نرالہ ساجن 16
Episode 16
صبا علی کو منگنی کے حوالے سے چھیڑ رہی تھی۔ اور وہ بس ہلکی سی سماہل دے کر ٹاپک چینج کر رہا تھا۔ صبا بولی جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری ماہیں ہمیں کہتیں جاو بیٹا بھائی کے ساتھ کھیلو جاو بیٹا بہن کے ساتھ کھیلو۔ اس وقت سے اب تک میں تمہیں اپنا بھائی سمجھتی ہوں۔ کیونکہ ہمارا کوئی بھائی نہیں تھا۔ ابو بھی تمھیں کہتے یہ میرا بیٹا ہے۔ امی کہتی علی کے ہوتے ہوئے مجھے کھبی بیٹے کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ اور تم نے یہاں رہ کر بھی جس طرح ہمارا خیال رکھتے تھے۔ مجھے ڈاکٹر بنانے میں تمھارا بڑا تعاون رہا۔ جب تم بیلوں کے پیسے بچا کر مجھے فیس کے لیے دیتے تھے۔ اور فارم لانا بینک کے کام سب تم کرتے تھے۔ اور کئی بار فیس کے پیسے کم ہونے پر تم ابو کے ساتھ بازار میں ناچنے چلے گئے اور تم اور ابو کیسے ناچ گانا کر کے لوگوں سے کس مشکل سے پیسے کماتے تھے لوگ ہوٹنگ کرتے تنگ کرتے۔ اس نے آنسو صاف کیے اور بولی کاش ملک میں اچھی تعلیم سستی ہو جائے۔ سرکاری اسکول میں تو ٹیچر ٹاہم پاس کرنے اور بچے وقت برباد کرنے جاتے ہیں۔ کاش ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار اتنا بلند ہو جاے جیسے پرائیویٹ اسکولوں میں بھاری فیس دے کر ہوتا ہے۔ ہم جیسے غریب تعلیم کا شوق رکھتے ہوئے بھی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ بس بڑے بڑے سکولوں کو حسرت سے دیکھ سکتے ہیں۔ علی نے کہا شاباش تم باتوں میں لگی رہو میں سارے پکوڑے ختم کر لوں گا۔ اتنے میں اس کی بڑی بہن اور پکوڑے لے آئی۔ صبا بولی میری چاے ٹھنڈی ہو گئی میں گرم کر لاوں۔ اس کی بڑی بہن بولی تم علی سے باتیں کرو میں چاے بنانے لگی ہوں تم تازی پی لینا۔
علی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کیوں پچھلی باتیں یاد کر کے دکھی ہوتی رہتی ہو۔ اب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہمارا اچھا وقت ا چکا ہے تیری ڈاکٹر سے شادی ہو گی۔ تم دونوں مل کر کلینک چلاو گے۔ اچھا ہے ایک ڈاکٹر کی ڈاکٹر کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔
اتنے میں بہن نے علی کے چھوٹے بھائی کے ہاتھ اس کے لیے چاے پکوڑے بھجواے۔ وہ اپنی اور صبا کی چاے اور پکوڑے لے کر آ گیا۔ علی بولا لگتا ہے آپا اسی سے پیٹ بھرواہیں گی رات کا کھانا نہیں دیں گی۔ علی کا چھوٹا بھائی ھادی بولا۔ ارے وہ تو رات کو بریانی پکائیں گی۔ علی بولا تو اتنے پکوڑے کیوں کھلا دیے ھادی بولا وہ کہتی ہیں کہ جوان پارٹی آجکل دیر تک جاگتی ہے تو رات تک کھاتے رہیں گے۔ علی پیار سے بولا اللہُ ایسی بھابی کسی کو نہ دے وہ جو سامنے سے گزر رہی تھی ساتھ ان کی باتوں سے خوش ہو کر مسکرا رہی تھی تو اس نے مصنوعی غصے سے اسے گھورا تو علی بولا ارے آپ چاہتی ہیں اس کو ایک ماہ میں اتنا کھلا کھلا کر موٹا کر دوں کہ لڑکی شادی سے انکار کر دے۔ صبا جھٹ بولی اللہ نہ کرے۔ اتنے میں ھادی نے کہا کہ تم لوگ بس اپنی شادی کی فکر کرنا میرا کچھ نہ سوچنا۔ میں جو جوان جہان آپ لوگوں کو نظر نہیں آتا۔ تعلیم مکمّل۔ بزنس بھائی کے ساتھ سیٹ ہے اور کیا ہوتا ہے میں کماتا ہوں آپ مجھے میری محنت کے حساب سے کمیشن دیتے ہیں تو ٹھیک کرتے ہیں نا۔ جتنی محنت اتنی اجرت۔ اس طرح تمہیں محنت کرنے اور حلال کمانے اور کھانے کی عادت تو رہے گی نا۔ علی نے پیار سے کہا دیکھو بچے اس طرح تم زہنی طور پر مطمئین تو رہو گے کہ میں بھائی کی نہیں اپنی محنت کی کمائی کھا رہا ہوں۔ تم جب سب بزنس کے اصول سیکھ جاو گے تو میں تمھارے ساتھ پارٹنر شپ کر لوں گا وہ بولا اچھا اب آپ دونوں بات کو گھماہیں نہ اور میرے لیے بھی کوئی حور پری ڈھونڈیں۔ صبا بولی ارے ہاں یہ بھی جوان ہو گیا ہے واقعی دونوں بھائیوں کی اکھٹی کر دیتے ہیں اب میں اس کے لیے کوئی ڈھونڈتی ہوں اور لالا جی سے بات کرتی ہوں۔ وہ خوش ہوتے ہوئے آدابِ آدابِ کرنے لگا۔ علی نے پوچھا اچھا کیا پھر وہی گھر ڈن ہے جو آج پسند کیا ہے۔ ھادی بولا لالا جی دیکھ کر ہاں بولیں گے تو تب ناں۔ علی نے ہوں کہا۔
امام دین کو سب سے بڑا ہونے کے سبب لالا جی بلاتے تھے۔ چھوٹے بچے سن سن کر لالا جی پکارنے لگے۔ تب سے ہر کوئی لالا جی ہی پکارتا۔ حتکہ اپنے بچے بھی لالاجی کہنے لگے حتکہ بیوی بھی تمھارے لالا جی کہتی۔
صبا نے ھادی کے رشتے کی بات گھر میں کی تو سب کو یہ آہیڈیا پسند آیا کہ علی کی شادی کے ساتھ اس کی شادی بھی کر دی جائے۔
علی کا باس اب پاکستان آنے کے لیے بے چین ہو گیا بولا ماشاءاللہ اتنا بزنس سیٹ ہو گیا ہے کہ اس کو پاکستان میں رہ کر بھی ہینڈل کیا جاسکتا ہے۔ مہینے میں ایک دو چکر پاکستان سے لگا کر بھی کر سکتے ہیں تو پھر پردیس کی خواری کیوں برداشت کریں۔ اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے۔ میں اپنی مٹی میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔ اس لیے ہمارے لیے بھی اپنے قریب اچا سا گھر تلاش کرو۔
علی کو ایک خوبصورت اور بڑا گھر پسند آیا۔ وہ بڑا اس لیے لینا چاہتا تھا کہ سب مل جل کر رہیں۔ اور اب وہ صبا کی مدد سے گھر کو ڈیکوریٹ کر رہا تھا۔
صبا کلیک گئی تو ڈاکٹر کی بڑی بہن اس کے پاس بیٹھی تھی ڈاکٹر نے صبا کے آتے ہی گرم جوشی سے تعارف کروایا وہ بہت تپاک سے ملی ملتے ہج صبا کی تعریف کی۔ آور بولی جتنی تعریف سنی تھی اس سے کئی گناہ زیادہ اچھی ہے۔ واہ 100پرسنٹ چوائس ہے۔وہ صبا سے بولی ہم پرسوں تمھارے گھر َآہیں گے۔ پھر وہ اسے گلے لگا کر پیار کر کے ملی۔ اور بھائی سے بولی اس موقع پر تو منہ میٹھا کرنا چاہیے۔ اس نے پرس سے چاکلیٹ نکال کر ان دونوں کا منہ میٹھا کرایا اور بھائی سے بولی تم تو چھپے رستم نکلے۔ تمھارے لیے بہت لڑکیاں دیکھی۔ مگر جو پہلی نظر میں پسند آئی وہ یہ ہے۔ واہ گڈ ورک۔ اس نے اس کی فوٹو لینی چاہی تو صبا نے ارام سے کہا سرپراہیز رہنے دیں نا۔ پرسوں دیکھ لیجیے گا۔ پرسوں کس وقت آنا ہے۔ ڈنر تیار کریں یا لنچ۔ وہ بولی نو نو ہم شام کو آہیں گے اور چاے پیں گے۔ وہ بھائی سے بولی تم سے تو میں بہت بڑی ٹریٹ لوں گی اتنی اچھی لڑکی ڈھونڈنے پر۔ تم نے لڑکیاں ڈھونڈنے سے جان چھڑوا دی تھینکس۔ اور ہاتھ ہلاتی باے باے کرتی چل دی۔ صبا سے بھی ڈاکٹر کے سامنے رکا نہیں جارہا تھا۔ اس نے دو دن کی چھٹی مانگی کہ بھائی دوبئی سے آیا ہے وہ بولا ٹھیک ہے مگر تھوڑی دیر تو رکو مگر وہ معزرت کرتی چلی گئی۔
علی کو جب پتا چلا بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا کہ نیے گھر میں انواہیٹ کرتے ہیں۔ مگر لالا جی نہ مانے۔ وہ بولے جو ہمیں اس سچائی کے ساتھ قبول کرے گا وہ ہی قبول ہے۔ ورنہ بعد میں پتا لگنے پر اس کو طعنے دے دے کر اس کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔ لالا جی نے پوچھا تم نے سچائی بتائ تھی نا۔ صبا آہستہ سے بولی جی بتایا تھا کہ ہم poor ہیں تو وہ بولے تھے کوئی بات نہیں۔
لالا جی مطمئن ہو گے اور بولے دنیا میں ابھی بھی اچھے لوگ موجود ہیں۔ لالا جی کے حکم پر شاندار استقبال کی تیاریاں ہونے لگیں۔ علی خوشی سے انتظامات میں لگا ہوا تھا۔ اور صبا کو بار بار کرن اور اس کے گھر والوں کا خیال آ رہا تھا آنٹی، انکل کتنے اچھے تھے۔ کرن اسے کتنی پسند تھی اور کرن کا بھائی معصوم تھا جو دنیا کی چالاکیاں نہیں جانتا تھا۔ پھر اس نے سب کے حق میں بہتری کی دعا کرتے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا۔ کرن سے بھی وہ رابطے میں تھی۔ ان لوگوں کو ایک ہفتے کے بعد جواب دینے کا بولا تھا اور ایک ہفتے سے اوپر ٹائم ہو گیا تھا اور اس نے کرن کو اس بات کو کور کرنے کے لیے بہت مصروفیت کا بہانہ بنایا تھا کہ آجکل گھر لینے کے چکر میں ان کو کسی بات کا ہوش نہیں ہے اور لا لا جی آپ سب کی بہت تعریف کر رہے تھے۔ تاکہ کرن کو لگے کہ گھر کے بعد ہی مطمئن ہو کر فون کریں گے۔ کرن کے گھر والے مطمئن ہو گئے کیونکہ کرن سب اپڈیٹ دیتی رہتی تھی۔مگر پھر بھی وہ انتطار میں تھے۔ خود سے فون کر کے پوچھنے سے کرن کے پاپا نے منع کیا تھا۔
ڈاکٹر کی فیملی نے آج انا تھا اور تیاریاں اور اور جوش عروج پر تھا۔ ان لوگوں نے ایڈرس مانگا تھا اور صبا نے دے دیا تھا اور وہ لوگ گھر سے نکل چکے تھے۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.