میری سرپھری 3
Episode 3
بازل نے حیرت سے سوچا، یہ کیسی سرپھری لڑکی ہے۔
اس کو مجھ سے کوئی ڈر خوف نہیں ہے۔
یہ تو اس کمرے میں بھی بہت بہادری سے رہی، اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو ساری رات روتی چیختی چلاتی،
مگر اسکا دوست بتا رہا تھا بڑی بہادر لڑکی ہے۔ ساری رات خاموشی سے رہی۔
کوئی منتیں نہیں کیں۔
اندر گئے تو اس نے چادر سے منہ ڈھانپی رکھا تھا۔
اور چادر کے اندر ہی تقریباً جلدی جلدی سائن کر دیے تھے۔
بازل اس کے پردے سے کافی متاثر ہوا تھا۔
وہ تو اسے غصے میں اغوا کر کے لایا تھا سبق سکھانے کے لیے۔
وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی گرل فرینڈ بھی کسی اور کی طرف دیکھے۔
اس نے اس کے گھر کا پتا لگوایا تھا وہ ایک محلے میں چھوٹے سے گھر میں غربت سے رہتی تھی۔
ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔
اور یہ بڑی بڑی باتیں کرتی ہے کہ وہ اپنے کمرے میں کسی کو آنے نہیں دیتی تھی۔
بہت جھوٹ بولے تھے اس نے۔
اب اسی لیے وہ اس کی کسی بات کا یقین نہیں کرتا۔
اس نے ٹیوشن پڑھانے کا آئیڈیا اس لیے دیا تھا کہ اس کے بہن بھائیوں کے بچوں کو کچھ نہ کچھ تو پڑھا ہی سکے گی۔
اس کے علاوہ اسے ادھر گھر والوں کے ساتھ رکھنے کا اسے کوئی طریقہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
وہ دل میں ہنسا، کہتی ہے برینڈڈ شیمپو استعمال کرتی ہے۔
اسے تو شکر کرنا چاہیے کہ اس ایک کمرے کے خستہ حال گھر سے ادھر کا سرونٹ کوارٹر بھی اچھا ہے۔
باتیں کرتی ہے بڑی بڑی۔
ان باتوں سے ہی تو میں بھی پھنس گیا تھا۔
اپنی اوقات نہیں دیکھتی۔
بھلا مجھے رشتہ نہ دیتے۔ ہوں حد ہے۔ باتیں بنانے کی بھی۔ جیسے اب میں اس کی باتوں پر یقین کر لوں گا۔
وہ غصے سے بھرا سٹور روم میں وہاں بچھی چارپائی جو ہمشا کے لیے بچھائی تھی لیٹ گیا اور تھوڑی دیر بعد نیند کی آغوش میں چلا گیا کیونکہ وہ فکر میں پچھلی ساری رات جاگتا رہا تھا۔
صبح فجر کی نماز کے لیے بابا سائیں اور اسکا بڑا بھائی اٹھ گئے تھے۔
انہوں نے بازل کے روم کا دروازہ بجایا۔
بازل کی شور سے آنکھ کھلی اور وہ ہڑبڑا کر تیزی سے اُٹھا اور کمرے میں آیا تو دیکھا، ہمشا بیڈ پر چادر اوڑھے بڑے سلیقے سے سو رہی تھی۔
اس نے اسے پریشانی میں تیزی سے جگا کر کہا، پلیز سٹور میں چلی جاو، بابا سائیں دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔
وہ نیند سے بھری جلدی سے چپل پہن کر سٹور میں چل پڑی۔
بازل نے سٹور کا دروازہ بند کر دیا۔
جلدی سے دروازہ کھولا تو بابا سائیں نے سوال کیا، بیٹا اتنی دیر کیوں کی دروازہ کھولنے میں۔
وہ نظریں چراتے ہوئے بولا، وہ بابا سائیں آنکھ زرا دیر سے کھلی۔
وہ بولے، جلدی چلو جماعت کھڑی ہو جاے گی نماز کی۔
وہ گیٹ سے نکلنے لگے تو تھوڑی دیر کے لیے چوکیدار کے پاس رکے، اس نے فوراً اُٹھ کر سلام کیا تو بابا سائیں نے اس سے پوچھا کیوں بائ آج بچوں کی ٹیچر آ جاے گی ناں۔ بچوں کے پیپرز ہونے والے ہیں۔
وہ بازل سائیں کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ کر نظریں جھکا کر بولا، جی سر آج آ جائے گی۔
وہ تینوں باہر نکل کر تیز تیز مسجد کی طرف چلنے لگے۔
کچھ گاوں کے جاتے لوگ انہیں سلام کرتے گئے۔
جب وہ لوگ نماز سے فارغ ہو کر واپس آ رہے تھے تو بازل نے ہمت کر کے جھجکتے ہوئے کہا، بابا سائیں، میں سوچ رہا تھا کہ شادی کے لئے اپنے کمرے کے ساتھ والا کمرہ تیار کروا لوں۔
نیا فرنیچر وغیرہ ہو گا تو ادھر ہی بہتر رہے گا۔
آج ہی میں اسے ٹھیک ٹھاک کروا لیتا ہوں۔
وہ بولے، اپنے کمرے کو کروا لو ناں۔
وہ پھر نظریں چراتے ہوئے بولا، بابا سائیں، وہ ٹیچر ہے ناں۔ میں نے اپنی تسلی کے لیے اس سے ملاقات کی تھی کہ ظاہر ہے وہ ہمارے گھر رہنے آ رہی ہے۔ ہمارے گھر کی خواتین کی بہتری کے لیے میں نے سوچا اس کے بارے میں پوری معلومات لے لوں اور تسلی کر لوں پھر اسے گھر کے اندر داخل ہونے دوں۔
اس کا شوہر دوسری شادی کر کے اسے چھوڑ چکا ہے۔ اب وہ بے آسرا ہے۔ محنتی اور غیرت مند ہے۔
اس لیے اسے اپنا روم دے دوں تاکہ ہمیں بھی تسلی رہے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
ویسے بھی وہ پڑھی لکھی ہے تو سرونٹ کوارٹر میں دوسرے ملازموں کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ تو۔۔۔۔
اتنے میں اس کے دو بڑے بھائی دور سے آتے نظر آئے اور بابا سائیں کو سلام کیا اور دوسروں سے ہاتھ ملایا۔
بڑے بھائی نے پوچھا، کیوں شہزادے شادی کی تیاریاں عروج پر ہیں۔
وہ سر جھکا کر خاموش رہا جواب نہ دیا۔
بابا سائیں نے بازل کی کمر تھپتھپاتے ہوے مسکرا کر کہا، میرا پتر سیانا ہو گیا ہے۔ بڑی سیانی باتیں کرنے لگا ہے۔
پھر ٹیچر والی تفصیل انہیں بتا کر کہا، میرا خیال ہے اس کی بات مناسب ہے۔
پھر وہ بولے، چلو سامنے ڈیرے پر چل کر شادی کی تیاریوں کی بات کرتے ہیں۔
ملازم سے کہنا، ناشتہ ڈیرے پر ہی کریں گے۔
بازل کے تینوں بڑے بھائی مسکرا کر ادب سے باپ کے پیچھے چلنے لگے۔
سب لوگ ڈیرے پر پہنچے۔
بابا سائیں گول تکیے کے سہارے چارپائی پر آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
ملازم سب کے لیے لسی لے آیا۔
سب لسی پینے لگے۔
بابا سائیں نے بازل سے کہا، دیکھ پتر ہم جانتے ہیں کہ تُو اس شادی سے خوش نہ ہے۔
بازل نے گہری سانس بھری۔
وہ پھر صفائی دینے والے انداز میں بولے، پتر ہم بھی مجبور ہیں۔ تیری چھوٹی آپا کی وجہ سے۔ تیری بڑی آپا بھی خوش نہیں ہے مگر تیری چھوٹی آپا کی ضد ہے کہ خاندان میں کسی اور لڑکی سے کرنے کی بجائے میری نند سے رشتہ کرو۔
ویسے بھی قریبی رشتے داروں میں تیرے جوڑ کی کوئی لڑکی نہیں ہے۔ مطلب سب بہت چھوٹی ہیں یا شادی شدہ ہیں اور تجھے پتا ہے ہم برادری سے باہر رشتہ کر کے اپنے جدی پشتی خالص خاندانی خون میں ملاوٹ نہیں کر سکتے۔
تیری چھوٹی آپا کتنی سب کی لاڈلی ہے وہ اپنی ضد پر اڑَ گئ تھی کہ ورنہ میں نہر میں چھلانگ لگا دوں گی۔ تُو جانتا ہے کہ وہ کتنی اڑیل کُڑی ہے۔
وہ اماں سے کہہ رہی تھی کہ وٹہ سٹہ کرنے سے اس کی سسرال میں عزت بن جائے گی اور وہ لوگ اُسے کچھ بھی نہیں بول سکیں گے۔ اس کے احسان مند رہیں گے کیونکہ ان کی کُڑی کی عمر زیادہ ہو رہی ہے اور برادری میں اس کے جوڑ کا رشتہ بھی نہیں ہے۔
ویسے تیرا چاچا اس رشتے سے بہت خوش اور ابھی سے احسان مند ہو رہا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ ہم نے اسکا بہت بڑا بوجھ ہلکہ کر دیا ہے۔
وہ تو اپنی پتری کے لیے جہیز میں بہت سے مال مویشی اور مربعے دے رہا ہے۔
پتر شادی شادی کے بعد ساری عورتیں موٹی بدھی ہو جاتی ہیں۔
مرد کو تو پھر اپنی زمہ داریوں میں بیوی کی طرف دھیان ہی کدھر رہتا ہے۔ پھر بچے ہو جائیں تو بس مرد بچوں کو دیکھ کر ہی خوش ہوتا رہتا ہے۔
دیکھ پتر ہم نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا ہے۔ تیری بیوی تیرے سب بھائیوں کی بیویوں سے زیادہ مال و دولت لا رہی ہے۔
دوسرے بھائی پہلو بدلنے لگے۔
بابا سائیں پھر گویا ہوئے۔ دیکھ پتر جب پیٹ بھرنے کی فکر نہ ہو تو سب اچھا لگتا ہے۔
پیٹ بھوکا ہو تو سندر بیوی بھی اچھی نہیں لگتی۔
انسان کو معاشی فکر ہی ستاتی رہتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ہی تم سب بچوں میں زمین جاہیداد کے حصے بانٹ دیے ہیں۔
تمہاری دونوں بڑی بہنوں کو بھی خاندان کے منع کرنے کے باوجود شرعی حصے دے دیے ہیں۔ تم لوگوں کو کاروبار بھی الگ کر دیے ہیں۔
تم نے اپنی مرضی سے آبائی گھر لیا ہے۔
تمہارے دو بڑے بھائیوں نے اپنی مرضی سے اپنے حصے پر بڑے گھر بنا لیے ہیں۔اور تیسرے کا بھی مکمل ہونے والا ہے۔ تیری شادی کے بعد وہ بھی شفٹ ہو جائے گا۔
تُو نے اپنی مرضی سے شہر میں گھر لیا ہے۔
بازل نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بابا سائیں وہ میرے ایک دوست کے رشتے دار نے اپنے لیے بنوایا تھا وہ باہر رہتا تھا مگر اس کی بیوی پاکستان رہنے کو نہ مانی تو اونے پونے داموں بیچ رہا تھا میرے دوست نے بتایا تو میں نے خرید لیا۔
بابا سائیں بولے، دیکھو پترو، میں نے سب کو اپنی زندگی میں حصے دیکر خاندان والوں کی باتیں سنی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے ہاتھ کٹوا کر اپنے آپ کو بیٹوں کا محتاج کر لیا ہے۔
مگر میں سمجھتا ہوں کہ میں اب سکون کی نیند سوتا ہوں۔
میں بے انصافی کر کے اپنی بیٹیوں کو حصے نہ دیکر کیوں اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن بناوں۔ بیٹوں کے لالچ میں جو بیٹیوں کا حق مارتے ہیں وہ بہت زیادہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں اور پچھلے عیش کرتے ہیں اور وہ اکیلا دوزخ کی سزا بھگتتا ہے۔ قبر کا عزاب سہتا ہے۔
اتنے میں چچا اندر آئے۔
سب بیٹے احترام سے کھڑے ہو کر ملے۔
بابا ساہیں نے زرا آگے ہو کر خوش دلی سے ہاتھ ملایا۔
اتنے میں ملازم ناشتہ لے آئے۔
ناشتے کے دوران باتیں ہوتی رہیں۔ سب خاندان والے بابا سائیں کا بہت احترام کرتے تھے۔
بیٹے باپ کے سامنے مودب ہو کر خاموشی سے باتیں سنتے۔
ضروری بات کا جواب دیتے، بلا ضرورت نہ بولتے۔
بابا سائیں دو بھائی اور ایک بہن تھی۔ بہن درمیان میں تھی۔ اور بابا سائیں بڑے تھے۔
چھوٹا چچا بازل کا ہونے والا سسر تھا۔
وہ بھی اپنے بڑے بھائی کا بہت احترام کرتا تھا۔
یہ لوگ بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے۔
خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج نہ تھا۔
اپنی کاسٹ میں ہی شادی کرتے اور اپنی کاسٹ کے لوگوں کی قدر کرتے۔
بابا سائیں چاے پیتے ہوئے چھوٹے بھائی کی کمر کو تھپکی دیتے ہوئے بولے،
چھوٹے ویر، تُو بھی اب ہمت کر کے جاہیداد کا بٹوارا کر کے ثواب کما لے۔
ورنہ اکثر اوقات بھائی اپنے بھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔
دشمن نہ بھی بنے، دل میلے ہو جاتے ہیں۔ مقابلہ بازی شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں نے خود اچھی جگہ ہڑپ لی اور مجھے یہ دے دی۔ بھائی آپس میں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے سے بےزار ہو جاتے ہیں۔
والدین اتنی محنت اور لگاوٹ سے ان کے بھلے کے لیے جاہیدادیں بنا بنا کر اپنا تن من مار کر چھوڑ جاتے ہیں کہ بچوں کو کوئی مسئلہ نہ ہو اور بچے خوش رہیں۔
بعض اوقات وہی مال و جاہیداد ان کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے اور خوشی کے بجائے زہنی کرب کا باعث بنتی ہے۔ بھائی بہنوں کا حق مار کا گناہ کبیرہ کے مرتکب بنتے ہیں۔ اس لئے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے بچوں کو گناہوں سے بچانے اور ان کے سکھی جیون کے لیے تُو بھی میری طرح حق انصاف سے بیٹوں اور بیٹیوں میں مال و جاہیداد شرعی طریقے سے بانٹ دے۔
لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک بنتا ہے۔
جب سے میں نے اپنے گاوں کے شخص کے بارے میں سنا کہ اس نے بھائی کا حصہ کھایا اور بہنوں کو بھی نہیں دیا تو وہ سب کو خواب میں آتا ہے کہ وہ لوہے کی زنجیروں سے بندھا ہوا ہے اور چیختا چلاتا ہے کہ میری جان چھڑاو۔
مگر گھر والے لالچ میں آے ہوئے ہیں نہ بیوی نہ بچے اس کی جاہیداد کے حصے دینے پر تیار ہیں۔
صرف ایک شادی شدہ بیٹی باپ کے لیے تڑپتی ہے مگر اس کی بھی نہیں سنتے۔
اب پچھلے عیش کر رہے ہیں اور وہ مفت میں سزا بھگت رہا ہے۔
مجھے تو خوف خدا آ گیا تھا۔
بازل کا چچا بولا، میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ مجھے اس معاملے میں آپ کا ساتھ چاہیے۔
آپ سے تو سب ڈرتے اور دبتے تھے کہ آپ کا سارے خاندان پر رعب ہے۔ اس لئے باوجود اختلاف کے کوئی کچھ نہ بول سکا۔
مگر میں بھی ہمت کروں گا۔ جس بچے نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی اسے جاہیداد سے عاق کی دھمکی دے دوں گا اور بیٹیوں کو بھی حصہ دوں گا انشاءاللہ۔
بازل نے وقت دیکھا اور اپنے وفادار ملازم سے نظر بچا کر اشارہ کر کے پوچھا، کیا ٹیچر آ گئ ہے۔
ملازم نے جواب دیا جی سائیں، آچکی ہیں اور بڑی بیبی جی کے پاس بیٹھی ناشتہ کر رہی ہیں۔
بڑے بابا سائیں نے حیرت سے پوچھا، اچھا بڑی بیبی نے اسے پاس بٹھایا ہوا ہے ملازمہ کو۔
چلو چل کر دیکھتے ہیں اس کی اتنی جرات کیسے ہوئی، ان کے برابر بیٹھنے کی۔
بازل پریشان ہو گیا۔
جاری ہے۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.