نرالہ ساجن 22
Episode 22
صبا کو دیکھ کر وہ کنفیوز ہو گئ۔ صبا اگے بڑھ کر ان سے تپاک سے ملی تو ان کو کچھ حوصلہ افزائی ملی۔ صبا نے ان کے آنے کا شکریہ ادا کیا۔ اور ان کو بی بی جی سے ملوایا۔ اپنی ماں سے بھی ملوایا۔ سب سے ملنے کے بعد علی کو آواز دی وہ کچھ بوکھلاہٹ میں جانے کا عزر پیش کرنے لگیں۔ صبا نے کہا اب ہم پڑوسی بن گئے ہیں اور سب بھلا کر اچھے پڑوسی بن کر رہیں۔ علی نے آ کر سلام کیا اور کہا صبا ٹھیک کہہ رہی ہے۔ وہ بھی خوش ہو گئیں اور آگے بڑھ کر گلے لگ گئی۔اور خدا حافظ کہہ کر چلی گئی۔
لالہ جی کی دوستی ابھی بھی قائم تھی جبکہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی وہ لوگ صبا کو کھو کر پچھتا رہے تھے۔ اب کرن پسند ا چکی تھی۔ اور ہر وقت ا ے جانے سے وہ ھادی کا رویہ جان چکی تھی۔
کرن کی ساس شادی کی تاریخ لینے آ گی اور عزر دینے لگی شادی لیٹ کرنے سے آپ لوگ ناراض ہو گئے اور سمن بھیج دیا۔ جب طیب نے حقیقت بتائ اور ثبوت دیکھایا تو وہ حیران رہ گئی اس کے بیٹے نے اس کا بھروسہ توڑا تھا ہم نے طلاق میں جو لکھوایا تھا وہ نہیں چاہیے۔ ہم نے علی کے بھائی ھادی سے اس کا رشتہ طے کر دیا ہے اور جلد شادی کرنا چاہتے ہیں بس تم جلدی سے طلاق بھچوا دو۔ وہ بولی میں کل ہی بھجوا دوں گی۔ اور بولی تم کرن کا کسی اچھی جگہ رشتہ کرو اپنا سٹیٹس دیکھو اک مراثی کے گھر توبہ ہے۔ ان سے ہمیشہ کی ناطہ جڑ جاے گا ہمارا بھی رشتہ دار ہونے کے ناطے رشتہ جڑ جائے گا۔ پلیز ہمارے خاندان پر رحم کرو۔ اب نٹ میراثی ہی رہ گئے تھے ہمارے لیے۔ اتنا برا وقت تو نہیں آیا۔ میرے جاننے والے بہت ہیں میں کرن کا کروا دوں گی۔
کرن کے پاپا بولے نٹ میراثی ہمارے لیے ساری دنیا سے بہتر ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ وہ بولی میرا بیٹا جس کے پیچھے تھا تھوڑا فرق تھا تو میں نہ مانی تھی شکر ہے توبہ کم از کم یہ حال تو نہیں ہے نا۔ پھر وہ اٹھ کر چل دی۔ اگلے دن طلاق ا گی اور لالہ جی کو اطلاع دے دی گئی۔ اگلے دن رشتہ دار عورت آئی اور بتانے لگی کہ اس کو اپنے بیٹے کے نکاح کا علم ہو چکا تھا۔ اب اگر کرن کو طلاق دیتے تو بھاری رقم دینی پڑتی۔ اس کی شاہ خرچیوں سے حالات خراب ہو گئے جب تم لوگوں نے اسے پیسے معاف کیے تو وہ خوش ہو گئی۔ بیٹے کو طلاق کا کہا تو اس نے اپنی بیوی کو قبول کرنے اور گھر لانے کی شرط رکھ دی۔ وہ مجبور ہو گئی کیونکہ بیٹا دوبئی کمانے نہیں گیا تھا بلکہ اس لڑکی کے پیچھے گیا تھا اور جمع پونجی لٹا رہا تھا اب مزید نقصان کروانے سے بہتر تھا کہ اسے قبول کر لے۔ وہ لڑکی مدثر کے کالج میں پڑتی تھی۔ اس لڑکی کے والدین وہاں صفائی کے کام پر مامور تھے۔ وہاں کے پرنسپل نے کچھ لالچ دے کر نکاح کر کے اسے دوبئی لے گیا۔ اس کے بیوی بچوں کو علم ہوا تو انہوں نے اسے زودوکوب کیا اور طلاق دلوا دی۔ وہ لڑکی مدثر سے رابطے میں تھی۔ اور مدثر نوکری کا بہانہ بنا کر اس کے پاس پہنچا اور اسے فلیٹ لے کر ساتھ رکھا۔ عدت کے بعد اس سے نکاح کیا۔ اب وہ بیوی کو لے آیا ہے۔ لڑکی کے والدین کو بھی ساتھ رکھا ہے ان کی وہ نہ بےعزتی کرنے دیتا ہے۔ بلکہ عزت کرواتا ہے۔ اب وہ اس کے گھر پاوں پسارے بیٹھے ہیں۔ اور وہ بےبس اور شرمندہ ہے۔ اب بیٹے کے حکم سے دھوم دھام سے شادی کرے گی۔ قدرت نے اس کو غرور کی کیسی سزا دی۔۔ بیٹے نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ حیثیت میں تھوڑی سی کم ہے۔
امام دین نے فاروقی صاحب کو دیکھ دیکھ کر اپنے آپ کو اس سوسائٹی کے مطابق ڈھال لیا تھا اسے ان چیزوں کا شوق بھی تھا۔ وہ پینٹ شرٹ، ٹراوزر وغیرہ شوق سے پہنتا۔ ورزش کرتا۔ واک ڈیلی کرتا۔ گرین ٹی پیتا۔ اس نے تو اپنا پیٹ بھی کم کر لیا تھا وہ تو سوسائٹی کے لوگوں سے بڑے پراعتماد طریقے سے بات چیت کرتا گاڑی وہ پہلے ہی چلانی جانتا تھا علی نے ہمیشہ اس کے ہر شوق کی حوصلہ افزائی کی۔ اسے گاف کلب فاروقی صاحب کے ساتھ جانے لگا۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کو بھی اپنا آپ چینج کرنے کا کہتا مگر وہ دھیان نہ دیتا۔ اس کا وہی سٹائل تھا کھلی سی شلوار قمیض سلواتا۔ پاوں میں کھلے جوتے۔ کھبی بوٹ وغیرہ نہ پہنتا۔ پیٹ بڑھا ہوا۔ بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرنا۔ آے دن اپنے پرانے محلے میں جانا اور بہت وقت گزار کر انا۔ نہ کوئی کام کاج کرنا۔ بس سونا کھانا اور بیٹھے بیٹھے بیوی سے خدمت کرانا اور حکم چلانا۔ خود اٹھ کر پانی بھی نہ پینا۔ سگریٹ نوشی خوب کرنا نہ کسی کی سننا۔ اپنی مرضی سے جینا۔ بھائی احترام میں خرچہ دیتے رہتے۔ ماں، بیوی سمجھاتی مگر وہ سنی ان سنی کر دیتا۔ بیوی اس سے ناراض ہوتی وہ پروا نہ کرتا۔ وہ کہتی سب کماتے ہیں ھادی نے تعلیم کے دوران کمانا شروع کر دیا۔ اور اب سیٹ ہو گیا ہے۔ لالہ جی نے اپنے آپ کو کتنا بدل لیا ہے۔ کتنے اس عمر میں بھی چست رہتے ہیں۔ بچوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ان کے کام میں جتنی ہو سکے مدد کرتے ہیں۔ ہر بیوی کو شوق ہوتا ہے کہ اس کا شوہر اس کو اپنی کمائی کھلاے چاہے کم ہی ہو مگر اس میں اس کو عزت اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ اب گھر والے مجھے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔ علی زبردستی پکڑتا رہتا ہے۔ دبے لفظوں میں وہ کتنی آسان نوکری اور اچھی تنخواہ آفر کر چکا ہے۔ میرا بھی جی چاہتا ہے میرا شوہر پینٹ شرٹ وغیرہ پہنے۔ حتکہ آپ کے ماموں نے بھی پہننے شروع ہو گئے ہیں۔ لالہ جی اور بی بی جی دوسروں کے سامنے کتنے شرمندہ ہوتے ہیں جب کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کے تینوں بیٹے کیا کرتے ہیں تو وہ تو دو کا فخر سے بتاتے ہیں تیسرے کا کہتے ہیں وہ بھی بھائیوں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ تو وہ سگریٹ کا لمبا کش لے کر ڈانٹ دیتا اس پر چلاتا وہ اپنی سبکی کے ڈر سے تاکہ باہر کوئی سن نہ لے اسے خاموش اور آہستہ بولنے کا کہتی۔ وہ کہتی میاں بیوی کی باتوں کی آواز باہر نہیں جانی چاہئے۔ مگر وہ اور چیخ کر اپنی بھڑاس نکالتا۔ علی اس کی ماں سب ا جاتے وہ اپنی سب کے سامنے سبکی محسوس کرتی۔ وہ سب کے سامنے سارا قصور اس کا بنا دیتا چیخ چیخ کر کہتا جب بھی گھر آتا ہوں مجھ سے لڑائی شروع کر دیتی ہے میرا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ابھی میرے بھائیوں کی بیویاں آئی بھی نہیں تو اس نے پہلے ہی ان سے مقابلہ بازی شروع کر دی ہے کہ ان کے شوہر عیش کراہیں گے اور یہ منہ دیکھے گی۔ بتاو ماں کھبی میرے بھائیوں نے اسے کسی چیز کی کمی آنے دی۔ کس دن یہ بھوکی سوئی ہے۔ پیسہ پیسہ پیسہ ہر وقت اسے پیسہ چاہیے۔ کسی پیسے والے سے شادی کرائی ہوتی میرے سے کیوں کروائی۔ میں تنگ ا گیا ہوں۔ اسے سمجھائیں کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ میں تنگ ا گیا ہوں روز روز کی ان لڑائیوں سے۔ پلیز مجھے سکون لینے دیں۔ پھر اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور پانی مانگا۔ ماں تڑپ گئی۔ جھٹ پانی پیش کیا گیا۔ وہ ہلکی ہلکی ہاے ہاے کر رہا تھا۔ صبا کو بلایا گیا صبا فرسٹ ایڈ اٹھا کر آ گئی۔ دوا دی اور آرام کرنے کا اور سٹریس نہ لینے کا مشورہ دیا۔ سب اس کی بیوی رضیہ کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔ وہ روتے ہوئے صفائی دینے کی کوشش کرتی تو ماں باپ اس کو ڈانٹنے لگتے۔ ماں سمجھاتی شکر کر خوش قسمت ہے جو اتنا اچھا سسرال ملا ہے۔ محل جیسے گھر میں رہتی ہے۔ لوگ اس محل والوں کی بہو بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ نہ پیسے کی کمی نہ کھانے کی تنگی۔ پھر کیوں ناشکری بنتی ہے۔ اس کو بھی ٹینشن دے دے کر بیمار کرتی ہے۔ سارے گھر والوں کو پریشان کرتی ہے۔ اس کے والدین اس کی کوئی صفائی سنتے ہی نہ تھے۔ علی آتا بھائی کو سناتا بھابھی کی فیور لیتا کہ آپ بھابی کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ لالہ جی سنتے تو ڈانٹتے۔ ھادی اور صبا رضیہ کو چپ کراتے۔ مگر آجکل تو اسے علی کے باس ملک جاوید اور ان کی بیوی سے شرم آتی۔ جو ان کا بھی لحاظ نہ کرتا اور سب کے سامنے چھوٹی سی بات پر زلیل کر دیتا۔ گھر والے اپنی عزت کے ڈر سے چپ ہو جاتے کیوں کہ وہ کسی کا بھی لحاظ نہ کرتا تھا بیوی ہر لمحہ اس کو خوش رکھنے اور گھر کا ماحول خراب نہ ہو کوشش کرتی۔ پر وہ خوش نہ ہوتا۔ سیدھی بات کا الٹا جواب دیتا۔ چڑچڑا رہتا۔
پرانے محلے کی ایک خالہ ملنے آئی۔ سب بہت خوش ہوئے۔ رضیہ نے اس کی آو بھگت کی۔ تو اس نے چاے پیتے ہوئے سب کے سامنے اس نے چاے پیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے میری بہت مدد کی ہے۔ اپ کا احسان ہے آپ کو بتانے آئی تھی کہ شکور کو ان بری اور لالچی عورتوں سے بچا لیں جو اسے لوٹ رہی ہیں۔ وہ ماں بیٹی اس کو لوٹ لوٹ کر کھا جاہیں گی۔ علی کی ماں بولی کیا بک رہی ہو۔ وہ بولی بلاو بیٹے کو۔ شکور آیا تو اس عورت نے کہا کہ تم نے کیا ہمارے محلے کی وہ دو آوارہ عورتوں کے پاس کیوں جاتے ہو۔ جھوٹ مت بولنا۔ لالہ جی نے غصے سے پوچھا ہاں یا نہ۔ وہ ہکلا کر بولا وہ میں جاتا تو ہوں پر۔ اتنا سننا تھا کہ لالہ جی نے اس کی درگت بنانی شروع کر دی۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.