Back to Novel
Pyar Nay Dard Ko Chun Liya
Episodes

پیار نے درد کو چن لیا 21

Episode 21

ملک وحید گھر پہنچا تو سب نے اسے آڑے ہاتھوں لیا کہ آفاق نگر جانے میں تھوڑا ٹائم رہ گیا ہے ہم لوگ وقت پر پہنچنا چاہتے ہیں تم ہمارا پہلا امپریشن خراب کرنا چاہتے ہو۔ دیکھا نہیں ان لوگوں نے ایان کی شادی پر کتنی وقت کی پابندی کی تھی ابھی تک سارے گاؤں میں واہ واہ ہو رہی ہے۔ تم ہو کہ ناشتہ کر کے سو گئے اور اچانک اسی حلیے میں نہ جانے کہاں چل پڑے کچھ بتا بھی نہیں رہے تھے نہ فون پر صحیح جواب دے رہے تھے۔ تمھاری بہن کے ساس سسر بھی جو تمھاری بہن کے ساتھ شرکت میں آے ہوئے ہیں انہوں نے پوچھ پوچھ کر تمھاری بہن کی جان کھا لی تھی۔ ان کپڑوں پر یہ چاے کہاں سے گرائی۔


ملک وحید جو مسکرا کر سب کی ڈانٹ سن رہا تھا اس کی بہن بھی اور اس کی ساس بھی تیار کھڑی باہر آ کر خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔


ایان نے مسکرا کر کہا کہ میرے کپڑوں پر یہ داغ سسرال کی طرف سے یعنی آپ کی ہونے والی بہو کی طرف سے تحفہ ہے۔


باپ نے ڈانٹ کر کہا کہ کیا بکواس ہے۔ کیا کہہ رہے ہو۔


سب حیران کن انداز میں خاموش ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔


ملک وحید نے بتایا کہ کہ جب وہ سو کر اٹھا تو اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ میری شادی کی سب جوش وخروش سے تیاریاں لگے ہوئے ہیں کیا لڑکی بھی خوش ہے۔ یہ نہ ہو کہ وہ ناخوش ہو اور دباو میں آ کر ہاں بول رہی ہو۔ پھر یہ اس کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور میرے پیارے گھر والوں کے ساتھ بھی جو بڑے ارمانوں سے خوشی خوشی اسے بیاہ کر لانا چاہتے ہیں کیوں نہ میں اس کے بھائی کو فون کر کے دعا سے سب کی موجودگی میں چھوٹی سی ملاقات کر کے اس کی مرضی جان لوں۔ اگر خدانخواستہ اس نے انکار کر دیا تو کوئی بات نہیں بعد کے بڑے خرابے سے پہلے اور ابھی کا خرابہ بہتر ہے۔ اس سے اس کی زندگی بھی برباد ہونے سے بچ جائے گی اور گھر والے بھی بعد کی بےسکونی سے بچ جائیں گے۔ مجھے کوئی حق نہیں کہ ہم اپنے شوق کے پیچھے کسی لڑکی کے ارمانوں کا خون کریں جس نے نہ جانے اپنی آنکھوں میں کتنے خواب سجاے ہوں گے۔


گھر والے اس کی بات سن کر دم بخود رہ گئے۔ بہن کچھ بولنے لگی تو اس نے اشارے سے چپ کروا دیا۔


ملک وحید نے بتایا کہ اس نے ایان کو فون کر کے اس الجھن کا بتایا ساتھ یہ بھی بتایا کہ اگر اس نے اگر کسی دباؤ میں آ کر ہاں کی ہے تو وہ بلکل برا نہیں مناے گا اور آپ کو بھی کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ ظلم نہ کریں اس کی زندگی برباد نہ کریں۔ وہ شہر میں پلی بڑھی ہے وہ نازک سی لڑکی ہے اسے شہر میں کسی پڑھی لکھی فیملی میں بیاہ دو۔ یہاں اسے مجبوراً گاوں کے اسٹائل میں زندگی گزارنی پڑے گی جن کی وہ عادی نہیں ہے۔


ایان نے کہا کہ وہ بہن پر زبردستی نہیں کر رہا بلکہ اس کا بھلا سوچ کر ہی ادھر رشتہ کر رہا ہے۔ اس رشتے میں ایک تعلیم کی کمی کے علاوہ کوئی کمی نہیں۔ سب لوگ مہزب انداز میں زندگی گزار رہے ہیں ایسا پڑھی لکھی شہر کی فیملیز میں بھی کم ہوتا ہے آپ لوگوں کی زبان شاہستہ ہے۔ آپ لوگ عورت کو بھی عزت اور اہمیت دیتے ہیں آپ کے والد صاحب نے آپ کی والدہ اور آپ کے بڑے بھائی اور اس کی بیوی کو بلا کر میرے ساتھ شادی کے معاملات طے کیے۔


جس سے میں قدرے دل میں شرمندہ ہوا کہ میں اکیلا ہی بڑا بن کر اس ڈر سے فیصلہ کر رہا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ کوئی اس رشتے کے درمیان گڑ بڑ نہ کر دے میں اس رشتے کو اپنی بہن کے لئے بلکل مناسب سمجھتا ہوں اور اسی ڈر سے کہ یہ رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے میں نے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کا فیصلہ کیا ہے۔ میں تم سے بھی بہت متاثر ہوا تھا اور اب تمھارے خیالات سن کر اپنی بہن کو خوش قسمت تصور کر رہا ہوں جس کو تم جیسا جیون ساتھی ملنے والا ہے جو لالچی اور مطلب پرست نہیں ہے دوسروں کا بھلا سوچنے والا ہے۔ جو دور اندیشی سے سوچتا ہے۔ تم اب وقت کم ہے اگر فوراً آ سکتے ہو تو میں تمھاری اپنی بہن سے بات کروا کر تسلی کروا دینا چاہتا ہوں وہ حقیقت پسند لڑکی ہے خوابوں میں رہنے والی نہیں۔ میں نے تو خود بھی اس سے پہلے پوچھ کر یہ قدم اٹھایا تھا اور اس کی طرف سے رضامندی پا کر تم سے ملنے گیا تھا۔ اب تم جلدی سے آ جاو۔ میں اسی حلیے میں کپڑے بھی تبدیل نہیں کیے اور چل پڑا۔ وہاں جا کر اس کی بڑی ماں کی موجودگی میں اس سے اس کی مرضی پوچھی۔ ایان کی یہ بات مجھے اچھی لگی کہ وہ درمیان میں نہ بیٹھا بلکہ کمرے سے باہر نکل گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اپنی بہن پر اپنے فیصلے پر بھروسہ تھا۔ دعا نے شرم حیا کو تاک رکھتے ہوئے مختصر بات کی اپنی رضامندی ظاہر کی اور بتایا کہ اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اسے بھائی سے لگتا ہے بہت پیار ہے شاید اس گاؤں سے بھی شاید اسی وجہ سے وہ اس رشتے سے خوش ہے۔ پھر چاہے والا واقعہ بتایا تو سب اس کی باتوں سے ایسے خوش ہوئے جیسے موت کے دھانے پر کھڑے تھے سب نے اطمینان کا سانس لیا۔


باپ نے خفگی سے ڈانٹ کر کہا کہ تمھارا اس فنکشن کے لئے سب سے شاندار اور مہنگا جوڑا تیار کیا گیا اور تم ہو کہ اس حلیے میں ہماری بہو کو درشن دینے چل پڑے۔ دیکھتے ہی اگر وہ تمھارے حلیے کو دیکھ کر انکار کر دیتی پھر۔


ماں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ میرا ہیرا پتر ہے گھبرو جوان ہے۔


بہن نے جھٹ کہا سارے گاؤں کی لڑکیاں اس سے شادی کی خواہش مند ہیں ایسا میرا بھائی مردانہ وجاہت کا مالک ہے۔


بہن کا شوہر قریب آ کر بولا ارے میری بیوی کو کوئی سمجھاو ادھر ایک نہیں (اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا) دو دو گھبرو جوان ہیں۔


سب ہنسنے لگے۔


اس کے بہنوئی نے آگے بڑھ کر ملک وحید گلے لگا کر کہا مشن کامیاب مبارک ہو۔


سب نے خوشی کا اظہار کیا۔


باپ نے شور مچایا کہ تم لوگ ادھر ہی خوش ہوتے رہو گے کہیں دیر نہ ہو جائے میں وقت پر پہنچنا چاہتا ہوں تاکہ میری بہو کو یہ نہ لگے کہ ہم وقت کے پابند نہیں ہیں۔


یہ سنتے ہی ملک وحید نے اپنے کمرے کی جانب دوڑ لگا دی۔ سب اسے تیزی سے جاتا دیکھ کر ہنسنے لگے بہن نے کہا آج صرف بات پکی ہونی ہے نکاح نہیں ہونا۔


وہ جاتے جاتے مڑ کر دیکھتے ہوئے بولا کاش اور مسکراتا ہوا چل پڑا۔


بہن بولی اللہ کرے جلدی سے میرے بھائی کی مراد بھر آئے اور جلدی سے شادی ہو جائے۔


ملک وحید دروازے سے اندر جاتے جاتے زور سے چلا کر آمین بولا اور اندر گھس گیا۔


اس کا بہنوئی بیوی سے بولا تمھارا بھائی گیا کام سے۔


وہ مسکرا کر شوہر کو دیکھنے لگی۔


اس کے شوہر نے اسے سرگوشی میں کہا کہ کیا تمھیں اپنا شوہر گھبرو جوان نظر نہیں آتا۔


وہ مسکراتے ہوئے بولی میں سمجھتی تھی کہ صرف عورتیں ہی شوہر کے منہ سے کسی دوسرے کی تعریف سن کر جیلس ہوتی ہیں مگر ادھر تو مرد بھی کم نہیں ہیں کب سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں جب سے میں نے بھائی کی تعریف کی ہے۔


اس کا شوہر مسکرا کر بولا ایک تو سالا ہے آدھا گھر والا اس کو میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ہوں۔


بیوی شوخی سے بولی آپ تو پہلے نمبر پر ہیں وہ تو دوسرے نمبر پر ہے۔


وہ مسکرا کر بولا بس بس مجھے پتہ ہے۔


وہ لسی کا گلاس لے آئی اور کہا یہ لیں اسے پیں اور دماغ کو ٹھنڈا کریں جل ککڑے صاحب۔


وہ لسی کا گلاس پکڑتے ہوئے بولا یار میں وہاں دعوت کھاوں گا جا کر تم ہمارا پیٹ بھرنے کی کوشش نہ کرو۔


وہ شوخی سے بولی وہاں جا کر یہ نہ بھول جاہیے گا کہ گھر پرایا ہے مگر پیٹ اپنا ہے۔


اتنے میں ملک وحید تیار ہو کر آ گیا۔ ماں بلاہیں لینے لگی۔ بہن کی ساس نے بھی تعریف کی کہ بیٹا ماشاء اللہ پیارے لگ رہے ہو۔


بہن نے محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ماشاء اللہ میرے ویر پر بہت روپ آیا ہے اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائے آمین۔


ملک وحید نے بہن کے قریب جاکر آہستہ سے سرگوشی میں کہا کہ وہ بھی اب تیار ہو کر بیٹھی ہو گی دیکھنا۔ ورنہ وہ بھی میری طرح میلے کچیلے حلیے میں تھی۔ بےچاری کی آنکھ میں سبز مرچی لگ گئی تھی چٹنی بناتے ہوئے۔


بہنوئی شوخی سے بولا میاں کی چٹنی بنانے کی پریکٹس کر رہی ہوں گی نا جیسے یہ میری بناتی ہیں۔ اس نے بیوی کی طرف اشارہ کیا۔


بڑا بھائی نے فون اٹھاے آیا اور باپ کا پوچھنے لگا کہ ابا جی کدھر ہیں ایان صاحب کا فون ہے۔


ایان کے نام پر سب چوکنے ہو گئے اور بہن فون لے کر تیزی سے باپ کو دینے چل پڑی۔


وقار صاحب تانیہ اور ان کا بیٹا آفاق نگر پہنچ چکے تھے اور ساتھ میں کچھ کھانے بھی پکوا کر لاے تھے کیونکہ تانیہ کھانے پکانے کی ماہر تھی تو اس نے کہہ دیا تھا کہ ادھر آ کر ہیلپ کرنے کی بجائے وہ ادھر سے ہی کچھ کھانے پکا کر لے آئے گی ان کا بیٹا ملازم کے ساتھ گاڑی سے کھانے نکلوا رہا تھا۔ مسز آفاق بڑے تپاق سے آہیں بھابی کہہ کر ملی۔ تانیہ اس کے مثبت رویے سے خوش ہوئی وقار نے بھی مسکرا کر بہن کو خوشی سے دیکھا اس کا تانیہ کو بھابی پکارنا حیرانگی کے ساتھ خوشی دے گیا۔


مسز آفاق نے بھائی کے چہرے پر نظر ڈالی تو دل میں سوچنے لگی کہ اس کی زرا سا بھابی کہنے سے دونوں وقار اور تانیہ کتنے خوش ہوے ہیں کیا تھا اگر میں پہلے ہی دل بڑا کر کے انہیں خوشیاں دے دیتی۔ مگر میں نے اپنی حیثیت اور اختیار کا ناجائز استعمال کر کے اپنے پیاروں کو کتنی ازیت میں مبتلا رکھا باپ نے بھی سمجھانا چاہا مگر اس نے انہیں جزباتی طور پر بلیک میل کر دیا اور کچھ کھا کر مرنے کی دھمکی دے دی۔ سب اس کی محبت میں مجبور ہو گئے اور سب نے اس کا کتنا خمیازہ بھگتا۔ شکر ہے وقار کی اس بیوی سے جان چھوٹ گئی۔ تانیہ اس پر سوکن بن کر آئی تھی جواب میں انتقاماً اس نے بھی اس پر سوکن لاد دی اور بھائی کا گھر خراب کیا مگر شکر ہےوقار کے باپ نے گھر تانیہ کے نام کروا کر اس لالچی عورت سے جان چھڑوا دی۔ حالانکہ وہ کیا سوکن تھی کم عمر لڑکی اس کا شوہر عمررسیدہ۔ وہ تو شوہر کے مرنے پر پہلی بار حویلی آفاق نگر اپنے شوہر کا آخری دیدار کرنے آئی تھی جب اس کے باپ کو پتا چلاکہ یہ اس کی بیٹی کی سوکن ہے غریب ہے ماں باپ کی اکلوتی ہے کوئی زریعہ آمدنی نہیں تو اس نے اسے ڈرا دھمکا کر کچھ لالچ دے کر اپنی بیٹی کی خدمت پر اسے مامور کر دیا۔ وہ کتنا عرصہ اپنے سسرال میں ایک ملازمہ بن کر رہی۔ وقار نے اس سے زبردستی نکاح کیا تو اتنی مصیبتوں کے بعد اسے شوہر کا پیار اور جاہز مقام ملا۔ مسز آفاق نے سوچا کسی کو خوشیاں دینے سے دل سکون میں رہتا ہے اور آخرت میں اجر الگ سے ملتا ہے۔ جبکہ انتقام اور حسد کی آگ میں دوسرے کم اپنا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ دل بےسکون رہتا ہے اور دوزخ الگ حصے میں آتی ہے۔ اس نے دوسرے کی زیادتیوں کو معاف کرنا تانیہ سے ہی سیکھا ہے۔ اس کا صبر اس کی وفا نے آج اسے سب کے دل جیتنے پر مجبور کر دیا ہے۔


ایان وقار کے پاس بیٹھا دعا کی شادی کے سلسلے میں معزرت کر رہا تھا کہ آپ کی موجودگی کے باوجود وہ خود بڑا بنا اور اس کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔


وقار نے اسے کہا بےشک مجھے اس بات کا غصہ اور رنج تھا مگر اب ختم ہو گیا ہے یہ دیکھ کر کہ تم نے بہن کے لیے اچھا عزت دار اور خوشحالی گھرانے کا انتخاب کیا۔ ان کے بیٹے میں سواے تعلیم کی کمی کے کوئی عیب نہیں۔ ایان نے جب یہ بتایا کہ آج ہی اس نے ساتھ نکاح کا بھی فیصلہ کیا ہے تو وہ دم بخود رہ گیا۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.