محبت دل کا زہر یا سرور 26
Episode 26
شبنم نے گاڑی میکڈونلز میں روکی اور ایک کونے میں بیٹھ کر نمبر ملانے لگی۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ بھائی کا نمبر ملایا۔ بیل کافی دیر بجتی رہی پھر ایک نسوانی آواز آئی۔ شبنم نے ہیلو بولا تو لڑکی بولی ماما کسی عورت کی آواز ہے۔ ماں نے جلدی سے اس سے فون چھینا کیونکہ اس کے شوہر کا موبائل تھا اور وہ ماں باپ کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ماں نے ہیلو کہا تو شبنم نے گلوگیر آواز میں پوچھا کہ کون بول رہا ہے۔
اس عورت نے گرج کر کہا محترمہ فون آپ نے کیا ہے نہ کہ میں نے۔
شبنم نے کہا یہ جمیل صاحب کا گھر ہے کیا اور کیا یہ ان کے بیٹے کا نمبر ہے۔
اس عورت نے پھر کہا بی بی آپ کون ہیں وہ بولی شبنم۔
کون شبنم؟
جمیل صاحب کی کھوئی ہوئی بیٹی شبنم جو بچپن میں کھو گئی تھی اور اب اپنا محلہ اور اپنا گھر پہچان لیا ہے اور ان کے گھر سے آپ لوگوں کا نمبر لیا ہے پلیز جلدی سے بتائیں کہ آپ کون ہیں اور باقی سب کیسے ہیں۔
اس عورت نے ایک لمبا سانس کھینچا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں۔
تم اپنی سناو میں تمھاری بڑی بھابی بول رہی ہوں۔
شبنم خوشی سے بولی اچھا اچھا۔
اس عورت نے کہا کہ تم اپنی سناو کدھر رہی۔
شبنم نے اپنی آپ بیتی اس کو سنا دی۔
اس کی بھابی نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جیسے تم جانتی ہو گی میں تمھارے ماموں کی بیٹی ہوں۔ تم چلی گئی تو سب نے بہت تلاش کیا اور پولیس میں بھی رپورٹ لکھوائی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا رشتہ داروں کی زبانیں لمبی ہوتی گئی کہ نہ جانے بچی کے ساتھ ان لوگوں نے کیا کیا ہو گا اس کی عزت تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بچی ہو۔ نہ جانے اسے بیچ دیا ہو گا۔ کتنے ہاتھوں میں وہ کھلونا بنی ہو گی۔ کچھ مشورے دیتے کہ طوائفوں کے اڈے پر پتہ کرو۔ دوسرا کہتا وہاں سے ملی بھی تو کیا فائدہ اس خاندان میں رکھنے کے قابل نہیں رہے گی نہ اس سے کوئی شادی کرے گا وغیرہ وغیرہ۔
تمھارے بھائی کو ایک دن اتنا غصہ آیا کہ ان کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوتے بچا۔ اور جھگڑے کی وجہ سے حوالات کا چکر بھی لگانا پڑا۔ ہم نے وہ محلہ وہ گھر چھوڑ دیا۔ اب اس سوسائٹی میں سب کو بتایا ہے کہ تم بچپن میں فوت ہو گئی تھی۔ پھر تمھاری بھتیجی کا رشتہ غیروں میں کر رہے ہیں اور اگر تم ہمارے حال پر مہربانی کرو تو جب تک ہماری بیٹی کی شادی نہیں ہو جاتی تم سچائی نہ بتاو کہ تم ان کی بہن ہو۔ ہاں باہر گھر سے کسی پارک میں مل لیتے ہیں جب ادھر رش نہ ہو۔
شبنم نے تڑپ کر کہا پلیز بھابی میں کھبی سچائی نہیں بتاوں گی کہ میں آپ لوگوں کی کچھ لگتی ہوں۔ پلیز مجھے میرے والدین سے ملوا دو سب سے ملوا دو۔ میری ماں باپ سے بات کروا دو میں پارک میں ملنے کو تیار ہوں۔
وہ رونے لگی۔
اس کی بھابی نے کہا کہ تم فکر نہ کرو کل میں سب کو پارک لے آوں گی پارک کا میں تمہیں بتا دوں گی۔ ابھی تمھارے والدین سے بات نہیں کروا سکتی کیونکہ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں ان کو اچانک اتنی بڑی خبر نہیں دے سکتے۔ پھر ان کو یہ بھی سمجھانا پڑے گا کہ پوتی کی شادی تک اس بات کو راز رکھیں۔ آپ ملتی رہو مگر ہمیشہ راز رکھو کہ تم ہمارے لئے انجان ہو دیکھو تم پہلے وعدہ کرو کہ بات کو نبھاو گی ہمیشہ۔ جزباتی بن کر راز افشاء نہ کرو گی ورنہ تمھاری وجہ سے تمھارا گھر بسنے سے پہلے اجڑ نہ جائے۔ اچھے رشتے روز نہیں ملتے۔ جب رشتے داروں کو پتا چلے گا تو وہ ہم سب کو طعنے دے کر جینا حرام کر دیں گے پہلے ہی تمھارے بھائی تمھاری وجہ سے حوالات کی بدنامی جھیل چکے ہیں۔ اب تم سے التجا کرتی ہوں کہ کل پارک میں ساس سسر کو سمجھا بجھا کر لاوں گی ظاہر ہے تم سے اب صبر نہیں ہو رہا ہو گا۔ رات کو میں سب سے بات کروا کر تمھاری بات کروا دوں گی تم فکر نہ کرو بس کل تک انتظار کرو ملنے کا۔
شبنم نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور وعدے پر قائم رہنے کا یقین دلایا۔ اور روتے ہوئے فون بند کر دیا۔ سب اسے حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
شبنم گھر پہنچی تو فواد نے اس سے کہا کہ خیریت تھی تمھارا نمبر کافی دیر سے بزی تھا تو وہ چونک گئی۔
فواد نے پوچھا کیا ہوا تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔
شبنم نے دل میں سوچا آج شوہر کو سب کچھ بتا دے۔ اتنا پیار کرنے والا اتنی عزت دینے اور عزت کرنے والا شوہر ضرور اس کا ساتھ دے گا پھر سوچا بیٹے کی شادی ہو جائے پھر سب کچھ بتا دوں گی۔ بہانہ کیا کہ آج ایک پرانی واقف کار مل گئی تھی تو بس پرانی باتیں لے کر بیٹھ گئے اور اداسی چھا گئ۔ پھر شبنم بولی دراصل اس نے اپنے گھر والوں کو بتا دیا اور وہ بھی بات کرنے کو بے تاب تھے اس لیے فون پر ان سب سے باتیں کرتے اتنی دیر لگی رہی۔
فواد نے کہا کہ ارے بابا ان کو گھر بلاو۔
شبنم نے کہا کہ ہاں ضرور بلاوں گی بس زرا بیٹے کی شادی نمٹ جائے۔ فواد نے کہا کہ ان کو شادی پر بلاو۔ بلکہ میں بھی ساتھ بیٹے کی شادی پر انہیں خود انواہیٹ کرو گا۔ آخر میرے سسرالیے ہیں چلو کوئی رشتہ تو ملا مجھے سسرال کا۔ میری بیوی کو بھی کوئی ملا بڑی خوشی کی بات ہے۔ شبنم نے محبت پاش نظروں سے شوہر کو دیکھا جس کو اس کی خوشی کا کتنا خیال تھا۔ اس نے کہا کہ وہ ضرور آپ کو ان کے گھر بھی لے کر جاے گی۔
شبنم ساری رات بے چین رہی کل شام کو اس نے اپنے والدین سے ملنا تھا جس شام کا اس نے اتنے سال انتظار کیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کی بیوی کو فون پر سب کچھ بتا دیا اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی مبارک باد کا فون آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تمہیں انہیں سب سچ نہیں بتانا تھا۔
شبنم نے شکوہ بھرے انداز میں کہا کہ بھلا اپنوں سے بھی کوئی کچھ چھپاتا ہے کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ اپنوں سے ہی تو چھپایا جاتا ہے ورنہ ان کے آگے بے بس ہو جاتاہے انسان۔ لوگوں کی کسے فکر ہوتی ہے۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔
جزاک اللہ۔ ناول نگار عابدہ زی شیریں۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.