Back to Novel
Nirala Saajan
Episodes

نرالہ ساجن 20

Episode 20

علی اور صبا گھر آ کر بہت پریشان تھے کہ اب تو ثبوت بھی مل چکے تھے ان دونوں کی تصویر اور وڈیو جو کسی کیفے میں آے تھے اس نے بھیج دی تھی۔ علی نے بزنس کے سلسلے میں کرن کے بھائی طیب کو بلایا تھا علی اب اس سے کافی مطمئن نظر ا رہا تھا۔ شام کو باس نے بھی پہنچنا تھا۔ گھر میں ان کے استقبال کی تیاریاں عروج پر تھی۔


امام دین اور فاروقی صاحب لان میں بیٹھے لان نیے گملے سیٹ کروا رہے تھے۔ صبا لان میں آئی تو فاروقی صاحب نے کہا صبا بیٹا مجھے معدے میں گیس وغیرہ فیل ہو رہی ہے کوئی دوائی تو بتاو۔ صبا جو پہلے ہی جلدی میں تھی۔ علی نے بتایا آج طیب نے آنا ہے تو وہ خوشی میں ہر کام جلدی جلدی کر رہی تھی بولی جی انکل میں ابھی لا کر دیتی ہوں۔ وہ دوائی لا رہی تھی سر جھکا ہوا تھا کہ وہ کسی سے ٹکرا گئی۔ غصے سے بولی علی ایک تو جلدی ہے اوپر سے تم اگے کھڑے ہو جاتے ہو۔ علی نے جواب دیا آنکھوں کا بھی استعمال کرتے ہیں دیکھ کر چلتے ہیں اور جب سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے طیب کھڑا قدرے شرمندہ مسکرا رہا تھا۔ وہ کنفیوز ہو کر بولی او سوری دیکھا لالہ جی اور فاروقی صاحب نظر کی عینک سے اسے دیکھ رہے تھے سب مسکرا رہے تھے اور علی بھی ہلکی سی سماہل دے رہا تھا وہ فاروقی صاحب کو دو پکڑا کر بولی میں پانی بھجواتی ہوں۔ کیونکہ گلاس طیب سے ٹکراتے اس کے کپڑوں پر گر چکا تھا۔ اور وہ شرما کر شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ تیزی سے چلی گئی۔


وہ جوس چھوٹی ٹرے میں تین گلاس رکھ کر علی کے کمرے میں گئی تو دیکھا علی صاحب اپنے کمرے میں کمپیوٹر کے سامنے کرسی پر بیٹھا موبائل دیکھ رہا ہے اس نے اس کے کندھے پر زور سے تھپڑ مارا اور غصے سے بولی تم ادھر آرام سے بیٹھے ہو گھر میں سو کام کھلے ہیں۔ جب اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ طیب تھا۔ صبا کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹ کر سیدھی طیب کے کپڑوں پر گری۔ اور وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ علی جو باتھ روم سے نکل رہا تھا یہ منظر دیکھ کر بولا۔ آنکھوں کے ساتھ دماغ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔ علی نے طیب سے کہا یار ماہنڈ نہ کرنا ہمارے ہاں رسم ہے کہ پہلی بار منگیتر گھر آے تو اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ منگیتر مارتی بھی ہے۔ طیب جس کے تین گلاس جوس گرنے سے بلکل ہی تباہ ہو چکے تھے۔اب علی نے کہا چلو یار ھادی کے کمرے میں اس کا کوئی پریس ہوا جوڑا دیتا ہوں۔ ھادی آتا نظر آیا تو علی نے ھادی سے کہا طیب کو اپنا کوئی جوڑا دو اس کے کپڑوں پر جوس گر گیا ہے۔ علی کو جلدی تھی اہیر پورٹ بھی جانا تھا باس کو لینے وہ طیب کو ہادی کے حوالے کر کے تیزی سے چلا گیا۔ ھادی اسے لیکر اپنے کمرے میں آیا اور اتفاق سے ایک نیا شلوار قمیض لاہٹ بلو کلر میں موجود تھا جو علی لے کر آیا تھا کہ جمعہ پڑھنے کے لئے بھی وہ پینٹ میں چلا جاتا ہے جب کہ طیب کو شلوار قمیض پسند نہ تھی۔ اس نے وہ طیب کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ پلیز گفٹ لے لیں تاکہ میری اس سے جان چھوٹ جائے۔ اس نے ساری سٹوری سنا دی تو طیب بولا ویسے تو میں نے بھی کھبی شلوار قمیض نہ پہنی نہ خریدی۔ ہاں مگر اسے میں اسے ضرور پہنا کروں گا۔ ھادی نے چھیڑا یہ سسرال کا میٹھا میٹھا سوٹ ہے نا اس لیے۔ وہ مسکرا کر ہلکہ سا قہقہہ لگا کر بولا بلکل۔ اور گھر کے پہنے سوٹوں پر جوس گرا کر میٹھا کر دیا جاتا ہے۔ ھادی جو شوخ مزاج تھا اس نے صبح سے صبا کو چھیڑ چھیڑ کر ناک میں دم کیا ہوا تھا اس نے پوچھا ویسے یہ جوس گرانے کی کس کی مہربانی ہے۔ تو طیب بولا اور کون جرآت کر سکتا ہے۔ پھر اس نے ساری سٹوری ھادی کو سنائی اور دنوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ ھادی کو بھابی نے آواز دی تو وہ طیب سے بولا آپ پلیز کمرے میں ہی کپڑے چینج کر لیں میں ابھی اتا ہوں اور تیزی سے چلا گیا۔


صبا جو جوس کے واقعے سے سخت پریشان اور گھبراہٹ کا شکار تھی اوپر سے علی کے باس کی فیملی بھی آنے والی تھی۔ اس نے علی کو بڑبڑا کر کوسا کہ اج ہی طیب کو بلانا ضروری تھا کیا۔ باس نے کہا وقت ضائع نہیں کرنا آج ہی بلاو۔ اس نے سوچا ھادی کو دیتی ہوں جوس دے آے۔ وہ اس کے کمرے میں آئی تو دروازہ اندر سے لاک اس نے زور زور سے دروازہ بجایا اور غصے سے بولی ھادی کے بچے باہر نکلو اندر کیا کر رہے ہو اتنا کام ہے میمان آنے والے ہیں۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور سامنے طیب کو دیکھ کر جوس کی ٹرے اس کے ہاتھ سے چھٹی اور اس کے اپنے کپڑوں پر گر گئی سامنے سے آتا ھادی یہ تماشا دیکھ رہا تھا تیزی سے قریب ا کر بولا پلیز تم جوس پلانے کا پروگرام کینسل کر دو۔ وہ طیب کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ بےچارے یہاں کام سے آے ہیں نہ کہ بار بار کپڑے بدلنے۔ ویسے تمھارا نشانہ اب چونک گیا ہے۔ جو کسی کے لے گھڑا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔ ان پے گرانے آئی تھی خود پر گر گیا ادھر سے علی آواز لگاتا آیا ھادی لالہ جی جوس مانگ رہے ہیں۔ اتنے میں صا پر نظر پڑی اور دیکھتے ہی بولا پھر سے۔ ھادی تیزی سے بولا نہیں اب نشانہ چونک گیا ہے۔ صبا کے ہاتھ میں ٹرے تھی گلاس نیچے گر چکے تھے اس نے ٹرے غصے سے نیچے پٹخی اور غصے سے چل بڑی۔ ھادی نے زور سے بول کر کہا طیب بھائی سوچ لیں ابھی بھی وقت ہے بہت غصے والی ہے کل یہ ٹرے آپ پر پٹخے گی۔ پھر ھادی کا زوردار قہقہہ بلند ہوا۔


وہ کمرے میں بیٹھ گئی۔ بہن جس کو ھادی َجوس کی سٹوری سنا چکا تھا پوچھا کیا ہوا۔ اس نے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا بہن قہقہہ لگا کر بولی پھر سے۔ صبا نے گھور کر دیکھا اور الماری کی طرف چل پڑی۔


علی کا باس اپنی فیملی کے ساتھ ا چکا تھا۔ وہ لوگ بہت خوش ہو رہے تھے ان لوگوں کے اتنے اچھے استقبال پر۔


باس کی بیٹی امبر سب سے زیادہ خوش تھی شوخ وچینچل اور معصوم بچی سی لگتی تھی۔ بے دھڑک بات بول دیتی تھی۔ اور والدین شرمندہ ہو جاتے تھے۔ لالہ جی نے ان کی شرمندگی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ آجکل ایسی بچیاں کہاں ملتی ہیں جن کا ظاہر اور باطن ایک ہو۔ ہمیں تو امبر بیٹی کی باتیں بہت بھلی لگ رہی ہیں ہمارے گھر میں تو خوب رونق لگی رہے گی۔ ہمارے گھر میں ھادی ہے جو اس گھر کی رونق ہے۔ اب ڈبل رونق لگ جائے گی۔


کرن بھی بھائی کے ساتھ انے پر بےچین تھی مگر اس کے پاپا نے اجازت نہ دی کہ ان لوگوں نے صرف طیب کو بلایا ہے۔ رات پڑ چکی تھی۔ امبر کے ڈیڈ طیب اور ھادی کی بزنس کی باتوں سے متاثر ہوئے۔ امبر کی ماں بھی سب سے جلد گھل مل گئ تھی۔ امبر کی ھادی سے بھی آتے ہی دوستی ہو گئی۔


دونوں کا مزاج ایک سا تھا۔ کرن فون کر کے معلومات لےرہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر پہنچ جائے۔


طیب کی علی کے باس سے بزنس ڈیل ہو چکی تھی۔ علی نے بزنس کو اس انداز سے سیٹ کیا ہوا تھا کہ ہر کسی کا زاتی پرافٹ تھا کوئی کسی کے آگے جواب دہ نہیں تھا اور آپس میں لنک بھی تھا۔


رات کا کھانا بڑے ھال میں نیچے بیٹھ کر قالین پر اکٹھے کھایا۔ اتفاق سے صبا کو طیب، ھادی اور علی کے سامنے والی رو میں ملی تھی۔ جب کھانے کے دوران جب صبا کولڈ ڈرنک ڈالنے لگی تو ھادی آہستہ سے بولا طیب بھائی بچ کے۔ وہ مسکرانے لگا۔ سب مسکرانے لگے۔ کھانا بہت ٹیسٹی تھا سب تعریف کر رہے تھے۔ اج فاروقی صاحب بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ لالہ جی سب کو فخر سے بتا رہے تھے کہ یہ سب میری بہو کا کمال ہے۔ علی کا بھائی اپنی بیوی کی تعریفیں سن سن کر خوش ہو رہا تھا۔ وہ شرما رہی تھی۔


سب کھانے کے بعد گرین ٹی کا ادھر ہی بیٹھ کر انتظار کرنے لگے اور ساتھ ساتھ گپ شپ بھی لگا رہے تھے۔ علی اور ھادی بھی لیڈیز کے ساتھ برتن اٹھانے میں مدد کرنے لگے۔ تو باس متاثر ہو گیا اور تعریف کرنے لگا۔ تو فاروقی صاحب نے تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ وہ بتانے لگے کہ وہ جب سے اس گھر میں شفٹ ہوے ہیں ان کی فیملی امریکہ گی ہے تب سے آج دن تک انہوں نے میری زمہ داری اٹھا لی اور ایک دن بھی ناغہ نہیں کیا۔ اتنی ڈیوٹی کوئی نہیں دے سکتا۔ اور ملازموں سے پیار بھرا سلوک کرتے ہیں۔ چھ بجے شام سب کو چھٹی دے دیتے ہیں چاہے کچھ بھی ہو۔


لالہ جی نے کہا کہ ایک تو ان کو بھی آرام اور اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا حق حاصل ہے۔ دوسرے ہر گھر کی پرائیویسی ہوتی ہے صبح سے رات تک ان کو گھر رکھنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ کسی کا بھی کچھ اعتبار نہیں۔ ہم اپنی نیت پر چلتے ہیں۔ جب بھی کام ختم ہو جائے ہم ان کو چھٹی دے دیتے ہیں۔ چاہے شام تک ڈیوٹی ہو اور صبح ہی کام ختم ہو جائے۔ اور ان کے سامنے گھر کی باتیں کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ اگر کہیں جانا ہو تو ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ گھر میں الارم سسٹم لگا دیا ہے اور کوئی چوکیدار نہیں رکھا۔ کیا پتا چوکیدار ہی نقب لگا دے۔ باس کافی متاثر اور خوش ہو رہا تھا اور مطمئن بھی کہ اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ درست جگہ ہوا ہے


ماں بھی مطمئن لگ رہی تھی۔


طیب نے اجازت چاہی کہ دیر ہو رہی ہے اور وہ چاے نہیں پی سکتا۔ اس نے ادھر سے ہی خدا حافظ کہا اور اٹھنے سے منع کیا۔ اور علی باہر چل پڑا۔ اور گاڑی کے پاس پہنچ کر طیب سے بولا کہ وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ تھوڑا حیران ہوا۔ پھر طیب اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا اور اس کو معزرت کرتے ہوئے مدثر کے بارے میں بتانے لگا تو طیب نے پیار سے اس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے پچھلے روپے کی معافی مانگ کر کہا آپ نے پہلے بھی میری بہن کو برباد ہونے سے بچانے کے لیے نیک نیتی سے کوشش کی تھی اور اب کھل کر سب بتاہیں۔ علی نے تمام معلومات اس کے گوش گزار کر دیں۔ اور موبائل پر اس کو ثبوت دیکھانے لگا۔ طیب رونے لگا۔ علی اس کو تسلی دینے لگا۔ اور کہا کہ جو کچھ ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ والدین کو اور کرن کو کچھ نہیں بتانا۔ ہمارے گھر میں ہر بات سب کو پتا ہوتی ہے اور اس کے علاوہ کسی کو نہیں بتائی جاتی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے والدین دکھی ہو جاہیں گے وقت آنے پر سب اوپن ہو جائے گا۔ اور ہم اب مدثر کے ساتھ رخصت نہیں کریں گے اور کرن کا رشتہ کسی اچھی جگہ سچائی بتا کر طے کر کے مدثر سے طلاق لے لیں گے۔ طیب روتے ہوئے بولا اس زمانے میں اتنا عظیم کون ہو گا جو ایسی لڑکی سے شادی کرے گا جس کی ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ علی نے کہا کہ اگر نہ ملا تو ھادی اگر قبول ہو تو۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.