تجھے کھو کر پایا 4
Episode 4
دعا کی ساس اپنے کمرے میں کھڑی چیخ رہی تھی اس کے شوہر باتھ روم میں وضو کرتے ہوئے گر گئے تھے اور فرش پر گرے کراہ رہے تھے۔
سب گھر والے پریشان تھے۔ انہیں ہاسپٹل شہر لے جانا چاہتے تھے۔ شاہ زین پیش پیش تھا سب اس پر اعتماد کرتے تھے کیونکہ اس گھرانے میں صرف وہی پڑھا لکھا تھا۔ ماں نے شاہ زین سے کہا بیٹا تو دولہا ہے جب دن فکس ہو جاہیں شادی کے تو دولہے مغرب کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ وہ لاپرواہی سے بولا اماں چھوڑیں پرانی رسموں کو کچھ نہیں ہوتا۔
شاہ زین کا باپ بولا بیٹا اتنی بڑی چوٹ نہیں ہے جتنا تو پریشان ہو رہا ہے۔ لگتا ہے دب لگ گئی ہے۔ گاوں کے حکیم صاحب سے مالش کروا لیتا ہوں ٹھیک ہو جاوں گا کل تیری بارات ہے اور اتنی رات گئے شہر جانا پھر آنا پوری رات اسی میں نکل جائے گی۔ مگر وہ نہ مانا اور بولا ایکسرے کی رپورٹ سے پتا چلے گا ہڈی کا تب ہی مجھے تسلی ہو گی۔
نوید کو ساتھ جانے کا حکم ملا۔
دعا ک فرینڈز افسوس کر رہی تھیں کہ جتنی زیادہ دھوم دھڑکے سے مہندی، تیل ڈھولکی وغیرہ کے فنکشن ناچ گانا اتنا شغل لگایا گاوں میں شاہ زین کے دوستوں اور کزنز نے کہ سب دیکھ کر دنگ رہ گئے وہ شاہ زین کو اٹھا اٹھا کر جھولتے کھبی اسے بہت زیادہ پیار کرتے اتنی شدید محبت دیکھ کر دعا کی فرینڈز متاثر ہو رہی تھیں اور خوب انجوائے کر رہی تھیں اور اپنے موبائل سے مووی بنا بنا کر لطف اندوز ہو رہی تھیں اور اس کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے دعائیں دے رہی تھیں۔ دعا کو کہتیں کہ تیرا دولہا بہت ہنڈسم ہے۔ اور بہت خوش ہے۔
دعا دل میں غصے سے سوچتی ان سب کو کیا پتا بھلا کہ وہ سب دکھاوا کر رہا ہے۔ نوید کہہ رہا تھا کہ وہ بہت آوارہ مزاج ہے۔ شمو تک سے جو اس کی حیثیت کے آگے معمولی ملازمہ ہے اسے بھی پھنسا رکھا ہے۔ نوید نے اسے بتایا کہ اس نے خود سنا کہ وہ اس شادی کو خاندان کی مجبوری میں کر رہا ہے۔ دعا سوچ سوچ کر دکھی ہوتی رہتی کہ اس میں کس چیز کی کمی ہے۔
شاہ زین باپ کو لے کر ساری رات ہاسپٹل میں ایکسرے وغیرہ کرواتا رہا۔ ایکسرے کلیر آیا ہڈی بچ گئی تھی صرف وزن پڑنے سے اس پر دباؤ بڑھا تو پاوں میں سوجن ہو گئی۔ صبح فجر کے وقت یہ لوگ گھر واپس آئے۔
صبح واپس آ کر بھی شاہ زین کو سونے کی فرصت نہ ملی اور وہ بارات کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا قریب ہی اس کی پھوپھو کے گھر جا کر وہاں سے بارات لانی تھی کیونکہ شاہ زین اور دعا گھر ایک ہی تھا۔ چند رشتے دار ادھر بارات کی استقبال کے لئے ٹہرا دیے گئے اور چند بارات کے ساتھ آنے تھے۔
دعا کو تیار کرنے کے لیے شہر سے دو پارلر والیاں بلائی گئی تھیں۔ جو مستقل وہاں قیام پزیر تھیں۔
دعا کے تایا کو جب ہاسپٹل لے کر گئے تو شاہ زین پریشانی میں اپنا موبائل گھر بھول گیا تھا اور شاہ زین نے نوید اور دو اور ملازمین کے ہمراہ اکیلے ہی جانے پر ترجیح دی اور باپ نے بھی سب کو ساتھ جانے سے منع کر دیا کہ میں ٹھیک ہوں شادی والا گھر ہے اس لئے دشمنوں کا کچھ بھروسہ نہیں ہوتا تو تم سب گھر پر ہی موجود رہو۔
جب گھر والوں نے فون دیکھا تو وہ گھر ہی بج رہا تھا دعا کے بھائی نے نوید کو فون کر کے پوچھا پھر وہ اسی کے موبائل سے فون کرتے رہے۔
شاہ زین نے ایک بار ہی بات کر کے سب گھر والوں کو جھوٹی تسلی دے دی کہ ایکسرے ٹھیک آیا ہے اور میں سونے لگا ہوں ابا جی کو درپ لگی اور انجکشن لگا ہے جس سے وہ سو گئے ہیں اس لئے آپ لوگ تسلی سے سو جائیں تاکہ صبح بارات کے لئے اٹھ سکیں اور اب فون کرنے کی ضرورت نہیں میں بھی زرا سونے لگا ہوں اور نوید کو بھی گاڑی میں ہی زرا سونے کو کہہ دیا ہے تاکہ وہ بھی تھوڑا آرام کر سکے۔
گھر والے تسلی میں ہو گئے اور کام نمٹا کر سو گئے۔
نوید کو شاہ زین نے گاڑی میں آرام کرنے کا مشورہ دیا تو وہ بے فکر ہوکر سو گیا جبکہ شاہ زین نے ایک منٹ کے لئے بھی آنکھ نہ لگائی۔وہ باپ کے سرہانے بیٹھا رہا جب تک ایکسرے رپورٹ نہیں ملی وہ بہت پریشان رہا۔ جب رپورٹ ملی تو اس کی جان میں جان آ گئ۔ اس نے جان بوجھ کر گھر والوں کو تسلی دینے کے لیے جھوٹ بولا تھا اور کسی کو ساتھ بھی نہ لایا تھا کہ اس کے دوست کا ہاسپٹل ہے آپ لوگ فکر نہ کریں۔ دوست اسے بہت تسلی دیتا رہا زبردستی چاے جوس وغیرہ پلاتا رہا۔ جب ہر طرح سے تسلی ہو گئی تو اس نے جانے کی تیاری پکڑی۔
دعا تایا کے لئے بہت پریشان ہو رہی تھی جب اسے پتا چلا کہ فون شاہ زین گھر گیا ہے اور گھر والے نوید سے فون کر کے تسلی کر رہے ہیں تو اس نے فوراً نوید کو تایا کی طبیعت کا میسج کیا۔
نوید کو شاہ زین نے سختی سے منع کیا تھا کہ جو اس نے کہا ہے وہی کہنا ہے۔ تو اس نے بھی گھر والوں کو وہی بتایا تو گھر والے مطمئن ہو گئے۔ جب دعا نے میسج کیا تو نوید مکاری سے مسکرایا اور پھر اسے دعا کو ورغلانے کا موقع مل گیا اور پھر اس نے دعا کی تعریفوں کے پل باندھ لیے۔ دعا نے ہر فنکشن کے الگ الگ ڈریس پہنے تھے کھبی پیلا کھبی سبز وغیرہ۔ وہ تھی بھی خوبصورت اور ان لباسوں میں بہت پیاری بھی لگ رہی تھی سب تعریفیں بھی کر رہے تھے۔ مگر زین کی عادت تعریف کرنے کی نہ تھی اور نہ ہی اسے کرنی آتی تھی۔ نوید نے رونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اسے میسج کیا اور بہت جھوٹے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ جلد شادی ہو جائے تو پھر ہم ایک ہو سکیں۔شاہ صاحب کو تو اس شادی سے یا آپ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بس آپ شادی کر لو پھر کچھ سوچتے ہیں کوئی تدبیر نکالتے ہیں۔ آپ اب اپنی ماں کو میرے بارے میں کچھ نہ بتانا کہ میں نے میسج کیا ہے ہم رابطے میں رہیں گے۔ بس جب آپ کو موقع لگے مجھے میسج کر دیا کرنا میں پھر کر دیا کروں گا۔ اتنے میں نوید کے دوست نے اسے میسج کرتے دیکھا اور پاس ہو کر پڑھنے لگا تو اسے ڈانٹتے ہوئے بولا ایک دن تو ہم سب کو بری طرح پھنساے گا یار تجھے ان لوگوں سے ڈر بھی نہیں لگتا۔
نوید ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے بولا ارے میں ان لوگوں کو بچپن سے جانتا ہوں بہت شریف لوگ ہیں اور دعا بھی بہت شریف لڑکی ہے بس توجہ اور محبت چاہتی ہے جو اسکا شوہر اسے دینے والا نہیں۔ وہ ٹہرا امیر اور بڑا آدمی پھر گھر والوں کے بے جا لاڈپیار سے اس میں غرور آ چکا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دعا بی بی کو بھی سب اس سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسے اس بات کا اندر سے غصہ ہے۔ وہ اس لیے اسے محض یہ ظاہر کرانے کے لئے کہ وہ اپنے آپ کو کوئی سپر چیز نہ سمجھے اس لیے وہ اسے ایسے ہی اکڑوں رہیں گے اور وہ بے چاری اس کی توجہ نہ پا کر اپنی اہمیت کو نہ پا کر کوئی سہارا ڈھونڈے گی تو اتفاق سے میں اسکے بچپن کا ساتھی ہوں۔ اسے تعریف کے چند بول مل جاتے ہیں اور اس کی رحمدلی سے فائدہ اٹھا کر چند پیسے کا فائدہ اٹھا لیتا ہوں۔
دوست نے پھر ٹوکا اس کی زندگی خراب کرنے کی کوشش نہ کرو۔
نوید بولا ارے میرے یار چند دن میری چاندنی ہے۔ شادی کے بعد ہر لڑکی پہلے چاہے کسی کو کتنا ہی پسند کرتی ہو مگر شادی کے بعد اسے سچی محبت اپنے شوہر اپنے بچوں سے ہو جاتی ہے اور وہ ماضی کی بےوقوفی پر خود ہی نادم ہو کر جزبے سے اپنے شوہر کو چاہنے لگتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ سچا پیار تو اسے اب ہوا ہے۔ اگر شوہر کو غلطی سے کھبی اس بارے میں پتا چل جائے تو وہ اپنی نادانی سے اپنا گھر برباد کر لیتے ہیں اور اگر طلاق نہ بھی دیں تو اسے طعنوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ کچھ مرد تو اس حد تک بھی بیوی کو طعنے دیتے ہیں کہ جب سنتے ہیں کہ اس کا رشتہ بھی آیا تھا۔ جبکہ کچھ بیویاں بھی اپنی شک کی عادت کی وجہ سے ایسی ہی باتوں کا شوہروں کو طعنے دیتی رہتی ہیں اور گھر کا ماحول خراب کر دیتی ہیں۔
جب دعا بی بی کو سمجھ آ جاے گی تو وہ صرف مجھے میسج ہی تو کرتی ہے وہ بھی کھبی کوئی ضرورت ہوتی ہے تو۔ میں کونسا اسے ملتا ہوں توبہ اتنی جرات تو مجھ میں بھی نہیں ہے۔
دوست بولا کمینے تجھ میں میسج کرنے کی جرات ہے اسے تو چھوٹا جرم سمجھتا ہے۔ تو اپنے ساتھ مجھے بھی نوکری سے نکلواے گا ظالم باز آ جا۔
نوید نے کہا ظاہر ہے ایک دن تو میں نے پٹنا ہی ہے تو جب تک فاہدہ ملتا ہے ملے۔ ویسے بھی یہ لوگ بہت اچھے ہیں ہمارے بزرگوں کی خدمات کو سراہتے اور یاد رکھتے ہیں اور قدر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
دوست نے کہا اچھا بس شاہ صاحب آ رہے ہیں جانے کے لیے۔ شکر ہے کچھ دیر انہوں نے سونے دیا خود تو ایک پل بھی نہیں سوے۔
دعا دولہن بن کر بہت پیاری لگ رہی تھی شاہ زین کی بھی سب بہت تعریف کر رہے تھے کہ بہت روپ آ یا ہے دونوں پر۔ شاہ زین کا سر بھاری ہو رہا تھا کئی دنوں کی تھکن تھی پھر آج ساری رات جاگتا رہا تھا۔ سب رسموں میں پیش پیش چھیڑ خانی کر رہے تھے شاہ زین ہلکہ سا مسکرا دیتا تھا۔ رات تک رخصتی عمل میں آئی۔
دعا دولہن بنی شاہ زین کا لاشعوری طور پر انتظار کر رہی تھی۔ شاہ زین لڑکھڑاتا ہوا اندر آیا۔
اے حسینہ گر نہ میں تیرا دیوانہ ہوتا
تیرے رنگ و روپ کا کیا پیمانہ ہوتا
میری محبت نے جلا بخشی ہے
ورنہ تیرے غرور کا کیا ٹھکانہ ہوتا۔
شاعرہ عابدہ زی شیریں۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.