Back to Novel
Pyar Nay Dard Ko Chun Liya
Episodes

پیار نے درد کو چن لیا 22

Episode 22

وقار صاحب نے حیرت سے ایان سے پوچھا کیا یہ تمھارا خود کا فیصلہ ہے کہ لڑکے والوں کا۔


ایان نے سر جھکا کر جواب دیا انکل بات یہ ہے کہ ملک وحید کو پورے خاندان سے رشتے مل رہے ہیں اور مجھے دعا کے لیے اس سے اچھی آفر نہیں مل سکتی۔ ان لوگوں کو بھی دعا بہت پسند ہے۔ میری شادی پر وہ اس سے متاثر ہوئے تھے۔ ان کو یقین نہ تھا کہ ہم لوگ دعا کا رشتہ اتنی آسانی سے ان لوگوں کو دے دیں گے جبکہ دعا کو شہر سے بھی اچھے رشتے مل سکتے تھے۔ میں نے ان کا گھر، رہن سہن سب کو جانچا پرکھا تو میں نے سوچا فضول وقت برباد کرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی بار تمام بڑے فیصلے کر لیے جائیں۔ میں نے ملک وحید کے والد کو قاہل کر لیا ہے اس نے وعدہ کیا کہ وہ سب کو راضی کر لے گا لڑکے کو بھی ابھی ابھی ان لوگوں نے بتا دیا ہے وہ خوش ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ امی جان نہیں مان رہیں کہہ رہی ہیں کہ نکاح کے لئے ابھی انہیں منع کر دو۔ دعا بھی ابھی تک اس فیصلے سے لاعلم ہے میں چاہتا ہوں جب رشتہ دینا ہے تو پھر نکاح میں کیا دیری۔ میں نے اپنی مرضی سے کچھ نہیں لکھوانا۔ جو وہ اپنی مرضی سے حق مہر لکھ دیں۔ ہماری طرف سے کوئی ڈیمانڈ نہیں ہو گی۔ میرا ماننا ہے کہ اپنے رب پر بھروسہ ہونا چاہیے اس لکھے ہوئے شرطوں پر نہیں۔ قسمت خراب ہو تو لکھا ہوا کچھ نہیں سنوَار سکتا۔ اور اگر ان کی طرف سے کوئی بھاری یا لالچ بھری ڈیمانڈ پیش ہوئی تو یہ رشتہ ختم لالچی لوگوں سے رشتہ نہیں جوڑنا۔ یہ ان سے پہلے پوچھنا ہے اس لیے میں نے پوری تسلی کر کے گھر بلایا ہے ادھر اُدھر سے دعوتیں کر کے وقت برباد نہیں کیا انہوں نے دعا کو دیکھا ہوا تھا اور میں نے بھی ملک وحید کے بارے میں آگے پیچھے سے پوچھ گچھ کر کے تسلی کر لی ہے۔ اب آپ نے امی جان کو منانا ہے نکاح کے لئے تاکہ بعد میں نکاح میں وقت ضائع نہ ہو اور دوسرے لوگوں کی موجودگی سے بچ کر ہو تاکہ ہمارے دونوں خاندانوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو جو دخل اندازی کر سکے۔ ان کے یا ہمارے رشتے دار ناراض ہوتے ہیں کہ نکاح پر کیوں نہیں بلایا تو لڑکے والوں کا نام لگا دیں گے اور ان کی طرف لڑکے والے ہمارا نام لگا کر جان چھڑا لیں گے میں نے ملک وحید کے والد کو ہر بات کے لیے قاہل کر لیا ہے اور وہ خوش ہوے اور تعریف کی۔ ابھی تو زبانی کلامی تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے مگر اصل سچائی نکاح کے وقت پتا چلے گی کہ وہ کتنے سچے ہیں۔ پھر جو رشتہ دار بلیک میل کرے اور شادی پر نہ آنے کی دھمکی دے تو اس کی دھمکی میں نہیں آنا جس کو سچی خوشی ہو گی وہ حالات کو سمجھتے ہوئے خوشی سے آے گا جو نہیں آتا نہ آئے وہ ناراض بےشک ہو ہم نے ناراض نہیں ہونا۔ جسے آنا ہے آے جسے نہیں آنا نہ آئے اس طرح کی بدمزگی سے بچنے کے لئے میں نے صرف دو خاندانوں کے درمیان نکاح کی تجویز رکھی ہے۔


وقار صاحب نے خوش ہوتے ہوئے اسے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی اور شاباش دی اور کہا کہ میں بہت متاثر ہوا ہوں اور اب تمھارے فیصلے سے خوش ہوں اور متفق بھی۔ تم فکر نہ کرو بیٹا میں اب معاملات کو خود دیکھوں گا اور سنبھال لوں گا اور شادی کے پورے معاملے میں تمھارا ساتھ دوں گا اور بہن کو سمجھا لوں گا تم فکر نہ کرو۔


ایان مطمئن اور خوش ہو گیا۔


مسز آفاق نے پہلی بار سنجیدگی سے تانیہ سے اس سلسلے میں بات کی کہ ایان آج ہی نکاح کرنا چاہتا ہے اور وہ لوگ بھی راضی ہیں۔ تانیہ حیران ہوئی۔ اتنے میں وقار کمرے میں داخل ہوا اور دعا کو بھی بلایا اور اپنی بیٹی کو بھی اور اپنے بیٹے کو بھی اور مختصر سب باتیں بتا دیں جو ایان اور اس کے درمیان ہوئی پھر دعا سے اس بارے میں پوچھا تو وہ یہ کہتی ہوئی اٹھ گئی کہ مجھے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں اور باہر نکل گئی ساتھ ہی اس کی بھابی بھی بولی اچھی بات ہے میں زرا انتظامات دیکھ لوں کچن کے وقت کم ہے اور باہر نکل گئی۔ اسے اس بات کی بھنک تک نہ دی نہ شوہر نے نہ ہی ساس نے وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی اور صبر کیا اور کوئی جھگڑا نہ کیا۔ اس کے باپ نے سب کو اہمیت دی اور اس فیصلے سے آگاہ کیا اور سب کو منا لیا۔


دعا کا نکاح کی بات سن کر دل دھڑکنے لگا اسے پہلی نظر میں ہی ملک وحید پسند آیا تھا وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ کالج، یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھتی رہی مگر کوئی اس کو متاثر نہ کر سکا۔ ملک وحید کا اس کے گھر چھپ کر آنا اور آ کر اس کی مرضی پوچھنا متاثر کر گیا۔ وہ حیران تھی کہ کیا کوئی کم پڑھا لکھا شخص اتنی سمجھداری کی باتیں کر سکتا ہے۔ اتنا مہزب اور عورت کو اہمیت دینے والا احساس کرنے والا ہو سکتا ہے۔ ورنہ اس حد تک عورت کے جزبات یا فیصلے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اکثر اوقات کسی لڑکی کا اس رشتے سے ناخوشی کا اظہار ہوتا ہے وہ ماں کو اپنی مرض سے آگاہ کرتی ہے مگر باپ، بھائی کے فیصلے کے آگے ماں بھی مجبور ہوتی ہے اور اسے جھوٹی تسلیاں ہی دیتی رہتی ہے ان کے غصے سے ڈراتی رہتی ہے اگر ان کو بالفرض پتا بھی چل جائے تو وہ سخت غصہ دیکھا کر چپ کروا دیتے ہیں کہ وہ اس سے بہتر جانتے ہیں کہ کیا صیہی ہے اور کیا غلط۔ پھر وہ روتی دھوتی رخصت ہو جاتی ہے اور کھبی ان کا فیصلہ درست بھی ہوتا ہے لڑکی کچھ عرصے بعد متفق بھی ہو جاتی ہے مگر کھبی کوئی جزباتی لڑکا یا لڑکی خودکشی بھی کر لیتے ہیں جب گھر والے راضی نہ ہوں۔ ہمارے معاشرے میں تو لڑکوں سے بھی نہیں پوچھا جاتا بس ان کو بھی اطلاع دی جاتی ہے پھر چاہے وہ احتجاج کریں ان کی نہیں سنی جاتی اور شادی کر دی جاتی ہے۔


دعا ملک وحید کی وجاہت اور خوبصورتی سے متاثر تھی وہ اس کے دل کو بھا گیا تھا کوئی لڑکا اسے متاثر نہ کر سکا تھا مگر ملک وحید کا ساتھ سوچ کر ہی اسے خوشی مل رہی تھی اوپر سے اس کی بھابی جو اس کی سہلی بھی تھی اسے چھیڑ چھیڑ کر اس کے جزبات بڑھا رہی تھی اور وہ شرما رہی تھی اسے تو اب اسے پانے کی خوشی اور جلدی تھی اس کے آنے کا انتظار تھا۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں


پیار نے درد کو چن لیا



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.