Back to Novel
Pyar Nay Dard Ko Chun Liya
Episodes

پیار نے درد کو چن لیا 19

Episode 19

دعا نے بھی ارم کی کچن میں تیاریوں میں مدد کی۔ اس کی آنکھ میں سبز مرچ چٹنی پیستے ہوئے چلی گئی وہ تیزی سے صحن میں لگے سنک میں منہ دھونے لگی اتنے میں ایان کسی مرد کے ساتھ اندر آ رہا تھا وہ منہ دھو کر پلٹی ہی تھی کہ ارم نے دعا دعا کہہ کر آوازیں دیں۔ دعا ادھ کھلی آنکھوں سے ایان کے ساتھ آتے اس نوجوان کو دیکھا جو مسکراہٹ ہونٹوں پر لاے اسے ہی دیکھ رہا تھا ایان اسے لے کر مہمان خانے کی طرف بڑھ گیا اور جاتے جاتے دعا کو پانی لانے اور چائے بھجوانے کا بول کر چل پڑا۔


دعا اچھا کہہ کر کچن کی طرف چل پڑی۔ ارم اس سے پوچھنے لگی کہ کون آیا ہے۔ دعا نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ مسز آفاق صہن میں کھڑی دعا کے دادا کو بتا رہی تھی جو کھونٹی کے سہارے کھڑے اس سے باتیں کر رہے تھے۔


اتنے میں دعا کچن سے باہر کسی کام سے نکلی تھی اس نے سنا وہ دعا کے دادا کو بتا رہی تھیں کہ ملک وحید آیا ہے دعا کو دیکھنے کے لیے۔ کہتا ہے کہ وہ دعا کی مرضی جاننا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی تو رشتہ تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ وہ اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور وہ اس کے مقابلے میں کم پڑھا لکھا وہ گھر والوں کو بتاے بغیر آیا ہے۔ اور دعا کو بلا کر اپنے سامنے مرضی پوچھنا چاہتا ہے تاکہ بعد میں کوئی بدمزگی نہ ہو وہ جلدی میں ہے چاے بھی نہیں پی رہا کہتا ہے جلدی سے دعا کو بلا دیں آپ سب کی موجودگی میں اس سے بات کرنا چاہتا ہے۔


دادا نے پوچھا ایان کیا کہتا ہے۔


مسز آفاق بولی وہ تو دعا کو بلا رہا ہے کہ جلدی سے آ کر بات کر لے وہ جلدی میں ہے۔


دادا نے سرد آہ بھر کر کہا ٹھیک ہے تم اسے ساتھ لے جا کر بات کروا دو۔


مسز آفاق نے کہا اچھا اور دعا کو آواز دینے لگی۔


دعا جو صبح سے خود ملازموں کے ساتھ مل کر صفائی ستھرائی کر رہی تھی ملگجی لباس، پسینہ اور منہ دوپٹے سے صاف کرتی آی اور بولی جی بڑی ماما۔


مسز آفاق نے اسے ساتھ آنے کا کہا وہ حیران سی ساتھ چلنے لگی وہ چلتی چلتی مہمان خانے کے باہر پہنچ گئی۔


ایان نے انہیں آتے دیکھا اور ماں سے بولا آپ دعا کو اندر لے جا کر بات کروا دیں ملک وحید صاحب کو جلدی جانا ہے۔ اور دعا کو اندر جانے کا اشارہ کر کے خود کمرے سے باہر نکل گیا۔


دعا اندر جانے سے تھوڑا جھجھک محسوس کر رہی تھی مسز آفاق نے اسے اندر آنے کا بولا وہ ان کے ساتھ اندر داخل ہوئی تو ملک وحید اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور سلام کیا۔


مسز آفاق نے وعلیکم السلام کہا اور اسے بیٹھنے کا کہا ساتھ میں دعا کو بھی اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


ملک وحید نے گلا کھنگھارتے ہوئے مسز آفاق کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت طلب لہجے میں بولا آنٹی جی کیا میں دعا صاحبہ سے ایک ضروری بات کر سکتا ہوں۔


دعا اس کے منہ سے بڑے مہزب انداز میں اپنا نام سن کر اس کی خوداعتمادی پر دل میں حیران ہوئی۔


ملک وحید نے دعا کی طرف دیکھتے ہوئے سلام کیا۔


دعا نے ہونٹ ہلا کر آہستہ سے جواب دیا۔


وہ بولا میرا نام ملک وحید ہے۔ ابھی میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں اپنا لمبا چوڑا تعارف کراوں مختصر تعارف یہ ہے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا اور لاڈلا ہوں۔ میں بارہ کلاسیں پڑھا ہوں کیونکہ اس سے آگے گاوں میں کالج نہیں تھا اور ہمارا پڑھائی کا ماحول بھی نہ تھا۔ میرے دادا کہتے اس نے تعلیم حاصل کر کے کیا کرنا ہے اس نے کون سا نوکری کرنی ہے۔ باپ دادا کی جاہیداد اتنی ہے کہ اسے نوکری کی ضرورت نہیں۔ میرے والد محترم کو اب تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا ہے جب جاہیداد کی جانچ پڑتال کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے تب سے وہ مجھے کہتے کہ میں تیرے لئے پڑھی لکھی بیوی لاوں گا چاہے زات برادری سے باہر یا کسی غریب سے ہی کرنی پڑے۔ اتفاق سے ایان صاحب کی میرے والد محترم سے بزنس کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تو والد صاحب نے ان کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔


ایان صاحب نے میرے والد صاحب سے کہا کہ انہیں بھی اپنی بہن کے لیے کسی مناسب اور اچھے گھرانے کی تلاش ہے پھر انہوں نے آپ کی تفصیل بتائی تو میرے والد صاحب نے کہا کہ وہ آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس گھرانے کی شرافت کو بخوبی جانتے تھے اور آپ نے جو بھائی کی شادی کروائی اور جو انتظامات کئے اس کی دھوم پورے گاؤں میں گونجی۔ اتفاق سے میرے والد صاحب بھی اس میں شامل تھے اور بہت متاثر ہوئے اور ادھر سے ان کے دل میں خیال آیا کہ وہ اب بیٹے کے لیے پڑھی لکھی بہو لاہیں گے۔ میرے گھر کی عورتوں نے بھی آپ کو بہت پسند کیا جب گھر میں والد صاحب نے رشتے کی بات بتائی تو وہ بہت خوش ہوہیں۔ انہوں نے ایان صاحب کو گھر بلا کر مجھ سے ملوایا اور ہر طرح سے تسلی کروائی۔ ایان صاحب نے مجھ سے بھی سوالات کر کے تسلی کی اور میرے اور میرے اہل خانہ کے بارے میں باہر سے بھی معلومات حاصل کیں۔ ان میں کچھ میرے دوست یار بھی تھے جنہوں نے مجھے بتایا۔ خدا کا شکر ہے سب نے انہیں مطمئن کیا۔ میں ایان صاحب کی اس قدر احتیاط سے کافی متاثر ہوا۔ جو واقعی اپنی بہن سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس کے معاملے میں فکرمند اور سنجیدہ ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ہاں کا پیغام بھیجا۔ اور چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کا ارادہ ظاہر کیا اور آج ہی بڑے فیصلے بھی ہونے قرار پائے۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ سے مل کر آپ کی رائے معلوم کر لوں۔ حالانکہ ایان صاحب نے آپ کی طرف سے تسلی دی کہ بےفکر رہیں میں نے بہن کی رضامندی سے یہ قدم اٹھایا ہے پھر بھی میں حیران تھا کہ شاید آپ کسی دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ایان صاحب کی مہربانی ہے کہ میں نے فون پر اپنے آنے کا مقصد ظاہر کیا اور اور اپنی تسلی کرنی چاہی۔ میرے گھر والوں کو اس بات کا علم نہیں وہ تو پرجوش اور بہت خوش ہیں اور آنے کی جوش وخروش سے تیاریاں کر رہے ہیں۔ ایان صاحب اور گھر والوں کا شکریہ کہ انہوں نے گاوں کی روایات کے خلاف جا کر مجھے اپنی بہن سے بات کرنے کی اجازت بخشی ان کا اور سب کا بہت شکریہ۔ باقی رہی قسمت کی بات آپ بےخوف ہو کر اپنی مرضی بتا سکتی ہیں میں اگر آپ خدانخواستہ انکار بھی کرتی ہیں تو میں یہ قدم اٹھنے سے پہلے ہی روک دوں گا تاکہ بعد میں خرابہ نہ ہو۔ اور شہر میں یا کسی شہری پڑھے لکھے شخص سے شادی کروانے پر آپ کی مدد بھی کروں گا اور آپ کے بھائی کو قاہل کرنے کی کوشش بھی کروں گا آپ نڈر ہو کر جواب دیں۔ میرے گھر والوں کی بھی فکر نہ کریں بعد کی خرابی سے پہلے کی خرابی بہتر ہے۔ میری قسمت میں جو ہو گا میں اسی سے اپنے رب سے شاکر ہوں۔


مسز افاق نے تعریف کرتے ہوئے اظہار کیا کہ میں بزات خود اس بات سے راضی نہ تھی کہ ہماری بچی شہر میں پلی بڑھی ہے پڑھی لکھی ہے وہ گاوں میں کیسے گزارہ کرے گی حتکہ میری بھابی اس کی ماں نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ جب شہر میں سے اتنے رشتے آ رہے ہیں مگر اس نے سب کو لاجواب کر دیا اور اپنے بھائی اور سمجھانے والوں کو بھی قاہل کر لیا کہ وہ اس رشتے سے مطمئن ہے جو اس کے بھائی نے اس کے لئے سوچا اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تب بھائی نے آپ لوگوں کو ہاں بولی مگر بیٹا آپ کے خیالات سن کر کمازکم میں بہت متاثر اور مطمئن ہو گئی ہوں اور اب اس رشتے سے دل سے راضی ہوں۔


ملک وحید نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آنٹی جی میں آپ کی صاف گوئی سے متاثر ہوا کہ آپ سوتیلی ہونے کے باوجود ان کے لیے اتنا جزبہ رکھتی ہیں۔ مگر مجھے دعا صاحبہ کے منہ سے سچ سننا ہے۔


دعا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور کہا کہ وہ پہلے ہی راضی تھی چاہے بھائی آپ سے کرتے یا کسی سے بھی۔ وہ میرے بھائی ہیں میرے لیے اچھا ہی سوچیں گے۔ مجھے ان پر مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے۔ اور اب آپ کی عورت کو اتنی اہمیت دینے پر میں کافی متاثر ہوئی ہوں جو عورت کے جزبات کا اتنا خیال رکھے بھلا وہ عورت اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھے گی مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ بےفکر رہیں۔


یہ کہہ کر وہ اجازت لے کر باہر نکل گئی۔


ملک وحید کا انگ انگ خوشی سے جھومنے لگا۔


مسز آفاق نے آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ میں بیٹا تمھارے خیالات سے بہت متاثر ہوئی ہوں اور تم سے اس کو خوش رکھنے کی التجا کرتی ہوں۔ مجھے تو اس کے جانے کے نام سے ہول آ رہا ہے مجھے اس خدمت گزار اور سب کا بھلا سوچنے والی کے جانے کا سوچ کر دل دکھی ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ سے اس کی اچھی قسمت کے لیے دعاگو ہوں۔ اس نے سب کا دل جیت لیا ہے یہ سب اس کی ماں کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے جو بہت اچھے کردار کی مالک ہے یہ دونوں ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔


ملک وحید نے ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میری طرف سے آپ کو کھبی کوئی شکایت نہیں ملے گی اور میں قدم قدم پر دعا کا ساتھ دوں گا میں اس وقت اپنے آپ کو دنیا کاخوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا ہوں اب میں دل سے مطمئن ہو کر جا رہا ہوں اتنے میں اس کے موبائل پر کال بیل نجی اور وہ بس ابھی آیا کہہ کر اجازت لے کر تیزی سے باہر نکلا اور کھوئی ہوئی ہاتھ میں چاے کا کپ تھامے چلتی دعا سے ٹکرا گیا چاے اس کی شرٹ پر گر گئی اور وہ پریشان حال سوری بولتی رہ گئی۔ سامنے سے آتے بھائی نے دیکھا دعا شرمندہ ہو کر دھونے کا بولی مگر وہ مسکرا کر بولا کوئی بات نہیں یہ آپ کی طرف سے گفٹ ہے۔


ایان نے روکنا چاہا مگر خوشی اس کے چہرے سے دمک رہی تھی اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا اب گھر والوں کے ساتھ دوبارہ ملاقات ہو گئی آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے مطمئن کرنے کا موقع دیا اور خدا حافظ کہتا تیزی سے نکل گیا۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں۔



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.