نرالہ ساجن 21
Episode 21
علی اور طیب کرن کے حوالے سے بات کر رہے تھے طیب نے روتے ہوئے علی کے ہاتھ پکڑ کر کہا آپ کے گھرانے سے افضل مجھے کوئی گھرانہ نہیں۔ نہ ہی میرے والدین کو کوئی اعتراض ہو گا ایسا اگر ہو جائے تو یہ آپ کا ہم پر احسان عظیم ہو گا مگر ھادی وہ تو کرن سے چھوٹا ہے اتنا بھی نہیں ہے تھوڑا سا ہی ہے۔ اور تم فکر نہ کرو میں ھادی اور گھر والوں کو منا لوں گا۔ طیب نے بہت شکریہ ادا کیا اور کہا آپ پہلے ھادی اور گھر والوں سے بات کر لیں جب سب ڈن ہو جائے تو پھر مدثر سے طلاق لے لیں گے۔ اب دنیا کے ڈر سے بہن کو دوزخ میں تو نہیں دھکیلا جا سکتا ہے نا۔ بےشک کنواری بیٹھی رہے مگر ایسے رشتے قبول نہیں کر سکتے ہیں۔ طیب علی کا شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔
کرن طیب کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ بہت خوش خوش آے گا جس طرح جوش سے وہ فون پر جوس گرنے کے قصے سنا رہا تھا۔ مگر آیا اور پریشان اور چپ چپ تھا۔ تھکن کا بہانہ بنا کر وہ سونے چلا گیا۔ کرن منہ دیکھتی رہ گئی۔ پاپا نے تسلی دی کہ بیٹا تھک گیا ہو گا اتنی دیر سے جو گیا ہوا تھا۔ ماں سو چکی تھی ورنہ پوچھ پوچھ کر جان کھا جاتی۔ آخر اس نے صبا کو میسج کیا فری ہو تو بات کرو۔ تو اس نے جھٹ فون کر دیا۔ اور کرن کو تسلی مل گئی۔
صبا کو اور تمام گھر والوں کو طیب کے ساتھ ہونے والی گفتگو بتا دی۔ ھادی سکتے میں رہ گیا اور بولا وہ تو مجھ سے بڑی ہے۔ علی نے کہا دو سال ہی بڑی ہے۔ زیادہ نہیں۔ ھادی بولا دو سال آپ کو کچھ نہیں لگتے۔ اس کی ماں بولی۔ ارے ہمارے خاندان میں چار، پانچ سال بڑی کے ساتھ بھی لوگ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ تم دو سال کی بات کر رہے ہو۔ ویسے مجھے وہ بہت پسند ہے۔ لالہ جی نے کہا کہ بس فیصلہ ہو گیا اب کرن ہی تمھاری دولہن بنے گی۔ تم نے بھائی کی زبان کی لاج رکھنی ہے۔ ھادی ناراض ہو باہر چلا گیا۔ لالہ جی نے کہا طیب کو بتا دو کہ ہمیں یہ رشتہ منظور ہے۔ اس نے جب یہ سنا تو بہت خوش ہوا۔
طیب نے گھر والوں کو مدثر کی سب سچائی بتا دی اور وڈیو بھی دکھا دی جو علی نے اسے سینڈ کی تھی۔ ماں تو سینہ پیٹنے لگی اور بین کرنے لگی کہ ہاے میری بیٹی سے طلاق کے بعد کون شادی کرے گا۔ علی نے ھادی کے لیے رشتہ مانگا ہے۔ کرن تو سکتے میں رہ گئ ارے وہ تو مجھ سے پورے دو سال چھوٹا ہے۔ طیب نے بتایا کہ آج لالہ جی فون پر بات کریں گے اور صبا کی اور کرن کی منگنی ایک ساتھ ایک دن ہی کرنا چاہتے ہیں۔ کرن بولی میں تو اسے بےبی سمجھتی ہوں وہ مجھ سے چھوٹا ہے۔ ماں بولی ہمارے جاننے والوں میں لڑکی دس سال بڑی تھی مگر لڑکے کو کوئی اعتراض نہ تھا اور دونوں شادی کے بعد خوش وخرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور تم تو صرف دو سال ہی بڑی ہو۔ کرن کے پاپا نے فیصلہ صادر کر دیا کہ مدثر سے کل ہی طلاق کے لیے خلع کی درخواست دائر کر دیں گے تاکہ عدت کے بعد دونوں بہن بھائی کی آ کھٹی شادی کریں گے۔ کرن کے پاپا بولے میری لالہ جی سے فون پر بات کراو تاکہ معاملات طے کر سکیں۔ کرن غصے سے اٹھ کر چلی گئی۔
فون پر لالہ جی اور کرن کے پاپا نے معاملات طے کر دہیے۔ اور گھر میں ہی سادگی سے منگنی کی رسم کرن کی خلع کے بعد ہونا قرار پائی۔ ان کو دو دن بعد گھر میں قرآن خوانی اور محفل میلاد رکھوایا اور کرن کے گھر والوں کو انواہیٹ کر دیا۔
فاروقی صاحب کی رات کو فیملی امریکا سے ا چکی تھی۔ فاروقی صاحب نے گیٹ پر کھڑے لالہ جی سے خوشی سے ملوایا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ اور اس کے فادر کا خیال رکھنے پر بہت شکریہ ادا کیا۔ اس کا بہنوئی باہر آیا تو وہ بھی بڑے اچھے طریقے سے ملا اور کہنے لگا انکل نے جتنی آپ کی تعریف کی تھی اس سے بھی زیادہ آپ کو اچھے پایا۔ اور آپ کے گھر سے جو کھانا آیا تھا وہ بہت ٹیسٹی تھا سب گھر والوں کو بہت پسند آیا۔ بہت موقع پر آپ نے بھیجا سب کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی آپ لوگ تو سہی محلے داری کا حق نبھاتے ہیں بہت شکریہ۔
لالہ جی فاروقی صاحب کے بیٹے اور بہنوئی سے ملنے کےبعد ان کی بہت تعریف کرتے رہے۔ لالہ جی نے کہا کہ تم عورتوں میں سے کوئی جاو اور ان کے گھر اور ان کو ختم پر باقاعدہ انواہیٹ کر کے آو۔
ماموں کی بیوی اور باس کی بیوی دونوں ملکر گئی اور سوسائٹی کی عورتوں کو انواہیٹ کر کے آہیں۔ فاروقی صاحب کی فیملی نے ان کی خوب آو بھگت کی۔ گھر ا کر ان دونوں نے بھی فاروقی صاحب کی فیملی کی بہت تعریف کی۔
کرن اور اس کے گھر والے لالہ جی کاشانہ ہاوس پہنچے۔ کرن کی جب ھادی پر نظر پڑی تو وہ اسے غصے سے گھور کر دیکھ رہا تھا لالہ جی کے ڈر سے وہ مروت میں ان سے ملا تو کرن کی ماں اس پر واری صدقے جانے لگی۔ کرن کے پاپا بھی اس سے گرمجوشی سے ملے۔ طیب بھی پروٹوکول دے رہا تھا اور وہ بےبس محسوس کر رہا تھا۔ وہ مل کر بہانے سے وہاں سے نکل گیا۔
ھادی نے صبا، سے۔ اپنی بھابی سے، ماں سے اور مامی سے مدد کی درخواست کی۔ مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ نہ کسی نے اس کی فریاد سنی۔ ایک علی کی منگیتر امارہ نے اس کی فریاد توجہ سے سنی اور اس فیصلے کو ظلم قرار دے دیا۔
کرن کی ماں جب علی کے باس اور ان کی بیوی سے ملی تو حیران رہ گئی۔ علی کا باس ینگ اور بیوی ساتھ کافی بڑی لگ رہی تھی۔ صبا نے ان کے تجسس سے پوچھنے پر بتایا کہ ان کی بیوی سات سال ان سے بڑی ہے۔ وہ اکلوتی تھی اور باس کی کزن تھی اس لیے بزرگوں کے فیصلے کے خلاف وہ نہ جا سکے۔ اور حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ اب تو کرن کو سامنے کی مثال دینا آسان لگا اور اس کی ماں نے کرن کو مثال دے کر َسرگوشی میں سمجھایا۔ کہ علی کے باس کی بیوی اس سے سات سال بڑی ہے۔ کرن نے بےچینی سے پہلو بدلا۔
صبا کی مامی اور بہن سوسائٹی کی عورتوں کو رسیو کر رہی تھیں۔ ان کو بڑے حال میں بٹھایا گیا تھا۔ سب عورتیں سپارے پڑھنے اور سلام دعا میں بھی مصروف تھی۔ فاروقی صاحب کی فیملی اپنے جاننے والیوں سے سلام دعا کے بعد سپارے پڑھنے بیٹھ گئیں۔ کافی رش عورتوں کا پڑ چکا تھا۔ لالہ جی کی فیملی سوسائٹی میں مشہور تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ لالہ جی بہت سوشل تھے۔ ان کا گھر بھی خوبصورت بڑا اور لالہ جی آشیانہ کے نام سے مشہور تھا لالہ جی راہ چلتے دودھ والے، سویپر، ریڑھی والے دوکانوں، حجام جو بھی میسر آتا اس سے ایسے گپ شپ لگاتے جیسے پکی یاری ہو۔ اس کے علاوہ سوسائٹی کے لوگوں سے بھی اسی طرح خلوص سے ملتے اور حال احوال پوچھتے۔ اس کے علاوہ اکثر گھر میں کوئی چیز پکا کر گھروں میں بانٹتے رہتے۔ ان کے کھانے سب کو بہت پسند آتے۔ اس وجوہات کی بنا پر ان کا گھرانہ مشہور تھا۔ ختم زوروں شورو سے جاری تھا۔ صبا نے دروازے پر آکر جھانکا تو سامنے ڈاکٹر صاحب کی ماں اور بہن بیٹھی نظر آہیں۔ ان کی نظر صبا پر نہ پڑی۔ صبا نے اندر ا کر سب کو ان کے بارے میں بتایا۔ علی جو سامنے کھڑا تھا۔ علی نے بتایا کہ ہاں ابھی فاروقی صاحب لالہ جی کے ساتھ کھڑے تھے ان کا بیٹا لالہ جی سے بڑے پریم سے باتیں کر رہا تھا اگے اس کا بہنوئی کھڑا تھا۔ فاروقی صاحب نے مجھے آواز دی کہ ادھر آو بیٹا علی میرے بیٹے سے ملو۔ بیٹے کا مجھے دیکھتے ہی سانپ سونگھ گیا۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ اشارے سے ہاتھ جوڑ کر منت کرنے لگا کہ میرے بہنوئی کو پتا نہ چلے تو میں نے اس کے بہنوئی سے ہاتھ ملایا اور جلدی کا بہانہ بنا کر ا گیا۔
صبا نے جب ماں کو بتایا تو بڑی بہن نے کہا جو ہوا سو ہوا اب وہ عورتیں تمہیں ہی جانتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تم ابھی ان کے سامنے نہ جاو۔ انہوں نے سپارے پڑھے ہیں تو کھانا تو ان کا بنتا ہے۔ جب جانے لگیں گی تو اس وقت اچھے اخلاق سے مل لینا۔
صبا نے بڑی بہن کی بات مانتے ہوئے دروازے کی اوٹ میں بیٹھی رہی۔ علی کی امی اونچی آواز میں سب کے آنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پرجوش انداز میں دعائیں مانگ رہی تھی چہرے پر بہت تقدس تھا اپنے محلے میں بھی وہ اچھی دعائیں مانگنے والی بی بی جان کے نام سے مشہور تھی۔ لوگ اسے خاص طور پر دعا کروانے کے لیے بلاتے تھے۔ اس کی آواز بڑی پراثر تھی۔ دعا کے آخر میں وہ نعت شریف پڑھتی تو سب تعریفیں کیے بنا نہ رہتے۔
کھانا شروع ہوا۔ سب گپ شپ بھی کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ کھانے کی تعریفیں بھی کر رہی تھیں۔ سب جب فارغ ہو کر جانے لگیں تو صبا ایکدم سامنے ا گئیں تو وہ دونوں اسے دیکھ کر دم بخود رہ گئی۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.