Back to Novel
Muhabbat Dil Ka Zehr Ya Suroor
Episodes
قسط 1: محبت دل کا زہر یا سرور 1 قسط 2: محبت دل کا زہر یا سرور 2 قسط 3: محبت دل کا زہر یا سرور 3 قسط 4: محبت دل کا زہر یا سرور 4 قسط 5: محبت دل کا زہر یا سرور 5 قسط 6: محبت دل کا زہر یا سرور 6 قسط 7: محبت دل کا زہر یا سرور 7 قسط 8: محبت دل کا زہر یا سرور 8 قسط 9: محبت دل کا زہر یا سرور 9 قسط 10: محبت دل کا زہر یا سرور 10 قسط 11: محبت دل کا زہر یا سرور 11 قسط 12: محبت دل کا زہر یا سرور 12 قسط 13: محبت دل کا زہر یا سرور 13 قسط 14: محبت دل کا زہر یا سرور 14 قسط 15: محبت دل کا زہر یا سرور 15 قسط 16: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 17: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 18: محبت دل کا زہر یا سرور 18 قسط 19: محبت دل کا زہر یا سرور 19 قسط 20: محبت دل کا زہر یا سرور 20 قسط 21: محبت دل کا زہر یا سرور 21 قسط 22: محبت دل کا زہر یا سرور 22 قسط 23: محبت دل کا زہر یا سرور 23 قسط 24: محبت دل کا زہر یا سرور 24 قسط 25: محبت دل کا زہر یا سرور 25 قسط 26: محبت دل کا زہر یا سرور 26 قسط 27: محبت دل کا زہر یا سرور 27 قسط 28: محبت دل کا زہر یا سرور 28 قسط 29: محبت دل کا زہر یا سرور 29 قسط 30: محبت دل کا زہر یا سرور 30

محبت دل کا زہر یا سرور 18

Episode 18

ڈاکٹر صاحب کو جب ماں نے خوشی سے بتایا کہ وہ شبنم سے اس کی شادی کرنا چاہتی ہیں تو وہ حیرت سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا ماما کیا آپ میری سگی ماں ہیں۔


ماں نے حیرت سے پوچھا کیوں کیا ہوا۔


وہ غصے سے بولا کہ آپ اپنے کنوارے بیٹے کے لیے ایک ایسی لڑکی جس کا آگے پیچھے کوئی نہیں، جو بیوہ ہے اس کے ساتھ میری شادی کے بارے میں کیسے سوچ سکتی ہیں۔ کیا میں آپ کا سگا بیٹا نہیں ہوں یا آپ مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔


ماں نے حیرت سے کہا کہ کیوں کیا برائی ہے اس میں۔ بیوہ ہونے میں اس کا کیا قصور ہے۔ وہ نسلوں کو سنبھالنے والی ہے۔ اس گھر کو سنبھالنے والی ہے۔


ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ماما آپ کو گھر سنبھالنے کے لیے کوئی لڑکی چاہیے تو وہ میری بیوی یا آپ کی بہو ہی کیوں ہو اسکے لئے ملازمہ رکھی جا سکتی ہے۔ شبنم کو ہی رکھ لیں اس کا ویسے بھی آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ اس کو گھر مل جائے گا اور آپ کو گھر سنبھالنے والی۔ دونوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ وہ بھی خوشی سے رہنے کو تیار ہو جائے گی۔


باپ نے کہا کہ بیٹا میری اس رشتے میں کوئی رضا نہ تھی یہ تو تمھاری ماما کا ہی اہیڈیا تھا کہ چلو ان کی گھرداری بھی چلتی رہے گی۔


ماں نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ ٹھیک ہے اس کو پھر جلدی سے لے آو۔ تمھاری شادی میں بھی سو کام ہوں گے۔


ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے میں اس سے بات کرتا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔


شبنم چاے بنا کر پینے کے لیے بیٹھی ہی تھی کہ باہر ڈور بیل بجی۔ شبنم نے سوچا خالہ جی ہوں گی وہی وقت بے وقت آتی رہتی تھی اور شبنم کا دل بھی ان کی باتوں سے لگ جاتا تھا کیونکہ وہ چلتی پھرتی بی بی سی تھی پورے محلے کی خبریں ان کے پاس سے ملتی تھی بس وہ صرف شغل شغلِ میں بتاتی تھی لگائی بجائی کی عادت نہ تھی پیٹ کی بھی ہلکی تھی اپنے گھر کی ساری رپورٹس بھی آ کر دے جاتی تھی۔


شبنم نے دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر اس کی دل کی کلی کھل گئی کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ فون کر کے آتے تھے۔


اس نے انہیں اندر آنے کا راستہ دیا اور الاونج میں بٹھایا۔ کنفیوز سی ہو رہی تھی کیونکہ وہ جب بھی آتے تو وہ پہلے سے ہی کچھ پکا کر رکھتی۔ آج تو ویسے بھی کچھ نہ پایا تھا شام کو چاول پکانے کا پلان تھا۔ اس نے اپنا چاے کا بڑا سا کپ انہیں پیش کیا تو وہ بولے میں چائے زیادہ نہیں پیتا آپ پی لو ٹھنڈی ہو جائے گی۔


ڈاکٹر صاحب آج حسبِ معمول قدرے پریشان اور خاموش سے تھے۔


شبنم جوس بنا کر لے آئی۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں پی لیا۔ شبنم نے قدرے حیران ہو کر انہیں دیکھا۔


وہ کھوے کھوے سے لگ رہے تھے۔


شبنم نے بات شروع کی اور ہلکہ سا گلہ کیا کہ کافی دن سے آپ کا کوئی فون نہیں آیا۔ شاید مصروف تھے۔


شبنم بھی بغیر کسی وجہ کے فون خود سے نہ کرتی تھی وہی اس کا حال احوال پوچھنے کے لیے فون کرتے رہتے تھے۔ شبنم کو الجھن سی محسوس ہو رہی تھی ان کی خاموشی سے۔


شبنم نے کہا کہ گھر میں سب خیریت ہے نا۔ آنٹی کیسی ہیں اگر آنے سے پہلے فون کر دیتے تو میں کچھ پکا دیتی آنٹی کو میرے ہاتھ کا کھانا پسند ہوتا ہے۔


وہ جب بھی آتے شبنم ان کے ہاتھ ضرور ان کی ماں کے لیے کچھ نہ کچھ بھیجتی۔ وہ فون کر کے اس کے کھانے کی تعریف کرتی اور شکریہ ادا کرتی جس سے شبنم کو دلی سکون ملتا آخر وہ لوگ اس کے محسن تھے ان کا احسان وہ کیسے اتارتی۔


ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اب یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا آپ اب روز انہیں اپنے ہاتھ کے کھانے کھلا سکیں گی۔


شبنم کا دل دھڑکنے لگا اس نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چراتے ہوئے جیب سے شادی کارڈ نکال کر آگے رکھتے ہوئے بولے میری شادی ہو رہی ہے اور ماما چاہتی ہیں کہ آپ ان کے پاس ہی شفٹ ہو جاہیں آپ ویسے بھی ادھر اکیلی رہتی ہیں اور ان کو شادی کے کاموں میں آپ کی ہیلپ کی بھی ضرورت ہے۔


شبنم کے دل پر جیسے گھونسا پڑا ہو وہ دل برداشتہ ہوئی آنکھوں میں نمی سی آئی ڈاکٹر صاحب اس کی کیفیت دیکھ رہے تھے اور دل میں پشیمانی اور دکھ محسوس کیا اور دل میں مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ اس کی خبرگیری ہمیشہ کرتے رہیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔


شبنم نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور سوچا وہ آسمان ہیں اور وہ زمین بھلا اس کا اور ان کا کیا میل جوڑ۔ وہ تو پہلے ہی اپنے دل کو تسلی دیتی رہتی تھی کہ وہ اگر آفر بھی کریں گے تو وہ قبول نہیں کرے گی کیونکہ وہ خود کو ان کے قابل نہیں سمجھتی تھی اور ان کی زندگی اپنے ساتھ برباد نہیں کرنا چاہتی تھی۔


شبنم نے خوشی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ بہت بہت مبارک ہو آپ کو میں شادی کے کاموں میں بھرپور تعاون کروں گی مگر میں ہمیشہ کے لیے ادھر شفٹ نہیں ہو سکتی میں یہاں خوش اور مطمئن ہوں۔ ویسے بھی میں نے اپنے والدین کو بھی تلاش کرنا ہے وہ ایسی ہی کسی محلے ٹائپ جگہ پر رہتے تھے۔


ڈاکٹر صاحب نے کہا ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔ اور تیزی سے اٹھ کر چل پڑے۔


وہ گاڑی میں بیٹھ کر شبنم کے بارے میں سوچ سوچ کر دکھی ہوتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ شاید قسمت کھبی مہربان ہو اور شبنم کو والدین مل جائیں تو اگر وہ بیوہ کا جھوٹ بول کر اس سے شادی کر بھی لیتے تو شادی کے بعد ان کے گھر والے، خاندان والے اسے قبول نہ کرتے اگر حقیقت کھل جاتی پھر اس کی زندگی بھی برباد تھی اور ان کا خاندان بھی بدنام ہو جاتا وہ یہ سب باتیں سوچ کر اپنے خاندان کو ایک نئی مصیبت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے انہیں اسے چھوڑنا ہی پڑا وہ تو ان کے گھر والے رحم دل تھے جو اس سے ناطہ رکھنے دیتے تھے۔


آنسو ان کی آنکھوں سے گر رہے تھے وہ اسے پسند کرتے تھے اگر وہ ماں کو اس طرح سختی سے نہ کہتے تو ماں کھبی پیچھے نہ ہٹتی۔ ماں شبنم کو بہت پسند کرتی تھی۔ اگر اس کا ماضی نہ ہوتا اور وہ صرف بیوہ ہوتی تو وہ اسے اپنانے کی کوشش کرتے اور فخر محسوس کرتے مگر وہ معاشرے سے لڑنے کی تاب نہ رکھتے تھے انہیں اپنے والدین کی عزت بھی عزیز تھی انہوں نے دل پر پتھر صرف اپنے پیاروں کے لیے رکھا۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ


ناول نگار عابدہ زی شیریں



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.