Back to Novel
Tujhay Kho Kar Paya
Episodes

تجھے کھو کر پایا 5

Episode 5

دعا نے دیکھا شاہ زین لڑکھڑاتا ہوا آیا اور بیڈ پر اس کے پاس بیٹھ کر اس کا گھونگٹ اٹھا کر پیار سے دیکھتے ہوئے بولا کیا ساری دولہن اتنی خوبصورت ہوتی ہیں یا صرف میری اتنی خوبصورت ہے۔ پھر کچھ یاد کرتے ہوئے بولا سوری تمھارا منہ دکھائی کا گفٹ دینا بھول گیا تھا پھر دراز سے ایک ڈبیہ نکالی اور ایک خوبصورت لاکٹ اسے دیتے ہوئے بولا یہ لو پھر چونکتے ہوئے بولا اچھا ٹہرو میں پہنا دیتا ہوں اور اسے پہنا کر بولا ڈیر سچی مجھے سخت نیند آ رہی ہے تم ماہنڈ نہ کرنا تم سے باتیں کرتا۔۔۔

دروازہ زور سے بجنے لگا دونوں نے چونک کر ایکدوسرے کی طرف دیکھا تو شاہ زین نے اٹھ کر دروازہ کھولا سامنے شاہ زین کی ماں کھڑی تھی ہاتھ میں ٹرے تھی اور دودھ کے ساتھ کچھ کھانے کا سامان تھا اسے دیتے ہوئے بولی یہ لو تم لوگوں نے کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا ہو گا بھوک لگے گی تو کھا لینا۔

شاہ زین نے کہا ماما پلیز جوس بھیج دیں۔

ماں پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی اچھا میرے لال میری پیاری بہو کے حقوق وفراہض پورے کرنے میں کمی نہ چھوڑنا۔

شاہ زین نے اکتا کر کہا اوکے ماما جانی۔

دعا نے شاہ زین کی طرف غصے سے دیکھ کر کہا تم نے نشہ کیا ہے کیا۔؟

شاہ زین نے چونک کر اسے دیکھا اور زور َسے ہنستے اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا ارے میری بھولی بیوی میرا نیند سے برا حال ہے۔ مگر زبردستی اپنے آپ کو جگایا ہوا ہے تاکہ اس حسین رات کو تمھارے ساتھ خوشگوار بنا سکوں مگر یہ نیند کمبخت دشمن بنی ہوئی ہے۔

دعا ولیمے والے دن قدرے خوش تھی وہ تیار ہو کر اسٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی اور سوچ رہی تھی کہ شاہ زین تو اس سے پیار سے پیش آیا تھا مگر دوسرے ہی لمحے اس کی دوست آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی اور اسے چھیڑنے لگی وہ اسے پوچھنے لگی دعا قسم سے کل بھی تم غضب ڈھا رہی تھی اور آج بھی دنیا کی سب سے پیاری دولہن لگ رہی ہو سچ سچ بتانا زین بھائی تو ساری رات تمھارے حسن کے قصیدے پڑھتے رہیں ہوں گے نا۔ اچھا بتاو انہوں نے منہ دکھائی میں کیا دیا۔

دوسری فرینڈز بھی کھلکھلاتی ہوئی پاس بیٹھ کر باتیں سننے لگیں۔ ایک دوست نے وثوق سے کہا ارے کیسے نہیں پڑھے ہوں گے قصیدے۔ ایسی پیاری دولہن اور حسن نصیب والوں کو ملتا ہے۔

پاس سے گزرتے زین کو مخاطب کر کے ایک دوست چلا کر بولی زین بھائی کیسی لگ رہی ہے آپ کی دولہن۔۔۔

وہ جاتے جاتے رک کر ایک نظر پیار سے دعا پر ڈال کر بولا ارے شادی والے دن سب دلہنیں ہی خوبصورت لگتی ہیں۔ یہ سب پارلر والیوں کا کمال ہوتا ہے۔ منہ دھونے کے بعد ان کی اصلیت کھلتی ہے کہ بے چارہ شوہر پہچان ہی نہیں پاتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کوئی اور لڑکی ہے اس کی دولہن تو بہت پیاری ہے۔ مگر ماں بتاتی ہے کہ بیٹا یہ تیری دولہن ہے تو وہ غریب ساری زندگی اس دھوکے باز پارلر والی کو بددعاہیں دیتا رہتا ہے۔

ایک سہیلی اترا کر بولی مگر آپ تو پہچان لیں گے کیونکہ آپ تو اسے بچپن سے دیکھ رہے ہیں ہماری خوبصورت شہزادی کو دیکھیں نا آج کتنی پیاری لگ رہی ہے ہماری بنو۔

وہ شرارت سے مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولا چڑیل لگ رہی ہے۔ کہتا ہوا مسکراہٹ دبا کر چل پڑا۔

ایک دوست چلا کر بولی ایسی چڑیل خدا سب کے نصیب میں کرے۔

وہ دور سے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر اکتانے والی ایکٹنگ کرتے مسکراتا ہوا چل پڑا۔

زرا فاصلے پر کھڑا نوید سب منظر دیکھ رہا تھا مکارانہ مسکراہٹ سے ہنستا ہوا اندر چلا گیا۔

زین کی باتوں سے دعا کے دل کو چوٹ لگی اس نے کیا کیا خواب سجا رکھے تھے ساری دنیا اس کی تعریف کر رہی تھی مگر وہ بے رحم انسان کیسے اس کا دل توڑ کر چلا گیا تھا۔

شادی کے بعد دعوتوں سے فرصت پا کر اب ان کو شہر والے گھر شفٹ کر دیا گیا تھا چند دن سب رہے پھر سب نے گاوں جانے کا ارادہ کر لیا۔

شاہ زین کی نئی سرکاری نوکری تھی چھٹی نہ مل سکی کہ وہ ہنی مون پر جا سکتا۔

دعا کا یہ ارمان بھی تشنہ رہ گیا۔ اس نے گلہ کیا تو اس کے باپ نے اسے ڈانٹا تو شاہ زین نے باپ سے نرمی سے کہا ٹھیک ہے ابا جان میں نوکری چھوڑ دیتا ہوں چھٹی نہیں مل رہی ویسے بھی جتنی مجھے تنخواہ ملتی ہے اتنی تو ہمارے ایک گھوڑے کا خرچہ ہے۔

باپ نے گرج کر کہا کہ اگر نوکری چھوڑنے کا نام لیا تو میں تمھیں گولی مار دوں گا سمجھے۔ شکر ہے خدا تعالیٰ کا کہ اس نے میری نسل میں پڑھا لکھا پیدا کیا اور کماز کم ایک بہو تو پڑھی لکھی ملی۔ نسل تو سنورے گی نا۔ ورنہ تو سارا خاندان ہی جاہل رہ گیا ہے مجھے بھی لیٹ عقل آئی کہ انسان کو سمجھ بوجھ حتکہ دین کو سمجھنے کے لئے بھی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم ہر انسان پر فرض ہے۔ کاش میں اپنے سارے بچوں کو پڑھا سکتا۔ میں نے اسی شوق کی وجہ سے بھائی کو دعا کو تعلیم دلوانے پر زور دیا۔ اب میں گاوں میں ایک اسکول بناوں گا تاکہ ہمارا ملک تعلیم یافتہ ہو سکے۔ جتنا ہو سکا میں تعلیم کو پھیلانے کی کوشش کروں گا اس کام کے لیے میں اور بھی امیر لوگوں کو ملانے کی کوشش کروں گا کاش یہ جزبہ ہر امیر انسان میں آ جاے تو ملک جلد ترقی کی طرف گامزن ہو جائے۔

شاہ زین نے بیٹے سے کہا کہ تم اگر ہماری بہو کو ہنی مون پر نہیں لے جا سکتے تو سارا دن تم آفس ہو گے اور یہ بور ہوتی رہے گی اس گھومنے پھرنے اور فرینڈز کے ساتھ شاپنگ کرنے کے لئے اس کے اکاؤنٹ میں کافی رقم ڈال رہا ہوں تاکہ یہ اپنی شادی کو انجوائے کر سکے۔ اس کے لیے ایک ڈرائیور اور ایک گارڈ ہر وقت میسر رہے گا۔

دعا بولی ابا جی میں خود گاڑی ڈرائیور کر جو لیتی ہوں۔

وہ بولے نہیں بزی روڈ پر تم نے خود نہیں کرنی۔اور نوید ادھر آو اسے پکارا۔۔۔۔

بیوی نے احتجاج کیا کہ یہ اکیلی رہتی ہے مطلب رہے گی تو اب نوید وغیرہ ملازمین کی ادھر ضرورت نہیں ہے۔

شوہر نے گرج کر کہا اکیلی ہے اسی لیے تو ان گاوں کے بھروسہ مند ملازموں کی ہی ادھر ضرورت ہے۔

نوید اور اسکا دوست دونوں دعا کے ساتھ باہر جایا کریں گے اور موبائل کی بیٹری فل رہنی چاہیے۔

نوید نے سر جھکا کر کہا جی حضور جیسا آپ کا حکم۔

شاہ زین نے کہا ٹھیک ہے ابا جی بلکل مناسب بات ہے مجھے بھی ان پر بھروسہ ہے۔

شاہ زین کی ماں پریشان ہو گئ۔

نوید کا چہرہ کھل گیا۔

شاہ زین کی ماں نے جلدی سے اٹھتے ہوئے کہا کہ چلو نوید زرا میرے ساتھ مارکیٹ کچھ لانا ہے۔

شوہر نے حیرت سے کہا بیگم جی کدھر چل پڑی۔

وہ اگنور کرتے ہوئے بولی آتی ہوں کیا مسلہ ہے اور نوید کو چلنے کا اشارہ کیا۔


نہ محبت کی قسمیں کھاتے ہیں نہ اعتبار دلاتے ہیں

تم زرا دھیان دے کر تو دیکھو ہم آہینہ بن جاتے ہیں۔

شاعرہ عابدہ زی شیریں


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.