Back to Novel
Tujhay Kho Kar Paya
Episodes

تجھے کھو کر پایا 6

Episode 6

شاہ زین کی ماں نے قریبی پارک کے ایک گوشے میں نوید کی کلاس لینی شروع کی۔ وہ پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ اسی لیے اسے ادھر بہانے سے لائ ہیں۔

شاہ زین کی ماں نے گرج کر کہا کہ تم نے میری بہو دعا کو اب کوئی میسج۔۔۔۔۔

نوید کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے تقریباً رونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا بڑی بی بی جی مجھ سے پہلے جو بھول ہو گئی تھی نادانی میں وہ بھی میں صرف چند پیسوں کے لالچ میں کر رہا تھا گھر کی مرمت کروانی تھی چھت ٹپکتی تھی۔ ورنہ میں تو دعا بی بی کو بہن سمجھتا ہوں آپ کو اگر یقین نہیں آتا تو جو چاہے سزا دے سکتی ہیں وہ تقریباً پاوں کو چھوتے ہوئے بولا پچھلی خطا کی معافی مانگتا ہوں اس کے بعد تو کھبی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دعا بی بی رحم دل تھیں چند روپے دے کر مدد کر دیتی تھیں جس سے میری ہیلپ ہو جاتی تھی۔ وہ مسکین شکل بنا کر بولا ہم غریب لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایسے راستے اپناتے ہیں۔ اب کھبی ایسا نہیں ہو گا آپ کا نمک کھایا ہے۔

مجھے معاف کر دیں وہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔

شاہ زین کی ماں پگھلتے ہوئے بولی ٹھیک ہے اب وہ تمھارے ساتھ جائے گی اور مجھے زرا سا بھی شکایت کا موقع دیا تو میں بڑے شاہ جی کو بتا کر تمھاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گی چلو دفع ہو اب چلیں اور ہاں پیسے کے لیے کرتے تھے تو وہ پرس سے موٹی رقم نکال کر اسے دیتے ہوئے بولی اب اس سے اپنی ضروریات پوری کر لو اور دوبارہ کھبی ایسا ویسا سوچنا بھی نہ ورنہ۔۔۔

وہ خوشی سے چمکتی آنکھوں سے رقم کو تھامتے ہوئے بولا بڑی بی بی جی ہم سدا کے آپ لوگوں کے غلام ہیں اور ہماری نسلیں بھی آپ کی خدمت گزار رہیں گی۔

سب گاوں جا چکے تھے دعا اپنی فرینڈز کے اگے سبکی محسوس کر رہی تھی جو اس سے پوچھتی تھیں کہ ہنی مون پر کب جا رہی ہو۔

دعا اب روز نوید اور اس کے دوست کے ساتھ شاپنگ پر چلی جاتی فرینڈز کے ساتھ گھومتی پھرتی۔ فرینڈز اسے اکثر ہنی مون پر نہ جانے پر نکتہ چینی کرتیں۔

ایک فرینڈ نے کہا یار تمھارے شوہر کے پاس اتنا پیسہ ہے پھر وہ ایک سرکاری نوکری کر کے کیوں اپنی اور تمھاری زندگی کو ٹف بنا رہا ہے۔ آرام سے گھر بیٹھے نوکری چھوڑے اور تمھارے ساتھ زندگی انجوائے کرے۔

دوسری بولی یار اسکا شوہر ہے تو پنڈو نا۔ اس کو عقل نہیں کہ بیوی کو بھی وقت دیتے ہیں اہمیت دیتے ہیں۔ بس کھلا پیسہ دے کر جان چھڑا لی کمال ہے۔

ایک بولی اگر شہری ہوتا بے شک اتنا مالدار نہ ہوتا مگر اسے کچھ شہری ایٹی کیٹس تو آتے۔ بیوی کو گھماتا پھراتا وہ تو گاوں کا وڈیرا ہے اناء اس کی گھٹی میں پڑی ہے۔ یار وہ کھبی تمھاری تعریف بھی کرتا ہے کیا۔

دوسری بولی مجھے تو لگتا ہے اس نے تو پہلے دن بھی نہ کی ہو گی دیکھا نہیں ولیمے والے دن کیا بول۔۔۔۔۔۔

دعا چڑ کر بولی یار بس کر دو اب میری جان چھوڑ دو۔

ایک تاسف سے بولی ہمیں تمھیں اس حالت میں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔

کاش تم نے کسی شہری لڑکے سے شادی کی ہوتی۔ یہ تو ساری زندگی تمھاری زات کی نفی کرتا رہے گا۔ کیسے پہاڑ جیسی زندگی اس بور شخص کے ساتھ گزارو گی۔ میرا تو منگیتر ابھی سے ہی مجھے اتنی اہمیت دیتا ہے کہ کونسا ڈریس مجھ پر سوٹ کرتا ہے۔

دعا کے دل میں احساس محرومی بڑھنے لگا پھر موقع دیکھ کر نوید کچھ بول دیتا کہتا دعا بی بی شاہ جی آپ کے قابل نہ تھے۔ میری تو کچھ اوقات نہیں مگر آپ کی دوستوں کی رائے ٹھیک ہے کہ آپ کسی شہری آدمی سے شادی کرتیں تو بہت سکھی رہتیں۔ آپ کے شہر سے اتنے رشتے بھی آے تھے۔ ابھی بھی آپ جوان ہیں کیسے ان کے ساتھ زندگی گزاریں گی اگر آپ ان سے ابھی طلاق لے کر کسی شہری لڑکے سے شادی کر لیں تو آپ کی زندگی سنور جائے گی آپ کے ابھی بھی بہت رشتے آ سکتے ہیں وہ آپ کی دوست نازی بی بی اپنے بھائی کے لئے کتنا زور لگاتی رہی۔ ابھی بھی وہ آپ کو بھولی نہیں ہے کہتی ہے طلاق لے لو اور میرے بھائی سے شادی کر لو اسکا بھائی ابھی بھی آپ کو۔۔۔۔۔۔

دعا چلو فالتو باتیں نہ کرو۔ دعا نے ڈانٹ کر کہا۔

گھر آ کر وہ نوید اور نازی کی باتوں پر غور کرنے لگی جو نازی اسکو روز بھائی کے حوالے سے فورس کرتی تھی کہ طلاق لے لو اور میرے بھائی سے شادی کر لو وہ تمھارے غم میں تڑپ رہا ہے۔

نازی دعا کی کلاس فیلو تھی اس کی دولت اور شان وشوکت دیکھ کر لالچ میں آ گئی اس نے گھر میں بھی بھائی اور گھر والوں سے زکر کیا تو وہ بولے اگر اسکا رشتہ مل جائے تو ہماری نسلیں سنور جاہیں مگر وہ ناکام رہے جب رشتہ مانگا تو انکار ملا کہ اسکا بچپن سے رشتہ طے ہے۔ دوست نے بھائی کے ساتھ پیار کاچکر چلوانے کی کوشش کی مگر دعا نہ پھنسی۔

اب سب سے زیادہ نازی کا اس کے گھر آنا جانا تھا وہ چاہتی تھی یہ طلاق لے تو پھر اس کے بھائی کو رشتہ مل سکتا ہے ایک طلاق یافتہ کا داغ لگ گیا تو اس کا رشتہ کرنا آسان ہے۔

اب نوید میسج تو نہ کرتا مگر نازی نے اس کی مٹھی گرم کی ہوئی تھی جانتی تھی یہ انکا خاص ملازم ہے۔ پھر ایک ملازمہ کو بھی ساتھ ملا لیا تھا جو پل پل کی رپورٹ دیتی تھی۔ نازی ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی تھی جلد از جلد وہ اس کی طلاق کروا کر دولت ہتھیانا چاہتی تھی۔ اس نے دعا کے گھر کو اپنا سمجھ رکھا تھا۔

شاہ زین کو اسکا اتنا آنا ناگوار گزرتا اسے نازی پسند نہ تھی۔ وہ دعا کو اکثر سمجھانے کی کوشش کرتا تو وہ برا منا جاتی اور اس سے لڑنے لگتی۔ پھر دعا حاملہ ہو گئی تو نازی کے ارمانوں پر اوس پڑ گئ اس نے اسے بچہ چپکے سے ضائع کروانے کا مشورہ دیا تو وہ ڈاکٹر کے پاس اسے لے گئی مگر ڈاکٹر نے کہا کہ اب وقت زیادہ گزر گیا ہے اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

دعا بہت بھولی تھی وہ ان کی سازشوں سے بے خبر تھی سب دولت ہتھیانے کا چکر تھا۔ نازی اسے کہتی چلو تم بے شک میرے بھائی کو اس قابل نہیں سمجھتی مگر طلاق لے کر تم اس مغرور انسان کی زندگی سے تو نکل سکتی ہو جو تمھیں اہمیت ہی نہیں دیتا۔

دعا اب شاہ زین سے لڑنے جھگڑنے اور گلے کرنے لگی اپنے بچے سے تنگ تھی۔ وہ کہتی ابھی میں ماں بننا ہی نہ چاہتی تھی طبیعت خراب ہوتی تو شاہ زین کو کہتی کب میری اس مصیبت سے جان چھوٹے گی۔

گاوں میں سب بہت خوش تھے ساس آ چکی تھی ماں بھی آتی جاتی بیٹی کو سمجھاتی کہ قدر کرو شوہر اور سسرال کی۔ مگر بیٹی ٹس سے مس نہ ہوتی کہتی میں بچے کو نہیں پال سکتی۔ ساس کہتی میں پال لوں گی اسے گاوں لے جاوں گی۔

ادھر نازی نے جب گاوں والوں کو دیکھا تو اپنی آمد کم کر دی۔ جان چکی تھی ابھی داو لگنا مشکل ہے۔ دعا اس کے دکھڑے سننے پر مالی امداد بھی بہت کرتی۔

بیٹی کی پیدائش پر شاہ زین بہت خوش ہوا اور سارے آفس میں مٹھائی تقسیم کی۔

گاوں میں بھی بہت خوشی منائی گئی سب خوش تھے سواے دعا کے جس نے بچی کو گود میں لینا بھی گوارا نہ کیا۔ وہ اس کو کوسنے لگی کہ میں اسے نہیں پال سکتی۔ شاہ زین ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا بچی دادی کی گود میں تھی شاہ زین ماں سے گلہ کرتے ہوئے بولا اماں دعا کیوں ایسے رویہ رکھتی ہے۔ سب کے لاڈ پیار سے بگڑ چکی ہے اسی لئے میں اس کو زیادہ لفٹ نہیں دیتا کہ اور سر چڑھے گی۔ میں کیا کروں اس کا دن بدن اس کی ہٹ دھرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ بات بات پر طلاق مانگتی ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کروں سختی کی تو خودکشی کرنے لگی تھی۔ آپ پلیز بچی کو گاوں لے جاہیں ادھر اس سے نہیں پالی جائے گی۔

ماں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے بولی مجھے یہ تیری طرح ہی عزیز ہے۔ میں تمھیں ایک طریقہ بتاتی ہوں۔

دادی بچی گاوں لے گئ اور دعا پھر خوشامدی لوگوں میں پھنس گئی۔ کام والی اس کی اس کے کپڑوں کی تعریفیں کرتی اور کہتی کتنے کٹھور ہیں صاحب جی جو اتنی پیاری بیوی کی جھوٹے منہ بھی تعریف نہیں کرتے۔ دعا کے دل میں اداسی چھا جاتی اور وہ شاہ زین سے متنفر ہو جاتی۔

شاہ زین گھر لوٹا تو دعا جو آہینے کے سامنے کھڑی اپنے نیے لباس کو دیکھ رہی تھی کام والی نے بہت تعریف کی تھی کہ آج تو شاہ صاحب تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ مگر شاہ زین نے تو ایک اچٹتی نظر ہی ڈالی اور دعا کو کہا بیٹھو میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔

دعا حیران ہو کر اس کے پاس بیٹھ گئ اور ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگی۔

شاہ زین نے سانس بھر کر پوچھا کیا تم میرے ساتھ خوش نہیں ہو۔

دعا نے حیرت سے شاہ زین کو دیکھا۔ اور اٹبات میں گردن ہلا دی۔

شاہ زین کو اس کی معصومیت پر بہت پیار آیا۔ مگر وہ اگنور کرتے ہوئے بولا۔ کیا تم مجھ سے طلاق لینا چاہتی ہو۔

دعا نے گردن ہلا دی اور حسب عادت چیخ کر بولی پلیز مجھے آزاد کر دو میری زندگی سے نکل جاو اب میں مزید تمھارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔

شاہ زین نے کہا کہ تمھاری زندگی سے میں نکل سکتا ہوں اور تمھیں طلاق بھی دے سکتا ہوں مگر میری ایک شرط ہے اگر منظور ہے تو۔

دعا نے جلدی سے کہا مجھے ہر شرط منظور ہے بتاو۔

جاری ہے۔


شعر

گزرے سال کی یادوں کو ماضی میں دفنانہ ہے

اچھی امید سے نیے سال کو خوشیوں سے نبھانا ہے۔

انشاءاللہ۔

شاعرہ عابدہ زی شیریں


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.