تجھے کھو کر پایا 7
Episode 7
شاہ زین نے دعا سے کہا کہ وہ اس شرط پر اسے طلاق دے سکتا ہے کہ وہ پھر پہلے اس کی دوسری شادی کروانے کے لیے گھر والوں کو مناے اور خود اپنے ہاتھوں سے شادی کرواے اور پھر طلاق لے کر چلی جائے تاکہ وہ اس کے جانے کے بعد تنہا نہ رہ جائے۔
دعا اس نرالی شرط پر کافی حیران ہوئی اور مجبوراً راضی ہونا پڑا۔
شاہ زین کی اس شرط پر گھر میں بھونچال آ گیا دعا نے سب کو منانا شروع کیا اور کہا کہ وہ شاہ زین کے ساتھ اب مزید نہیں رہ سکتی اگر آپ لوگ راضی نہ ہوے تو وہ عدالت سے خلع لے لے گی۔
دعا وارننگ دے کر واپس آ گئ۔
چند دن بعد دعا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے سنا کہ سب گاوں والے دعا کی شرط پر راضی ہو چکے ہیں اور شاہ زین کی شادی شمو سے کروانے پر راضی ہو گئے ہیں اور شمو کو ادھر ہی لا رہے ہیں شادی کے لئے۔ اور شادی کے اگلے دن اسے طلاق مل جائے گی۔
سب گاوں سے آ چکے تھے اور شمو کے لئے شادی کیَ تیاریاں کر رہے تھے۔ ڈھولک بھی رکھ دی گئی تھی اور گھر کو بھی سجایا جا چکا تھا۔
دعا نے دیکھا مردوں میں صرف اس کے دو بھائی اور ایک چھوٹا جیٹھ آیا ہے۔ باپ اور سسر گاوں میں ہی ہیں۔ اس نے کسی سے پوچھا نہیں۔
دعا کی بیٹی سال کی ہونے والی تھی اور دعا کو اس کی کوئی فکر نہ تھی اسے تو اس کے رونے اور اسے سنبھالنے سے کوفت محسوس ہوتی تھی۔ اور نیپی چینج کرنا تو اسے گندہ کام لگتا تھا۔ وہ اس کے پاس آتی بھی نہ تھی۔ کیونکہ وہ دادی کے پاس گاوں میں رہتی تھی۔ البتہ شاہ زین اسے خوب پیار کرتا تھا اور وہ اس کے پاس خوشی سے چلی جاتی تھی۔
شمو کو پیلا دوپٹہ پہنا کر اسٹیج پر بٹھا دیا گیا تھا اور وہ شرما رہی تھی۔ لڑکیاں اس کے ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھیں۔ شاہ زین اور دوسرے مرد کھانے کے انتظامات میں لگے ہوئے تھے۔ خوب رونق لگی ہوئی تھی۔
دعا کمرے میں کچھ لینے آئی تو شاہ زین اپنی ماں کے پاس بیٹھا کچھ باتیں کر رہا تھا۔ دعا پر نظر پڑی تو فوراً اٹھا اور ملازمہ کو آوازیں دینے لگا۔
وہ دوڑی آئی تو اسے مخاطب کر کے بولا سنو دعا کے ساتھ ملکر اس کمرے کو خالی کرو۔ دونوں حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔
شاہ زین دعا کی طرف دیکھ کر بولا دعا کل میری شادی ہے اور اس کمرے میں میری نئی دولہن آ جاے گی اور یہ کمرہ اسکا ہو جائے گا تم اپنا سارا سامان سمیٹو اور پیک کرو تمھیں ڈرائیور گاوں چھوڑ آئے گا کل تمہیں طلاق مل جائے گی۔ بہتر ہے تم آج ہی گاوں نکل جاو ویسے بھی اب یہ گھر میری نئی بیوی کا ہو جائے گا یعنی شمو کا۔ میں نہیں چاہتا کہ کل وہ ادھر تمھیں دیکھے اور جیلسی فیل کرے۔ وہ اب اس پورے گھر کی مالکہ بننے والی ہے اور۔۔۔۔۔
ماں نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ بیٹا اب مغرب ہو چکی ہے کل چلی جائے گی ایک رات اور رہنے دو۔
دعا حیرت سے دیکھنے لگی۔
شاہ زین نے الماری سے اس کے کپڑے نکالنے شروع کر دیے اور بولا خالی کرو الماری اور جگہ بناو تاکہ میری پیاری بیوی کے کپڑے اس میں رکھنے ہیں۔
پھر وہ کام والی کو ڈانٹ کر بولا جلدی کرو سنا نہیں تم نے۔
اور بیگ اس کی طرف پھینکا۔
ملازمہ نے دعا کو دیکھا تو سن کھڑی دعا حیرت سے سب دیکھ رہی تھی۔
شاہ زین باہر جا چکا تھا اور شاہ زین کی ماں ملازمہ کو ڈانٹنے لگی جلدی کرو وہ جلدی سے ڈالنے لگی۔
دعا کو مخاطب کر کے ساس بولی دعا چلو تیار ہو جاو ابھی نکاح کی بھی تیاری کرنی ہے۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
ملازمہ نے کپڑے ڈالنے کے بعد دعا سے پوچھا بی بی جی اور کیا پیک کرنا ہے۔
دعا کی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ چلا کر بولی دفع ہو جاو۔ اور غصے سے باہر آ گئ۔
باہر آ کر دیکھا دعا کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا سب شمو کی طرف مائل تھے اور اسی کو پروٹو کول دے رہے تھے۔ شاہ زین کے بھائی نے شاہ زین سے کہا۔ زین نکاح خواں کا بندوبست ہو گیا ہے کل عصر کے بعد کا ٹائم ہے۔ شاہ زین بولا گڈ۔
شاہ زین نے دعا سے کہا چلو گاوں جانے کی تیاری کرو۔ شاہ زین کی ماں بولی ابھی ڈرائیور فارغ نہیں ہے زین بیٹا کل نکاح سے پہلے صبح دعا کو بھجوا دیں گے ابھی سامان بھی سارا پیک نہیں ہے۔ دعا تم اپنا سارا سامان دھیان سے پیک کر لینا کچھ رہ نہ جائے۔ اور وہ سامنے کمرے میں گڑیا سو رہی ہے۔ تم اس کے کمرے میں سو جانا زین کے کمرے میں سیج بنے گی۔
کوئی بھی ٹھیک طرح سے دعا سے بات نہیں کر رہا تھا سب اسے اگنور کر رہے تھے۔ اس کی ساس نے جب اسے دعا کہہ کر پکارا تو اسے عجیب سا لگا وہ ہمیشہ اسے بیٹی کہہ کر بلاتی تھی۔
اس کی ساس اسٹیج پر جا کر شمو کو گلے لگا کر پیار سے ملی۔ دعا حیرت سے دیکھتی ہوئی ایک کرسی پر نڈھال سی بیٹھ گئی۔
سامنے ناچ گانا اور تیز میوزک کی آواز سے جوان لوگ ناچنے لگے۔ ملازم بھی جوش و خروش سے ناچنے لگے۔ جوس چاے مٹھائی وغیرہ چل رہی تھی کوئی دعا کو آفر نہیں کر رہا تھا۔ دعا کا حلق خشک ہوا تو خود ہی جوس پی لیا۔
کھانے کا سلسلہ چل پڑا۔ کھانے کا بھی کسی نے نہ پوچھا۔
کھانے کے بعد شمو کی مہندی کی رسم ادا کی گئی۔ سات سہاگنوں نے اسے مہندی لگائی۔ زین کی ماں کافی دیر شمو کے پاس اسٹیج پر بیٹھی رہی اور اسے مہندی لگا کر پیار کر کے سدا سہاگن رہو کی دعا بھی دی۔
دعا سے یہ سب دیکھا نہ گیا وہ کمرے میں چل پڑی تو اس کے کمرے میں سیج بن رہی تھی اور اسکا بیگ ساہیڈ پر پڑا ہوا تھا۔ شاہ زین اونچی آواز میں بولتا ہوا اندر آ رہا تھا کہ بھائی جان نکاح میں کل دیر نہ کرنا۔
بھائی نے کہا تسلی رکھو ہم وقت کی پابندی کریں گے۔ پھر وہ کمرے میں آیا اور دعا سے بولا پلیز اپنا سامان اٹھاو اور جاو یہاں سے اب تمھارا اس کمرے پر کوئی حق نہیں۔ پھر اسکا بیگ اٹھا کر باہر لا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیا وہاں پر دعا کی بچی سو رہی تھی۔رات پڑ چکی تھی اور دعا کو سونے کی کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ مجبوراً وہ اپنی بیٹی کے ساتھ لیٹ گئ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
اس نے حیرت سے سوچا کیا شاہ زین اسے کمرے سے نکال سکتا ہے اسے گھر سے جانے کا کہہ سکتا ہے۔ اور تو اور اس پر جان چھڑکنے والے بھی سب اس کے اپنے کس طرح اسے اگنور کر رہے تھے شاید اس سے ناراض تھے اس کا دل ان سب کے بدلتے رویے سے بھر آیا۔ دل غم کی شدت سے پھٹا جا رہا تھا جی چاہ رہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کر روے۔ اس کا باپ اور سسر بھی اس کی کال اٹھا رہے تھے وہ بھی اسے اگنور کر رہے تھے۔
ماں کی کال بجی تو اس نے شکر کیا تو ماں نے اسے کال پک کرتے ہی سنا دیا کہ اگر زین سے طلاق لو گی تو ادھر گاوں آنے کی غلطی نہ کرنا سب تم سے ناراض ہیں۔ تم جس کے پاس جانے کے لیے طلاق لے رہی ہو اسی کے پاس جانا۔ اب کل زین کا نکاح ہوتے ہی تمھیں وہاں سے نکال دیا جائے گا اور اس کی نئی بیوی تمھارے کمرے تمھارے گھر پر راج کرے گی اور تم دنیا کی غلامی کرنا۔ ایسا راج اور کہیں نہیں ملے گا۔ اور ماں نے باتیں سنا کر فون بند کر دیا۔
شاہ زین بہت پریشان تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ دعا کو کیسے سمجھاے۔ وہ اپنا گھر خراب کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ آرام سے کمرے سے بغیر احتجاج کیے نکل گئ تھی اور اب دوسرے کمرے میں آرام سے سو رہی تھی۔ اسے اپنی غلطی اپنی نادانی کا کوئی احساس تک نہ ہو رہا تھا سب کے ناراضگی والے رویے کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر ڈٹی ہوئی تھی۔
شاہ زین غصے میں تلملا رہا تھا دعا کا طلاق مانگنا اسے اپنی بے عزتی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے تو سب کو اس کے ساتھ رویہ ایسا رکھنے پر مجبور کیا تھا تاکہ اسے اپنا فیصلہ بدلنا پڑے۔شمو سے نکاح کا محض ڈرامہ تھا اس کو بتا دیا گیا تھا کہ دعا کو اپنے فیصلے سے ہٹانے کے لیے ایسا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی شادی نوید سے ہو گی۔ نوید بہت خوش تھا کیونکہ وہ اسے بچپن سے پیار کرتا تھا۔ دعا سے تو صرف پیسے بٹورنے اور شمو کو جلانے اور اس کے دل میں اپنی محبت جتانے کے لئے ایسا کرتا تھا شمو بھی اسے پسند کرتی تھی اور دعا کے حوالے سے جلتی تھی۔ اب نوید اور شمو دونوں ایک ہونے والے تھے اور بہت خوش تھے۔
ادھر شاہ زین نے غصے سے دعا کا سامان الماری سے باہر نکالنا شروع کر دیا وہ غصے سے سارا سامان نکال رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر دعا کی میڈیکل رپورٹ پر پڑی تو وہ دنگ رہ گیا دعا نے بچہ بند کروانے کا اپریشن کروا لیا تھا۔ اور اسے اس سانحہ کی خبر تک نہ تھی۔ اس کا دل غم اور دماغ غصے سے پھٹنے لگا۔ اسکا جی چاہا دعا کو جان سے مار دے۔ اسے دعا کی باتیں یاد آنے لگیں کہ وہ ایک ہی بچہ پیدا کرے گی پہلا اور آخری۔ اس سے بچوں کی مصیبت برداشت نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔
دعا کو اب اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرنے جا رہی تھی۔ اس نے سوچا وہ جا کر زین سے معافی مانگے اور نکاح سے روکے۔ اس سے سوکن برداشت نہیں ہو گی۔ وہ باہر آئ تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئ کہ شاہ زین اور شمو آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہے ہیں اور شمو شرمیلی مسکراہٹ سے اسے دیکھ کر سر جھکا کر جواب دے رہی ہے اور شاہ زین مسکرا رہا ہے۔
دعا سے یہ سب دیکھا نہیں گیا اور وہ ساس کو ڈھونڈنے لگی مگر وہ سو چکی تھیں ناچار کمرے میں آ کر رونے لگی پھر پانی پیا اور سوچا کل شاہ زین کو منا لے گی ابھی کونسا نکاح ہوا ہے اور بیٹی کو ساتھ لگا کر سونے کی کوشش کرنے لگی تو اسے بیٹی کے ساتھ بڑا سکون محسوس ہوا۔ اور روتے روتے سو گئی۔
صبح آنکھ زرا دیر سے کھلی تو دیکھا سب ڈرائنگ روم میں جمع ہیں اور بچی دادی کی گود میں ہے سب خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ شاہ زین اور شمو دولہن کے لباس میں شاہ زین کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے اور دعا کی ساس اسے ڈانٹ رہی ہے کہ تم نے سب کو بتاے بغیر شمو کو لے جا کر مسجد میں نکاح پڑھوا لیا۔
یہ خبر سنتے ہی دعا چیخنے چلانے لگی اور شمو اور مارنے لگی اور اسے غصے سے جھنجھوڑنے لگی۔ شاہ زی نے اسے شمو کے قریب سے ہٹایا اور ایک تھپڑ اسے اتنی زور سے مارا کہ وہ چکرا کر گر پڑی۔
نیچے گری شدت غم اور حیرانگی سے زین کو دیکھنے لگی۔ تو شاہ زین نے کہا کہ ماں کی منت کرنے پر میں تمھیں طلاق نہیں دے رہا ورنہ تم ایک منٹ بھی رکھنے کے قابل نہیں ہو۔ یہ دیکھو اپنی رپورٹ تم نہ بچے پیدا کرنا چاہتی ہو نہ بیوی بن کر زمہ داریاں اٹھانا چاہتی ہو۔
نکل جاو میرے گھر سے میں تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا جاو ابھی گاوں جاو اور بچی کو چھوڑ جاو شمو پال لےگی اسے۔
دعا نے بھائی اور جیٹھ کی طرف دیکھا تو کوئی آگے نہ بڑھا۔ بھائی نے اسے ڈانٹ کر کہا تم نے جو کیا اس جرم کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔
ساس دعا کو لے کر گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگی۔ ماں کے اصرار اور بیٹے کو پقین دلانے پر وہ راضی ہوا کہ ماں اسے اپنی تحویل میں رکھے گی۔
دعا نے دیکھا سب گھر والے حتکہ اس کے میکے والے بھی دعا کو پروٹوکول دے رہے تھے۔
شمو پر بہت روپ آیا تھا پتلے پتلے نقوش اور سانولی سی پرکشش لگ رہی تھی۔
دعا کا سامان پیک ہو رہا تھا اور وہ خاموش تماشائی بنی بت کی طرح سب دیکھ رہی تھی۔ اس میں بولنے کی سکت نہ رہی تھی۔
سب شمو کی تعریفیں کر رہے تھے۔ سامنے بڑی سکرین پر شاہ زین ۔باپ سے بات کر رہا تھا اور وہ اسے مبارک باد دے رہے تھے۔ دعا حیران سب کو دیکھ رہی تھی اس کی ساس بھی شمو کا خیال رکھ رہی تھی اور اسے پیار کر رہی تھی۔ شاہ زین بتانے لگا کہ کل دوپہر کے ولیمے کے بعد وہ شمو کے ساتھ ہنی مون پر جا رہا ہے۔
دعا کا دل کرچی کرچی ہو رہا تھا اس سے سب دیکھا نہیں جا رہا تھا نہ ہی گاؤں جانے کا دل کر رہا تھا مگر وہ کہاں جاتی۔
گاوں جا کر ماں کے گلے لگ کر بہت روئی ماں بھی رونے لگی مگر باپ نے اور سسر نے رخ پھیر لیا۔ باپ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ آج بیٹی نے میرا سر بھائی کے آگے شرم سے جھکا دیا ہے کاش یہ پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔
بھائی اور شاہ زین کے بھائی کوئی اس سے بات چیت نہیں کر رہا تھا بھابیاں اور جھٹانیاں اس کو لفٹ نہیں کرا رہی تھیں ساس کے رویے میں بھی فرق آ گیا تھا۔ صرف ماں ہی اسے تسلیاں دے رہی تھی کہ شکر کرو اس نے تمہیں طلاق نہیں دی۔ ماں باپ کے سمجھانے پر وہ رک گیا۔
دعا کی دنیا بدل چکی تھی اسے اب غمزدہ رہنے کی عادت پڑ چکی تھی رو رو کر بھی اور سب کے ناگوار رویے کو سہہ سہہ کر عادت سی پڑ چکی تھی بہت کم بولتی کم کھاتی۔ ماں نے بمشکل اسے جینے کا حوصلہ دیا کہ تم ابھی بھی شاہ زین کے نکاح میں ہو۔
ماں سمجھاتی کہ اکڑ اور غرور اللہ تعالیٰ کی زات کو سخت ناپسند ہے۔ اور نعمتوں کی ناشکری کرنے والا بھی۔ تم نے نہ شوہر، نہ اچھے سسرال اور نہ اولاد کی قدر کی۔ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے اب بھی توبہ کرو تو اللہ تعالیٰ بہت غفور ورحیم ہیں ضرور معاف فرما دیں گے اور تمھارے لیے آسانیاں پیدا کر دیں گے۔
دعا اب یکسر بدل چکی تھی فیشن بھول چکی تھی اکڑ بھول چکی تھی عاجزی میں رہتی۔ سادہ لباس پہنتی۔ اپنی بیٹی پر جان چھڑکتی اس کا خیال رکھتی اس کو پاس سلاتی وہ سوچتی اولا د تو اک نعمت ہے جینے کا سہارا ہے اگر اس کی بیٹی نہ ہوتی تو وہ کب کی مر چکی ہوتی۔
شاہ زین شمو کے ساتھ اکثر آتا تو شمو قیمتی لباس میں ملبوس ہوتی۔ اجکل وہ گاوں رہنے آئی ہوئی تھی کیونکہ وہ اب پریگننٹ تھی۔ ساس اور سسر اور شاہ زین کے گھروالے شمو کو بہت اہمیت دیتے۔ ساس اسکا بہت خیال رکھتی۔ سسر اسے بیٹی پکارتے۔
شمو کے گھر والوں کی حیثیت میں کوئی فرق نہ آیا تھا وہ بدستور ان کی غلامی کر رہے تھے کیونکہ شاہ زین کے باپ نے ان کو گرج کر کہا تھا کہ ان کے بیٹے نے جلدی کی ورنہ وہ اس کے لیے اپنی ہم پلہ اپنی حیثیت کی بہو لاتے اب تم لوگ بھول بھی یہ سمجھنے کی غلطی نہ کرنا کہ تم بیٹی دے کر رشتے دار بن چکے ہو۔ ہمارا ناطہ صرف تمھاری بیٹی سے ہے۔ وہ عاجزی سے ہاتھ جوڑ کر بول تھے جی سرکار ہم تو کھبی ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم ہمیشہ آپ کے غلام رہیں گے یہ آپ کا احسان ہے کہ آپ نے ہماری بیٹی کو عزت دی اور اسے خوش قسمت بنایا۔
شمو کو بھی سختی سے سمجھا دیا گیا تھا کہ وہ اب گھر والوں سے دور رہے ورنہ اچھا نہیں ہو گا اس نے بھی ڈر کر گھر والوں سے بات کرنا چھوڑ دی۔
نوید کا شمو کی شادی سے برا حال تھا وہ دن رات اس کے لیے روتا اور تڑپتا۔ دوست اسے دلاسے دیتا تو وہ کچھ سنبھلتا۔ نوید رو کر دوست سے کہتا یہ مکافات عمل ہے۔ میں نے کسی کی بیوی کو ورعلایا تو اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے مجھے سزا دی کہ شمو میری ہوتے ہوتے کسی اور کی ہو گئی۔
نوید بیمار ہو گیا ہر وقت روتا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا۔ وہ سوچتا کہ شاہ زین اور دعا کے درمیان جو دوریاں اور اختلافات پیدا ہوئے ہیں سب اس کی اور نازی لالچی کی وجہ سے ہوے ہیں دونوں نے ملکر اس کا گھر خراب کیا ہے۔ نازی کا پلان تھا کہ وہ دعا کو ورغلانے میں کامیاب ہو گئ تو اس سے زیور اور کافی نقدی لانے کا کہے گی تاکہ اسے سمجھا سکے کہ فوری طور پر چھپ کر بھاگنے اور نکاح کرنے کے لیے کسی دوسرے شہر جانا پڑے گا۔
اب دعا پر ان لوگوں کی باتوں کا اثر ہونے لگا تھا۔ ادھر نازی کا بھائی شادی شدہ اور بچے کا باپ تھا۔
دعا نے کھبی نازی کے بھائی کو نہ دیکھا نہ کھبی بات کی۔ نازی نے بہت کوشش کی کہ اس کا فون پر رابطہ کروا دے تاکہ اسکا بھائی اسے اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا سکے۔ مگر دعا نے دھیان نہ دیا نہ ہی اس کی تصویر کو لفٹ کرائی۔
نازی خود سے ہی اس کو بھائی کے حوالے سے باتیں سنانے کی کوشش کرتی کہ جب سے اس نے تمہیں دیکھا تھا وہ مجنون بنا ہوا تھا میرا بھائی بہت شریف اور نیک سیرت ہے سگریٹ نوشی تک سے نفرت کرتا ہے۔ حالانکہ وہ نشہ تک کرتا تھا۔ مگر نازی نے جب اس کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیا پھر بھی اس نے پیچھا نہ چھوڑا اور بہانے بہانے سے اس کی رحمدلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے پیسے بٹورتی رہتی کہ بھائی کمزور ہو گئے ہیں انکے ٹیسٹ کروانے ہیں انہوں نے دو بار خودکشی کی کوشش بھی کی ہے انکا معدہ واش کرونے پر کافی رقم خرچ ہو چکی ہے۔
دعا ترس کھا کر رقم دے دیتی۔
دعا کی سوکن شمو گاوں میں رہ رہی تھی۔ فون پر کسی سے رو رو کر جو باتیں کر رہی تھی اسے سن کر دعا کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
رائٹر عابدہ زی شیریں۔
شعر
کھبی خوشی کی لہر آتی ہے کھبی غم کے بادل چھاتے ہیں
زندگی بھی انسان کو اپنے کیسے روپ دیکھاتی ہے۔
شاعرہ عابدہ زی شیریں
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.