نرالہ ساجن 25
Episode 25
ھادی اور امبر نکاح کر کے آے تو امبر ڈر رہی تھی کہ اب کیا ہو گا گھر والوں کو کیا جواب دیں گے۔
امبر اور ھادی میں دوستی بڑھنے لگی۔ امبر اکثر ماں سے دبے لفظوں میں کہتی۔ موم مجھے علی بلکل بھی پسند نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے وہ ڈیڈ ہے۔ ڈیڈ تو پھر کھبی ہنس تو لیتے ہیں۔ وہ تو ہنستا بولتا ہی نہیں ہے۔ بچوں کی طرح میرا خیال رکھتا ہے۔ رومینٹک کی تو اے بی سی بھی نہیں جانتا۔ ایسے بزرگ سوبر نما پارٹنر کے ساتھ میں بور لاہف نہیں گزار سکتی ہوں۔ آپ پلیز اس سے میری انگیجمنٹ ختم کر دیں۔ میں ایک منٹ بھی اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ ساری زندگی کیسے گزار سکتی ہوں۔ ماں اس کی باتوں کو سنی ان سنی کر دیتی اور دھیان نہ دیتی۔ جانتی تھی بچی ہے۔ جب شادی ہو گی خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ اس کی ماں نے اپنے شوہر کو اس بارے میں کھبی کچھ نہ بتایا۔ اور اس بات کو معمولی لیا۔
امبر نے پہل کی اور ھادی سے اپنے دل کی بات کر دی کہ وہ علی سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس کے آہیڈیل سے بلکل میچ نہیں کرتا۔ اور تم اس پر فٹ آتے ہو اور یہ کہ اس نے اپنی موم کو سب بتا دیا ہے۔ پھر اس نے جھوٹ بولا کہ وہ اس رشتے پر راضی ہیں۔ وہ کافی حیران ہوا وہ تو اسے علی کی امانت سمجھتا تھا اور بھائی کی منگیتر کے ساتھ ایسا تعلق بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے اسے سمجھانا شروع کر دیا کہ علی بھائی خوبیوں میں مجھ سے بہت زیادہ آگے ہیں۔ وہ مجھ سے زیادہ ہینڈسم ہیں۔ مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار ہیں۔ بہت سوبر گریس فل پرسنیلٹی ہیں۔ موقع کی مناسبت سے بات کرنا، فیصلے کرنا اور دوسروں کو ڈیل کرنا ان کے لیے معمولی بات ہے جبکہ میں سوچتا ہی رہتا ہوں۔ اور انہوں نے تم سے منگنی سے انکار نہیں کیا۔
وہ بولی اس وقت وہ ڈیڈ کے آگے مروت میں آ گئے تھے۔ مجھے فاروقی صاحب کی بیٹی نے بھی بتایا تھا کہ علی کرن کو پسند کرتا ہے وہ تمھیں خوش نہیں رکھے گا۔
ھادی بھی جانتا تھا کہ کافی پہلے صبا ھادی سے لڑ رہی تھی کہ تم اس سے پیار کرتے ہو تو وہ جواب میں چپ ہو گیا تھا تب سے اس نے ان کو نوٹ کرنا شروع کیا تو اسے محسوس ہوتا کہ یہ بات سچ ہے کرن بھی اسے دیکھ کر کھل جاتی۔ تو اس کو یقین ہو گیا۔ پھر کرن کا نکاح ہو گیا تو علی نے ھادی کے خیال کے مطابق کہ اب کرن پرائ ہو چکی ہے۔ دوسرا جاوید صاحب کی آفر قبول کرنے سے ان کی فیملی کو فائدہ مل سکتا تھا اس لیے انہوں نے اسے قبول کر لیا۔ اور اس کے یقین کے مطابق وہ بےشک کرن کو پسند کرتے ہوں وہ جاوید صاحب سے وعدہ خلافی کھبی نہیں کریں گے اور امبر کواس کے حق سے کھبی محروم نہیں کریں گے۔ اور اس کے حقوق وفراہض پورے کرنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ اور کرن کو بھی ہمیشہ میری امانت سمجھیں گے مجھے اپنے بھائی پر اندھا اعتماد ہے۔
امبر اس کو سمجھانے لگی کہ دیکھو ھادی میں اور تم ایج فیلو ہیں۔ ہمارے مزاج بھی آ پس میں ملتے ہیں۔ ہم میں انڈرسٹینڈنگ ہے۔ کرن اور علی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ایج فیلو بھی ہیں۔ دونوں ہم مزاج ہیں تو اس لیے اب ہم خود ہی اس رشتے کو چینج کر کے سب کے حق میں بہتری لا سکتے ہیں۔ علی کے دل کی مراد بھی بھر آئے گی اور کرن بھی خوش ہو جائے گی۔ اگر ہم گھر والوں سے کہیں گے تو وہ کھبی نہیں مانیں گے اور جب ہم نکاح کر لیں گے تو سب کو سمجھ ا جاے گی کہ یہی سب کے حق میں بہتر تھا پلیز مان جاو جلدی۔ورنہ ڈیڈ روز میری شادی کا ٹاپک لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اچانک وہ شادی فکس کر دیں گے اور چار انسان ساری زندگی روتے رہیں گے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ تمھارا بھائی دکھی زندگی گزارے۔ مجھ میں تو وہ سلیقہ اور خوبیاں بھی نہیں ہیں جو کرن میں موجود ہیں بڑی بہو ہونے کے ناطے کرن ہی اس گھر کو سوٹ کرتی ہے۔ میں تو بھلکڑ ہوں۔ اگر تم بھائی کی بہتری چاہتے ہو تو پلیز جلدی سے مان جاو۔ اگر بڑوں نے شادی کی ڈیٹ فکس کر دی تو پھر ان کو اس بات کے لئے منانا مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ وہ اسے اپنی بےعزتی تصور کریں گے اور کھبی نہیں مانیں گے۔
ھادی نیم رضامند ہوتے ہوئے بولا۔ مگر گواہ کہاں سے لائیں گے۔ وہ خوش ہوتے ہوئے تیزی سے بولی اس کی تم فکر نہ کرو وہ فاروقی صاحب کی بیٹی ہے نا وہ سب کر دے گی۔ مگر وہ کیوں کرے گی وہ حیران ہوتے ہوئے بولا۔ وہ سر جھکائے ہوئے قدرے شرمندہ سی بولی۔ دراصل وہ میری دوست ہیں۔ مگر وہ تو تم سے بڑی ہیں۔
وہ بولی وہ کہتی ہیں کہ دوستی میں عمر کی کوئی قید نہیں۔ تمھاری دوستی کب اور کیسے ہوئی۔ وہ میں سب بعد میں بتاؤں گی پہلے ہم پلان کے مطابق کل نکاح کریں گے۔ میں مسز فاروقی کی بیٹی کو فون کر دوں گی وہ گواہ کا ارینج کر دیں گی انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی اپنے پیار کو پانے کے لئے ان کی ضرورت ہوئی تو وہ ان کو بتاے وہ سب ارینج کر دیں گی۔ اس نے اسے اتنا منایا اتنے پیار سے لبھایا اور روتے ہوئے بولی میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اگر زبردستی میری شادی علی سے کی گئی تو میری موت کے زمہ دار تم ہو گے۔ میں شادی والے دن کچھ کھا کر مر جاوں گی۔ پھر روتے رہنا۔ مجھ جیسی پیار کرنے والی نہیں ملے گی۔ اور تمھارے اور میرے والدین کی بدنامی کا باعث بنے گی۔ اگر ہم نکاح کر لیتے ہیں تو گھر والے دنیا والوں کے سامنے سنبھال لیں گے اور پھر ہم بھی خوشیوں بھری زندگی گزاریں گے اور علی اور کرن کی زندگی میں بھی بہار ا جاے گی۔ اس طرح وہ مجبور ہو گیا۔ اور بھائی کی خوشی کے لیے بھی مان گیا اور اس کے مرنے والی دھمکی سے بھی ڈر گیا۔ جس طرح کی وہ جزباتی تھی اس سے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ ایسے کر گزرے گی۔
وہ اکثر اپنی کوئی نہ کوئی شاپنگ کے لیے ھادی کے ساتھ باہک پر جاتی رہتی تھی۔ اسے باہک پر جانا اچھا لگتا تھا ایک تو اسے رومینٹک لگتا۔ دوسرے وہ اکیلی اس کے ساتھ جاسکتی تھی۔
اب رات کو اس نے فاروقی صاحب کی بیٹی کو خفیہ فون کیا ھادی سے بھی بات کروائی۔
فاروقی صاحب کی بیٹی نے بھی وہی باتیں سمجھاہیں جو امبر نے اس کو سمجھاہیں تھیں۔ اس نے بھرپور تعاون اور مدد کا وعدہ کیا۔
پلان کے مطابق ان کا نکاح ہو گیا۔ فاروقی صاحب بھی موجود تھے اور تسلی دے رہے تھے کہ وہ لالہ جی کو منا لیں گے۔ لالہ جی مانے تو سمجھو سب مانے۔ ھادی کو فاروقی صاحب کی وجہ سے حوصلہ پیدا ہو گیا اور وہ اس کام کو آسان سمجھتے ہوئے عمل کر بیٹھا۔ فاروقی صاحب کی فیملی تو مبارک باد دے کر چلتی بنی کہ جب ضرورت ہو گی ہمیں بلا لینا۔ اور وہ چلے گئے۔ جبکہ ھادی اور امبر سمجھ رہے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ان کے گھر جاہیں گے اور لالہ جی کو بتانے میں مدد کریں گے مگر وہ کوئی بہت ضروری مصروفیت کا بتا کر کہ ڈاکٹر صاحب کی آج منگنی ہے اور وقت نہیں ہے پھر بھی وقت نکال کر ا گے ہیں
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.