Back to Novel
Nirala Saajan
Episodes

نرالہ ساجن 18

Episode 18

امام دین کے نام سے گھر کے باہر لالاجی اس کے نیچے امام دین آشیانہ تحریر تھا۔ امام دین نے جلد ہی سوسائٹی کی مسجد میں علیک سلیک بڑھا لیا۔ وہ وہاں لالہ جی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ بزرگ حضرات اس کی کمپنی کو پسند کرتے اور اس کے انتظار میں رہتے۔ امام دین کو علی نے گر سکھا دیے۔ سوسائٹی میں رہنے کے۔ اب تو امام دین ٹراوزر اور ٹی شرٹس بھی پہننے لگا تھا۔ پہلی بار تو بیوی بہت زور زور سے ہنسی تھی۔ سب دھیرے دھیرے مسکرا رہے تھے۔ صبا ے بہت تعریف کی تو اس کی دیکھا دیکھی سب نے کی


صب نے باپ کو بھی ایسے ڈریس پہننے کا اعتماد دلایا۔ وہ رونے لگے کہ کھبی ہم لوگ ایسے گھر اور ایسے لباس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ لوگ َسوٹ بوٹ میں بہت اچھے لگتے۔ محسوس ہی نہ ہوتا کہ وہ کسی غریب بھی رہے ہیں۔ ھادی اور علی کے کاروبار میں اللہُ تعالیٰ نے بہت برکت ڈالی اور وہ جلدی جلدی ترقی کے منازل طے کرنے لگے۔


علی بے ایک بڑا کمرہ قالین بچھا کر اور گاو تکیے لگا کر سب فیملی کے اکٹھے بیٹھنے کے لئے ایک بڑی ایل سی ڈی لگا کر سیٹ کر دیا۔ سب وہاں مل کر بیٹھتے۔ گپ شپ لگاتے۔ کھاتے پیتے۔


کرن کو بہت تجسس ہو رہا تھا ان کا نیا گھر دیکھنے کا۔ مگر اس کے پاپا کہتے جب تک وہ خود نہ بلائیں نہیں جانا۔ صبا اس سے رابطے میں تھی اس کو لاہیو وڈیو دیکھاتی رہتی۔


اس کی ساس اب کم آنے لگی تھی۔ کرن کی ماں اکثر بیٹی کی قسمت پر رو پڑتی۔ شوہر تسلی دیتا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو۔ سب ا چھا ہو گا۔ کرن کی ساس کی نیچر کھل کر سامنے آ چکی تھی اس کی طرف سے سب پریشان تھے۔ کرن کی ماں کہتی۔ اگر بیٹی کا نکاح نہ کیا ہوتا تو میں خود منگنی توڑ دیتی اور علی کے چھوٹے بھائی کو رشتہ دے دیتی۔ کرن جو چاہے لیکر آ رہی تھی اور اکثر ماں کے ایسے کوسنے سنتی رہتی تھی۔ ہنس کر بولی ماما وہ مجھ سے چھوٹا ہے۔ ماں بولی تو کیا ہوا۔ سال دو سال ہی چھوٹا ہو گا۔ میں نے تو چار پانچ سال بڑی لڑکی اور لڑکے کو آپس میں خوش رہتے دیکھا ہے۔ ہم نے بھی بس جلدی سے نکاح کر دیا۔ منگنی کر دیتے۔ لڑکا کسی اور کے چکر میں تھا نہ جانے میری بیٹی کو وہ پیار و توجہ دے گا بھی کہ نہیں۔ شوہر نے کہا ارے اس لڑکی کی شادی ہو چکی ہے۔ نی ملے تو پرانی کو کون یاد رکھتا ہے۔ اب اپنے بیٹے کو ہی دیکھ لو۔ صبا سے رشتے پر کتنا خوش ہے۔ کرن چھیڑتی ہے تو کیسے خوش ہو جاتا ہے ان کے بارے میں اب اکثر پوچھتا رہتا ہے۔ باپ بولا شکر ہے خدا کا۔ کرن کی ماں کوستے ہوئے بولی۔ ملی تھی ناں بازار میں۔ جو کسی کے ساتھ برا کرتا ہے اس کو بھی ویسا ہی صلہ ملتا ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ جس کے ساتھ گیی تھی اس ساجد نے اس سے سارا پیسہ لوٹ کر نشے میں اڑا دیا۔ اب وہ برے حالات میں ہے اسے مارتا پیٹتا ہے طعنے دیتا ہے کہ تو آوارہ اور بدچلن ہے۔ شوہر کے ہوتے ہوئے میرے ساتھ تعلق رکھتی تھی نہ جانے اب اور کتنوں سے تعلق رکھا ہو گا۔ ہر وقت اس پر شک کرتا ہے۔ بیٹا بھی کھسرا پیدا ہوا توبہ استغفار علی کا مزاق اڑاتی تھی۔ اس بچے کے بعد اب اس میں اور بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ اب وہ کہتی ہے وہ بچہ ہی اس کا سہارا ہے۔ وہ کھسرا ہونے کے سبب اس کو نہیں پوچھتا کہتا ہے اسے کسی مزار پر چھوڑ او۔ مجھے تم پر بھروسہ نہیں نہ جانے کس کا ہے۔ ویسے بھی میں اس کو کیا کروں۔ یہ تو کھسرا ہے۔ چندہ کہتی۔ کھسرا لفظ سن کر میرا دل کٹتا ہے۔ کہ ہم معاشرے کے ٹھیکیدار ان مظلوموں پر کتنے ستم ڈھاتے ہیں۔ جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ وہ اب اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتی وہ ماں ہے اور وہ واحد اس کا سہارا ہے۔ خود محنت مزدوری کرتی ہے۔ گھروں میں کام کرتی ہے۔ ایک گھر میں کھانا بناتی ہے چونکہ کھانا اچھا بنا لیتی ہے اس لیے انہوں نے سرونٹ کوارٹر دیا ہے۔ شوہر نکما ہے کچھ نہیں کرتا۔ کہتا ہے تم مجھے بھی چھوڑ جاو گی۔ وہ یقین دلانے کی بہت کوشش کرتی ہے۔ اب وہ کہاں جاے۔ اب تو ایکسیڈنٹ میں اس کے شوہر کی ٹانگ بھی ٹوٹ گئی ہے۔ اب بھی وہ اس سے لڑتا ہے کہ تو مجھے چھوڑ جاے گی۔ مگر وہ اب اس کو نہیں چھوڑتی۔ کہ نام کا ہی شوہر ہو تو تب بھی بڑا سہارا ہوتا ہے۔ اکیلی عورت کو دنیا جینے نہیں دیتی۔ اس کی خوبصورتی مانند پڑ چکی تھی آنکھوں کے گرد حلقے جسم سخت محنت اور زلت سے لاغر۔ مالکن بہت سخت ہے۔ مگر کھانا دے دیتی ہے اور رہاہش دی ہے اور وہ گزارہ کر رہی ہے۔ کرن نے پرس سے رقم دی تو لیتے ہوئے رو پڑی۔ بولی میں نے چپکے سے ابارشن کروا دیا تھا۔ آج اگر وہ گناہ نہ کرتی جاہز بچے کو نہ مارتی تو اس کے پیدا ہونے سے شاید مجھے عقل ا جاتی۔ اور بچہ میرے پاوں کی زنجیر بن جاتا اور میں اپنی جنت سے نہ نکلتی۔ میں نے ناشکری کی۔ جس نعمت کی ناشکری کرو وہ نعمت چھن جاتی ہے اور چس نعمت پر اللہُ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اس سے اور نوازتا ہے۔ اب وہ کہتی ہے بچے کو تعلیم دلاے گی۔ معاشرے میں اسے دنیا سے مقابلہ کرنے اور حوصلے سے رہنے کا سبق سکھاے گی۔ اسے ناچ گانے کی طرف نہیں لگاے گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بناے گی دن رات محنت کرے گی۔ بچہ بہت معصوم اور پیارا تھا کرن نے کہا کہ وہ اس کی تعلیم میں مدد کرے گی تو رو رو کر پاوں پڑ گئی اور معافیاں مانگنے لگی کہ میں نے تمھاری قسمت خراب کر دی۔ جس گھر میں تمھار نکاح ہوا ہے وہ عورت بہت گھمنڈی اور مغرور تھی۔ چلو جو ہوا سو ہوا۔ اب میں اپنے اللہ تعالیٰ سے تمھاری اچھی قسمت کی ہر وقت دعائیں کروں گی۔ کرن نے اسے گلے لگا کر معاف کر دیا۔ اور ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ چندہ حیرت سے بولی کیا تم نے مجھے آسانی سے معاف کر دیا۔ جبکہ میں جانتی تھی کہ علی لڑکا ہے کیونکہ ہماری ایک رشتہ دار ان کے محلے میں رہتی تھی۔ وہ اس کو اکثر پیپر دینے حلیہ چینج کر کے جاتے دیکھتی رہتی تھی۔ اس کی ماں کی دائ نے خفیہ سب کو بتایا ہوا تھا۔ سارے محلے کو پتہ تھا مگر امام دین کا اس محلے میں رعب تھا جس کی وجہ سے کوئی کچھ نہ کہتا۔ علی بھی تم سے پیار کرتا تھا وہ میری اور ساجد کی حقیقت کو بھی جان گیا تھا اور تمھارے لیے بہت پریشان رہتا تھا۔ میں ساجد کے پیار میں اندھی تھی۔ سوچتی تھی ساجد مجھے ان رسموں کے بندھن سے آزاد رکھے گا۔ ہم ہر وقت آزاد رہیں گے۔ ادھر مجھے صبح سویرے اٹھنا یڑتا ہے۔ سب کی جی حضوری کرنی پڑتی ہے۔ وہاں میں ان رسموں سے آزاد ہوں گی شوہر کو الگ خوش کرو۔ میں تو ساجد کے کہنے پر طیب سے شادی پر راضی ہوئی تھی۔ تم لوگوں کا گھر مجھے قید خانہ لگتا۔ مگر میرے جیسی آوارہ مزاج کی عورتوں کی مثالیں بہت کم ہیں ان کا پردہ بھی جلد فاش ہو جاتا ہے۔ کچھ کچے زہن کے مرد ہم جیسی عورتوں کو دیکھ کر اپنی شریف بیوی پر شک کر کر کے خود بھی زہنی ازیت میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کو بھی رکھتے ہیں۔ میرے گھر میں میرا بھائی مجھے دیکھ کر اپنی شریف بیوی پر شک کرتاہے۔ وہ بولی ہم جیسی عورتیں تو عبرت کا نشان ہیں۔


امام دین خدا ترس بھی تھا محلے میں کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس کے پاس آتے تھے اور جہاں تک ہو سکے مدد کر دیتا تھا۔ لوگ جانتے تھے کہ وہ سب کا ہمدرد ہے۔ اکثر لوگ اپنی امانتیں بھی اس کے پاس رکھواتے تھے۔ اگر کوئی لڑائی جھگڑا ہو تو فیصلہ بھی اسی سے کرواتے تھے۔ امام دین نے ایک دن محلے والوں کو بلا کر ان کی گھر میں دعوت بھی کی اور ان کی امداد کے لئے ساتھ راشن کے پیکٹ بھی دیے۔ اہل محلہ بہت متاثر ہوئے کہ اس نے اپنے گھر کے اندر بلا کر ان کو کھانا کھلایا اور ساتھ راشن بھی بانٹا بغیر میڈیا کے نشر کیے۔ اس بات سے اس کی سوسائٹی میں اور عزت بڑھ گئی۔


سامنے گھر میں روز کھانا بھی ریگولر بھجواتا کہ ان کی فیملی امریکہ گئی ہوئی تھی۔ اس کا نام فاروقی صاحب تھا۔ وہ تو اب گھر بھی انے لگے تھے۔ ساتھ صبح صبح امام دین اور وہ ٹریک سوٹ پہن کر واک پر بھی جاتے۔ گھر آتے تو علی کی بھابی نے ان کے لیے جوس بنایا ہوتا۔ لان میں بیٹھ کر پیتے۔ فارغ وقت میں شطرنج کھیلتے۔ امام دین کو غربت میں ہی چیس گیم پسند تھی وہ کھبی کبھار علی کے ساتھ کھیلتا تھا۔


علی نے اپنے محلے کے لوگوں کو اپنے ہاں ملازم رکھا کسی کو مالی کی نوکری دی تو کسی کو گھر کی صفائی کی۔ گھر بہت بڑا تھا اور صبا کے کہنے پر کہ ان کو بھی اب آرام ملنا چاہیے۔ اور غریبوں کو روزگار بھی ملے گا۔ ان لوگوں سے یہ لوگ اچھا برتاؤ کرتے۔ امام دین مالی کو لان میں کرسی پر بٹھا کر بات سنتا۔ فاروقی صاحب بہت حیران ہوتے۔ ان کی فیملی تو ایسا سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ وہ متاثر ہونے لگے۔ امام دین سمجھاتا کہ یہ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں۔ عزت کروانا اور خوش رہنا ان کا بھی حق ہے۔ وہ دل میں مصمم ارادہ کر لیتا کہ وہ اب خود بھی ان کی عزت کرے گا اور فیملی سے بھی کرواے گا۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.