محبت دل کا زہر یا سرور 28
Episode 28
شبم گھر پہنچی تو رونے سے طبیعت نڈھال سی تھی لیکن چہرہ خوشی سے دھمک رہا تھا اس کے شوہر نے دیکھا اور کہا کہ آپ کو لگتا ہے کہ پارک میں بہت مزہ آیا۔
وہ کھوے کھوے انداز میں بولی اتنا مزہ کہ جتنا کھبی ساری زندگی نہیں آیا۔
فواد نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ پھر تو میں اس کے قریب گھر لے لیتا ہوں۔
وہ مسکرا کر چل پڑی۔
شبنم کے گھر والے بے انتہا خوش تھے سواے بڑی بھابی کے۔ وہ اس گھر کی کرتا دھرتا تھی کیونکہ اس کے شوہر کی آمدنی سے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ ا
اپنے آبائی گھر کو سیل کر کے اس کے شوہر نے اور پیسے ڈال کر بڑا گھر خریدا تھا۔
شوہر بیوی کی بہت سنتا تھا اس لیے سب اس کے آگے بے بس تھے۔ دیور کے دو بیٹے تھے دیور کی آمدنی اس کے مقابلے میں کم تھی۔ شبنم کی چھوٹی بھابھی بہت اچھی تھی وہ ساس سسر کی خدمت کرتی۔
شبنم کا چھوٹا بھائی جب شبنم سب سے باتوں میں مصروف تھی تو وہ بھاگ کر اپنا باہک لے آیا تھا۔ اس نے شبنم کی گاڑی کا پیچھا کیا اور گھر دیکھ آیا۔
شبنم اپنی دھن میں مگن گاڑی چلا رہی تھی اسے دنیا کی کوئی ہوش نہ تھی ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیوی نے بھی بہت مبارک باد دی تھی۔
شبنم کی ماں گھر آ کر رو رہی تھی کہ بیٹی کا چہرہ بھی جی بھر کر نہ دیکھ سکی۔ چھوٹے بیٹے نے ماں کو پیار سے سمجھایا کہ وہ ایک پیار کرنے والے شوہر اور ایک خوشحال عزت دار زندگی گزار رہی ہیں میں ان کا گھر دیکھ کے آیا ہوں۔ لیٹسٹ ڈیزائن کا خوبصورت اور اچھی سوسائٹی میں ہے۔
والدین اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنے لگے۔
چھوٹے بھائی نے ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اب آپی آئی تو اسے گھر ضرور لے کر آوں گا کون سا میری بھتیجی کے سسرال والے ہر وقت گھر میں موجود ہوتے ہیں۔
بھابی تیزی سے اندر آئی اور ساس کے پاس بیٹھ کر اونچی آواز میں روتے ہوئے فریاد کرتے ہوئے دیور سے گلے کرنے لگی کہ تمھاری بیٹی کوئی نہیں ہے ناں اس لیے تمہیں احساس نہیں کہ بیٹیوں کے معاملے کتنے نازک ہوتے ہیں۔ پہلے بھی شبنم کی وجہ سے تمھارے بھائی کو حوالات کی ہوا کھانی پڑی۔ اگر دوبارہ ایسا ہوا یا خدانخواستہ میری بیٹی کے سسرالیوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو میری بیٹی کا گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ جائے گا۔ میں نے کہا ہے ناں کہ شادی خیریت سے ہو جانے دیں پھر اس سے ملتے جلتے رہنا میں آپ لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر منت کرتی ہوں کہ میری بیٹی آپ لوگوں کی بھی کچھ لگتی ہے۔ اس کا گھر سکون سے بسنے دیں۔ بڑے نصیبوں سے اتنا اچھا رشتہ مل رہا ہے۔ آپ لوگ اپنے جزبات پر قابو رکھیں اب مل گئی ہے نا بیٹی پھر کیا مسئلہ ہے۔
شبنم کا بڑا بھائی بیوی کا شور سن کر اندر آ چکا تھا اور بیوی کو سب کے سامنے روتے اور فریاد کرتے دیکھ رہا تھا اس کا دل بیوی کے لیے پگھل رہا تھا اس نے بیوی کی طرف دیکھا اور سب کو اعلان کرتے ہوئے وارننگ دی کہ جب تک میری بیٹی کی شادی نہیں ہو جاتی اس وقت تک اب شبنم سے کوئی تعلق نہیں رکھے گا نہ اس سے ملے گا آپ لوگوں کو صبر کرنا ہو گا ورنہ میری بیٹی کے رشتے میں کوئی رکاوٹ آ سکتی ہے اب کسی نے مجھے شبنم کا طعنہ دیا تو میں خود کو گولی مار لوں گا پھر آپ لوگ خوش ہو کر اس سے کھلم کھلا ملتے رہنا۔
سب دم بخود رہ گئے۔ بھابی نے مکاری سے آنسوؤں کو صاف کیا اور اسے اندر لے جا کر پانی پلایا اور اسے مکاری سے تسلی دی۔
شبنم کے چھوٹے بھائی کی غصے سے کنپٹیاں جل رہی تھی اس کی بیوی نے اسے حوصلہ اور تسلی دی کہ آپ روز شبنم آپی سے فون پر بات کر لیا کرنا اور والدین کی بھی کرواتے رہنا۔ آپ بس یہ سوچ کر خوش ہوتے رہیں وہ ماشاء اللہ اپنے گھر میں شادآباد ہے۔
سسر نے بھی بہو کی تاہید کی۔
ماں آنسوؤں کو صاف کرنے لگی۔
چھوٹا بیٹا اٹھ کر غصے سے کمرے میں آیا۔ بیوی بھی پیچھے آئی۔
وہ غصہ سے بولا بس شادی تک میں ادھر رکا ہوا ہوں اس کے بعد میں الگ گھر لے کر والدین کو ساتھ لے جاوں گا اور پھر شبنم آپی کے شوہر سے ملوں گا ان کو ساری حقیقت بتاوں گا اور پھر اپنی بہن سے کھلم کھلا بغیر کسی رکاوٹ کے والدین کو ملوا سکوں گا انشاءاللہ۔
بیوی نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ شبنم باجی نے کسی مصلحت کے تحت ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر ان سے چھپایا ہوا ہے یہ نہ ہو کہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جائے گا ان کا ہنستا بستا گھر خطرے میں پڑ جائے۔
وہ بولا اچھا ہے اس کی بھی آزمائش ہو جائے گی اگر اس نے نہ رکھا تو ہم اپنی بہن کو اپنے پاس رکھ لیں گے۔ ویسے بھی وہ ہم سے اتنے سال دور رہی ہیں اب کو ہمارے پاس رہنا چاہیے۔
اس کی بیوی بولی آپ کی بتائی ہوئی باتوں سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ شبنم باجی شوہر پرست عورت ہیں۔ وہ شوہر کو کھبی نہیں چھوڑیں گی۔ آپ نے دیکھا نہیں شوہر کا فون آتے ہی ایک منٹ بھی نہیں رکیں۔ کوئی بہانہ بنا کر مزید رک سکتی تھیں۔
شبنم کی چھوٹی بھابی بہت اچھی تھی شبنم اب بیٹے کی شادی کی تیاریوں کا بہانہ کر کے دوبارہ پارک نہیں آئی تھی کیونکہ اس کی بڑی بھابی نے اس کو بھی رونے دھونے کا ڈرامہ کر کے فون پر شادی تک دوبارہ نہ ملنے سے روک دیا تھا اور شبنم اتنی غیرت والی تھی کہ اس نے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی کرے گی۔
شبنم کے چھوٹے بھائی نے بمشکل شبنم کو راضی کر کے ایک کیفے میں کھانے پر بلایا۔ اپنے والدین اور اپنے بیوی بچوں کو اس سے ملوایا اور تحاہف بھی دیے۔ سب مل کر بہت خوش ہوے۔ شبنم کا شوہر گاوں اپنی زمینوں کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور اس نے لیٹ آنا تھا جبکہ بیٹا باپ کے وارننگ دینے پر کرائے کا گھر لے کر اس کو مینج کر رہا تھا۔ شبنم کے شوہر کا فون آیا کہ وہ گاوں سے واپس آ رہا ہے تو پھر شبنم نہ رکی اور چلی گئی۔
گھر پہنچ کر جلدی سے گفٹ کھولے ان کی پیکنگ کو ویسٹ کیا اور جب شوہر آیا تو اسے گفٹ بتاے اور کہا کہ اس نے شاپنگ کی ہے۔
فواد بہت تھکا ہوا تھا اس نے ایک نظر دیکھ کر تعریف کی۔ ویسے بھی وہ اسے نہ کسی جگہ آنے جانے سے روکتا تھا نہ ہی اس سے کھبی پیسے وغیرہ کا حساب کتاب لیتا تھا نہ ہی اس کی کسی چیز کی کھوج میں رہتا تھا۔
شبنم اداس تھی کہ بیٹا گھر سے چلا جاے گا اس نے اسے رو رو کر بتایا بھی تھا کہ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتی اس کے بچوں کو اپنی گود میں کھلانا چاہتی ہے۔ فواد نے جب اسے روتے ہوئے فریاد کرتے دیکھا اور جواب میں امر خاموش رہا تو اسے بہت غصہ آیا اس نے بیٹے کو لعن طعن کی اور کہا کہ میرا بس چلے تو میں تمھیں ابھی گھر سے نکال دوں مگر یہ تمھارا سہرہ دیکھنے کی شوقین ہے۔
امر باپ کی ڈانٹ پھٹکار سے شکل بنا کر گھر سے باہر چلا گیا۔
شبنم نے شوہر سے کہا کہ آپ ماں بیٹے کے بیچ میں نہ آیا کریں آپ کو کتنی بار سمجھایا ہے کہ اس طرح اس کے دل میں احساس کمتری پیدا ہو گی کہ میرا باپ مجھ سے زیادہ مجھ سے محبت کرتا ہے اب کل اس کے سسرال جانا ہے کتنا خوش تھا زندگی میں پہلی بار وہ اپنی پسند سے میرے لیے سوٹ لایا تھا کہ یہ پہن کر جانا۔
فواد نے جل کر کہا وہ اپنی عزت بنانے کے لیے لایا تھا کہ اچھا قیمتی سوٹ پہن کر جاہیں تاکہ اس کی عزت بڑھے۔ وہ جانتا ہے کہ آپ اپنی زات پر خرچ نہیں کرتیں۔
شبنم نے کہا جس صورت میں بھی مجھے بیٹے کی طرف سے تحفہ تو ملا۔
فواد نے جل کر کہا کہ وہ بےعزتی کرنا بےقدری کرنا نہیں چھوڑتا آپ پھر بھی اسی آس میں زندگی گزار دینا۔
شبنم نے کہا کہ کہ میں اپنے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں مجھے اپنے بیٹے کے لیے اس سے اچھی امید ہے خدا صبر کا پھل بھی ضرور دیتا ہے۔ اس جہاں میں نہ ملا تو اگلے جہاں میں ضرور ملے گا انشاءاللہ۔
شبنم نے ہمت کر کے آنسو صاف کر کے اٹھتے ہوئے کہا کہ کل کے لیے مجھے خوش ہونے دیں۔ مجھے تیاری کرنے دیں۔
جاری ہے۔
ناول نگار عابدہ زی شیریں۔
پلیز اسے لاہک شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.