محبت دل کا زہر یا سرور 2
Episode 2
زہر تیری محبت کا شہد سے بھی میٹھا ہے
تیری چاہت کا اثر رگ و پے کا سرور ہے۔
ناول۔
محبت دل کا زہر یا سرور۔
امر دین کے رشتے دار کے گاؤں پہنچ گیا تھا اور باہر نکل کر دیکھا تو وہ پہاڑی علاقہ تھا ایک گھر اس پہاڑ پر اور دوسرا اس پر۔ اسے بھوک لگ رہی تھی مزارے کا رشتہ دار جو جوان لڑکا تھا۔ یہی اسے فون پر راستہ بتاتا رہا تھا۔ اس نے اسے گر جوشی سے سلام کیا مگر امر نے لفٹ نہ کرای۔ وہ شرمندہ سا ہو گیا اس نے دل میں سوچا یہ بڑے لوگ لوگ صرف۔ طلب کی بات کرتے ہیں۔ وہ سوچنے لگا یہ تو ابھی بچہ ہے پھر بھی اس کی گٹی میں یہ عادتیں پڑی ہیں۔
امر کو باپ کی فکر ستانے لگی۔
فواد کا وفادار ملازم اس کا ساتھ دینے لگا وہ ڈاکٹر صاحب کا بیگ اٹھاے اندر آنے سے پہلے خفیہ طور پر فواد کا پیغام دینے لگا تو اس نے اس کو حیرت سے دیکھا ملازم نے تو ملازم نے التجاہیا نظروں سے اسے دیکھا تو وہ جواب دیے بغیر اندر چل پڑا۔
اندر آیا تو فواد نے نوٹوں کی گڈی ہلکی سی تکیے کے نیچے سے دکھائی فواد میٹرک پاس تھا ساتھ ہی کمرے میں قیوم داخل ہوا اور ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا ڈاکٹر صاحب میں اپنے ویر کے لیے بہت پریشان ہوں آج میں شہر جاوں گا کسی بڑے ہسپتال میں اسے داخل کرانے۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا جی آپ فکر نہ کریں میں آپ سے ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔
تیمور نے مسکراتی آنکھوں سے مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے اسے دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ زرا آج ایک کپ چائے مل سکتی ہے مجھے آج تھکن محسوس ہو رہی ہے۔
وہ جلدی سے بولا کیوں نہیں جناب آپ کو دودھ پتی پلاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ نہیں صاحب مجھے چائے پینے کی عادت ہے اس لیے صرف چائے اگر پکوڑے ساتھ مل جائیں تو کیا بات ہے۔
قیوم نے کہا ابھی حاضر ہوتا ہے صاحب۔
ڈاکٹر نے بیگ کھولا اور کہا اوہو میں ان کی دوا کلینک بھول آیا ہوں میں جا کر لے کر آتا ہوں۔
قیوم بولا ڈاکٹر صاحب کوئی بات نہیں آپ دوا بعد میں لے آنا پہلے چائے پی لیں۔ دراصل میں نے آج وکیل صاحب کو بلایا ہے۔ یہ دوائیں کھا کر سو جاتا ہے اور میں نے اس سے ضروری بات کرنی ہے۔ آپ ابھی میرے بھائی کو تسلی دیں میں چائے کا کہہ کر آتا ہوں۔
وہ باہر نکلا تو فواد نے پوچھا بولو کیا میرا ساتھ دو گے۔ ساتھ ہی نوٹوں کی گڈی نکالی اس نے وعدہ کر لیا۔ فواد نے رقم دیتے ہوئے کہا کہ اب مجھے ان کے چنگل سے نکالو۔ اس نے کہا کہ میں کچھ کرتا ہوں۔ اس نے انگلش میں کہا کہ تمہیں کوئی بیماری نہیں ہے نہ ہی تم مرنے والے ہو میں تو تمہیں نیند کا انجکشن ڈرپ میں ڈال کر دیتا ہوں۔ یہ بات میں تمہیں بتانا چاہتا تھا انہوں نے مجھے آفر کی تو میں جھٹ مان گیا تاکہ تمھاری زندگی بچا سکوں انہوں نے مجھے کچھ رقم بھی دی ہے اور بھاری رقم کا وعدہ بھی کیا ہے۔ میں نے پہلے ان کا اعتبار جیتا اب چاہے کے لئے کہا تاکہ موقع لگا کر تم سے بات کر سکوں۔ یہ چاہتے تھے کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم مرنے والے ہو۔ تاکہ تمہیں اور تمہارے بیٹے کو مار کر جاہیداد حاصل کر سکیں۔ اپنے بیٹے کو بھی بچاو اور کھاو پیو تاکہ طاقت آے۔ یہ تمہیں جان کر کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ میں تمھاری ڈرپ میں طاقت کا انجکشن بھی ڈال دیتا ہوں تم خوب کمزوری کی ایکٹنگ کرو میں تمہیں اس چنگل سے نکالنے کی تدبیر کرتا ہوں۔ وکیل بھی ساتھ ملا ہو گا جاہیداد کی اٹارنی دینے کی غلطی نہ کرنا۔ پولیس بھی اس علاقے کی ان کی سنتی ہے۔
فواد نے کہا کہ مجھے معمولی زکام بخار تھا تو ان لوگوں کی حرکات مجھے مشکوک لگیں تو میں نے مہلت لینے کے لئے ان کا اعتبار جیتا اور ان کے دل کی بات خود ہی کر دی تاکہ یہ سمجھیں کہ میں انہیں ہی سب کچھ سونپ کر مرنا چاہتا ہوں۔ اب بس تم آنکھیں موند لو میں نے اس دوائی کا نعمل بدل کھلا دیا ہے اور تم سو چکے ہو۔
اتنے میں قیوم اندر آیا۔ پیچھے سے ملازم جاے اور لوازمات سے بھری ٹرالی لے آیا۔ فواد کی طرف دیکھا تو فواد نے کہا کہ میں نے بہانے سے اس جیسی دوسری دوا پلا دی ہے اب چاہے ڈھول پیٹو کافی دیر یہ نہیں اٹھنے والا۔ ویسے اب اس میں لاغری زیادہ ا چکی ہے اور کسی وکیل پر بھی بھروسہ نہ کرنا۔ یہ پرانے اور اعتباری لوگ ہی اکثر دھوکہ دیتے ہیں۔ ایک وکیل نے کسی انپڑھ کی جاہیداد اپنے نام لکھوا لی تھی۔ اس لیے کہتا ہوں کہ تم انپڑھ لوگ ہو بےشک پرانا اور خاندانی وکیل ہو دھوکہ کر سکتا ہے۔ ابھی مجھے اس کے ٹیسٹ کرنے ہیں پھر کسی اور ایسے مریض سے تبدیل کرنے ہیں جس کی لاسٹ اسٹیج ہو۔ کیونکہ عدالت ثبوت مانگتی ہے اور ابھی جلدی نہ کرو اسے کھانا پینا دو تاکہ یہ زندہ رہے۔ آجکل کمپیوٹر کا دور ہے۔ پورا procedure ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ اس سے انگوٹھا لگوا کر یا وکیل کے کہنے پر چند کاغذات پر ساہن کروا کر اسے مروا دو تو بعد میں جاہیداد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو۔ میرا ایک دوست وکیل ہے وہ یہ قصے سناتا ہے۔ اسی طرح کسی کے ایک ساہن کی وجہ سے ایک شخص جاہیداد سے محروم رہ گیا اس نے بھی اسے مروانے کی جلدی کی تھی۔ بعد میں وہ شک کی بنا پر پکڑے بھی گئے اور باپ بیٹے جیل میں قید ہیں۔
قیوم پریشانی سے بولا اب کیا کریں ہم ابپڑھ لوگ ہیں۔
وکیل بولا تو پڑھاو نا بچوں کو۔ کچھ لوگ شوق رکھنے کے باوجود پیسے نہ ہونے کے سبب تعلیم سے رہ جاتے ہیں۔ اور کچھ شوق کے پیچھے غربت میں بھی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں اور پھر معزرت کے ساتھ تم جیسے پیسے اور جاہیداد والے ڈاکٹروں اور وکیلوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ سوچو تم لوگ اگر تعلیم بھی حاصل کر لو تو ان لوگوں کے دھوکے اور محتاجی سے بھی بچ سکتے ہو۔
قیوم پچھتاتے ہوئے بولا تم صیہی کہتے ہو۔ میرے دو بیٹے ہیں مگر میں نے انہیں تعلیم نہ دلائی کہ کیا ضرورت ہے جب ہم ساری زندگی بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔
اتنے میں شور اٹھا تو قیوم تیزی سے باہر بھاگا۔
جاری ہے۔ دعاگو راہٹر عابدہ زی شیریں۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ جزاک اللہ۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.