تجھے کھو کر پایا 2
Episode 2
دعا نے جب میسج پڑھا تو نوید نے سلام کے بعد میسج کرنے کی گستاخی کی معافی مانگی تھی پھر لکھا تھا کہ اس کا دل آپ کی ناقدری پر بہت دکھی ہو رہا تھا اور وہ اپنے آپ کو میسج کرنے سے روک نہ سکا۔ اس نے لکھا کہ وہ اپنی حیثیت جانتا ہے آپ آسمان کا چاند ہیں اور میں ادنیٰ سا ایک زرہ لیکن غریب کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ جو کھبی چاند کو پانے کی آرزو رکھتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ چاند اس سے کوسوں دور ہے۔ میں بچپن سے آپ کی محبت میں گرفتار تھا مگر کھبی اظہار کی جرات نہ کر سکا۔ آج آپ کی بےعزتی دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کیسے ایک پتھر کے ساتھ ساری زندگی سر پھوڑتی رہیں گی۔ کیسے اپنی زات کی ناقدری برداشت کریں گی اف۔ آپ تو نازک سی کانچ کی گڑیا جیسی ہیں جس کو دل کے شوکیس میں سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے کاش میں بھی امیر ہوتا تو ساری زندگی آپ کی غلامی اور قدر میں گزارتا۔ کھبی آپ کے خوبصورت نازک پاوں کو زمین پر نہ رکھنے دیتا۔ کاش شاہ زین صاحب آپ کی قدر کر سکتے۔ مگر وہ تو بڑے اناء پرست اور مغرور ہیں۔ کھبی آپ کو عزت نہیں دیتے ہم جیسے ملازموں کے سامنے آپ کو زلیل اور بے عزت کر دیتے ہیں اور قدم قدم پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار لازمی کرتے رہتے ہیں لگتا ہے انہیں حسن کی پہچان نہیں ہے جو پورے گاؤں کیا پوری دنیا میں سب سے حسین لڑکی کو حسین نہیں سمجھتے۔ دراصل ان کو ایک خوبصورت ہیرے جیسی عادتوں اور پریوں جیسی لڑکی آسانی سے مل رہی ہے اس لئے غرور میں آ چکے ہیں۔ میں جانتا اور بچپن سے دیکھتا آیا ہوں کہ وہ آپ کو بچپن سے ناپسند کرتے ہیں بس گھر والوں کے مجبور کرنے پر شادی کر رہے ہیں۔ لگتا ہے وہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں شمو کو بھی بڑے پیار سے دیکھ رہے تھے۔ آپ میری باتوں کا برا نہ منانا اگر آپ کو برا لگا ہو تو پلیز سب کے سامنے کچھ نہ کہنا اکیلے بلا کر کسی جگہ بےشک میری کھال ادھیڑ دینا میں اس مار کو بھی آپ کی عنایت سمجھ کر خوشی سے قبول کر لوں گا۔ شکریہ۔
دعا جو پہلے ہی شاہ زین سے دکھی ہو رہی تھی اس کے میسج نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور میسج کا جواب نہ دیا۔ اور باہر آ کر اس کا پوچھنے لگی تو پتا چلا کہ وہ بہن کے سسرال دوسرے گاوں چلا گیا ہے۔
نوید کا دوست جو اسکا ہمراز بھی تھا اسے اتنی جرات کرنے پر کافی ڈرا رہا تھا اور منع کر رہا تھا مگر وہ بڑے پر امید لہجے میں اسے تسلی دے رہا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا میں اسے بچپن سے جانتا ہوں۔ شاہ صاحب اسے اسی طرح دکھی کرتے ہیں اور جواب میں میں انہیں اسی طرح تعریف کر کے تسلی دیتا رہا ہوں اور وہ اسی طرح خوش ہوتی رہی ہے اور مجھے جرات ملتی رہی ہے۔
پھر بھی اس کے دوست نے اسے زبردستی دوسرے گاوں بھیج دیا۔
دعا نے اس کے دوست سے نوید کا پوچھا اور اسے وہ نارمل لگی۔
دوست فون پر نوید کو رپورٹ دیتا رہا۔
دو دن بعد نوید واپس آیا اور ڈرتے ڈرتے حویلی میں قدم رکھا سامنے دعا بیٹھی موبائل ہاتھ میں پکڑے چاے پکوڑے کھا رہی تھی۔ اس پر نظر پڑی تو نوید نے سلام کیا تو وہ جواب دیے بغیر اسے پلیٹ پکڑاتے ہوئے بولی جاو کچن میں شمو سے اور پکوڑے لا دو۔
اتنے میں شاہ زین پلیٹ پکڑے باہر آیا نوید نے اسے سلام کیا تو ہلکہ سا منہ میں جواب دے کر بولا جاو شمو سے اور پکوڑے لے آو۔ کمبخت بہت مزے کے بناتی ہے۔ اتنے میں شاہ زین کی ماں آتی نظر آئی اور وہ ماں سے بولا اماں شمو کتنے مزے کے پکوڑے بناتی ہے۔ تو بھی کوئی ایسی بہو لاتی نا جو مزے کے پکوڑے بنا لیتی۔ پھر دعا کی طرف دیکھتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھر کر بولا کاش ہمیں بھی کوئی ایسی بیوی مل جاتی ہمیں تو لگتا ہے ساری زندگی ان مزیدار پکوڑوں اور مزے کے کھانوں کے لئے ترسنا پڑے گا۔
دعا سن کر غصے سے کھول گئی۔ نوید پکوڑے لایا تو دعا غصے سے بولی مجھے نہیں کھانے۔ اور اندر چل پڑی۔
نوید نے لوہا گرم دیکھا اور جھٹ میسج کر دیا کہ آپ آج گلابی کپڑوں میں گلاب لگ رہی ہیں مگر مجال ہے جو شاہ زین صاحب نے نظر اٹھا کر بھی دیکھا ہو۔ ان کو تو بس شمو کے پکوڑوں کی تعریفوں سے فرصت نہ تھی۔
دعا نے مسج پڑھا اور آہینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے لباس کو دیکھنے لگی اور سوچنے لگی شمو بھی آج اس کی تعریف کر رہی تھی۔ اس کا موڈ بہتر ہو گیا۔
اب اسکا نوید کے ساتھ میسجز کا سلسلہ چل پڑا۔ وہ بہت شاطر انسان تھا اسے کہتا کہ وہ کسی کو اس کے بارے میں نہ بتائے ورنہ ورنہ وہ لوگ اسے مار مار کر گاوں سے نکال دیں گے اور ہم جدا ہو جاہیں گے۔ وہ صرف اسے میسج تک ہی رکھتی اگر کھبی وہ ملنے کی کوشش کرتا تو وہ صاف منع کر دیتی کہ شادی سے پہلے اسے ملنا پسند نہیں ہے۔
نوید کا دوست اسے ڈراتا کہ کیوں اپنی شامت کو آواز دے رہا ہے۔ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ کیوں اسے ورغلا رہا ہے۔ تو نوید کہتا کہ میں نے کونسا اس سے شادی کرنی ہے وہ تو تعریف کے بدلے مہربان ہو کر پیسے وغیرہ لٹاتی ہے اور اپنا جیب خرچ چل رہا ہے۔
شاہ زین شمو کو پیسے دیتے ہوئے بولا یہ لو اپنا انعام اتنے مزے کے پکوڑے کھلانے پر اور سرگوشی میں اس کے کان کے پاس جا کر بولا کھبی اپنی دعا بی بی کو بھی سکھا دیا کرو۔ وہ شرماتے ہوئے گردن ہلانے لگی۔
دعا یہ سب کھڑی دور سے دیکھ رہی تھی نوید دعا کے پاس کھڑا آہستہ سے بولا نہ جانے شمو سے ایسی کیا تعریف کی ہے شاہ جی نے کہ وہ شرما گئی۔ اپنی منگیتر کی تعریف تو کر نہیں سکتے۔
دعا شاہ زین سے متنفر ہوتی گئی اور نوید کے لچھے دار میسجز کے جال میں پھنستی چلی گئی۔
اس کی پڑھائی ختم ہو چکی تھی۔ گاوں میں اس کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں مگر دعا اپنے میسجز میں مگن تھی۔
ماں اور ساس اس کو نوٹ کر رہی تھیں اور پریشان تھیں۔ اس نے بھاری بھرکم سوٹ خریدنے اور سلوانے سے صاف انکار کر دیا۔ گھر میں باپ اور تایا اس پر جان چھڑک رہے تھے۔ اس کو نوید نے اپنی محبت ظاہر کرنے پر سختی سے منع کر دیا تھا۔
نوید کا دوست حیران ہو رہا تھا کہ دعا بی بی نے اس سے محبت کا اظہار کر دیا ہے۔ اس پر تو جیسے سکتہ کا سا لگ رہا تھا۔ دوست نے اسے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ تو کیوں اپنی شامت کو آواز دے رہا ہے اس کی شادی ہونے والی ہے کچھ عقل پکڑ۔ یہ اتنے اچھے اور رحم دل لوگ ہیں ہمارا کتنا خیال رکھتے ہیں اس مہنگائی کے دور میں ہمارا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارا پورا خاندان ان کے ساتھ آرام سے پل رہا ہے۔ اگر انہوں نے تمھارے کرتوتوں کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا تو سب برباد ہو جاہیں گے میری مان تو جلدی سے اس سلسلے کو ختم کر دے ورنہ اپنی کھال ادھڑوانے کے لئے تیار ہو جا۔
نوید دوست کی باتوں سے کافی اندر سے ڈر سا گیا اس کی نظروں کے سامنے اس گھر کے مردوں کے چہرے نظر آ گئے اور وہ کانپ گیا کہ تھوڑے فاہدے کے لئے زیادہ نقصان کرنے والا ہے۔ اس کا پورا خاندان برباد ہو جائے گا۔ اس کا ایک رشتے دار شہر میں نوکری کرنے گیا تھا مگر فائدہ نہ ہوا اور واپس ان کے پاس آ کر ملازم ہو گیا۔
دعا کی ماں اور ساس سر پکڑے بیٹھی تھیں جب انہوں نے دعا سے سنا کہ وہ ماں اور ساس کو وارننگ دے رہی تھی کہ اس شادی کو روک دو وہ شاہ زین سے شادی نہیں کرنا چاہتی بلکہ نوید سے کرنا چاہتی ہے۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.