Back to Novel
Tujhay Kho Kar Paya
Episodes

تجھے کھو کر پایا 1

Episode 1



دعا اپنے کزن شاہ زین سے منت بھرے لہجے میں بولی شانی پلیز مجھے پیڑ سے امرود توڑ دو نا۔

وہ لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے بولا میں کیوں توڑوں۔ اور چل پڑا۔

پاس کھڑا ان کے ملازم کا بیٹا نوید اس کے پاس آ کر بولا دعا جی میں توڑ دیتا ہوں اور تیزی سے درخت پر چڑھ گیا اور امرود نیچے پھینکنے لگا۔

دعا خوش ہو کر امرود چننے لگی۔

نوید نیچے آیا تو دعا کے چچا نے نوید کو دعا کے ساتھ امرود چنتے دیکھا تو اسے ڈانٹ کر بولے۔

اوے نیدو تو ہماری تی رانی کے پاس کیا کر رہا ہے۔

وہ ایکدم ڈر کر بولا جی جی میں دعا جی کے لئے امرود۔۔۔

دعا کے چچا نے اسے ڈانٹ کر کہا چل دفع ہو جا۔

پھر دعا سے مخاطب ہو کر بولے تی رانی ان کمی لوگوں کے ساتھ مت کھیلنا یہ ہمارے نوکر ہیں نیچ زات ہیں سمجھی۔ ان سے فالتو بات مت کرنا اگر وہ کرنے کی کوشش کرے تو مجھے بتانا میں اس کی چمڑی ادھیڑ دوں گا۔

نوید دور کھڑا امرود ہاتھ میں اٹھاے ان کی باتیں سن رہا تھا۔

دعا کے چچا نے اسے کھڑا دیکھا تو آ گ بگولہ ہو کر چلاے کہ تو ابھی گیا نہیں کمینے۔ اور پاس جا کر اس کو ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔ امرود اس کے ہاتھ سے گر گئے اور وہ منہ سہلاتا وہاں سے چل پڑا۔

دعا امرود چن کر اپنے صہن میں آ کر ملازمہ کو دیتے ہوئے بولی یہ لو اسے کاٹ کر لیموں اور نمک لگا کر لے آو۔

نوید دعا سے چند سال بڑا تھا مگر قد قدرے چھوٹا ہونے کی وجہ سے زیادہ بڑا نہ لگتا تھا۔

دعا چار بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی اس لیے وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ اس کے تایا کے بھی دو بیٹے تھے۔ دونوں بھائی ایک ہی بڑی سی حویلی میں رہتے اور زمینداری کا پیشہ اپناے ہوئے تھے دونوں بھائیوں کا گھر بھی ایک تھا اور دونوں بہنیں دونوں سگے بھائیوں سے بیاہی ہوئی تھیں اور بہت سلوک و اتفاق سے دونوں گھرانے رہتے تھے کاروبار مشترکہ تھا زمینیں مشترکہ تھیں۔ اس گھرانے کا اتفاق بھی مشہور تھا۔

شاہ زین بھی دونوں گھرانوں میں لڑکوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے سب کا لاڈلہ تھا۔ اس کا اور دعا کا رشتہ بچپن سے طے تھا۔

شاہ زین کو پڑھنے کا شوق تھا۔ اس کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اعلیٰ تعلیم دلانے کے اقدامات کیے گئے۔اچھے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا گیا اور اسے اچھی نوکری بھی مل گئی اور شہر میں اسے جدید سہولیات سے آراستہ گھر بھی تعمیر کروایا گیا اور اپنے گاؤں سے ملازموں کی فوج بھی ساتھ روانہ کی گئی اور اس کی شادی کی تیاریاں عروج پر ہونے لگیں۔

دعا کو اپنے اور تایا کے گھر سے بہت لاڈوپیار مل رہا تھا کیونکہ تائ خالہ بھی تھی۔

بچپن سے کچھ لڑکیوں کو تعریفیں سننے کا شوق ہوتا ہے۔ دعا جب بچپن میں کچھ اچھے کپڑے پہن کر آ کر شاہ زین سے پوچھتی کہ شانی میں کیسی لگ رہی ہوں تو مزاق اڑاتے ہوئے کہتا بلکل چڑیل لگ رہی ہو اور مسکراتا ہوا اسے نظرانداز کرتا اکڑ سے چل پڑتا تو اکثر نوید دعا کے آس پاس منڈلاتا رہتا اور اس کے جاتے ہی دعا کی تعریفیں شروع کر دیتا کہ تم اس گاوں کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو۔

دعا جو شاہ زین کے سرد اور اکڑے رویے سے دکھی ہو رہی ہوتی وہ نوید کی باتوں سے بہل جاتی۔ اور خوش ہونے لگتی۔

نوید اس کی کمزوری جان چکا تھا وہ اب اکثر آتے جاتے کوئی نہ کوئی جملہ تعریف کا کر جاتا تو جواب میں مسکرا دیتی اور اکثر اس کے دکھڑے رونے اور خرچے کی تنگی کا رونا رونے سے اس سے کافی رقم ہتھیا لیتا۔

رفتہ رفتہ دعا اس کی میٹھی باتوں کے جال میں پھنستی گئی۔ اس نے نوید کو موبائل کے پیسے بھی دیے تاکہ وہ نیا موبائل خرید سکے۔

نوید نے سستا نوکیا موبائل خرید لیا۔ دعا کے پوچھنے پر بتایا کہ اس کے پاس پیسے کم تھے کیونکہ اس کے گھر میں راشن ختم تھا۔

دعا نے مزید پیسے دے دیے۔

نوید ڈرائیور بھی تھا اور وہ لوگ جدی پشتی ان کے ملازم تھے اس لئے ان کو حویلی میں کام کاج کے لیے آنے کی اجازت تھی مگر ان کی جرآت نہ تھی کہ وہ کچھ فالتو بات بھی کر سکیں۔

نوید بہت چالاک اور ہوشیار شخص تھا وہ کھبی بھی بے اعتیاتی نہ کرتا موقع دیکھ کر ہی دعا کو تعریفی جملہ بولتا۔ دعا جتی اکڑ خان اور ضدی اور مغرور مشہور تھی اتنا ہی وہ سواے نوید کی باتوں کا برا منانے کی بجائے ہنس دیتی اور جواب نہ دیتی جس سے نوید کو کافی شہہ ملنے لگی۔

دعا کو علم تھا کہ اس کی منگنی بچپن سے ہی شاہ زین سے ہو چکی ہے۔ مگر شاہ زین بھی اس کی طرح اکڑو مشہور تھا وہ دعا کی طرف توجہ نہ دیتا۔ بلکہ وہ سامنے آتی تو اس کی طرف دیکھ کر ماں سے کہتا اماں میری منگنی کسی خوبصورت سی لڑکی سے کرتی کیا دیکھا ہے اس بدشکل دعا میں۔ نہ کشش نہ حسن۔

ماں ڈانٹ کر کہتی خبردار جو میری بیٹی کو بدشکل کہا تو چاند کا ٹکڑا ہے میری بچی۔

وہ ہنس کر طنزیہ اس کی طرف دیکھ کر کہتا اچھا مجھے تو یہ چاند کہیں سے نظر نہیں آ رہی ہے۔ اچھا چاند کے اندر جو بدنما داغ ہیں اس سے تشبیہ دے رہی ہیں۔ وہ سر پکڑ کر کہتا پتا نہیں میری لاہف کیسے ایک بدشکل چڑیل کے ساتھ گزرے گی۔ کاش کوئی مجھے اس چڑیل سے بچا لے۔

دعا دل میں دکھ لیے اٹھ کر کہتی اپنی شکل دیکھی ہے کھبی۔ کوئی لڑکی تم سے شادی پر تیار نہ ہو۔ تمھارے ساتھ تو سامنے جاتی جوان ملازمہ شمیم سے چلا کر بولی ادھر آ شمو بتا کیا کوئی لڑکی اس بندے سے شادی پر راضی ہو سکتی ہے۔

شمو پریشان ہو کر بولی جی ججی۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔ جی ہو سکتی ہے۔

شاہ زین فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھ کر بولا بس اب بولو۔

وہ دانت پیستی شمو کو ڈانٹتی پھٹکاتی اندر چلی گئی۔

نوید نے نیا موبائل جب لیا تھا تو اس نے دعا سے التجا کی کہ وہ اپنا نمبر دے دیں۔

دعا نے کہا ٹھیک ہے مگر کھبی فون نہ کرنا مجھے کوئی کام ہو گا تو میں خود کر لوں گی تمھیں کام ہو تو میسج کر دینا۔

دعا اپنے بیڈ پر لیٹی شاہ زین کی باتوں پر غور کر رہی تھی۔ بہت دکھی تھی آنکھوں میں آنسو بھی تھے۔اس کی فرینڈز اکثر اسے شاہ زین کے حوالے سے کہیتں کہ یہ تو بہت مغرور انسان ہے پھر جس طرح تم بتاتی ہو کہ وہ تمھیں لگتا ہے پسند نہیں کرتا تو ایسے شخص کے ساتھ کیسے زندگی گزار سکو گی جو اپنی اناء میں رہنے والا ہے۔ وہ تو تمھاری ناقدری کرے گا تمھیں کوئی اہمیت نہیں دے گا خون کے آنسو رلاے گا بہتر ہے اس سے شادی سے انکار کر دو۔ ایک فرینڈ بولی شادی اس سے کرو جو تمھیں پیار کرتا ہو تمھاری قدر کرتا ہو چاہے غریب ہی کیوں نہ ہو۔

دعا سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا وہ اتنی ارزاں ہے کہ کسی کے نزدیک اس کی زات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اتنے میں اس کے موبائل پر میسج بجا اس نے حیران ہو کر دیکھا تو وہ نوید کا میسج تھا۔



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.