محبت دل کا زہر یا سرور 13
Episode 13
شبنم اپنے کمرے میں بیٹھی اس کی آہ و بکاہ سن کر دکھی ہو رہی تھی۔ مگر اس کے لئے کچھ نہ کر سکتی تھی اس معاملے میں کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہ تھا۔ بس اپنے رب سے ہی التجا کرتی کہ اس سمیت تمام ایسی بےکس ومجبور عورتوں کی مدد فرما جو اپنے لالچ اور دولت کی حوس میں کتنی ماوں کی گود اجاڑتے ہیں کتنی لڑکیوں کی زندگی تباہ کرتے ہیں۔ کتنے والدین کو خون کے آنسو رلاتے ہیں اس نے دل میں زور وشور سے اپنے رب سے دعائیں کرنی شروع کر دیں اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ملکہ بی چلا کر غصے سے بولی ابھی اس پر شرافت کا بھوت چڑھا ہے ہم یہ بھوت اتارنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اتنے میں ملکہ بی کو فون آیا کہ کسی کسٹمر کی آمد ہے اور اسے کوئی احتجاج کرنے اور چیخنے چلانے والی لڑکی چاہیے تو ملکہ بی مسکراتے ہوئے اپنے ساتھی سے بولی لو اب تمھیں بھی تشدد کی زحمت نہیں کرنا پڑے گی اور اس کی عزت نہ بچی تو بعد میں خود ہی ہمارے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہو جاے گی۔ اس کی قسمت بھی اچھی ہے جو تشدد سے بچ گئی۔
شبنم کی اس طرح ٹینشن سے طبیعت خراب ہو گئی۔ اس کو بخار نے آ لیا۔ شبنم کو اس نے بتایا کہ اس کی طبیعت خراب ہے۔ پہلے بھی وہ کافی بار اس ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی تھی اور بہانے سے مدد کی اپیل بھی کی تھی جواب میں اس نے وعدہ بھی کیا تھا اور کھبی کبھار اسے فون بھی کر لیتا تھا اور کہتا تھا کہ موقع ملتے ہی وہ اس کی مدد کرے گا ابھی اس کا میرے پاس آنے کا اعتماد بحال ہونے دو۔ میں خود بھی بےبس ہوں میرے پاس کوئی زریعہ نہیں ہے اکیلے ہی مدد کروں گا مگر سمجھ نہیں آتی کیسے کروں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ کسی کو مجھ پر شبہ بھی نہ ہو اور میری فیملی پر بھی آنچ نہ آئے۔
شبنم دن رات محنت کر کے تعلیم کے منازل طے کرتی جا رہی تھی اس کی ٹیچر کو بھی لالچ تھا کہ جلد از جلد اسے پرائیوٹ طور پر ایم اے کروا دے۔ اب اس نے ایم اے کے پیپرز دینے تھے۔
شبنم نے اپنے مہربان کسٹمر سے التجا کی کہ وہ کچھ مدد کرے اسے اس گندگی کے ماحول سے نکلنے کی۔ جب وہ آیا تو اس کا حسبِ معمول ایک ہی جواب تھا کہ وہ پیسے سے مدد کر سکتا ہے مگر عملی ان چکروں میں پڑ کر اپنی فیملی کو مشکل میں نہیں ڈال سکتا۔
شبنم نے کافی رقم پس انداز کر لی تھی اس نے کہا کہ وہ ملکہ بی سے اسے خرید کر آزاد کر دے بس وہ اسے اس چنگل سے نکال دے پھر وہ ڈاکٹر صاحب سے ہیلپ لے لے گی جنہوں نے اس کی مدد کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ وہ بمشکل راضی ہوا اس نے ملکہ بی سے بات کرنے کا وعدہ کیا۔
شبنم جی جان سے محنت کر کے ایم اے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس نے بہت محنت سے اور کامیابی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ اب اسے اس کسٹمر کے جواب کا انتظار تھا کہ اس نے ملکہ بی سے اس کے خریدنے کی بات کی اور کیا جواب ملا۔
ڈاکٹر صاحب نے اسے فون کر کے بتایا کہ انہوں نے ایک تین مرلے کا گھر خریدا ہے اور ان کے زہن میں ایک پلان ہے کہ اگر تم کسی طریقے سے ادھر سے فرار ہو کر اس کے پاس آ جاو تو تمہیں اس گھر میں رکھ لوں گا تم اس محلے میں اپنے آپ کو بیوہ ظاہر کرنا چھوٹا سا محلہ ہے قریب ہی ایک پرائیویٹ اچھا اسکول بھی ہے جس کا پرنسپل میرا واقف ہے میں نے اس سے بات کر لی ہے کہ میری کزن بیوہ ہے۔ اس کو وہاں جاب چاہیے تو اس نے رضامندی ظاہر کی ہے تم باہر کھبی برقعے کے بغیر نہ نکلنا ادھر کسی کو شک بھی نہیں جاے گا میں بھی آتا جاتا رہوں گا میں نے گھر میں ضرورت کا سب سامان ڈال دیا ہے۔ اب تم جب بیمار ہو تو میں تمہیں ہاسپٹل سے فرار کرنے کی کوشش کروں گا پھر کسی بہانے سے تمہیں ایکسرے کروانے کے لیے بھیجوں گا وہاں پر تمہیں برقع بہانے سے پکڑا دوں گا تم موقع لگا کر باہر نکل کر میرے بتاے ہوئے اس گھر کے ایڈریس پر رکشے میں چلی جانا چابی اسی شاپر میں ہو گی میں فون پر رابطہ رکھوں گا مگر ہاسپٹل روٹین میں بیٹھا رہوں گا تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو۔
شبنم نے ملکہ بی سے کہا کہ اسے ہاسپٹل جانا ہے۔ ملکہ بی نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اسے بیمار لگی اس نے کہا کہ آج ایک خاص کسٹمر آ رہا ہے اور وہ نہیں جا سکتی۔ تم کوئی گولی کھا لو کل لے جاوں گی۔ وہ مایوس ہو گئی ملکہ بی نے اسے گولی دیتے ہوئے آرام کرنے کی ہدایت دی۔
وہ چاے کے کپ کے ساتھ کمرے میں آئی اور کمرے میں آ کر کسٹمر کو فون کیا کہ کیا اس نے اسے خریدنے کی بات کی ہے تو وہ غصے سے بولا کہ سنو لڑکی میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب آخری بار بتا رہا ہوں کہ اب دوبارہ مجھے فون کیا یا اس قسم کی بات کی تو میں ملکہ بی کو بتا دوں گا۔ میں نے ہلکی سی بات کی کہ کیا تم یہ لڑکیاں بیچتی بھی ہو تو وہ سخت برہم ہو گئ اور بولی نہیں۔ اگر بیچا بھی تو کروڑوں میں دوں گی۔ اور سنو میں اپنی فیملی کو تمھارے پیچھے ان خطرناک لوگوں کی دشمنی میں نہیں ڈال سکتا اور آہندہ سے مجھ سے ایسی کوئی توقع نہ رکھنا۔ میں تمھیں بلاک کرنے لگا ہوں۔
شبنم بہت روئی۔ اب رہ گیا ڈاکٹر صاحب اب اسے آزمانا تھا مگر پھر بھی وہ اوپر والے کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئی اور آخری سانس تک اس جہنم سے نکلنے کا عزم کر لیا۔
جاری ہے۔
ازقلم عابدہ زی شیریں۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔
شکریہ۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.