Back to Novel
Tujhay Kho Kar Paya
Episodes

تجھے کھو کر پایا 3

Episode 3

ماں اور ساس بہت پریشان ہو چکی تھیں اگر کسی کو بتاتیں تو قیامت برپا ہو جاتی۔ بدنامی سر پر کھڑی تھی وہ کسی کو بتانے سے بھی قاصر تھیں کہ نوید کا سارا خاندان ان کا ملازم تھا سب کو کیسے ایکدم سے نکال سکتے تھے۔ شادی سر پر کھڑی تھی۔ گھر میں ڈھولک رکھ دی گئ تھی رشتے دار آنا شروع ہو چکے تھے کہ دعا تھی کہ بضد تھی کہ وہ اس شادی سے انکار کر دے گی۔

نوید کو اپنی فاش غلطی کا احساس ہو چکا تھا آج ہی اسکا بوڑھا باپ دوائی کا اسے لانے کا کہہ رہا تھا اور وہ سوچنے لگا کہ اگر کسی کو پتا چل گیا تو اس کی خیر نہیں وہ اندر سے ڈر گیا جب اس نے سنا کہ دعا نے اسے میسج کیا کہ اس نے ماں اور خالہ کو سب بتا دیا ہے۔ اب وہ کیا کرے اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دعا اتنی سیریس ہو جائے گی۔ اس نے اس مشکل صورتحال کا دوست سے زکر کیا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ بس اب کسی وقت بھی کھال ادھیڑنے والے ہیں۔

دوست نے اسے مشورہ دیا کہ کسی طرح سے دعا کو اس شادی پر راضی کرو اور اگر نہ مانے تو اسے کہہ دو کہ ابھی شادی کر لو بعد میں ہم فرار ہو جاہیں گے اور شاہ زین سے طلاق لینے میں آسانی ہو گی وہ بھی شکر کرے گا کہ اس کی شادی میں مرضی شامل نہیں ہے اور ابھی وہ بھی خاندان کے ڈر سے شادی کر رہا ہے۔ شادی کے بعد شہر میں رہ کر ہم یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اگر تم نے کہا کہ تم نے محبت کا ناٹک کیا تھا تو وہ خود تمھیں ان سب کے ہاتھوں کھال ادھڑواے گی۔

نوید اب ہر طرف سے پھنس چکا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا ادھر دعا اس کو مجبور کر رہی تھی کہ ہم چھپ کر نکاح کر لیتے ہیں پھر اس کے تایا اور باپ جو اس پر جان چھڑکتے ہیں اس کی خوشی کی خاطر راضی ہو جائیں گے۔

ماں اور ساس سمجھا سمجھا کر خفیہ طور پر تھک چکی تھیں مگر دعا پر کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا وہ اپنی ضد پر قائم تھی۔

ادھر نوید کے ہوش گم تھے کہ جس کھیل کو وہ دل لگی اور معمولی فائدے کے لیے کھیل رہا تھا اب گلے کا پھندا بن چکی تھی۔

شاہ زین کی ماں بہت عقلمند عورت تھی۔ جبکہ دعا کی ماں اس کی چھوٹی بہن تھی مگر سادہ فطرت تھی اس نے رو رو کر آنکھیں سجا لی تھیں سب اس بات کو بیٹی کی جدائی پر معمور کر رہے تھے۔ اور رشتے دار تسلیاں دے رہے تھے کہ اپنے تایا کے گھر جارہی ہے کونسا کسی غیر سے ناطہ جڑا ہے خوش قسمت ہے جو اپنے اتنے پیار کرنے والے تایا اور خالہ کے گھر جارہی ہے۔ جو سب اس پر جان چھڑکتے ہیں۔

دعا یہ سنتی اور سوچتی اور اسے غصہ آتا کہ کیا فائدہ سب کے پیار کا جس سے شادی ہو رہی ہے وہ تو پیار نہیں کرتا نا۔

شاہ زین کی ماں نے اپنی بہن کو ساتھ لیا اور شاپنگ کے بہانے نوید کو ساتھ لیا اور شہر آ گئ۔

نوید کے ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اسے پتا تھا کہ دعا نے ماں اور ساس کو بتا دیا ہے۔

جب ایک جگہ پارک کے ویران گوشے میں بیٹھ کر انہوں نے نوید سے اس بارے میں بات کی اور اسے وارننگ دی کہ وہ اسے چٹکیوں میں مسل سکتی ہیں مگر چونکہ اس کے بزرگ اس گھر کے وفادار رہے ہیں اس وجہ سے ان کا لحاظ کرتے ہوئے اس کو وارننگ دے رہی ہیں کہ وہ دعا کو اس شادی پر راضی کرے اور خواب میں بھی کھبی اس بات کا نہ سوچے اور اسے پتا نہ چلے کہ ہم نے تم سے کوئی بات چیت کی ہے ورنہ اپنے خاندان کی تباہی کے تم خود زمہ دار ہو پھر اس کی ساس نے نوید کو بھر پور چانٹے رسید کیے اور اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دی۔

نوید نے معافی مانگ لی اور کہا کہ وہ صرف میسج کی حد تک محدود رہا ہے اس کی اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ دعا بی بی کو انگلی بھی لگا سکے۔

شاہ زین کی ماں نے کہا کہ وہ دعا کو جلد اس شادی پر راضی کرے۔

نوید نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ دعا بی بی بہت سادہ فطرت اور بھولی ہیں میں نے اگر اس وقت انہیں سچ بتا دیا کہ میں صرف اپنے فائدے کے لیے انہیں الو بنا رہا تھا تو ان کا سب مردوں سے اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ ہنگامہ کھڑا کر دیں گی مجھے تو زلیل کریں گی ہی مگر ساتھ میں اپنے خاندان کا بھی نہیں سوچیں گی اور ان کی عزت بھی خاک میں ملا دیں گی۔ آپ سے التجا ہے کہ مجھے ان کو شادی پر راضی کرنے تک میسج کرنے دیں پھر میں وعدہ کرتا ہوں کہ کھبی کوئی ایسی غلطی دوبارہ نہیں کروں گا وہ روتے ہوئے بولا مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے بس آپ ایک بار مجھے معاف کر دیں اور اپنے مردوں سے مجھے بچا لیں۔ شاہ زین کی ماں نے اسے اس شرط پر معاف کیا کہ وہ جلد اسے کسی بھی طرح سے منا لے کیونکہ وہ سب کے لاڈ پیار سے ضدی اور خودسر ہو چکی ہے۔

نوید کا دوست بہت ڈرا ہوا اور پریشان تھا جب نوید نے اسے ساری بات بتائی تو اس نے مشورہ دیا کہ اسے سمجھاو کہ فلحال تم سب پر اپنی شادی ایسے ظاہر کرو جیسے تم اس شادی سے بہت خوش ہو اور شادی کی شاپنگ اور اس کے ہنگاموں میں بھرپور حصہ لو تاکہ کسی کو کوئی شک نہ گزرے۔ ورنہ ہم کھبی مل نہیں پاہیں گے یہ دنیا ہمیں ایک نہیں ہونے دے گی اور ہم ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاہیں گے ہمارے ملنے کی ایک ہی صورت ہے کہ تم خوشی سے شادی کر لو پھر اس کے بعد ہم شہر میں جا کر کچھ سوچیں گے۔

دعا نے نوید کے اسی طرح سمجھانے پر اس شادی پر رضامندی دے دی اور شادی ہونے تک میسج کا سلسلہ بند کرنے پر راضی ہو گئی۔

نوید نے اسے سارے میسجز ڈلیٹ کرنے پر بھی راضی کر لیا مگر خود کچھ سوچ کر ڈیلیٹ نہ کیے۔

دعا کی ماں اور ساس نے سکھ کا سانس لیا اب وہ اس کی بھرپور رکھوالی کرنے لگیں۔

نوید اسی طرح شادی کے کاموں میں مصروف رہا۔ گھر کے مرد اس پر زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ اس لیے ہر کام کے لیے اسے پیش پیش رکھتے تھے۔

دعا کی چیختی ہوئی مدد کو پکارنے لگی۔ سب باہر بھاگے کہ دیکھیں کیا ہوا ہے۔

دعا اور اس کی فرینڈز بھی باہر بھاگیں۔


ہم کیا جانیں بہار و خزاں کے موسم کو

ہماری بہار و خزاں تیری خوشی میں پنہاں ہے۔

شاعرہ عابدہ زی شیریں


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.