پیار نے درد کو چن لیا 5
Episode 5
دعا گھر واپس چلی گئی۔ تانیہ کو وقار موقع ملتے ہی بات چیت کرتے ہوئے پیار جتانا نہ بھولتا۔ تانیہ کو دعا کہہ گئی تھی کہ جب بھی مجھے اچھی نوکری ملی ماما میں آپ کو ایک منٹ کے لئے بھی ادھر نہیں رکنے دوں گی۔ وہ اپنے بھائی کی شادی کے لیے بھی بہت excited تھی۔ اس نے وقار کی بیٹی کو کہہ دیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ کچھ بہانے بنا کر بھائی کے گھر ہی رہے گی اور ساری رسومات میں ایک بیٹی کی طرح شامل ہو گی اور بارات کے ساتھ آے گی۔
دعا جب اتفاق نگر وقار کی بیٹی کے ساتھ پہلی بار گئی تو اتفاق کی بیوی کو وقار کی بیٹی نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ پھوپھو جی یہ میری کالج کی بہت پیاری دوست ہے۔ اسے میں نے بتایا کہ میرے منگیتر کی کوئی بہن نہیں۔ تب سے یہ ڈاہن میری نند بن بیٹھی ہے اب آپ بتائیں کیا آپ کو ایک بیٹی کی صورت میں یہ قبول ہے کیا۔
اتفاق کی بیوی اس کو گلے لگاتے ہوئے بولی کیوں نہیں بیٹا آج سے تم میری بیٹی ہو۔ پھر بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اسے کہا کہ آج سے تمھاری بہن اور تمھاری منگیتر کی نند ہے۔
دعا نے بھائی کو دیکھا اور بڑے جوش وجزبے سے اسے سلام کیا۔
اس نے مسکرا کر اسے وعلیکم السلام کہا۔
دعا اس کے قریب سر کو آگے جھکا کر بولی بڑے بھائی کی طرح ملیں۔
اس نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔
دعا نے نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر کہا کہ بھائی۔ میرے پاپا بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ کیا آپ ہمیشہ کے لیے میرے سگے بھائی جیسے بنیں گے۔
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
دعا نے اسے جاتے دیکھ کر چلا کر کہا بھائی اب آپ مجھے اگنور نہیں کر سکتے میں بہن والے لاگ بھی شادی پر لوں گی اور آپ کے گھر ہی رہوں گی اور آپ کی بارات کے ساتھ بھابی لینے جاوں گی۔
اتفاق کی بیوی نے اسے شفقت سے پیار کرتے ہوئے کہا کہ ضرور بیٹا کیوں نہیں۔
دعا نے اس سے کہا کہ آپ میری ماں جیسی ہیں کیا میں آپ کو بڑی ماما کہ سکتی ہوں۔
اتفاق کی بیوی نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا کر کہا آج سے تم میری بیٹی ہو اور میرے بیٹے کی بہن۔
دعا نے اس کے گلے لگتے ہوئے کہا کہ میرے بابا فوت ہو چکے ہیں۔ انہیں بھی میرے لیے اپنے کاروبار سے فرصت نہ تھی اور نہ ہی میری ماما کو فرصت ہے وہ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ شکریہ کہ آپ نے مجھے ایک بھائی دے دیا اب میں اپنی فرینڈز سے بول سکتی ہوں کہ میرا ایک بھائی بھی ہے۔ پھر اس نے مسکرا کر اپنی دوست کو انگوٹھا دیکھایا۔
اس نے اسے مسکرا کر مصنوعی خفگی سے مکا دیکھایا۔
دور کھڑے اس کے بھائی نے اس کی باتوں سے متاثر ہو کر اسے ہمیشہ اپنی بہن ماننے کا پختہ ارادہ کر لیا۔
دعا نے ماں کو فون کیا کہ وہ اتفاق نگر آ چکی ہے اور اس نے ماں کو بھائی اور سوتیلی ماں کا سارا قصہ سنا دیا اور بتایا کہ بڑی ماما اس سے بہت شفقت بھرا برتاو کر رہی ہیں اور یہ کہ وہ ان کے لئے بہت پیارا سا سوٹ سلوا کر لائی ہے اور بھائی کے لیے پینٹ شرٹ لائ ہے۔ دادا دادی کے لیے بھی سوٹ سلوا کر لائی ہے۔ سب اس کے گفٹس سے بہت خوش ہوئے ہیں۔ وہ دادا دادی کی بھی پسندیدہ بن گئ ہے۔ پھر اس نے جو بات بتا کر ماں کو سب سے زیادہ پریشان کر دیا وہ یہ تھی کہ اس نے سواے سوتیلی ماں کے اپنے دادا، دادی اور بھائی کو اپنے رشتے کی حقیقت بمع نکاح کی فوٹو کاپی اور اپنا شناختی کارڈ دکھا کر بتائی۔ جواب میں سب بہت خوش ہوے بھائی نے بڑھ کر گلے لگا لیا۔ دادا دادی اس پر فدا ہو گئے اس کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ بھائی نے سب سے خفیہ اس کو خرچ کے لئے موٹی رقم اس کے لاکھ انکار پر زبردستی پکڑا دی۔ دعا نے روتے ہوئے اس سے کہا کہ بھائی اسے پیسے نہیں صرف رشتوں کا مان اور پیار چاہیے۔
دعا نے بھائی کی شادی میں بڑی ماما کا سارے انتظامات میں بہت ساتھ دیا اس نے بری وغیرہ اور مہمانوں کو دیکھنا ان کی لسٹ کھانے کا مینیو سب میں اپنے بہترین مشورے دیے۔
شادی گاوں میں اور گھر میں ہونی تھی مگر دعا نے اسے شہر کی مارکی کی طرح سیٹ کروایا۔ اسے شہر کی طرز پر ڈیکوریٹ کروایا۔ اس کے مشورے اتنے شاندار ہوتے تھے کہ سب خوشی سے مانتے تھے۔ اس نے کھانے کا نیا سسٹم متعارف کروایا۔ اس نے بھائی اور بڑی ماما سے کہا کہ کھانے کے وقت لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور بہت بدنظمی کا سماں بندھ جاتا ہے۔ کسی کو کھبی کوئی چیز ملتی ہے کسی کو محروم رہنا پڑتا ہے۔ کوئی دوسرے کا حق بھی کھا جاتا ہے۔ اس لئے سب کو ہر چیز انصاف سے ملے۔ کسی کو گلہ نہ ہو کہ ہمیں فلاں چیز نہیں ملی۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور بعد میں ایک لمبا کام برتن دھونے اور سمیٹنے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے ہمdisposable برتن استعمال کرتے ہیں اور لنچ باکس تیار کرتے ہیں۔ اور سب کو ان کی جگہ پر ہی لنچ باکس مہیا کیے جائیں پھر چاہے اسے وہ کھاہیں نہ کھائیں ساتھ لے کر جائیں وہیں چھوڑ دیں ان کی مرضی اس طرح سے کھانا چوری ہونے سے بھی بچ جائے گا جو لوگ شادیوں پر کھانا چراتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ سب مہمانوں کو کارڈ ہمراہ لانے کی تاکید کی جائے۔ جن لوگوں کو بلایا جائے صرف وہی انٹر ہو سکیں۔ ہم دشمن یا کسی چور کی انٹری سے بھی بچ سکتے ہیں۔ گیٹ پر مہمانوں کو کارڈ کے زریعے انٹری کروا کر ان کے نام کے ٹیبل تک راہنمائی کی جائے۔ ایک فیملی کو ان کے سربراہ کے نام اور تعداد میں فیملی ممبرز کی تعداد لکھ کر اس کے ٹیبل پر رکھی جائے اس حساب سے ان کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں اتنی رکھی جاہیں کمی بیشی کی صورت میں ہیلپر ان کی مدد کرے۔ وقت کی پابندی کا خیال رکھا جائے۔ کارڈ پر بھی ہدایات دی جاہیں۔
مخصوص وقت میں کھانا اور ہر کام وقت کے مطابق ہو۔ ہوٹل کی طرح ہر فنکشن کو وقت کے مطابق اختتام پذیر کیا جائے۔ تاکہ نہ گھر والے تھکاوٹ محسوس کریں نہ ہی آنے والے لیٹ ناہٹ تک تھکیں۔
پیسے پھینکنے کر غریب کو جو فرش پر سے لوگوں کے پاوں کے نیچے سے چننے پڑتے ہیں وہ نہ کیا جائے۔
ڈھولک بجائی جائے ان غریبوں کو پیسے بھی دیے جائیں مگر عزت سے۔
جو کسی غریب کو عزت دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس کے بدلے میں عزت عطا فرماتے ہیں جس عزت کے وہ قابل نہیں ہوتا۔ دنیا میں غریبوں کو بھی عزت کماے کا حق حاصل ہے۔ ان کو بھی عزت سے جینے کا حق حاصل ہے۔ مگر غربت کی وجہ سے وہ اپنا یہ حق کھو دیتے ہیں۔ اور امیر لوگ عزت کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ہیں۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ
ناول نگار عابدہ زی شیریں۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.