نرالہ ساجن 17
Episode 17
صبا کو ڈاکٹر کا فون آیا کہ وہ لوگ نکل رہے ہیں۔ صبا نے سب کو بتایا اور گھر میں ان کی آمد کی افراتفری مچ گئی۔ ھادی کو باہک پر گلی کے نکڑ پر بھیج دیا گیا تاکہ ان کو گھر ڈھونڈنے میں آسانی میسر آ جاے۔ گھر میں ان کی آمد کا بےچینی سے انتظار کرنے لگے۔ گلی کے نکڑ پر پہنچ کر ھادی کو ان کی گاڑی نظر آ گئی۔ ھادی نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا۔
گاڑی رک گئی ھادی نے اتر کر ادب سے سلام کیا اور ڈاکٹر بھی اترا ھادی نے آ گے بڑھ کر ہاتھ آگے بڑھایا مگر ڈاکٹر نے اگنور کر دیا۔ ھادی شرمندہ سا ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ گھر کدھر ہے۔ بس تھوڑا ہی آگے ہے تین چار گلیاں آگے۔ ھادی نے جواب دیا۔ اتنی تنگ گلیوں میں گاڑی کیسے جاے گی۔ ھادی نے کہا کہ جی گاڑی کے ساتھ باہک بھی گزر جاتا ہے۔ وہ پریشان کھڑا تھا کہ اب کیا کرے۔
گاڑی میں سے بہن نے پکارا اور بولی موم کچھ کہہ رہی ہیں۔ وہ قریب جا کر دروازے کے شیشے میں بات کرنے لگا۔ کچھ بات چیت کے بعد وہ اچھا کہہ کر ھادی سے مخاطب ہوا اور کہا کہ صبا کو بلا کر لاو۔ ھادی حیران ہوا۔ زور دیکر پوچھا جی صبا کو۔ وہ وثوق سے بولا جی ہاں صبا کو۔ ھادی نے اچھا کہا اور گھر آ کر بتایا کہ ڈاکٹر صاحب صبا کو بلا رہے ہیں۔ گھر والے حیران ہوے اور علی نے ھادی سے باہک لیا اور صبا کو بٹھا کر چل پڑا۔ گلی کے نکڑ پر پہنچے تو ڈاکٹر صاحب اپنی ماں، بہن اور دو بچوں کے ساتھ آے تھے۔ صبا نے باہک سے اتر کر سلام کیا۔ علی نے ہلکہ سا سلام کیا۔ تو ان لوگوں نے علی اور صبا کے سلام کا جواب نہ دیا۔ ڈاکٹر کی بہن جو فل فیشن ایبل لباس میں ملبوس تھی۔ سلیو لیس بازو ڈیپ گلا کے باعث علی کی نظریں جھک گئیں۔ باہر آ کر صبا پر برس پڑی کہ تم نے بتایا کیوں نہیں کہ تم اس گندگی بھرے علاقے میں رہتی ہو۔ سامنے پلاٹ میں گندگی سے میرے بچے بیمار ہو سکتے ہیں۔ صبا نے افسردگی سے بولا کہ میں نے بتایا تھا کہ میں poor ہوں۔ بہن نے کہا کہ اگر تم poorتھی تو ڈاکٹر کیسے بن گئ۔ تم نے اس کی ڈگری چیک کی تھی اس نے بھائی سے پوچھا۔ وہ بولا جی وہ تو اصلی تھی۔ میں نے سوچا کہ تم تھوڑی بہت غریب ہو گی۔ کم از کم ہمارے ہم پلہ نہ ہو گی۔ تمھارے گھر کے آگے گاڑی بھی نہیں جا سکتی۔ اور ہم ادھر رشتہ مانگنے جاہیں۔ ہم تو سوال نہیں پیدا ہوتا ہے کہ اس اف اس غلیظ گھر سے رشتہ کریں۔ ہم تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ اس علاقے میں ا کر بے عزت ہونا پڑے گا شکر ہے میں اپنے شوہر کو نہیں لائی۔ ورنہ ان کے سامنے کتنی سبکی ہوتی۔ اور وہ کتنا مزاق بناتے کہ تم کتنے کم عقل اور ے وقوف ہو جو بغیر سوچے سمجھے منہ اٹھا کر آ گے۔ بہن نے پھر بھائی کو ڈانٹا کہ تم نے ہمارا وقت برباد کیا چھان بین نہیں کی۔ ڈاکٹر نے صبا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے بھی ظاہر نہیں ہونے دیا نا۔ ورنہ میں تم لوگوں کو لانے کی غلطی کرتا۔
علی نے ھادی کو دوسرے باہک پر آتے دیکھا اور جلدی سے بولا صبا کو گھر چھوڑ او۔ صبا سمجھ گئی کہ علی غصے میں ہے وہ بولی چلو علی تم بھی چلو۔ وہ بولا ہاں لے جاو
بہن کو اور اپنی ہی اس محلے کی کلاس میں سے اس کا رشتہ کرانا۔ کوٹھیوں کے خواب چھوڑ دو۔ اتنے میں کچھ محلے دار جو گزر رہے تھے وہ بولے علی بیٹا کیا بات ہے۔ علی نے غصے سے کہا ان لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلانی ہے۔ اس نے ڈاکٹر کا گریبان پکڑ کر کہا تمھاری جرآت کیسے ہوئی میری بہن کو زلیل کرنے کی۔ اور اس پر پل پڑا۔ ھادی نے پھرتی سے جاکر اس کی بہن اور ماں کا موبائل چھین کر جیب میں ڈال لیا۔ وہ صبا پر چلانے لگی اور پولیس کی دھمکی دینے لگی۔ محلے والوں نے بھی ڈاکٹر کو مارنا شروع کر دیا۔ علی نے کہا کہ بچا کر مارو کہ مرے نہ۔ گھر جاسکے۔ صبا نے دیکھا وہ چیخ کر اب منتوں پر آ گی ہے۔ ماں بھی معافیاں مانگنے لگی اور بہن بھی صبا نے کہا بس کر دو علی پلیز۔ ڈاکٹر کی ماں بہن ڈاکٹر کی منتیں کرنے لگیں۔ تب علی مسکرا کر بولا اب عقل ا گی نا۔ اگر گھر جا کر پولیس کو پیچ میں لاے تو اس گھر میں گھس کر تمھاری ماں بہنوں کے ساتھ برا سلوک کروں گا جس طرح سڑک پر میری بہن کو زلیل کیا۔ وہ وعدہ کرنے لگیں کہ پلیز ہمیں جانے دو ایسا کچھ نہیں کریں گے دیکھو بچے بھی بری طرح ڈر گئے ہیں اور رو رہے ہیں۔ علی نے کہا کہ پہلے میری بہن سے سب معافی مانگو تو سب نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تب ھادی نے ان کے فون واپس کر دیے۔ اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے گاڑی میں بھٹا تو علی نے کہا کہ تم سب سن لو آ ہندہ کسی غریب کو بےعزت کرنے کی کوشش کی تو ہمارے جیسے لوگ مل گے تو جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یہ ہمارا محلہ ہے جہاں سب ایک فیملی کی طرح رہتے ہیں۔ اور سب ساتھ دیتے ہیں۔ جاو اب دفع ہو جاو۔ میری بہن تمھاری نوکری پر تھوکتی ہے۔ وہ جلدی سے دروازے لاک کر کے چلا گیا رش پڑ چکا تھا۔ امام دین دور کھڑا خوش ہو رہا تھا کہ اگر ہر غریب اسی طرح امیروں سے نہ ڈرے تو یہ امیر کسی غریب کو زلیل کرنے کی جرات نہ کریں۔ میں نے بھی ان امیروں سے ڈر ڈر کر ساری زندگی ان لوگوں کے ہاتھوں زلیل ہوتے گزاری۔ جان سے نہ مارو مگر اتنا مارو کہ ان کو دوبارہ کسی کو زلیل کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔
امام دین نے علی سے کہا کہ میں ویسے تو کھبی تمھیں لڑائی جھگڑے کی اجازت نہ دوں نہ ہی اس چیز کو پسند کرتا ہوں۔ علی جھٹ غصے سے بولا معاف کرنا لالاجی میں خود لڑائی جھگڑے کو پسند نہیں کرتا مگر جب اس نے گھر سے بلایا تاکہ اسے روڈ پر زلیل کر سکے اور اس بات کی اسے سزا دے کہ وہ غریب ہے۔ علی نے کہا کہ میں نے اسے جان سے نہیں مارنا تھا اور اگر صبا نہ ہوتی تو اس کی بکواس میں برداشت کر کے گھر ا جاتا۔ مگر ہمارے گھر کی عورتوں کو کوئی زلیل کرنے کی جرات کیوں کرے۔صبا کی بڑی بہن بولی اچھا دفع کرو۔ چلو موڈ سیٹ کرو۔ جو کچھ ان کمبختوں کے لیے تیار کیا تھا اسے خود کھا کر مزے کرتے ہیں۔ اچھا ہے ایسے برے لوگوں کا پہلے ہی پتا چل گیا۔ اگر نیے گھر میں یہ لوگ آتے اور رشتہ ہو جاتا پھر ان کی اصلیت کھلتی تو پھر پھنس جاتے اور صبا کی زندگی برباد ہو جاتی۔ چلو جو ہوا اچھا ہوا۔ بڑی مشکل سے سب نارمل ہوئے۔ علی نہا کر آیا اور کھانا مانگا۔سب کھانے لگے موڈ بہتر ہو گیا۔ علی کی بھابی نے ھادی کو چھیڑا کہ تم نے موقع پر عقل سے کام لیا اور موبائل لے لیے۔ ورنہ وہ پولیس کو کال کر سکتیں تھی۔
علی کے ماموں نے سمجھایا کہ بیٹا ان لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔ لڑائی نہیں کرنی چاہیئے۔ وہ بولا اگر صبا پیچ میں نہ ہوتی تو میں کھبی نہ لڑتا۔ مجھے خود لڑائی جھگڑا پسند نہیں ہے مگر مجھ سے بہن کی بے عزتی برداشت نہ ہوئی۔
امام دین نے اگلے دن سب کے صلاح و مشورے سے کرن کے گھر yes کا فون کیا تو وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور آنا چاہتے تھے رسم منگنی کے لیے۔ اور ساتھ اس رشتے کو کرن کی شادی تک خفیہ رکھنا چاہتے تھے کرن پہلے ہی صبا کو ساس کی تفصیل بتا چکی تھی اور شرمندگی سے معزرت کر رہی تھی۔ کرن کے باپ نے بھی بہت معذرت کے ساتھ درخواست کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ آپ ماہنڈ نہیں کریں گے اور ایک مجبور بیٹی کے باپ کی مجبوری کو سمجھیں گے اور اس معاملے میں تعاون بھی کریں گے۔ بس ایک بار بیٹی کی ڈولی اٹھ جائے۔ شادی کے بعد اس کی ساس کچھ نہیں کر سکے گی۔ امام دین نے کہا کہ بس بات ہو گئی۔ اب ہم بھی گھر کی شفٹنگ میں مصروف ہیں اپ بیٹی کی شادی کر لیں۔ نیے گھر میں آ کر ایک بار رسم کر جانا۔ اس نے بہت شکریہ ادا کیا۔
گھر جو علی کو پسند آ یا وہ جدید طرز پر بنا اعلیٰ سوسائٹی میں بنا تھا علی نے ساری جمع پونجی اس گھر پر لگا دی۔ اس کو درمیانے درجے کے فرنیچر سے آراستہ کیا۔ کیونکہ بجٹ کم ہو گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک بار گھر بن جائے تو روکھی سوکھی کھا لیں گے۔
علی نے باس کو فون کرکے بتایا کہ اس کے گھر کے قریب تو گھر نہیں مل سکا۔ میرے گھر کے اوپر والا پورشن خالی ہے آپ ادھر رہ لیں۔ بعد میں پسند کر کے لے لینا۔ اس نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس کے پاس ا کر رہنے پر رضامند ہو گیا۔
نیے گھر میں آ کر سب بہت خوش تھے۔ تھوڑی بہت آیات وغیرہ پڑھ کر گھر میں ختم دلا دیا۔ اور فیصلہ کیا کہ بڑا ختم زرا ٹہر کر کروا دیں گے۔
صبا کی رسم منگنی سادگی سے ادا کرنے کا ارادہ تھا کہ باس نے کہا کہ وہ لوگ بھی اس میں شامل ہونے کے لیے بےچین ہیں۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.