نرالہ ساجن 10
Episode 10
کرن کا بھائی طیب نے بیوی کا سارا سامان باہر پھینکا اور چندہ اور اس کے والدین سامان سمیٹے لگے۔ جیسے لوٹ مچی ہو۔ وہ لوگ سامان لے کر چلتے بنے۔ چندہ نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ سب رشتے دار باتیں بنانے لگے۔ کہ کس قسم کی عورت تھی جو اتنا پیار کرنے والوں کو چھوڑ کر چلی گئی۔ ان پیسوں کو کتنا عرصہ کھاے گی۔ ساجد بھی پیسے ختم ہونے کے بعد اس کو چھوڑ دے گا پھر پچھتائے گی
کرن کے بھائی طیب نے سب خاندان والوں سے کہا کہ اب آپ لوگوں کے سامنے ساری حقیقت کھل چکی ہے کہ میری بہن بےقصور ہے۔ پھر اسے گلے لگا کر رونے لگا اور معافی مانگنے لگا کہ اس نے چندہ کی باتوں میں آ کر اسے تنگ کیا۔ وہ کہنے لگا کہ سب گھر والوں نے مجھے منع بھی کیا کہ وہ ساتھ نبھانے والی نہیں ہے۔ مگر میں اس کی چال بازیوں کو نہ سمجھ سکا میرے ایک غلط فیصلے سے میری بہن کی زندگی برباد ہو گئی۔ ماں نے روتے ہوئے کہا کہ میرے دونوں بچوں کی زندگی برباد ہو گئی۔
ایک رشتے دار فیملی جو کافی دیر سے آپس میں کھسر پھسر کر رہی تھی۔ ایک عورت اٹھی اور کرن کی ماں سے بولی۔ میں اپنے بیٹے مدثر کے لیے کرن کا رشتہ مانگتی ہوں اور آج ہی نکاح بھی کر لیتے ہیں کرن کے والدین کو ان کا گھرانہ ہر لحاظ سے پسند تھا انہوں نے اس رشتے کو تھوڑی سی پس وپیش کے بعد قبول کر لیا۔ کرن نے بھی ہاں کر دی۔ مدثر کے والدین نے کہا ہم ابھی صرف نکاح کریں گے اور رخصتی دھوم دھام سے سال کے بعد ہو گی کرن کے والدین نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ لوگ امیر تھے۔ طیب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے کردار کا خوش شکل لڑکا تھا۔ ہم عمر مہمان لڑکیاں اسے چھیڑ چھاڑ کرنے لگیں کہ یہ تو اچھے بھی ہیں اور اپنے بھی ہیں۔ کچھ تو اس کی قسمت پر رشک کر رہے تھے۔ مدثر اکلوتا۔ ہینڈسم اور اچھے خاندان سے تھا۔ کرن نے بھی حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ انہوں نے پانچ لاکھ حق مہر دیا۔ حالانکہ کرن سمیت اس کے گھر والوں نے انکار کیا مگر وہ نہ مانے۔ کرن کے والدین نے بھی لڑکے کو پانچ لاکھ سلامی دی تو انہوں نے دو لاکھ لے کر باقی یہ کہہ کر واپس کر دی کہ ہم کرن کو سواے سلامی کے کچھ بھی نہ دے سکے۔ وہ زیور خریدنے بازار جانا چاہ رہے تھے مگر کرن کے گھر والوں نے منع کر دیا کہ کوئی بات نہیں ہم نے بھی کچھ نہیں دیا۔ باقی کسر شادی پر نکال لیں گے۔ ڈھولک بجی۔ سب نے ہلہ گلہ مچایا۔ ہوٹل کی بکنگ کینسل کرا دی۔ کیونکہ نکاح گھر میں ہی ہو چکا تھا۔ کرن کا بھائی طیب ادس ادس پھر رہا تھا سب کو اس کا افسوس ہو رہا تھا کچھ نے سمجھایا کہ تم تو اس رشتے کو نیک نیتی سے نبھا رہے تھے دیکھنا اللہ تعالیٰ ضرور اس کا اجراء عطاء فرمائے گے اور اچھی بیوی ملے گی۔ تو وہ دکھ سے بولا میں اب شادی نہیں کر وں گا۔ سب تسلیاں دینے لگے۔ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بولا میں نے کھبی اس کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی۔ کھلے پیسے دیئے کھبی حساب نہ مانگا۔ وہ پیسے وہ اسے دیتی۔ اس کے پیچھے میں نے گھر والوں سے لڑ پڑتا تھا۔ پھر بھی اس نے میرے پیار کی قدر نہ کی۔ مجھے بھی میرے غرور کی سزا ملی ہے۔ میں نے سوچا مجھ میں کچھ کمی نہیں ہے۔ میرے پاس تعلیم ہے دولت ہے۔ عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں پھر چندہ بھی مجھ سے شادی کر کے خوش رہے گی۔ اس کے گھر والے بھی میرے رشتے سے انکار نہ کریں گے۔مجھے غرور کی سزا ملی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ کچھ بھی کام نہ آیا۔ نہ میری دولت نہ تعلیم نہ عہدہ نہ خاندانی عزت جس پر میں غرور کرتا تھا کہ مجھے جب اس پر پہلی بار شک ہوا کہ اس کے ساجد کے ساتھ تعلقات ہیں تو میں نے غرور سے سوچا بھلا اس کی میرے آگے کیا اہمیت ہے۔ وہ بھلا میرے مقابلے میں اس کو کیا اہمیت دے گی۔ وہ اسے کیا دے سکتا ہے۔ سچ ہے غرور کا سر نیچے ہوتا ہے اور مجھے غرور کی سزا ملی ہے۔ سب اس کے غم کو سمجھ رہے تھے کہ جو زخم چندہ نے اسے دیا ہے اسے بھرنے میں وقت تو لگے گا۔کرن کے والدین بیٹی کی طرف سے تو مطمئن ہو گئے تھے۔ سب کے سمجھانے پر وہ نارمل تو ہو گیا تھا مگر اداسی اس کے رگ وپے میں سما گئی تھی۔ اور وہ سنجیدہ ہو گیا۔ طیب کو رشتہ داروں نے نچایا بھی۔ نکاح کے وقت بھی وہ صرف مسکراتا رہا۔ سب جانتے تھے کہ وہ سنجیدہ مزاج ہے۔ کرن تھوڑا بہت مسکرا لیتی تھی۔ ادسی اس کے اندر تھی جو اسے مسکرانے نہ دیتی۔ سب سمجھ رہے تھے اسے رشتہ ٹوٹنے کا دکھ ہے وہ اسے سمجھاتے کہ شکر کرو لالچی اور فراڈی لوگوں سے بچ کر خاندانی لوگوں میں جا رہی ہو۔ بھائی کے اجڑنے کا بھی غم نہ کرو۔ وقت پر اس سے جان چھوٹ گئی ہے۔ ورنہ اگر بچے ہو جاتے تو ایسی عورت کو نہ چھوڑ سکتے نہ رکھ سکتے اور بچوں کی تربیت اور مستقبل الگ تباہ ہوتا۔ سب کرن کی ماں کو مشورہ دے رہے تھے کہ اس کی جلد کسی شریف اچھی لڑکی سے شادی کر دینا تو یہ جلد اس کے غم سے نکل آئے گا۔
صبا علی کے جانے سے بہت اداس تھی اس کا دل نہ لگ رہا تھا کیونکہ پورے خاندان میں ایک صبا اور علی ہی پڑھے لکھے تھے۔ علی کے جانے کے بعد امام دین نے صبا کے والد سے کہا کہ تمھاری ایک ہی بیٹی رہ گئی ہے بہتر ہے کہ تم لوگ علی کے کمرے میں آ کر شفٹ ہو جاو۔۔ ہم سب اکھٹے رہتے ہیں۔ تمھارے کراے کی بھی بچت ہو جائے گی۔ علی کو بھی جا کر فکر رہنی شروع ہو گئی ہے کہ صبا جوان ہےاور اکثر ماموں رات تک ٹیکسی چلاتے ہیں تو صبا اور مامی کا ادھر اکیلے رہنا ٹھیک نہیں ہے ان کو میرے کمرے میں شفٹ کر دیں۔ ماموں مان نہیں رہا تھا جب علی نے سختی سے کہا تو مان گیا۔
کرن کے نکاح کے دوسرے دن ہی سب مہمان واپس چلے گئے۔ کرن کے ساس سسر نے کرن سے کہا کہ وہ طیب سے فون پر بات کرتی رہے۔ اس نے کہا کہ روز تع نہیں کھبی کبھار کر لیا کروں گی۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.