پیار نے درد کو چن لیا 25
Episode 25
دعا جو بھی تجویز دیتی اپنی نند اور جٹھانی سے مشورہ کرتی اور پھر بھابی سے تینوں کو اس کی زہانت پر بھروسہ تھا۔ ساتھ ساتھ ان کے آگے کھانے پینے کے ہلکے پھلکے لوازمات اور جوس وغیرہ بھی پیش کیا جا رہا تھا۔ کھانے کے وقت تک دونوں پارٹیاں اپنی اپنی لسٹ تیار کر چکی تھیں۔ دعا کی بھابی وہ لسٹ لے کر ایان کو دے آئی۔ ادھر سے ایان نے بھی لسٹ دعا کو بھجوا دی۔ دونوں نے اس میں اپنی رائے شامل کر کے لسٹ اوکے کر دیں۔کل سے ہی اس پر سعمل درآمد شروع ہونا تھا ایک ہفتہ شہر میں رکنے کی تجویز تھی کہ آنے جانے میں وقت ضائع ہونا تھا اس کے لیے دعا کا شہر والا گھر تجویز کیا گیا اور چند ملازموں کے ہمراہ دو کمروں میں فرش پر گدوں کا انتظام کیا گیا ایک میں عورتیں اور ایک میں مرد حضرات۔ کیونکہ گھر چھوٹا تھا۔ ملازم کھانا وغیرہ تیار کرتے اور گھر والوں کے کپڑے دھوتے کیونکہ وہاں دعا نے استعمال کے لئے ڈیجیٹل وشنگ مشین رکھی ہوئی تھی۔ اس کی نند اور جٹھانی اس سہولت والی ایجاد سے متاثر ہوئیں اور شوق سے اسے سیکھا کہ یہ تو بہت مزے کی چیز ہے چند بٹن دبا کر بغیر ہاتھ گیلے کیے آرام سے پنکھے کے نیچے ہی کپڑے سکھا لو۔ دعا نے انہیں اس کا طریقہ سکھا دیا بس چند بٹن یاد کرنے تھے۔ ملازموں کی مجبوری سے جان چھوٹی۔ دعا کی نند اور جٹھانی نے کہا کہ سب شاپنگ سے پہلے تو ہم یہ مشین لیں گی۔ انہوں نے مردوں سے بھی کہا کہ تم لوگوں کو بھی اب اسے سیکھنا چاہیے تاکہ عورتیں مصروف ہوں تو خود ہی دھو لو۔ پہلے تو ہنستے اور شرماتے رہے پھر ملک وحید نے ابتدا کی اور اپنے کپڑے خود دھونے لگا ملازم پریس کر دیتے۔
سب نے اس پورے ویک کو بہت انجوائے کیا ہنسی مزاق بھی ہوتا رہا دعا اور ملک وحید کو چھیڑ چھیڑ کر سب نے انہیں خوب تنگ بھی کیا۔ غصے والا ایان بھی خوش خوش رہا اور کام میں ہیلپ بھی کرنے لگا اور اکثر مزاح میں بھی شامل ہو کر ملک وحید کو چھیڑ دیتا کھبی مزاح میں دھمکی لگاتا کہ میری بہن کو کچھ کہا تو خیر نہیں۔
وہ مسکین سی شکل بنا کر کہتا میری ایسی مجال کہاں۔ دعا کا دل اندر سے بھائی کی چھپی محبت کو دیکھ کر سر شار ہو جاتا۔ دو دن کے بعد وقار صاحب کے اصرار پر وہ بھی شامل ہو گئ تھی۔ ایک پلان پر چلتے ہوئے ساری شاپنگ مکمل طور پر انجام پزیر ہوئی۔
دعا کی شادی کے دن قریب آ رہے تھے وہ بھائی کے ساتھ مل کر بھائی کی شادی کی طرح اسے تیاریوں میں مدد دے رہی تھی بڑے اعتماد سے۔ بھائی کو بھی قدم قدم پر اس زہین بہن کی ضرورت پیش آتی۔ ملک وحید بھی آ جاتا تو وہ قدرے شرمیلی مسکراہٹ سے کام کی بات کے علاوہ فالتو بات نہ کرتی۔ وہ بھی بلا ضرورت بات کرنے یا فری ہونے کی کوشش نہ کرتا وہ بھی تیاریوں میں پوری دلچسپی لے کر ساتھ دے رہا تھا اور اپنی بیوی پر فخر محسوس کررہا تھا کہ نہ جانے کون سی نیکی رب العزت کو پسند آئی تھی جس کا صلہ دعا کی صورت میں ملا تھا۔ ملک وحید کے والد صاحب بھی چکر لگاتے اور اپنی عورتوں کو بھی لاتے وہ دولہن کو اپنی ہی شادی کی تیاریاں کرتے دیکھ کر حیران ہونے لگیں پھر انہیں بھی مزہ آتا سب دیکھ کر۔ دعا کی وجہ سے دونوں گھرانے شادی ہال میں چکر لگانے لگے اور گھر سے کھانا پکوا کر لاتے اور اب تو آہستہ آہستہ ان کے کام کو سمجھنے لگے اور مدد بھی کرنے لگے جیسے دعا ان کو مہمانوں کو اٹینڈ کرنے کی پریکٹس کرواتی اس کام کا زمہ اب وہ نند اور جٹھانی کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انہیں کام سونپنے لگی جسے وہ شوق سے دلجمعی سے کرنے لگیں۔ دعا کا سسر انہیں بھی سراہنے لگا جس سے ان میں اعتماد اور بڑھ گیا۔ اپنا شادی ہال تھا سارا دن وہ لوگ وہاں موجود رہتے اس کی سجاوٹ میں سب کو شامل کرتے۔ کام بھی ہو رہا تھا ساتھ دونوں گھرانے قریب بھی آ رہے تھے اور ان کے لوگ سیکھ بھی رہے تھے اور سب انجوائے بھی کر رہے تھے اب تو بزرگ بھی آ نے لگے دادا اور ملک وحید کے والد آ جاتے۔ مسز آفاق، وقار صاحب اور تانیہ بھی چکر لگاتے رہے۔ ملک وحید کی ماں تو خوشی کے ساتھ دعائیں بھی کرتی۔
مسز آفاق کے ڈانٹنے ہر دعا کو اب گھر بیٹھنا پڑا کیونکہ شادی کے دن قریب آ چکے تھے۔
گھر میں شادی سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت کروائی گئی قبرستان اپنے پیاروں کی قبر پر حاضری لگائی گئی۔ شادی ہال مکمل ہو چکا تھا۔ دونوں گھروں میں ڈھولک رکھ دی گئی تھی۔
۔ملک وحید کے باپ نے جب سنا کہ شادی سے پہلے دعا کے گھر والوں نے قرآن پاک کا ختم دلایا ہے اور اپنے پیاروں کی قبر پر حاضری دی ہے تو وہ بہت متاثر ہوا اور بولا کہ ہم لوگوں کو کوئی بھی خوشی کا کام کرنے سے پہلے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اسے شروع کرنے سے پہلے اسے بابرکت بنانے کے لیے اپنے رب کے پاک نام سے شروع کریں چاہے گھر میں حسبِ توفیق خود ہی َسورت یاسین یا کوئی بھی عبادت نوافل وغیرہ ادا کر لیں۔ اس نے تین دن تک مسلسل گھر میں خیر وبرکت کے لئے گھر میں تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کیا اور اپنے پیاروں کی قبروں پر بطور ہدیہ مولوی صاحب کو بٹھا دیا کہ ڈیلی یہاں پر کم سے کم ایک پارہ ختم ہونا چاہیے۔ انکا مہینے کا ہدیہ ان کی مرضی کے مطابق مقرر کر دیا ان سے پوچھا گیا آپ اپنے منہ سے بتاہیں تاکہ گناہگار نہ ہوں کیونکہ اس کا حق تو کوئی ادا کر نہیں سکتا۔ اس نے کہا کہ نہ تو خود پڑھنے کی طرف دھیان ہوتا ہے اور اتنے پیسے آگے پیچھے لگا دیتے ہیں مگر پیاروں کے ایصال ثواب کیلئے نہیں۔
ملک وحید کے دوستوں نے کہا ہم خوب آتشبازی کریں گے اور فاہرنگ بھی۔ ڈھول بھی بجواہیں گے اور بیلیں بھی کروائیں گے۔
ملک وحید نے کہا کہ آپ کے جزبات کی میں دل سے قدر کرتا ہوں۔ نہ تو میں فائرنگ کی اجازت دوں گا یہ رسم کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ پٹاخوں سے ایک لڑکی کی آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی اور اس کے علاوہ پیسوں کو نیچے پھینکنا اور غریبوں کا نیچے سے چننا مجھے گوارا نہیں۔ اگر کسی کو اعتراض نہ ہو تو ڈھولک والے کو میرے ساتھ کرسی پر بٹھانا تو آپ لوگ گوارا نہیں کریں گے اسے کرسی کے ساتھ قالین پر بٹھا دیں باقی اس کے ساتھی ناچ گانا کرتے رہیں ڈھول بجاتے رہیں اور جو پیسے تھوڑے تھوڑے کر کے گرانے تھے وہ ہر کوئی باری باری اکٹھی رقم اسے پکڑاتا جائے میرے سر پر سے وار کر اور اس طرح غریب بھی بےعزت ہونے سے بچ جائے گا اور اللہ تعالیٰ بھی ہم سے راضی رہیں گے اور گناہ کی بجائے غریب کی مدد کا ثواب بھی ملے گا۔ پھینکنے سے گناہ بھی ہوتا ہے اور انسان کی تزلیل بھی۔ جبکہ ہم خود بھی انسان ہیں شکر ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت سے نوازا۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ ان کے مقام تک پہنچا دے جن کو انسان حقیر سمجھتا ہے۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔
ناول نگار عابدہ زی شیریں
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.