن جھکا لی۔
چچا بولے، ارے پتری تیرا اور اسکا کیا مقابلہ۔ تُو خامخواہ اپنی جان جلا رہی ہے۔
یہ سنکر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور اٹھ کر چل دی۔
بڑی آپا ماں کے پاس بیٹھی بڑے دکھ سے ماں سے گلہ کر رہی تھی کہ اماں آپ بھی تو اس شادی کو روک سکتی تھیں ناں۔
آپ کی بھانجی جو ہے۔
بھلا چاند جیسے بیٹے کے ساتھ وہ کالی کلوٹی بھینس اوپر سے چھ سال بڑی بھی ہی سے شادی کروانی تھی۔
آخر آپ سب کو ہو کیا گیا ہے۔
پہلے بازل سائیں مان نہیں رہا تھا پھر بابا سائیں نے سمجھایا تو فوراً مان گیا۔
اگر بابا سائیں کو بھائی کی مروت میں رشتہ کرنا پڑ رہا تھا تو بازل سائیں کا نام لگا دیتے کہ وہ نہیں مان رہا۔ الٹا اسے ہی منا لیا۔
بڑی آپا آپ اب بس بھائی کی شادی کی خوشی منائیں۔
بڑی آپا روندھی ہوئی آواز میں بولی، کیسے خوشی مناوں۔
تم اپنے فاہدے کے لیے بھائی کو قربانی کا بکرا بنا رہی ہو کہ سسرال میں تمہارے قدم مضبوط ہو جائیں۔
اتنے عرصے سے بچہ بھی نہیں ہو رہا۔
وٹے سٹے کی شادی ہو اور تمہیں کوئی کچھ کہہ نہ سکے۔
بابا سائیں بھی تمہاری محبت میں بیٹے کو قربان کر رہے ہیں۔
تم تو شروع سے ہی ضدی اور اپنی من مانی کرنے والی رہی ہو۔
بابا سائیں جو تمہارے بہت لاڈ اٹھاتے ہیں نا۔
شکر ہے کہ وہ بچ گئے ورنہ تم نے تو ان کے
منہ پر کالک مل دینی تھی۔
وہ تو وہ اسکول ٹیچر شریف اور سمجھدار تھا۔ جس پر تم فدا تھی۔
وہ تمہارے جال میں نہ پھنسا، ورنہ تم نے تو بہت کوشش کی تھی دھمکیاں دی تھیں۔
مگر وہ قابو میں نہ آیا اور والدین کو لے کر شہر نکل گیا۔
وہ بولی، آپا تم نے ہی اسے گاوں سے بھگوایا تھا۔
بڑی آپا رسانیت سے بولی، میں کیا کرتی، میں نے پوچھا تم میری بہن سے پیار کرتے ہو تو جانتی ہو اس نے کیا کہا تھا۔
وہ بچپن سے ہی ادھر پلا بڑھا تھا اور تمہیں خوب جانتا تھا۔
وہ کہتا تھا کہ وہ اس کے خرچے پورے نہیں کر سکتا۔
اسے ایسی بیوی چاہیے جو اس کے گھر کو سنبھالے، اس کے والدین کا خیال رکھے، کیونکہ اس کے والدین ہی اس کے لیے سب کچھ تھے وہ اکلوتا تھا۔
نہ کہ ایسی بیوی چاہیے جس کے پیچھے میرے والدین کرسی لیے پھرتے رہیں۔
ہاں میں نے اسے شہر بھیجنے میں اس کی مدد کی، کیونکہ تیری شادی کی تاریخ فکس ہو چکی تھی اور تُو بھاگنے کا سوچ رہی تھی۔
َوہ بڑی آپا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی، تو میں کیا کرتی، مجھے شہر میں شادی کرنے کا شوق تھا۔ میں خوبصورت تھی۔
بھلا میرا شوہر میرے قابل تھا کیا۔
بونگا اور سیدھا سادہ سا۔
بڑی آپا نے سمجھانے والے انداز میں کہا، دیکھ چھوٹی،تو جس طرح ضدی اور ہٹ دھرم ہے۔ اگر اس سیدھے سادھے کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا تُو اُجڑ کر بیٹھی ہوتی۔
شکر کر اتنا شریف اور سیدھا سادہ میاں ملا ہے جو تیرے آگے پیچھے پھرتا ہے۔
اس کی قدد کیا کر۔ اتنے سال ہو گئے بچہ بھی نہیں ہوا۔ اور وہ اور چچا سائیں تجھے کچھ نہیں کہتے۔ حالانکہ وہ انکا اکلوتا بیٹا ہے۔ انہیں بھی وارث چاہیے۔
چھوٹی غرور سے بولی، اسی لیے تو اپنے شہزادہ بھائی کا رشتہ نند سے کروا رہی ہوں۔ دو ہی تو بہن بھائی ہیں اور اکیلے جائداد کے وارث۔
بڑی آپا ٹھنڈی سانس بھر کر بولیں، تجھے سمجھانا مشکل ہے۔
بابا سائیں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ انہوں نے بہت عقلمندی کا فیصلہ کیا ہے بیٹے کی شادی کا۔
ان کو وہ وقت یاد آ گیا جب چھوٹی بیٹی جھولے پر سے گر کر زخمی ہو گئی تھی تو وہ اسے شہر ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے لاے تھے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد بتایا تھا کہ وہ کھبی ماں نہیں بن سکے گی۔
انہوں نے یہ بات سب سے چھپائی تھی۔ کیونکہ خاندان میں کوئی اسکا رشتہ لینے کو تیار نہ تھا کہ وہ ضدی اور اکڑو مزاج کی ہے۔
تب انہوں نے بھائی اور سب سے یہ بات چھپا لی تھی۔
اور بھائی سے اس کی شادی کی بات کی کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے اسے اپنا لے۔ ساتھ یہ لالچ دیا کہ ان کی بیٹی کا رشتہ اپنے بازل سائیں کے لیے کر لے گا۔
بھائی اس سچائی سے لاعلم تھا کہ وہ کھبی ماں نہیں بن سکتی۔ بھائی نے رشتہ منظور کر لیا اور خوب دھوم دھام سے شادی کی گئی۔
بازل اس رشتے کے لیے مان نہیں رہا تھا۔ تب بابا سائیں نے پہلی مرتبہ اس سے التجائیں کیں کہ وہ کھبی ماں نہیں بن سکتی تو اپنی بہن کا سہاگ بچانے کے لئے تجھے یہ شادی کرنی پڑے گی۔ ورنہ وہ اجڑ جائے گی۔
بازل نے کہا، ٹھیک ہے پھر وہ ہمیشہ آپ لوگوں کے ساتھ گاوں میں رہے گی اور میں گاوں میں نہیں رہنا چاہتا، شہر میں میں نے کاروبار شروع کیا ہے اور گھر لینا چاہتا ہوں اور شہر میں رہوں گا اور کسی شہری لڑکی سے شادی کر کے اسے گاوں میں رکھوں گا۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ گاوں والی بیوی کے حقوق و فرائض پورے کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتوں گا انشاءاللہ۔
بابا سائیں نے اس کی شرط مان لی،
بازل نے کہا، وہ یہ شادی صرف بہن کے لیے کر رہا ہے۔
وہ خوش ہو گئے۔
چچا سائیں کو یقین تھا کہ وہ بیٹے کو ضرور منا لیں گے۔ وہ اس کی جائیداد کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
آپا اور چھوٹی دونوں باتیں کر رہی تھیں کہ انہیں لگا جیسے باہر کسی نے ان کی باتیں سن لی ہیں۔
چھوٹی تیزی سے باہر آئ۔
جاری ہے۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.