پیار نے درد کو چن لیا 13
Episode 13
دعا کی دادی کی وفات کے وقت وقار صاحب بھی تھوڑی دیر کے لیے آئے۔ تانیہ وجہ نہ جان سکی۔ تانیہ نے وقار صاحب کو دیکھ کر منہ پھیر لیا۔
وقار صاحب کے دل پر اس کی بےرخی سے چوٹ سی لگی۔وہ اسے دکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے چلے گئے۔
تانیہ وقار صاحب کی آمد سے بے چین ہو گئی۔ اس نے اسے پیار کیا تھا جب پہلی بار اسے دیکھا تھا تو وہ اس کے دل میں بس چکا تھا مگر وہ ایک حقیقت پسند عورت تھی اپنی اور ان کی حیثیت سے واقف تھی۔ وہ اس وقت ایک پانچ سالہ بچی کی ماں تھی۔ اس لیے وہ پیار کے اس راستے پر قدم بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ ایک ادھیڑ عمر شخص کی بیوہ تھی والدین کی غربت کو سمجھتے ہوئے اس نے اسے قبول کیا اور اچھی طرح نبھایا بھی تھا۔ وقار صاحب کی نظریں بھی اسے پیغام دیتی تھیں مگر وہ ان کے اس پیغام کو یکسر نظر انداز کرتی تھی۔ پھر اس کے سامنے اس گھر سے ان کی شادی ہو گئی۔ ان کی بیوی بہت نیک اور اچھی تھی۔ وہ وقار اور اس کی بیوی کے درمیان آنے کا سوچ بھی نہ سکتی تھی پھر وقار صاحب بھی اپنے بیوی بچوں میں مصروف ہو گئے۔ مگر ان کی بیوی کی وفات کے بعد جب مسز آفاق بھائی کے لئے اپنے ہم پلہ زمینداروں میں کنواری لڑکی کا رشتہ تلاش کرنے لگیں تو وقار صاحب نے اسے اغواء کروا کر نکاح پڑھوا کر اسے واپس اپنی جگہ چھوڑ دیا اور اس نکاح کو خفیہ رکھا۔ پھر نکاح اوپن ہونے کے باوجود وہ اسے خاندانی روایت کے باعث اپنا نہ سکے کہ وہ پہلے ان کی بہن کی سوکن تھی اس نے یہ رشتہ اوپن ہونے پر ضد میں بھائی کی جلدی سے شادی کروا دی۔
وقار صاحب گھر پہنچے تو بیٹا سامنے آتا ہوا مل گیا انہوں نے پریشانی سے جلدی سے بیٹی کا حال پوچھا جو ابھی اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا۔
اس نے باپ کو بتایا کہ پاپا میری بہن کو اس وقت کسی عورت کی ضرورت ہے۔
وقار صاحب پریشانی سے بولے بیٹا اس کا شوہر ایان اپنے روایتی انداز میں ضدی اور خودسر ہے۔ وہ اسے اپنے گھر لانے کے لیے تیار نہیں کہتا ہے کہ اس نے اس سے یہ بات چھپائی کیوں۔ اسے موبائل فون بھی رکھنے نہیں دیتا۔ کہتا ہے کہ مجھے یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیاں پسند نہ تھیں۔ وہ تو میری بچپن کی منگ تھی میں اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا ورنہ میں گاوں کی سیدھی سادی دیہاتی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ میں جوان تھا شادی قابل تھا اور وہ چھوٹی۔ پھر اسے اس کے جوان ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ ادھر سے اس کی تعلیم مکمل ہونے کی شرط بھی اسے ماننی پڑی۔ وہ میٹرک کے بعد اس کو مزید تعلیم دلوانے کے حق میں نہ تھا میرے پاس آیا تھا اور اس کی تعلیم کے خلاف تھا۔ میں نے اسے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ ابھی اپنے باپ کے گھر میں ہے اور باپ کی مرضی پر چلے گی۔ وہ موبائل فون کے حق میں نہ تھا مگر میں نے سختی سے اس کی باتوں کو رد کر دیا کہ وہ بیٹی پر اعتماد کرتا ہے اس لیے وہ اس پر کسی قسم کی پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہے۔ میں نے اسے کہا تھا کہ میری بیٹی ابھی چھوٹی ہے تعلیم مکمل ہونے تک میچور ہو جائے گی اور شادی کی زمہ داریوں کو سمجھنے اور پورا کرنے کا شعور آ جائے گا تب وہ اس کی شادی کرے گا تاکہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی کو اچھی طرح نبھا سکے۔ اور میں نے جزبات میں جلدی سے بول دیا تھا کہ جب شادی ہو گی تو جو مرضی کرنا۔ اب وہ چھوٹی سی بات کو بنیاد بنا کر مجھ سے بدلے لے رہا ہے۔ اس پر ہاتھ بھی اٹھاتا ہے۔ وقار نے روتے ہوئے بیٹے سے کہا کہ شاید یہ مکافات عمل ہے میں نے تانیہ سے زبردستی نکاح پڑھایا مگر اسے اس کا جائز حق نہ دیا جس کی وہ حقدار تھی۔ میں نے بہن کو خوش کرنے اور کنواری جوان لڑکی سے شادی کے شوق میں تانیہ کو بھلا بیٹھا۔ اب اسی نے میرا جینا حرام کیے رکھا۔
بیٹے نے کہا کہ پاپا شکر ہے آپ نے ہمت دکھائی اور اسے طلاق دے کر سب کی جان چھڑائی۔
وقار نے کہا وہ تو اس نے ویسے بھی جان چھوڑ دینی تھی۔ وہ لالچی لوگ تھے اور وہ طلاق یافتہ تھی۔ اس نے مجھ سے شادی بھی لالچ میں کی تھی اس کوٹھی کی مالکن بننے کے لئے۔ جب اسے پتا چلا کہ میرے دور اندیش باپ نے یہ کوٹھی تانیہ کے نام کر دی ہے اور گاڑی بھی تانیہ کے نام پر ہے اور باقی جاہیداد بچوں میں تقسیمِ ہے اس کے لیے صرف وقار ہی بچتا ہے تو وہ بہت سٹپٹائ۔ اور مجبوراً تھوڑے پر ہی اسے اکتفا کرنا پڑا۔ اس نے تو میری بہن کو بھی تارے دیکھا دیے تھے کہتی تھی اپنے گھر جاو یہ تمھارا گھر نہیں ہے۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔
ناول نگار عابدہ زی شیریں
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.