Back to Novel
Pyar Nay Dard Ko Chun Liya
Episodes

پیار نے درد کو چن لیا 18

Episode 18

تانیہ نے دعا کو سمجھانا چاہا تو اس نے ماں سے کہا کہ ماما پلیز مجھ سے میرے پیارے رشتے مت چھینو۔ بڑی مرادوں سے میں نے باپ کی دہلیز پار کی ہے۔ اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں پھر آپ کے بتائے ہوئے رشتے کو پڑھی لکھی مل جائے گی اس کی زندگی سنور جائے گی مگر ان کا کیا جن کو پڑھائی کا ماحول نہیں ملا اگر ہم لوگ اپنے وطن کے لوگوں کا نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا۔ ان کا کیا قصور کہ وہ کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے اور پڑھے لکھے صرف پڑھے لکھوں کو چنتے رہے تو ایک طبقہ ترقی کر جاے گا اور ایک طبقہ مزید پستی میں گرتا جائے گا۔ ہمارا ملک کھبی دنیا میں مقام حاصل نہیں کر پاے گا ویسے بھی ہمارے ملک کی آبادی زیادہ انپڑھ ہے۔ چلو اگر میں کسی انپڑھ سے شادی کرتی ہوں اور وہ میرا جینا حرام کرتا ہے تو میری نیت اچھی تھی تو اس جہاں میں نہ سہی اگلے جہاں میں تو ضرور صلہ ملے گا اگر میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صبر کیا اور اس سے اچھی امید رکھی تو وہ ضرور مجھے اس جہاں میں بھی نوازے گا۔ اب ارم کی مثال میرے سامنے ہے اس کو ایان کتنا تنگ کرتا تھا اور اب بھی کھبی اپنی عادت کے مطابق کر جاتا ہے مگر وہ تھوڑا رو لیتی ہے مگر صبر اور لگن سے ہمت نہیں ہارتی۔ دیکھنا اس کو رب کتنا نوازے گا انشاءاللہ۔ اس نے کھبی شہر میں رہنے کا نام تک نہیں لیا۔ مگر اس نے اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔اگر وہ شوہر سے شہر میں رہنے کی ضد کرتی رہے ہر وقت اسے لڑتی رہے تو کیا ہو گا گھر کا سکون تباہ ہو گا اور اس کا شوہر باہر سکون ڈھونڈنے لگے گا یا تو وہ دوستوں میں وقت گزارے گا یا دوسری عورتوں کی طرف بھاگے گا آخر میں نقصان بیوی کا ہی ہونا ہے۔ مرد تو آزاد ہے اسے اچھا وقت گزارنے کے لئے بہت سی آپشنز ہیں۔ اگر عورت اپنی جاہز خواہش کا اپنے شوہر سے پیار و محبت سے اچھا موڈ دیکھ کر زکر کر دے اگر اسے غصہ آ جاے اور وہ انکار کر دے تو اس ٹاپک کو بدل دینا چاہیے۔ ایک بار اس کے کان میں بات ڈل گئی کہ بیوی کی یہ خواہش ہے۔ پھر بار بار اس کے پیچھے پڑنے اور اس بات کو بار بار دھرانے یا لڑنے سے اس بات کی وقعت نہیں رہتی۔ شوہر اگر کسی کے دباؤ میں آ کر یا تنگ آکر مان بھی جاتا ہے تو اکثر اس کے دل میں غصہ بھرا رہتا ہے اور وہ اس کو کسی اور بات کو بنیاد بنا کر نکالتا ہے۔ اگر عورت اپنی جاہز خواہش بتا کر اس پر چھوڑ دے تو اسے ضرور خیال آ جاتا ہے پھر وہ اسے خوش کرنے کے لیے ضرور کچھ کرتا ہے چاہے دیر سے ہی کرے۔


دعا نے کہا کہ ماما اگر میری زندگی انپڑھ کے ساتھ گزرے گی مگر میرے بچوں کو وہ ضرور تعلیم دلواے گا اگر وہ خود نہ دلواے گا تو میں گھر میں ہی ان کو پڑھا لوں گی۔ میں آپ کو اپنی ایک کلاس فیلو کا قصہ سناتی ہوں۔ اس کے انکل ایک ٹیچر تھے انہوں نے اپنے بچوں کو میٹرک تک گھر میں ہی تعلیم دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکول جا کر ان کا ٹائم ضائع ہی ہو گا۔ وہ بچوں کے سر گنجے کر کے پڑھنے بٹھا دیتے تھے۔ اگر کوئی عورت محلے کی گھر آتی تو پوچھتے بی بی کیوں آئی ہیں خیر ہے اگر وہ کہہ دیتی کہ ویسے ہی آئی ہوں تو کہتے ویسے نہیں کسی کے گھر جاتے بغیر کسی وجہ کے اپنے گھر بیٹھو۔ ان کے بچوں نے کالج جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کچھ نہ کچھ بن گئے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ اگر سب والدین کسی ایک پر نہ چھوڑیں کہ ماں پڑھاے یا باپ دونوں کو بچوں کے لیے وقت نکالنا چاہیے اگر ٹیوشن بھی ڈالا ہے خود نہیں پڑھا سکتے تو ڈیلی بیس پر ان کا ورک ضرور چیک کریں چاہے رات کے بارہ بجے ہوں بچے سو رہے ہوں ان کی کاپیاں چیک کر کے سوہیں تاکہ آپ کو پتا چلتا رہے کہ ان کی کارکردگی کیسی جا رہی ہے۔


دعا نے تانیہ سے ہنس کر کہا ماما ابھی رشتہ آیا ہے اور میں آپ کے نواسوں تک چلی گئی ہوں۔ بس آپ ٹینشن نہ لیں اور مجھے میرے عزم سے مت ہٹانے کی کوشش کریں۔ وقار انکل کو شکریہ کہہ دیں جنہوں نے میرے لیے اچھا سوچا مگر میں اپنے بھائی کے مان کو نہیں توڑ سکتی جس نے میری زمہ داری اٹھانے کا جزبہ دیکھایا۔ میری جاہیداد مجھے دے دی۔ اب جو بھی وہ فیصلہ کریں مجھے منظور ہو گا۔


تانیہ نے روتے ہوئے کہا کہ کہ میری بیٹی بہت حب وطن اور سب کا بھلا سوچنے والی ہے مجھے تمھیں بیٹی کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے۔ وقار انکل بھی تمھاری ساری گفتگو سن رہے تھے میں نے اسپیکر آن کیا تھا وہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔


دعا نے انہیں سلام کیا تو وہ جواب میں بولے کہ بھلا ہو تانیہ کا جنہوں نے فون کرتے وقت مجھے اپنے ساتھ ملایا اور میں اب تمھارے خیالات سے متفق ہو چکا ہوں اور تم پر فخر محسوس کر رہا ہوں کہ اس ملک کی خوش قسمتی ہے کہ جو ایسا جزبہ رکھنے والی بیٹی ملی۔ اگر سب ہمت کریں اور ایسا سوچیں تو ہمارا ملک ضرور ترقی کرے۔ ہم لوگ اس ملک کی ترقی کے لئے آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں صرف حکومت کا ہے۔ کیا صرف ملک حکومت کا ہے ہمارا کوئی فرض نہیں کہ اس کی فلاح و بہبود کے لئے خود بھی کوشاں رہیں۔ اگر سب ہی تھوڑی تھوڑی سی بھی کوشش کریں تو قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ میں آج سے اپنے ملازم کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاوں گا اس سے میرا دونوں جہانوں میں فاہدہ ہو گا ملازم مجھ سے خوش رہے گا اور میں اس سے۔ مجھے رب اس نیک کام کا اجر دے گا۔ ایسے کام کرنے سے سو مصیبتیں ٹلتی ہیں بچوں کا صدقہ نکلتا ہے۔۔ اگر باہر کھانا کھانے جاتے ہیں تو ملازم کو ایک کونے میں بٹھا دیا جاتا ہے اور اکثر اسے بچا کھچا دیا جاتا ہے کھبی وہ بھی نہیں۔ اور بل کی خوب ٹپ دی جاتی ہے۔ مگر ملازم کو اچھا مہنگا کھانا کھلانے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اس غریب کو یا کسی کو بھی پیٹ بھر کر کھانا کھانا بہت اجر و ثواب کا باعث ہے۔ اس سے اپنے اور بچوں کے کھانے کا بھی صدقہ نکل جاتا ہے۔ اور صدقہ جتنا دیا جائے اتنا اپنا ہی فاہدہ ہے جب قیامت کے دن سورج سوا نیزے پر ہو گا تو ہر کوئی اپنے صدقے کے ساے میں پناہ لے گا۔ میری بیٹی مجھے بھی تمھاری ماں کی طرح تم پر فخر ہے۔ تمھارا فون سننے سے پہلے اگر تم بھائی کا ساتھ دیتی تو شاید میں تم سے اور تمھارے بھائی سے ناراض ہو جاتا اور شاید میں تانیہ پر بھی تم سے ملنے پر پابندی لگا دیتا۔ مگر اب میں شام کو تانیہ کے ساتھ آوں گا اور اس رشتے میں پورا ساتھ دوں گا میں نے سنا تھا کہ ایان نے انہیں ہاں بول دی ہے اب صرف فارمیلٹی رہ گئی ہے۔ میں تمھاری اچھی قسمت کی دعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خوش وخرم رکھے۔ اور نصیب اچھا کرے۔


پیچھے سے تانیہ زور سے بولی آمین ثم آمین۔


دعا تانیہ کو فون کر کے اور وقار کے ساتھ دینے پر مطمئن ہو گئی۔ اسے پتا نہ چلا کہ ایان اور اس کی ماں اس کی باتیں سن رہے تھے۔ جو دونوں بات کرنے الگ کھڑے تھے مسز آفاق اسے سمجھانے کے لیے ادھر لائ تھی کیونکہ وقار نے اسے ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور بیٹے کو سمجھانے کا بولا تھا۔


اب وقار نے بہن کو جب رضامندی کا فون کیا تو اس نے کہا کہ اس نے فون سن لیا ہے بیٹے کا نہ بتایا۔


مسز افاق کے دل میں دعا کے لیے اور مقام بڑھ گیا تھا وہ حیران تھی کہ وہ اس کے بیٹے کو کتنی اہمیت دیتی ہے کہ صرف اس کی خوشی کے لے اپنی زندگی داو پر لگانے کو تیار تھی۔ اس نے اپنے رب سے اس کی اچھی قسمت کی دعا کی۔ اور بیٹے کو وارننگ دی کہ اسے سگی بہن سے بڑھ کر اہمیت دے اور اس کا رشتہ بہت سوچ سمجھ کر کرے۔ ورنہ وہ اسے چھوڑے گی نہیں۔


مسز آفاق سوچنے لگی کہ تانیہ کو وہ اتنے سالوں سے جانتی ہے اس نے بھی کھبی اپنے مفاد کا نہ سوچا ہمیشہ سب کی مدد کرنے کے لیے کوشاں رہی۔ اس نے جواب میں اسے اس کا حق دینا تو دور کی بات اسے فالتو بات کرنی گوارا نہ کی۔ اب وہ اس کی سوکن نہ رہی تھی اس کی بھابی بن چکی تھی مگر وہ اکثر وقار کی اس سے محبت دیکھ کر حسد محسوس کرتی تھی۔ اب وہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ادا کر رہی تھی جس نے تانیہ جیسی بیوی اس کے بھائی کے نصیب میں لکھی اور اس کی قسمت سنور گئ۔ تانیہ سے اچھی اسے وقار کے لیے نہیں مل سکتی تھی۔ اس نے دل میں مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ اب اسے اس کا جائز مقام دے گی اسے دل سے بھابی سمجھے گی اور عزت دے گی جس نے ایک ہیرے جیسی بیٹی اس کے حوالے کی بجائے سوکن کے لیے اس کے دل میں نفرت دلوانے بلکہ اس کے دل میں رشتوں کی محبت، احترام اور اہمیت کو اجاگر کیا۔ رشتوں کو اہمیت دینے کی تربیت کی۔ ورنہ اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اتنا کچھ حاصل ہونے پر سر پر چڑھ کر ناچتی۔ مگر وہ ہمیشہ صبح سویرے اٹھتی ہے نماز ادا کرتی ہے اس کے کمرے میں آ کر سلام کرتی ہے اور لسی بنا کر لاتی ہے۔ جواب میں وہ کیا کرتی ہے مختصر سا سلام کا جواب دہتی ہے۔ لسی ایسے لیتی ہے جیسے اس کی ڈیوٹی ہے۔ حالانکہ اس کام کے لیے اسے کسی نے نہیں بولا ہے۔ وہ خود اپنی مرضی اور خوشی سے کرتی ہے۔ اپنے بھتیجے پر جان دیتی ہے اس کے نیپی چینج کرتی ہے بھابی کی ہیلپ کرتی ہے۔ مسز آفاق کو ان دونوں کاہنسنا بولنا بھی کھٹکتا تھا۔ جانتی تھی کہ وہ سہیلیاں بھی تھیں۔ مگر وہ ایان کے بیوی کو اہمیت دینے پر روایتی ساسوں کی طرح سلوک کرنے لگی تھی اب اس نے دل میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے سوچا کہ اسے کیا ہو گیا تھا اب وہ ایسے نہیں کرے گی۔


ایان دعا کی باتوں سے متاثر ہوا تھا اور اس نے سوچا کہ جب وہ اسے اپنا سگا بھائی مانتی ہے تو وہ بھی اب اس کی شادی دیکھ بھال کر اور دھوم دھام سے کرے گا انشاءاللہ۔


وقار نے تانیہ سے کہا کہ تم بھی شام تک کچھ ڈشیں تیار کر لو کیونکہ جو لوگ آ رہے تھے وہ پورے گاؤں میں سب سے امیر اور اچھے اور عزت دار تصور کیے جاتے تھے جس کی وجہ سے وقار ان کی طرف سے مطمئین تھا۔


اس نے فون کر کے بہن کو ساری تفصیلات سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ اچھے لوگ ہیں۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.