Back to Novel
Muhabbat Dil Ka Zehr Ya Suroor
Episodes
قسط 1: محبت دل کا زہر یا سرور 1 قسط 2: محبت دل کا زہر یا سرور 2 قسط 3: محبت دل کا زہر یا سرور 3 قسط 4: محبت دل کا زہر یا سرور 4 قسط 5: محبت دل کا زہر یا سرور 5 قسط 6: محبت دل کا زہر یا سرور 6 قسط 7: محبت دل کا زہر یا سرور 7 قسط 8: محبت دل کا زہر یا سرور 8 قسط 9: محبت دل کا زہر یا سرور 9 قسط 10: محبت دل کا زہر یا سرور 10 قسط 11: محبت دل کا زہر یا سرور 11 قسط 12: محبت دل کا زہر یا سرور 12 قسط 13: محبت دل کا زہر یا سرور 13 قسط 14: محبت دل کا زہر یا سرور 14 قسط 15: محبت دل کا زہر یا سرور 15 قسط 16: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 17: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 18: محبت دل کا زہر یا سرور 18 قسط 19: محبت دل کا زہر یا سرور 19 قسط 20: محبت دل کا زہر یا سرور 20 قسط 21: محبت دل کا زہر یا سرور 21 قسط 22: محبت دل کا زہر یا سرور 22 قسط 23: محبت دل کا زہر یا سرور 23 قسط 24: محبت دل کا زہر یا سرور 24 قسط 25: محبت دل کا زہر یا سرور 25 قسط 26: محبت دل کا زہر یا سرور 26 قسط 27: محبت دل کا زہر یا سرور 27 قسط 28: محبت دل کا زہر یا سرور 28 قسط 29: محبت دل کا زہر یا سرور 29 قسط 30: محبت دل کا زہر یا سرور 30

محبت دل کا زہر یا سرور 24

Episode 24

شبنم نے کل نکاح کے بندھن میں بندھنا تھا وہ مستقبل کے سہانے خواب دیکھ رہی تھی کہ وہ اب عزت سے زندگی جیے گی۔ ایک دن رہ گیا تھا مگر حیرت تھی کہ پہلے ڈاکٹر صاحب کی ماں اس قدر اتاولی تھی کہ بس نہیں چلتا تھا کہ اسی دن ہی اسے نکاح کروا لے۔ اور جب سے وہ واپس آئی تھی نہ ہی اس کی ماں نے فون کیا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب نے۔ وہ یہ بات مانتی تھی کہ وہ بہت مصروف تھے۔ اب ایک دن رہ گیا تھا اور اسے ان لوگوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ پہلے تو وہ شرم میں رہی پھر دہن میں آیا ہو سکتا ہے آنٹی اس سے ناراض ہوں کہ اس نے خود بھی فون نہیں کیا۔ وہ اسی بات کو سوچتی ہوئی ان کے گھر چل پڑی۔ وہاں یہنچی تو سامنے سے ڈاکٹر صاحب آ رہے تھے اسے دیکھ کر چونکے اس نے سلام کیا وہ جواب دے کر تیزی سے گاڑی اسٹارٹ کر کے نکل گئے۔


شبنم نے دل میں سوچا یہ تو ابھی بھی بہت مصروف لگ رہے ہیں کہ بات کرنے کا وقت بھی نہیں۔ پھر اس نے دل میں مسکراتے ہوئے سوچا شاید شرما گئے ہوں گے۔ اس کی واقف ملازمہ سامنے آتی نظر آئی اسے دیکھ کر چونکی سلام کیا اور جانے لگی تو اس نے آنٹی کا پوچھا اتنے میں آنٹی کمرے سے باہر نکلیں اسے حیرت سے دیکھا اس نے گرم جوشی سے سلام کیا انہوں نے سنجیدگی سے ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھا۔


شبنم نے دلار سے ان کی بازو کو پکڑ کر سلام کیا تو انہوں نے جھٹکے سے بازو چھڑوا لی اور اسے اگنور کر دیا۔ شبنم کنفیوژن کا شکار تھی کہ آنٹی کس بات سے اس سے خفا ہیں۔


ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ سامنے سے ڈاکٹر صاحب کی بیوی ہاتھوں میں کپڑے اٹھاے آتی نظر آئی شبنم اسے دیکھ کر گنگ رہ گئی۔


اس نے شبنم کو دیکھا اور مسکراتی ہوئی گرمجوشی سے اس سے ملی۔ پھر آنٹی کو دیکھ کر بولی ماما یہ آپ کے کپڑے دھوبی سے دھل کے آ گئے ہیں آپ کی الماری میں رکھ دوں۔


ساس نے بدستور سنجیدہ شکل بنائی رکھی تھی اور تیوری پر بل تھے۔ اسے پیار سے ڈانٹتے ہوئے بولی تم کیوں کام کر رہی ہو تمہیں یہاں کام کے لیے تھوڑی لاے ہیں اس کام کے لیے ملازم ہیں تم آرام کرو۔


پھر ڈانٹ کر زور زور سے ملازمہ کو آواز دینے لگیں۔ اور کمرے میں چل پڑیں۔


اتنے میں باہر گاڑی کی آواز آئی۔ ڈاکٹر صاحب اندر آ گئے۔


ان کی بیوی شبنم سے بڑے پیار سے گویا ہوئی شبنم آرام سے بیٹھو تمھارا اپنا گھر ہے۔


ڈاکٹر صاحب اسے اگنور کرتے اندر چل پڑے۔


ڈاکٹر صاحب کی بیوی نے اسے دیکھ کر کہا شبنم میں نے تم سے بات کرنی ہے۔


شبنم بدستور خاموش تماشائی بنی ہوئی بیٹھی تھی۔


ڈاکٹر صاحب کی بیوی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیار سے سلاتے ہوئے کہا کہ تم نے میرا گھر بچایا ہے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ تمہیں بھی کوئی عزت دینے والا شخص مل جائے۔


پھر اس نے بتایا کہ جب وہ اس کے گھر آئی تو اسے بہت مظلوم اور معصوم لگی۔ پھر اس نے سوچا کہ اس کا شوہر ویسے ہی نہیں اس کا گرویدہ۔ حالانکہ میں تمھاری حقیقت جانتی بھی ہوں۔ پھر بھی میرا شوہر مجھے چھوڑ کر تمھاری عزت کرتا ہے۔ آخر میں کیوں نہیں عزت کروا سکتی۔ ساس میری تمھارے گن گاتی ہے۔ میرے کیوں نہیں۔ پھر تمھارے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا سوچ کر میں کانپ گئی کہ کیا میں تمہیں ان کے ساتھ برداشت کر پاوں گی جبکہ تم انہیں پانے اور میں کھونے والی تھی۔


پھر دوسرے دن اپنے پپی کو واک کروا رہی تھی کہ دو عورتوں کی گفتگو سن کر میں نے عقل پکڑ لی کہ عقلمند عورت کھبی زیادہ دیر اپنے شوہر سے ناراض نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اسے اکیلا چھوڑتی ہے اور نہ ہی اس سے لاتعلق رہتی ہے ورنہ وہ اکثر اسے کھو دیتی ہے۔


ہماری تعلیم، ہماری ڈگریوں کا کیا فائدہ کہ زندگی کے اہم معاملات کو بھی نہ چلا سکیں جو گھر اور گھر داری سب سے زیادہ ضروری ہے اسے اگنور کر دیں۔ زندگی کے اہم رشتوں شوہر ساری زندگی کا ساتھی اس کے پیارے سب کو چھوڑ کر زندگی بسر کریں۔میں نے اسی وقت ادھر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈاکٹر صاحب گھر پر تھے۔ سسر صاحب نے بھرپور پزیرائی کی اور تعاون کیا بیٹے اور بیوی کو سمجھایا کہ وہ تمھاری بیوی ہے۔ تمھاری وجہ سے خیال کرتے ہوئے خود واپس آئی ہے اسے وعلیکم کرو۔ میں نے سب کو کھڑے کھڑے سوری بول دیا تو ڈاکٹر صاحب خوش ہو گئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ پاپا شبنم کا کیا ہو گا۔


ان کے پاپا بولے ہم کوشش کر کے اس کی کسی اچھی جگہ شادی کروا دیں گے۔فلحال تم اپنی بیوی کو سنبھالو۔ وہ تمھاری بیوی نہیں ہے۔


ساس نے بدستور منہ بناے رکھا ڈاکٹر صاحب بزی تھے چل پڑے۔ وہ ساس کے پاس گئی اور کہا کہ آپ شبنم کو لانا چاہتی ہیں تو میں آپ کو اس کی سچائی بتا دیتی ہوں پھر آپ اسے بےشک لے آنا۔ اس نے ساس کو اس کی ساری سچائی بتا دی۔


ساس دنگ رہ گئی اس نے کہا کہ کہ توبہ استغفار میں ایک طوائف کو اپنی بہو بناوں ابھی وہ یہ بول ہی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کچھ بھول کر اندر لینے آئے تو ماں کو کوسنے دیتے سنا۔ ڈاکٹر صاحب کی بیوی نے ساس کو بتایا کہ وہ پریگننٹ ہے ڈاکٹر صاحب کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ دل میں خوشی سے نہال ہو گئے ساس اس کی بلائیں لینے لگی اور بولی تم شبنم کے مقابلے میں کروڑوں درجے بہتر ہو اچھا ہوا میرے بیٹے نے اس سے شادی نہیں کی اگر کی ہوتی اور جب بھی مجھے سچائی پتا چلتی میں اسے ایک منٹ بھی گھر نہ رکھتی۔


ڈاکٹر صاحب کو بیوی کی پریگننسی کی خوشی بھی تھی اور شبنم کے لیے ماں کے خیالات سن کر شدید دکھ بھی ہو رہا تھا انہوں نے شکر کیا کہ وہ اس سے نکاح نہیں کر بیٹھے ورنہ وہ ماں اور بیوی کے درمیان سینڈوچ بن جاتے۔ پھر شبنم کہاں جاتی۔


وہ اندر آے اور بیوی کو ڈانٹنے لگے کہ تم نے کسی کا پردہ اٹھا کر اچھا نہیں کیا تم جانتی ہو کہ شبنم کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔


ماں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ خبردار میری بہو کو کچھ کہا تو بھول جا اس ڈاہن کو۔


ڈاکٹر صاحب کی بیوی کو شبنم کا دل میں افسوس محسوس ہوا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کو کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ آپ بےشک شبنم کے ساتھ نکاح کر لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔


ماں نے گرج کر کہا کہ خبردار جو اب اس کا نام بھی زبان پر لاے تو میں تمھاری شکل دیکھنا ساری زندگی پسند کروں گی۔


باپ کمرے میں آیا اس نے بیٹے کو وارننگ دی کہ میں بھی ایسا ہی کروں گا۔


ڈاکٹر صاحب نے والدین کو دیکھا جنہیں وہ اپنا آہیڈیل مانتے تھے ان کو دل میں رنج ہوا کہ وہ شبنم کے لیے دنیا بھر سے لڑنے کو تیار تھے یہاں تو وہ اپنے پیاروں کو ہی نہ سمجھا سکے تھے۔ انہوں نے روندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ٹھیک ہے میں اس سے شادی نہیں کروں گا مگر میرا بھی فیصلہ سن لیں۔ شبنم کا میرے علاوہ اس دنیا میں کوئی سہارا نہیں میں اس کی ساری زندگی کفالت کرتا رہوں گا۔ اس گھر میں سب اس کی عزت کریں گے جو اس کی بے عزتی کرے گا یا اسے طعنہ دے گا تو پھر وہ بھی میری شکل کے لئے ترسے گا۔


ماں نے گرج کر کہا اس دو کوڑی کی لڑکی کے لیے اپنی شریف خاندانی بیوی کو پرے کر رہا ہے۔


باپ نے بیوی کو گھورا اور اشارہ کیا اور بیٹے سے کہا ضرور ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ اس گھر میں پہلے کی طرح اس کی عزت کی جاے گی اور اس کی کفالت میں مدد کریں گے واقعی وہ مظلوم بچی ہے۔


بیوی بولی میں اس کی کفالت میں آپ کا ساتھ دوں گی اور اس گھر کی ہر خوشی میں وہ ایک فرد کی طرح شامل ہو گی اور اس کی عزت کروں گی۔ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا انشاءاللہ۔


ڈاکٹر صاحب خاموشی سے واپس چلے گئے۔


شبنم نے سب سنا اور اس کی بیوی سے معزرت کرتی چل پڑی وہ روکتی رہ گئی۔


ڈاکٹر صاحب کی بیوی نے کہا کہ دیکھو شبنم تمھاری وجہ سے میرا گھر میرے ساس سسر مجھے اپنا رہے ہیں اور اگر تم ناراض ہوئی اور ڈاکٹر صاحب سے رابطہ پہلے جیسا نہ رکھا اور اس گھر میں آنا جانا نہ رکھا تو میرے شوہر مجھ سے نالاں رہیں گے اور مجھے دل سے معاف نہیں کریں گے۔


شبنم نے کہا کہ تم فکر نہ کرو میں تمھارا گھر خراب نہیں کروں گی اس وقت مجھے مت روکو۔ میں آتی جاتی رہوں گی اور اس میرا آپ لوگوں کے سوا ہے ہی کون۔ والدین پتہ نہیں ملتے بھی ہیں یا نہیں۔


وہ روتی ہوئی چلی گئی اور ڈاکٹر صاحب کی بیوی کے بھی آنسو نہ تھمے اس نے جاتے جاتے روتے ہوئے اس سے معافی مانگی۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لائک، کمنٹ اور دوستوں کو بھی شئیر کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.